• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

'یزید' تاریخ کی روشنی میں

علی محمد

مبتدی
شمولیت
مارچ 03، 2023
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
21
تحریر از: محمد مبشر نذیر
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر جو بڑا اعتراض کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا ولی عہد مقرر کے خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کر دیا۔ ان پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے حضرت حسین، ابن عمر، ابن عباس اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم جیسے اکابر صحابہ کے لائق بیٹوں کے ہوتے ہوئے اپنے نالائق بیٹے کو خلافت کے لیے نامزد کیا۔ اس کے نتیجے میں ایک بار پھر خانہ جنگی کی آگ بھڑک اٹھی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ایسا واقعہ ہے جس کے بارے میں ایک خاص انداز میں سوگ کو رواج دے دیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں ایک ایسی فضا بنا دی گئی ہے کہ جو شخص بھی عقل سے تجزیہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، اسے "دشمن اہل بیت” کا خطاب دے دیا جاتا ہے۔ ایک اور فریق ایسا موجود ہے جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور یزید کے دفاع میں اس حد تک چلا جاتا ہے کہ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو مطعون کرنے لگ جاتا ہے۔ یہ دونوں رویے درست نہیں ہیں۔ جب تک واقعات کو جذباتی رنگ سے دیکھا جائے، ان کی حقیقت درست معلوم نہیں ہو سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم تھوڑی دیر کے لیے اپنے جذبات کو ایک طرف رکھ کر ٹھنڈے دل سے تجزیہ کریں اور اچھی طرح تجزیہ کر کے ہی کوئی رائے قائم کریں۔
کیا سانحہ کربلا کی ذمہ داری حضرت معاویہ پر ہے؟
اس بات میں شک نہیں ہے کہ یزید کے دور میں سانحہ کربلا ہوا اور اس کے بعد پہلے مدینہ اور پھر مکہ میں بغاوت کی آگ بھڑکی اور ان واقعات میں یزید سے فاش غلطیاں سرزد ہوئیں۔ لیکن یہ سب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ہوا۔ جب کوئی خلیفہ دوسرے کو نامزد کرتا ہے، تو اس وقت وہ اپنے دور کے حالات کے لحاظ سے تجزیہ کرتا ہے اور مستقبل کی صورتحال کا اندازہ کرتے ہوئے فیصلہ کرتا ہے۔ ہم اپنی زندگی میں عام طور پر دیکھتے ہیں کہ ہم پوری نیک نیتی سے کوئی فیصلہ کرتے ہیں مگر بعد کے حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ وہ فیصلہ غلط ثابت ہوتا ہے اور ہمیں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ بعد کے کسی غلط واقعے کی بنیاد پر ماضی کے کسی فیصلے کے بارے میں سبق تو سیکھا جا سکتا ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ فیصلہ کرتے وقت نیت میں کوئی کھوٹ تھا۔
اس وجہ سے بعد کے واقعات کی بنیاد پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو طعنہ دینا یا آپ پر تہمت لگانا جائز نہیں ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے 56/676 میں جب یہ نامزدگی فرمائی تو اس وقت واقعہ کربلا کو ہونے میں ابھی پانچ برس باقی تھے۔ آپ کو قطعاً یہ امید نہ تھی کہ اس نوعیت کا واقعہ پیش آ جائے گا۔
کیا یزید کی نامزدگی کی تحریک حضرت مغیرہ بن شعبہ نے شروع کی؟
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یزید کی نامزدگی کی تحریک حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے شروع کی اور انہوں نے خالصتاً اپنے ذاتی مفاد میں یہ کام کیا تاکہ خلیفہ ان سے خوش ہو جائیں۔ واضح رہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ان جلیل القدر صحابہ میں ہیں جو بیعت رضوان میں شامل تھے اور ان کے بارے میں اللہ تعالی نے یہ فرما دیا ہے :
لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنْ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحاً قَرِيباً.
"یقیناً اللہ ان اہل ایمان سے راضی ہو چکا ہے جنہوں نے درخت کے نیچے آپ کی بیعت کی تھی۔ وہ اس بات کو جانتا تھا کہ ان کے دلوں میں کیا ہے۔ اس نے ان کے دلوں میں سکون نازل کر دیا اور انہیں قریبی فتح (مکہ) تک پہنچا دیا۔” (الفتح 48:18)
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ چونکہ طویل عرصہ تک کوفہ کے گورنر رہے جو کہ باغی تحریک کا مرکز تھا اور آپ نے نہایت حکمت و دانش سے باغی تحریک کو بغیر کسی خون خرابہ کے پنپنے نہ دیا۔ آپ نے باغی تحریک کے خلاف کوئی فوجی کاروائی نہ کی بلکہ نہایت ہی پیار اور محبت سے باغیوں کا ذہن تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ ان کاوشوں کے خاطر خواہ نتائج نکلے اور کثیر تعداد میں باغیوں نے اپنے تحریک کو چھوڑ کر مسلمانوں کے نظم اجتماعی کو قبول کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ باغیوں کو حضرت مغیرہ سے خاص طو رپر بغض ہے اور ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ آپ کو نہایت ہی گیا گزرا مفاد پرست سیاستدان ثابت کریں۔ اس بیک گراؤنڈ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب ہم اس روایت کا مطالعہ کرتے ہیں جن کے مطابق آپ نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے یزید کی ولی عہدی کی تجویز پیش کی۔طبری بیان کرتے ہیں:
حدثني الحارث، قال: حدثا علي بن محمد، قال: حدثنا أبو إسماعيل الهمداني وعلي بن مجاهد، قالا: قال الشعبي: اس سال (56/676) میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو ولی عہد کیا اور لوگوں سے اس کے لیے بیعت لی۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ کے پاس آ کر بڑھاپے کی شکایت کی اور (کوفہ کی گورنری سے ) استعفی دے دیا۔ حضرت معاویہ نے استعفی منظور کر لیا اور سعید بن عاص رحمہ اللہ کو اس خدمت پر مقرر کرنا چاہا۔ یہ خبر ابن خنیس کو ملی جو کہ مغیرہ کے سیکرٹری تھے، تو یہ سعید بن عاص کے پاس پہنچے اور انہیں بات بتا دی۔ سعید کے پاس ربیع یا ربیعہ خزاعی بیٹھے تھے، انہوں نے مغیرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: "مغیرہ! میں سمجھا ہوں کہ امیر المومنین آپ سے ناراض ہیں۔ میں نے آپ کے سیکرٹری ابن خنیس کو سعید بن عاص کے پاس دیکھا ہے اور وہ کہہ رہے تھے کہ امیر المومنین انہیں کوفہ کا گورنر مقرر کرنے والے ہیں۔”
مغیرہ نے کہا: "اسے تو یہ کہنا چاہیے تھا کہ مغیرہ پھر اپنے عہدے پر بڑی قوت سے واپس آنے والے ہیں۔ ٹھہرو! میں یزید کے پاس جاتا ہوں۔” پھر مغیرہ نے یزید کے پاس جا کر بیعت لینے کا ذکر کیا اور یزید نے اپنے والد سے یہ بات کی۔ حضرت معاویہ نے پھر مغیرہ رضی اللہ عنہما ہی کو امارت کوفہ پر واپس بھیجا اور حکم دیا کہ وہ یزید کی بیعت کی کوشش کریں۔( طبری۔ 4/1-115)
طبری نے اس واقعے کو 56/676 کے باب میں نقل کیا ہے۔ یہی طبری اس سے پہلے 51/671 کے باب میں نقل کرتے ہیں:
41/661 میں مغیرہ (بن شعبہ) کوفہ کے گورنر بنے اور 51/671 میں انہوں نے وفات پائی۔( ایضاً ۔ 4/1-84)
اس سال 51/671 میں حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد زیاد بن ابی سفیان کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا جن کے گورنری سنبھالتے ہی حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں نے بغاوت کی اور اس کی پاداش میں قتل کیے گئے۔ اس کی تفصیل کا مطالعہ ہم پہلے کر چکے ہیں اور اس واقعے کے حقیقی ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ اگر 51/671 میں وفات پا چکے تھے تو پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ 56/676 میں آپ نے استعفی دیا اور پھر استعفی کو واپس کروانے کے لیے یزید کی ولی عہدی کی تحریک شروع کر دی؟ کیا یہ سب کام آپ نے اپنی وفات کے پانچ سال بعد دنیا میں دوبارہ آ کر کیے؟
معترضین کہہ سکتے ہیں کہ طبری نے غلطی سے اس واقعے کو 56/676 کے باب میں نقل کر دیا ہے، دراصل یہ واقعہ آپ کی وفات سے پہلے کہیں 50-51/670-671 میں پیش آیا ہوگا۔ اس بات کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ اس کے برعکس اس روایت میں داخلی اور خارجی تضادات موجود ہیں۔ روایت کے مطابق حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ نے استعفی میڈیکل گراؤنڈز پر دیا تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں معزول نہ کیا تھا۔ اگر حضرت معاویہ انہیں معزول کرتے، پھر تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ دوبارہ بحالی کے لیے ایسی کوشش کی جا سکتی ہے۔ خود استعفی دے کر پھر بحالی کی کوشش ایک نامعقول بات ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کی صحت دوبارہ بہتر ہو گئی تھی، اس وجہ سے انہوں نے اپنی بحالی کی تحریک شروع کی تو یہ بات بھی نامعقول ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ براہ راست حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے درخواست کر لیتے اور ان کی طویل سابقہ خدمات کی وجہ سے حضرت معاویہ بھی انہیں مقرر کر دیتے۔ اس کے لیے یزید کی نامزدگی کی تحریک پیدا کرنے کی حضرت مغیرہ کو کوئی ضرورت نہ تھی۔
نامزدگی کی ضرورت کیا تھی؟
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو نامزدگی کی ضرورت کیا پیش آئی؟ وہ یہ بھی کر سکتے تھے کہ معاملے کو مسلمانوں کے مشورے پر چھوڑ دیں۔ یقیناً آپ ایسا کر سکتے تھے لیکن مسئلہ یہ درپیش تھا کہ کوفہ میں باغی تحریک اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود تھی۔ اگرچہ حضرت معاویہ اور زیاد رضی اللہ عنہما نے حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کاروائی کی تھی، جس سے یہ تحریک وقتی طور پر دب گئی تھی، لیکن راکھ میں چنگاریاں موجود تھیں اور آپ کو یہ نظر آ رہا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد یہ چنگاریاں دوبارہ آگ کو بھڑکا سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو باہمی جنگ و جدال سے بچانے کے لیے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ اقدام کیا۔ یہ بات درست ہے کہ آپ کا اندازہ صحیح ثابت نہ ہوا اور یہ خانہ جنگی ہو کر رہی لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے امت کی خیر خواہی کے لیے یہ نامزدگی فرمائی۔
نامزدگی کے لئے یزید ہی کا انتخاب کیوں کیا گیا؟
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر نامزدگی ہی کرنا تھی اور اس کا مقصد امت کو جنگ و جدال سے بچانا تھا تو پھر اس کے لیے یزید ہی کا انتخاب کیوں کیا گیا۔ اور بھی بہت سے لوگ موجود تھے جن میں جلیل القدر صحابہ بھی تھے، ان لوگوں میں سے کسی کو نامزد کیوں نہ کر دیا گیا؟
اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں اس زمانے یعنی 56/676 کی صورتحال کو دیکھنا پڑے گا۔ جیسا کہ سن سے ہی ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو اب 45 برس گزر چکے تھے۔ سب کے سب اکابر صحابہ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی ساتھی تھے، وفات پا چکے تھے۔ صرف ایک حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ زندہ تھے جو کہ نہایت ہی ضعیف العمر ہو چکے تھے۔ حضور کی وفات کے وقت جو صحابہ نوجوان تھے، وہ بھی اب ستر کے پیٹے میں تھے۔ ہاں آپ کی وفات کے موقع پر جو صحابہ بچے تھے، وہ اب پچاس ساٹھ سال کی عمر میں تھے اور ان لوگوں میں ابن عمر، ابن عباس، حسین بن علی اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم نمایاں تھے۔ اب ہم ان تمام بزرگوں کے حالات کو تفصیل سے دیکھتے ہیں۔
1۔ سب سے پہلے بزرگ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تھے جو فاروق اعظم کے بیٹے تھے اور ان کی پرورش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوئی تھی۔ آپ کو سیاسی سرگرمیوں سے دلچسپی نہیں تھی بلکہ اس کی بجائے آپ اپنا زیادہ وقت عبادت اور تعلیم کے میدان میں گزارتے تھے۔ کئی مرتبہ آپ کو خلیفہ بنانے کی تجویز پیش ہوئی تو آپ نے اسے مسترد کر دیا تھا۔
2۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی پبلک ایڈمنسٹریشن کے میدان کے آدمی نہ تھے بلکہ ان کی سرگرمیوں کا میدان علمی تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں آپ بصرہ کے گورنر رہ چکے تھے لیکن اب طویل عرصہ سے ایڈمنسٹریٹو معاملات سے دور تھے۔ آپ نے مکہ میں ایک بہترین تعلیمی اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کر رکھا تھا اور یہی پراجیکٹ آپ کی زندگی کا اب مشن بن چکا تھا۔ اس ادارے میں آپ نہایت ذہین و فطین طلباء کو مستقبل میں امت کی فکری قیادت کے لیے تیار کر رہے تھے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسی ادارے نے وہ جلیل القدر عالم پیدا کیے جو اگلی نسل میں مسلمانوں کے چوٹی کے فکری و مذہبی راہنما بنے۔
3۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ایک نہایت جلیل القدر بزرگ اور عالم تھے۔ آپ ہجرت نبوی کے بعد پیدا ہونے والے پہلے بچے تھے اور خلفاء راشدین اور خود حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے زمانے میں اہم خدمات انجام دے چکے تھے۔ آپ کا معاملہ یہ تھا کہ آپ کا اثر و رسوخ صرف مکہ اور مدینہ تک محدود تھا اور آپ کو پورے عالم اسلام میں وہ اثر و رسوخ حاصل نہ تھا جو کہ خلیفہ کے لیے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں جب آپ نے اپنی خلافت کا اعلان کیا تو عراق اور شام کے لوگوں نے آپ کے خلاف بغاوت کر دی۔
4۔ چوتھے شخص حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما تھے جو کہ منصب خلافت کے لیے نہایت اہل تھے اور عالم اسلام میں آپ کی شخصیت کو مقبولیت حاصل تھی۔ افسوس کہ آپ کے معاملے میں عراق کے باغیوں نے ایک ایسا منصوبہ بنا رکھا تھا کہ جس کے باعث یہ شدید خطرہ لاحق تھا کہ یہ لوگ آپ کے ساتھ وہی معاملہ کریں گے جو اس سے پہلے آپ کے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کر چکے تھے۔
واقعہ یہ ہے کہ اس زمانے میں عراق ایک مشکل صوبہ تھا۔ یہاں ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی باغی تحریک کے خلاف کاروائی کی گئی تھی اور اس کے زخم ابھی تازہ تھے۔ باغی زخمی سانپ کی طرح بل کھا رہے تھے اور ان کے سینے حکومت کے خلاف بغض و عناد سے بھرے ہوئے تھے۔ ان باغیوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہمدردی نہیں تھی مگر اپنے اقتدار کے لیے یہ ان حضرات کو بطور سیڑھی استعمال کرنا چاہتے تھے۔ ان کے سامنے اپنے پیشروؤں کا وہی ماڈل تھا کہ خلیفہ کو کٹھ پتلی بنا کر اس کے پردے میں اپنا اقتدار قائم کیا جائے۔ اس کے لیے ان باغیوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو نظر میں رکھا ہوا تھا اور اس سے پہلے آپ کو کئی مرتبہ ترغیب دلا چکے تھے کہ آپ بغاوت کے لیے اٹھیں تو یہ ان کا ساتھ دیں گے لیکن حضرت حسین نے انہیں خاموش کر دیا تھا۔ حجر بن عدی کی جو روایت ہم نے اوپر درج کی ہے، اسے یہاں دوبارہ تازہ کر لیجیے:
(صلح کے بعد) حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی ملاقات سب سے پہلے حجر بن عدی سے ہوئی۔ اس نے حضرت حسن کو ان کے اس فعل (صلح) پر شرم دلائی اور دعوت دی کہ وہ (حضرت معاویہ سے) دوبارہ جنگ شروع کریں اور کہا: "اے رسول اللہ کے بیٹے! کاش کہ میں یہ واقعہ دیکھنے سے پہلے مرجاتا۔ آپ نے ہمیں انصاف سے نکال کر ظلم میں مبتلا کر دیا۔ ہم جس حق پر قائم تھے، ہم نے وہ چھوڑ دیا اور جس باطل سے بھاگ رہے تھے، اس میں جا گھسے۔ ہم نے خود ذلت اختیار کر لی اور اس پستی کو قبول کر لیا جو ہمارے لائق نہ تھی۔ ”
حضرت حسن کو حجر بن عدی کی یہ بات ناگوار گزری اور انہوں نے فرمایا : ’’میں دیکھتا ہوں کہ لوگ صلح کی طرف مائل ہیں اور جنگ سے نفرت کرتے ہیں۔ آپ کیوں اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ میں لوگوں پر وہ چیز مسلط کروں جسے وہ ناپسند کرتے ہیں۔ میں نے خاص طور پر اپنے شیعوں کی بقا کے لیے یہ صلح کی ہے۔ میری رائے کہ جنگوں کے اس معاملے کو مرتے دم تک ملتوی کر دیا جائے۔ یقیناً اللہ ہر روز نئی شان میں ہوتا ہے۔‘‘
اب حجر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا، اس کے ساتھ عبیدہ بن عمرو بھی تھا۔ یہ دونوں کہنے لگے: "ابو عبداللہ! آپ نے عزت کے بدلے ذلت خرید لی۔ زیادہ کو چھوڑ کر کم کو قبول کر لیا۔ آج ہماری بات مان لیجیے، پھر عمر بھر نہ مانیے گا۔ حسن کو ان کی صلح پر چھوڑ دیجیے اور کوفہ وغیرہ کے باشندوں میں سے اپنے شیعہ کو جمع کر لیجیے ۔ یہ معاملہ میرے اور میرے ساتھیوں کے سپر د کر دیجیے۔ ہند کے بیٹے (معاویہ) کو ہمارا علم اس وقت ہو گا جب ہم تلواروں کے ذریعے اس کے خلاف جنگ کر رہے ہوں گے۔‘‘ حضرت حسین نے جواب دیا: "ہم بیعت کر چکے اور معاہدہ کر چکے۔ اب اسے توڑنے کا کوئی راستہ نہیں۔” ( الاخبار الطوال۔ ص 233-234)
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی انٹیلی جنس کا نظام بہت مضبوط تھا اور وہ یقینی طور پر ان باغیوں کے عزائم سے باخبر تھے۔ اگر وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو نامزد کر دیتے تو اس بات کا پورا خطرہ موجود تھا کہ یہ باغی اقتدار پر قابض ہو جائیں گے۔ اہل شام ان کی مخالفت کریں گے اور خانہ جنگی دوبارہ شروع ہو جائے گی۔
اس زمانے کے سیاسی حالات میں ایک اور بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اہل شام اور بنو امیہ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سوا اور کسی خاندان کی حکومت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ کسی بھی اور خاندان سے اگر خلیفہ بنتا تو اس بات کا غالب امکان موجود تھا کہ شام میں بغاوت ہو جائے گی۔ شام چونکہ قیصر روم کی سرحد پر واقع تھا، اس وجہ سے وہاں کسی بھی خانہ جنگی کا رسک نہیں لیا جا سکتا تھا کیونکہ قیصر ایسے ہی موقع کی تلاش میں تھا اور اس سے پہلے بھی بار بار حملے کر چکا تھا۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ سن 64/684 میں یزید کی وفات کے فوراً بعد اہل شام میں اختلاف پیدا ہو گیا اور وہ ایک سال تک کسی خلیفہ پر متفق نہ ہو سکے تھے۔ علم عمرانیات کے بانی علامہ ابن خلدون (732-808/1332-1405) جیسے مورخ نے بھی یہی بات کہی ہے۔ لکھتے ہیں:
حضرت معاویہ نے یزید کو ولی عہد بنایا کیونکہ اگر یزید ولی عہد نہ ہوتا تو مسلمانوں میں پھوٹ پیدا ہونے کا ڈر تھا۔ کیونکہ بنو امیہ اپنے سوا کسی دوسرے کی خلافت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اگر کسی غیر کو ولی عہد بنا دیا جاتا تو وہ اسے مانتے نہیں اور اس طرح اتحاد میں خلل آتا، اگرچہ مقرر شدہ ولی عہد کے بارے میں ولی عہدی سے قبل اچھا ہی گمان ہوتا۔ ( ابن خلدون(732-808/1332-1406)، مقدمہ (اردو ترجمہ: راغب رحمانی)۔ 338۔ کراچی: نفیس اکیڈمی۔ )
اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی تھا اور وہ یہ کہ حضرات حسین، ابن عباس اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم پبلک ایڈمنسٹریشن سے کافی عرصہ سے دور تھے اور انہوں نے اپنی پوری توجہ امت کی تعلیم و تربیت اور تزکیہ نفس کی طرف وقف کر دی تھی۔ اس وجہ سے انہیں امور حکومت کا تجربہ نہ تھا۔ اس کے برعکس یزید امور حکومت کو انجام دینے میں مسلسل حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا تھا اور اس نے تجربہ حاصل کر رکھا تھا۔ موجودہ دور میں بھی اصول یہی ہے کہ تجربہ کار افراد ہی کو ذمہ داری دی جاتی ہے۔ اگر ہمیں مثلاً اپنا مکان ہی بنوانا ہوتو ہم کس سے بنوائیں گے: ایک انتہائی نیک اور افضل بزرگ سے جنہیں مکان بنوانے کا تجربہ نہ ہو یا پھر ایک ایسا انجینئر جو کہ تعمیرات کا ماہر ہو، اگرچہ وہ فضیلت اور بزرگی میں ان بزرگ کے مقام پر نہ ہو۔
یہی وہ فیکٹرز تھے جن کی وجہ سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو نامزد کیا۔ ہم ایک بار پھر واضح کر دیں کہ اس وقت نہ تو سانحہ کربلا ہوا تھا اور نہ ہی بعد کی خانہ جنگیاں سامنے آئی تھیں۔ ہمارے ہاں لوگ صورتحال کا تجزیہ کرتے وقت سانحہ کربلا کی وجہ سے جذباتی ہو جاتے ہیں لیکن 56/676 میں سانحہ کربلا کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ آیا تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے پورے خلوص نیت کے ساتھ اپنے زمانے کے حالات کو دیکھتے ہوئے بہترین فیصلہ کیا اور سوائے دو حضرات کے امت مسلمہ کی غالب اکثریت، جس میں صحابہ کرام بھی تھے، نے آپ کے اس فیصلے کو قبول کیا۔ بعد میں حالات بدل گئے اور یہ فیصلہ درست ثابت نہ ہوا لیکن اس معاملے میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعنہ زنی ایک نہایت ہی غلط حرکت ہے۔
واضح رہے کہ اس تفصیل کے بیان کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم یزید کے غلط اقدامات کی حمایت کرنا چاہتے ہیں۔ یزید نے اپنے دور میں جو کچھ کیا، اس کا وہ ذمہ دار ہے۔ یہاں ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے شوری کے اصول کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ امت کے اتفاق و اتحاد کے لیے یہ اقدام کیا اور اس اقدام کی امت کی غالب اکثریت نے تائید کی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جن حضرات نے اختلاف رائے کیا، انہوں نے بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی نیت پر کسی شک کا اظہار نہیں کیا بلکہ محض اپنا اختلاف بیان کیا۔ چودہ سو سال بعد اب اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ حضرت معاویہ اور ان تمام بزرگوں کے دل میں جھانک کر دیکھ سکتا ہے اور آپ کی نیت سے آگاہ ہو سکتا ہے، تو پھر یہ اس کی مرضی ہے کہ وہ جو چاہے رائے قائم کرے لیکن اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اپنی اس رائے کے لیے اسے روز قیامت اللہ تعالی کے ہاں جواب دہ ہونا پڑے گا۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کی نامزدگی کے بعد جمعہ کے خطبے میں منبر پر جو دعا کی، اس سے ان کے خلوص کا اندازہ ہوتا ہے:
اے اللہ! اگر آپ کے علم میں ہے کہ میں نے اسے (یزید) کو اس لیے نامزد کیا ہے کہ وہ میری رائے میں اس کا اہل ہے تو اس ولایت کو اس کے لیے پورا فرما دیجیے۔ اور اگر میں نے اس لیے اس کو محض اس لیے ولی عہد بنایا ہے کہ مجھے اس سے محبت ہے تو اس ولایت کو پورا نہ فرمایے۔ ( ابن کثیر۔ 11/308)
اے اللہ! اگر میں نے یزید کو اس کی اہلیت دیکھ کر ولی عہد بنایا ہے تو اسے اس مقام تک پہنچا دیجیے جس کی میں نے اس کے لیے امید کی ہے اور اس کی مدد فرما۔ اگر مجھے اس کام پر صرف اس کی محبت نے آمادہ کیا ہے جو باپ کو بیٹے سے ہوتی ہے تو اس کے مقام خلافت تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کی روح قبض فرما لیجیے۔ ( جلال الدین سیوطی۔ تاریخ الخلفاء۔ 164۔ باب یزید بن معاویہ۔ بیروت: دار ابن حزم۔)
غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ جس باپ کے دل میں چور ہو، کیا وہ عین نماز جمعہ میں اپنے بیٹے کے لیے یہ دعا کر سکتا ہے؟
کیا یزید کے انتخاب کے لیے مشورہ کیا گیا؟
باغی راویوں نے یزید کی نامزدگی کی تصویر کچھ یوں پیش کی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ذہن میں یزید کو نامزد کرنے کا خیال آیا اور انہوں نے آمرانہ انداز میں اسے نافذ کر دیا حالانکہ حقیقت اس سے بالکل مختلف تھی۔ عربوں کے ہاں دور جاہلیت میں بھی اس طرح کی آمریت کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔ ان کے ہاں قبائلی سرداروں کا انتخاب بھی باہمی مشورے سے ہوتا تھا۔ اسلام نے اس معاملے کو مزید موکد کیا اور قرآن مجید میں یہ حکم دیا کہ مسلمانوں کے اجتماعی امور باہمی مشورے سے چلائے جائیں۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے پہلے صورتحال یہ تھی کہ تمام عرب قبائل نے متفقہ طور پر قریش کو خلافت کی ذمہ داری سونپ دی تھی۔ قریش میں ان مہاجرین و انصار کو الیکٹورل کالج کی حیثیت حاصل تھی جو غزوہ بدر سے پہلے مسلمان ہو چکے تھے۔ یہی حضرات باہمی مشورے سے خلیفہ کا انتخاب کیا کرتے تھے۔ ان صحابہ کو یہ خاص حیثیت دینے کی وجہ یہ تھی کہ یہ اس وقت اسلام میں داخل ہوئے تھے جب مسلمانوں کو عرب میں کوئی خاص سیاسی مقام حاصل نہ تھا اور یہ مشرکین کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے تھے۔ اس وجہ سے ان حضرات کے خلوص نیت میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کوئی شخص بھی ایسے نظریے کے لیے عذاب نہیں جھیل سکتا ہے جس پر وہ یقین نہ رکھتا ہو۔ ان حضرات کو قرآن مجید میں "السابقون الاولون” کا نام دیا گیا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتخاب بھی انہی مہاجرین و انصار نے متفقہ طور پر کیا۔ انہی کے مشورے سے حضرت ابوبکر نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کو خلیفہ نامزد کیا۔ پھر یہی السابقون الاولون اس بات پر متفق ہوئے کہ چھ افراد میں سے ایک کو خلیفہ بنایا جائے اور ان حضرات نے اپنے اندر سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کیا۔ اس کے بعد انہی السابقون الاولون نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا اور آپ کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی بیعت کی۔ اس کے بعد انہی مسلمانوں نے باہمی اتفاق رائے سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا۔ اس طرح سے خلیفہ کے انتخاب کے لیے اگرچہ مختلف طریقے اختیار کیے گئے لیکن بنیادی اصول یہی رہا کہ مسلمانوں کی مرضی کے خلاف ان پر کسی کو مسلط نہ کیا جائے۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے آخری زمانے میں 56/676تک کیفیت یہ ہو چکی تھی کہ السابقون الاولون کی بڑی تعداد وفات پا چکی تھی۔ ظاہر ہے کہ جنگ بدر 2/624 میں ہوئی تھی اور اب اسے گزرے 54 برس ہو چکے تھے۔ اس وقت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ ضرورت محسوس کی کہ بدلے ہوئے حالات میں اب مناسب یہ رہے گا کہ مشورے کے اس عمل کو بڑے پیمانے پر کیا جائے۔ اس میں یہ وجہ بھی رہی ہو گی کہ اب معاملہ چونکہ آپ کے اپنے بیٹے کا تھا، اس وجہ سے آپ محض چند لوگوں کی رائے پر یہ فیصلہ نہ کرنا چاہتے تھے۔ معروف شیعہ مورخ مسعودی کے بیان کے مطابق حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک بڑا جرگہ منعقد کیا، جس میں پوری امت کے نمائندے شریک ہوئے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی تجویز پیش کی اور سب لوگوں کو آزادانہ رائے دینے کا حق دیا۔ اس اجتماع میں اہل عراق بھی آئے اور ان میں سے بعض لوگوں نے حضرت معاویہ کی تجویز کی مخالفت بھی کی تاہم غالب اکثریت نے یزید کے انتخاب کے حق میں فیصلہ دے دیا۔( علی بن حسین بن علی المسعودی (d. 346/958)۔ مروج الذہب و معادن الجوہر۔ 2/27۔ بیروت: الشرکۃ العالمیہ للکتاب۔)
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے امت کو افتراق و انتشار سے بچانے کے لیے مدینہ اور مکہ کا سفر کیا۔ اس سفر میں آپ نے اہل مدینہ اور پھر اہل مکہ سے بھرپور مشورہ لیا اور ان کی رائے معلوم کی۔ سوائے چند ایک حضرات کے پوری امت نے ان کی رائے سے اتفاق کیا اورپھر آپ نے مکہ مکرمہ میں یزید کی نامزدگی کا اعلان کیا۔ اس کے بعد پورے عالم اسلام سے وفود آئے اور انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے کی تائید کی۔اس پورے عمل میں صرف چار حضرات نے اختلاف رائے کیا اور وہ حضرت حسین، ابن عباس، ابن عمر اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم نمایاں تھے۔ ان میں سے بھی دو حضرات ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے یزید کی بیعت کر لی تھی اور آخر تک اس پر قائم رہے تھے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی بعد میں بیعت کے لیے تیار ہو گئے تھے۔ صرف ایک ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیعت نہیں کی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سوائے چند ایک افراد کے، اس دور کی پارلیمنٹ کی غالب ترین اکثریت نے یزید کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا جن میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ (d. 58/678) جیسے جلیل القدر بزرگ شامل تھے جو کہ عشرہ مبشرہ میں سے آخری شخص تھے۔( ابن عبد البر۔ الاستیعاب۔ 1/367۔ صحابی نمبر 962۔ )
اس واقعے کو امام بخاری نے اپنی صحیح میں خود حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس طرح روایت کیا ہے:
ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : میں (اپنی بہن ام المومنین سیدہ) حفصہ کے گھر گیا تو ان کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ میں نے کہا: "کیا آپ ان لوگوں کی باتیں دیکھ رہی ہیں کہ (مشورے کے) اس معاملے میں میری کوئی حیثیت نہیں سمجھی گئی۔” انہوں نے فرمایا: "آپ وہاں (مسجد میں) جا کر بیٹھیں ۔ یہ لوگ آپ کے انتظار ہی میں ہیں۔ مجھے خطرہ ہے کہ آپ کے رک جانے سے کہیں کوئی اختلاف نہ پیدا ہو جائے۔” وہ انہیں اس وقت تک بار بار کہتی رہیں جب تک وہ چلے نہ گئے۔
(مشورے کے بعد) جب عام لوگ چلے گئے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک خطبہ دیا اور فرمایا: "اب کوئی صاحب اس معاملے میں بولنا چاہیں تو سر اٹھا کر بات کریں۔ (عام لوگوں کی رائے سے ظاہر ہو گیا ہے کہ) ہم ان سے اور ان کے والد دونوں سے اس امر (خلافت) کے زیادہ حق دار ہیں۔” حبیب بن مسلمہ نے (ابن عمر سے) پوچھا: "پھر آپ نے ان کی اس بات کا جواب بھی دیا؟” انہوں نے کہا: "میں چاہتا تھا کہ انہیں جواب میں کہوں کہ اس معاملے میں میں آپ اور آپ کے والد سے زیادہ مستحق ہوں جو اسلام کی خاطر آپ لوگوں سے جنگ کر چکا ہے۔ لیکن میں اس وجہ سے رک گیا کہ کہیں اجتماعیت میں اختلاف نہ پڑ جائے اور خانہ جنگی نہ ہو جائے۔ میں جنت کے ثواب پر قناعت کر گیا۔” حبیب نے کہا: "آپ نے خود کو فساد سے بچا لیا۔”( بخاری، کتاب المغازی، حدیث 3882)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں یہ بات معلوم و معروف ہے کہ آپ نے کبھی خلافت کی تمنا نہ کی تھی۔ مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر آپ کے دل میں کچھ تردد پیدا ہوا تھا لیکن آپ نے امت مسلمہ کی مصلحت کی خاطر اپنی خواہش کو دبا دیا۔ اس سے آپ کے کردار کی عظمت کا علم ہوتا ہے۔ آپ کے دل میں جو یہ خیال پیدا ہوا کہ ” مںہ آپ اور آپ کے والد سے زیادہ مستحق ہوں جو اسلام کی خاطر آپ لوگوں سے جنگ کر چکا ہے” تو یہ محض جذبات میں سوچی گئی ایک بات ہی تھی۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تو کبھی مسلمانوں کے خلاف کفار کی جانب سے کسی ایک بھی جنگ میں شریک نہ ہوئے تھے البتہ ان کے والد ابوسفیان رضی اللہ عنہ ضرور شریک ہوئے تھے لیکن انہیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاف کر دیا تھا۔
کیا یزید کی بیعت کے لیے ناجائز ہتھکنڈے اختیار کیے گئے؟
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے والے مورخین کو بھی اس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کی نامزدگی کے لیے اتنے بڑے پیمانے پر مشورے کا اہتمام کیا لیکن انہوں نے اس مشورے کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے ایسی روایات وضع کی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کو آمادہ کرنے کے لیے انہیں لالچ دیا گیا تھا اور بعض حضرات بالخصوص حضرات ابن زبیر اور حسین رضی اللہ عنہم پر جبر کیا گیا تھا۔ مناسب ہو گا کہ ہم ان میں سے ایک ایک روایت کو لے کر اس کا تجزیہ کریں اور یہ دیکھیں کہ ان کی سند میں کون کون سے لوگ موجود ہیں۔ پہلے دو ابواب میں روایات کے تجزیہ کے جو اصول بیان ہوئے ہیں، مناسب رہے گا کہ ان کے خلاصے پر آپ دوبارہ ایک نظر ڈال لیجیے۔ طبری نے اس سلسلے میں دو روایتیں بیان کی ہیں:
1۔ فحدثني يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، قال: حدثنا ابن عون، قال: حدثني رجل بنخلة: حضرت معاویہ مدینہ آئے اور آ کر حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہم کو بلا بھیجا اور ان سے فرمایا: "میرے بھائی کے بیٹے! قریش میں سے پانچ افراد کے علاوہ سب لوگ بیعت پر آمادہ ہیں اور آپ ان پانچ میں مرکزی شخص آپ ہیں۔ اس اختلاف رائے کا سبب کیا ہے؟ حسین نے فرمایا: "کیا میں ان میں سے مرکزی شخص ہوں۔” معاویہ نے فرمایا: "جی ہاں! آپ ان کے قائد ہیں۔” حسین نے فرمایا: "ان لوگوں کو بلا لیجیے۔ اگر وہ بیعت کر لیں گے تو میں بھی ان کے ساتھ ہوں ورنہ میرے معاملے میں جلدی نہ کیجیے۔” معاویہ نے پوچھا: "کیا آپ ایسا کرنے کو تیار ہیں؟” انہوں نے کہا: "جی ہاں۔” یہ سن کر حضرت معاویہ نے ان سے وعدہ لیا کہ کسی سے ان باتوں کا ذکر نہ کریں۔ حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے پہلے تو انکار کیا لیکن پھر قبول کر لیا اور باہر نکل آئے۔
ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے انتظار میں بٹھا رکھا تھا۔ اس نے پوچھنا شروع کیا کہ آپ کے بھائی ابن زبیر پوچھ رہے ہیں کہ کیا معاملہ ہے۔ (آپ نے حسب وعدہ بات نہ کی لیکن) آخر وہ کچھ مطلب سمجھ گیا۔ اب حضرت معاویہ نے ابن زبیر رضی اللہ عنہما کو بلا بھیجا اور ان سے فرمایا: "پانچ افراد کےعلاوہ جن میں آپ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، سب لوگ اس معاملے میں آمادہ ہیں۔ اختلاف رائے کا سبب کیا ہے؟” ابن زبیر نے فرمایا: "کیا میں ان میں سے مرکزی شخص ہوں؟” معاویہ نے فرمایا: "جی ہاں! آپ ان کے قائد ہیں۔” ابن زبیر نے فرمایا: "ان لوگوں کو بلا لیجیے۔ اگر وہ بیعت کر لیں گے تو میں بھی ان کے ساتھ ہوں ورنہ میرے معاملے میں جلدی نہ کیجیے۔” معاویہ نے پوچھا: "کیا آپ ایسا کرنے کو تیار ہیں؟” انہوں نے کہا: "جی ہاں۔” یہ سن کر حضرت معاویہ نے ان سے وعدہ لیا کہ کسی سے ان باتوں کا ذکر نہ کریں۔ ابن زبیر نے کہا: "امیر المومنین! ہم لوگ اللہ عزوجل کے حرم میں ہیں اور اللہ سبحانہ وتعالی کے نام پر وعدہ کرنا بڑا معاملہ ہے۔ انہوں نے وعدہ کرنے سے انکار کیا او رباہر چلے گئے۔
اب حضرت معاویہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہم کو بلا بھیجا اور ان کے ساتھ نرمی سے بات کی اور فرمایا: "میں نہیں چاہتا کہ امت محمدیہ کو اپنے بعد ایسے چھوڑ جاؤں کہ جیسے بغیر چرواہے کے بھیڑوں کا گلہ۔ قریش میں پانچ افراد کے سوا، جن میں آپ نمایاں ہیں، سب لوگ اس امر (یزید کی بیعت) پر آمادہ ہیں۔ اختلاف رائے کا سبب کیا ہے؟” ابن عمر نے فرمایا: "میں ایسی بات کیوں نہ کروں جس میں نہ تو کوئی برائی ہے او رنہ خونریزی اور آپ کا کام بھی ہو جائے گا۔” حضرت معاویہ نے فرمایا: "میں یہی چاہتا ہوں۔” انہوں نے کہا: "آپ اپنی کرسی باہر نکال کر بیٹھیے۔ میں یہ کہہ کر آپ سے بیعت کر لوں گا کہ آپ کے بعد جس بات پر مسلمان متفق ہوں گے ، میں بھی اسی اتفاق میں داخل ہو جاؤں گا۔ واللہ! آپ کے بعد اگر کسی حبشی غلام پر بھی قوم متفق ہو تو میں بھی اس اتفاق رائے میں داخل ہوں گا۔” انہوں نے پوچھا: "کیا آپ ایسا ہی کریں گے؟” جواب دیا: "جی ہاں۔” ابن عمر یہ کہہ کر باہر نکل آئے اور گھر پر آ کر دروازہ بند کر کے بیٹھ گئے۔ لوگ ملنے آئے تو انہیں اجازت نہ دی۔
اب حضرت معاویہ نے عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہم کو بلوایا اور پوچھا: "ابوبکر کے بیٹے! کس ہاتھ اور کس پاؤں سے آپ مجھ سے اختلاف کر رہے ہیں؟” انہوں نے کہا: "میں سمجھتا ہوں کہ میرے حق میں یہی بہتر ہے۔” فرمایا: "میں ارادہ کر چکا ہوں کہ آپ کو قتل کروں گا۔” فرمایا: "آپ ایسا کریں گے تو اللہ دنیا میں بھی آپ پر لعنت بھیجے گا اور آخرت میں بھی آپ کو جہنم میں ڈالے گا۔”
طبری کہتے ہیں کہ اس روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ذکر نہیں ہے۔( طبری۔ 4/1-116 to 118)
اس روایت کی سند میں غور کیجیے تو اس کا ترجمہ کچھ یوں ہے: یعقوب بن ابراہیم نے ہم سے روایت بیان کی، ان سے اسماعیل بن ابراہیم نے، ان سے ابن عون نے اور ان سے "نخلہ” کے مقام پر ایک شخص نے۔ اب یہ نخلہ کا ایک شخص کون تھا ، ہم نہیں جانتے۔ کیا وہ باغی پارٹی کا رکن تھا جسے حضر ت معاویہ رضی اللہ عنہ سے خاص بغض تھا یا کوئی بڑا ہی دیانتدار مومن تھا؟ ہم نہیں جانتے۔
روایت کو وضع کرنے والے نے ایک بڑی فاش غلطی کی ہے جس کا اسے خود اندازہ نہیں ہے۔ اس نے اس روایت میں حضرت معاویہ اور عبدالرحمن ابن ابی بکر رضی اللہ عنہم کا مکالمہ بھی نقل کر دیا ہے جو کہ 56/676 میں ہو رہا ہے حالانکہ حضرت عبدالرحمن اس واقعے سے تین برس پہلے 53/673 میں وفات پا چکے تھے۔ ابن عبدالبر لکھتے ہیں کہ ان کی وفات 53/673 میں ہوئی اور ایک قول یہ ہے کہ 55/675 میں ہوئی تاہم اکثریت پہلی رائے پر متفق ہے۔( ابن عبدالبر۔ الاستیعاب۔ 1/497۔ صحابی نمبر 1393)
اس سلسلے کی دوسری روایت یہ ہے:
ذكر هشام بن محمد، عن أبي مخنف، قال: حدثني عبد الملك بن نوفل بن مساحق بن عبد الله بن مخرمة: پھر سن 60/680 شروع ہوا۔ ۔۔ اس سال عبیداللہ بن زیاد چند سفیروں کو ساتھ لیے حضرت معاویہ کے پاس آیا اور حضرت معاویہ نے ان لوگوں سے اپنے بیٹے یزید کے لیے بیعت لی۔ اسی سال انہیں مرض الموت لاحق ہوا تو یزید کو بلا بھیجا اور فرمایا: "بیٹا! میں نے تمہیں زحمت اور مشقت سے بچا لیا ہے اور تمہارے لیے ہر معاملے کو آسان کر دیا ہے۔ تمہارے لیے عرب کی گردنوں کو میں نے جھکا دیا ہے اور تمہارے لیے جو کچھ جمع کیا ہے، وہ کسی نے نہ کیا ہو گا۔ مجھے اس بات کا اندیشہ نہیں ہے کہ امر خلافت جو تمہارے لیے مستحکم ہو چکا ہے، قریش میں سے چار افراد کے سوا کوئی اور تم سے اس بارے میں اختلاف کرے گا: حسین بن علی، عبداللہ بن عمرو، عبداللہ بن زبیر اور عبدالرحمن بن ابی بکر۔
1۔ ان میں سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا تو عبادت نے ستیا ناس کر دیا ہے۔ جب وہ دیکھیں گے کہ ان کے سوا اور کوئی باقی نہیں رہا تو وہ بھی تمہاری بیعت کر لیں گے۔
2۔ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو عراق کے لوگ جب تک بغاوت پر آمادہ نہ کر لیں، نہیں چھوڑیں گے۔ اگر وہ تمہارے خلاف بغاوت کریں اور تم ان پر قابو پا لو، تو ان سے درگزر کرنا۔ انہیں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ہماری) قریبی رشتہ داری حاصل ہے اور وہ بڑا حق رکھتے ہیں۔
3۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بیٹے وہ ہیں جو اپنے ساتھیوں کو جو کام کرتا دیکھیں، ویسا ہی خود کرتے ہیں۔ انہیں خواتین اور کھیل تماشوں کے سوا کسی چیز سے دلچسپی نہیں ہے۔
4۔ جو شخص شیر کی طرح تمہاری گھات میں بیٹھے گا اور لومڑی کی طرح تمہیں دھوکہ دے گا اور جب موقع ملے حملہ کرے گا، وہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما۔ اگر ایسی حرکتیں وہ تمہارے ساتھ کریں اور تم ان پر قابو پا لو تو ان کے ٹکڑے کر دینا۔ ( طبری۔ 4/1-129)
اس روایت کی سند دیکھیے تو اس میں وہی ہشام کلبی اور ابو مخنف موجود ہیں جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کے متعلق دل میں ایسا بغض رکھتے ہیں کہ جس کی مثالیں اس پوری کتاب میں جگہ جگہ بکھری ہوئی ہیں۔ حضرات ابوبکر، عمر اور زبیر رضی اللہ عنہم کے بیٹوں کے لیے الفاظ کا جو انتخاب کیا گیا ہے، وہ راویوں کی ان سے نفرت کو ظاہر کر رہا ہے جسے انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی زبان سے کہلوانے کی کوشش کی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ہشام کلبی اور ابو مخنف بھی حضرت حسین کے لیے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کی محبت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کے بارے میں ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ وہ اس بیعت کے واقعے سے تین برس پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔
ابن اثیر (555-630/1160-1233)نے "الکامل” میں ایک جھوٹا قصہ نقل کیا ہے جس کے مطابق حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب یزید کی خلافت کا اعلان کیا تو ان چاروں حضرات کے پیچھے ایک ایک تلوار بردار کو کھڑا کر دیا تھا اور اسے حکم تھا کہ اگر یہ حضرات چون و چرا کریں تو ان کی گردن اڑا دی جائے۔( ابن اثیر ۔ الکامل فی التاریخ ۔ 3/354۔ بیروت: دار الکتب العلمیہ۔ http://www.waqfeya.com (16 Jan 2012) )۔ انہوں نے اس بے سر وپا قصے کی کوئی سند بیان نہیں کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قصہ من گھڑت ہے۔ دوسری طرف اس قصے میں صرف حضرت معاویہ ہی کی نہیں بلکہ حضرات حسین، ابن عمر اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم کی کردار کشی بھی ہے کہ یہ حضرات نعوذ باللہ اتنی ہمت نہ کر سکے کہ اپنی جان کا خطرہ مول لے کر امت کو غاصبوں سے بچا سکیں۔
اسی طرح ابن اثیر نے چند او رجھوٹے قصے نقل کیے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے معاذ اللہ لوگوں کو رشوت دے کر یزید کی بیعت پر تیار کیا تھا۔ ( ایضا 3/350۔ )۔ انہوں نے رشوت کی جو رقم بیان کی ہے، وہ بھی مضحکہ خیز ہے۔ کسی کو تیس ہزار درہم، کسی کو چار سو دینار، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو ایک لاکھ درہم اور اسی نوعیت کی دیگر رقموں کا انہوں نے ذکر کیا ہے۔ ان قصوں کی بھی کوئی سند بھی ابن اثیر بیان نہیں کی جس سے ظاہر ہو کہ انہوں نے یہ بات کس سے سن کر اپنی کتاب میں لکھی ہے۔ ابن اثیر نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں بیان کیا ہے انہوں نے تاریخ طبری کو اپنی کتاب کی بنیاد بنایا ہے لیکن خود طبری نے ان قصوں کو درج نہیں کیا ہے۔
ابن اثیر کا زمانہ ان تمام واقعات کے چھ سو سال بعد کا ہے۔ ان سے پہلے کے مورخین ان واقعات کا کہیں ذکر نہیں کرتے ہیں اور وہ نجانے کہاں سے یہ واقعات اپنی کتاب میں درج کر دیتے ہیں۔ اگر ان واقعات کو صحیح مان لیا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ نہ تو اس دور کے اہل سیاست ، ہمارے دور کے سیاستدانوں سے کچھ مختلف تھے اور نہ ہی اس دور کے عام لوگ ، جن میں صحابہ و تابعین شامل تھے، کردار کے اعتبار سے ہمارے ووٹروں سے کچھ بڑھ کر تھے کہ جنہیں محض دس دس ہزار درہم (جو اس دور میں کوئی خاص وقت نہ رکھتے تھے) رشوت دے کر خریدا جا سکتا تھا۔ اس کے ساتھ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اسلام اپنی پہلی صدی ہی میں ناکام ہو گیا کہ اس کے ماننے والوں کی اکثریت کا کردار یہ تھا۔
یزید کا کردار کیسا تھا؟
غالی راویوں بالخصوص ابو مخنف اور ہشام کلبی نے بھی یزید کے خلاف زبردست پراپیگنڈا کیا اور اسے شرابی، بدکار اور ہم جنس پرست ظاہر کیا۔( بلاذری۔ انساب الاشراف۔ 5/299۔ باب امر یزید بن معاویہ۔)
سانحہ کربلا کی وجہ سے چونکہ لوگوں میں یزید کے خلاف شدید نفرت پھیل گئی، اس وجہ سے ان کے پراپیگنڈے کو قبول عام حاصل ہوا اور لوگوں نے بالعموم ان روایات کو اس طرح تسلیم کر لیا کہ گویا یہ سچ ہے۔ حالانکہ اگر نامزدگی کے وقت یزید کا کردار ویسا ہی ہوتا جیسا کہ ان روایات میں بیان کیا گیا ہے تو پھر اس کی مخالفت کرنے والے صرف دو افراد نہ ہوتے بلکہ صحابہ کرام اور تابعین کی کثیر تعداد اس کی بیعت سے انکار کر دیتی۔ پھر تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ یزید کو نامزد کرنے کے ارادے کا اظہار ہی کرتے اور مشرق و مغرب میں بے چینی کی لہر دوڑ جاتی۔ جو صحابہ کرام ، حضرت معاویہ کی پبلک ایڈمنسٹریشن کا حصہ تھے، وہی اٹھ کھڑے ہوتے۔ دیگر شہروں سے بھی نیک لوگ دمشق آ پہنچتے اور حضرت معاویہ کو مجبور کرتے کہ وہ اپنا فیصلہ واپس لے لیں۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا بلکہ دو افراد کے سوا سبھی نے اس فیصلے کو تسلیم کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یزید کے کردار میں کچھ ایسا مسئلہ نہ تھا۔ اگر بالفرض بعد میں اس کے کردار میں کچھ مسئلہ پیدا ہوا ہو تو اس کی ذمہ داری حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر عائد نہیں ہوتی ہے۔
اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت حسین اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم نے بھی جب یزید کی بیعت سے انکار کیا تو انہوں نے اس کے کردار کی کسی خامی کی طرف اشارہ نہیں کیا۔ حضرت حسین تو ہر سال حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے مہمان بنتے تھے اور وہ انہیں بہت سے تحائف اور عطیات دے کر رخصت کرتے تھے۔ حضرت حسین کے فرسٹ کزن عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیٹی کی شادی یزید سے کر رکھی تھی جو کہ نہایت ہی متقی و پرہیز گار خاتون تھیں۔ اس اعتبار سے یزید حضرت حسین کی بھتیجی کا شوہر تھا۔) ابن حزم۔ جمہرۃ الانساب۔ 69۔ قاہرہ: دار المعارف)۔ حضرت حسین اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ آپ یزید کے کردار سے ناواقف رہے ہوں گے۔ آگے چل کر ہم بیان کریں گے کہ سانحہ کربلا سے کچھ دیر پہلے آپ اس بات پر تیار بھی ہو گئے تھے کہ آپ یزید کی بیعت کر لیں۔ اگر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے خیال میں یزید کا کردار ایسا ہی گیا گزرا ہوتا تو کیا آپ اس کی بیعت کے لیے تیار ہو جاتے؟
یہاں ہم ایک مرتبہ پھر واضح کرتے چلیں کہ یزید نے اپنے دور حکومت میں جو غلط کام کیے یا اس سے جو غلطیاں سرزد ہوئیں، ہم ہرگز ان کی حمایت نہیں کرتے۔ اس موقع پر ہم یزید کے کردار سے متعلق جو کچھ لکھ رہے ہیں، اس کا مقصد یہ ہے کہ اس فیصلے کی وضاحت کی جائے جو اس زمانے کے تمام جلیل القدر صحابہ و تابعین نے یزید کی بیعت کر کے کیا۔ اگر ولی عہدی کی بیعت کے وقت یزید کا کردار ویسا ہی ہوتا، جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے تو پھر نہ صرف حضرت حسین و ابن زبیر، بلکہ تمام کے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اس کی مخالفت کرتے۔ اس کے برعکس کتب تاریخ میں ایسی متعدد روایا ت ملتی ہیں ، جن میں جلیل القدر صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کی جانب سے یزید کا ذکر مثبت انداز میں ملتا ہے۔ یہاں ہم چند روایتیں پیش کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما، جن کے بارے میں باغی راویوں وغیرہ نے یہ افسانہ مشہور کر دیا ہے کہ انہوں نے یزید کی نامزدگی پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے اختلاف کیا، کی رائے اس کے بارے میں کیا تھی؟
المدائني عن عبد الرحمن بن معاوية قال، قال عامر بن مسعود الجمحي: عامر بن مسعود جمحی کہتے ہیں کہ ہم لوگ مکہ میں تھے جب ڈاک کے ذریعے معاویہ کی وفات کی اطلاع ہمیں ملی۔ ہم اٹھ کر ابن عباس کے پاس چلے گئے اور وہ بھی مکہ ہی میں تھے۔ ان کے پاس کچھ لوگ بیٹھے تھے اور دستر خوان بچھ چکا تھا مگر ابھی کھانا نہیں آیا تھا۔ ہم نے ان سے کہا: ’’ابو عباس! ڈاک کے ذریعے معاویہ کی وفات کی اطلاع آئی ہے۔‘‘ ابن عباس کافی دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا: "یا اللہ! معاویہ کے لیے اپنی رحمت وسیع فرما دیجیے۔ واللہ! وہ اپنے سے پہلے (خلفاء) کی طرح تو نہیں تھے لیکن ان کے بعد ان جیسا بھی نہیں آئے گا۔ بلاشبہ ان کا بیٹا یزید ان کے صالح اہل خانہ میں سے ہے۔ لہذا آپ لوگ اپنی اپنی جگہ اطمینان رکھیے اور اس کی اطاعت اور بیعت کر لیجیے۔ اے بیٹے! کھانا لے آؤ۔” راوی کہتے ہیں کہ ہم وہیں پر تھے کہ خالد بن عاص، جو اس وقت مکہ کے گورنر تھے، کا قاصد آیا اور انہیں بیعت کی دعوت دی۔ ابن عباس نے کہا: ’’آپ جا کر ان سے کہیے : ’’جو لوگ اس وقت آپ کے پاس ہیں، ان سے اپنا معاملہ نمٹا لیجیے۔ شام کو میں آپ کے ہاں آؤں گا۔‘‘ قاصد (چلا گیا) اور پھر پلٹ کر آیا اور کہنے لگا: ’’آپ کا وہاں پر موجود ہونا بہت ضروری ہے۔‘‘ پھر آپ چلے گئے اور بیعت کر لی۔ ( بلاذری۔ 5/302)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما، جن کے بارے میں بھی باغی راویوں وغیرہ نے یہ بات مشہور کر دی ہے کہ انہوں نے یزید کی نامزدگی پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے اختلاف کیا، کی رائے اس کے بارے میں کیا تھی؟
نافع بیان کرتے ہیں کہ جب اہل مدینہ (کے بعض لوگوں نے) یزید بن معاویہ کے خلاف بغاوت کی تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے ساتھیوں اور اولاد کو جمع کر کے فرمایا: "میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ‘قیامت کے دن ہر معاہدہ توڑنے والے کے لیے ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا۔’ ہم لوگ اللہ اور رسول کے نام پر اس شخص (یزید) کی بیعت کر چکے ہیں۔میں نہیں جانتا کہ اللہ اور رسول کے نام پر کی گئی بیعت کو توڑنے اور بغاوت کرنے سے بڑھ کر کوئی معاہدے کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ ہر ایسا شخص جو اس بیعت سے الگ ہو جائے اور اس معاملے (بغاوت) کا تابع ہو جائے، تو اس کے اور میرے درمیان علیحدگی ہے۔ ( بخاری، کتاب الفتن، حدیث 6694)
 

علی محمد

مبتدی
شمولیت
مارچ 03، 2023
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
21
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یزید کے کردار میں پھر کیا ایسی خامی تھی، جس کے باعث بعض حضرات نے اس کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اس سلسلے میں طبری نے یہ روایت نقل کی ہے:
حدثني الحارث، قال: حدثنا علي، عن مسلمة: معاویہ رضی اللہ عنہ نے زیاد بن ابی سفیان کو خط لکھ کر اس بارے میں مشورہ طلب کیا۔ زیاد نے عبید بن کعب نمیری کو بلا کر کہا: "مشورہ امانت دار سے لینا چاہیے۔ لوگوں کو دو عادتوں نے خراب کر رکھا ہے۔ راز فاش کرنا اور نااہلوں کے ساتھ خیر خواہی کرنا۔ وہی شخص راز کو راز رکھ سکتا ہے جو یا تو دین دار ہو اور آخرت اس کی ترجیح ہو یا پھر ایسا شریف النفس دنیا دار ہو جسے اپنی عزت بچانے کی عقل ہو۔ میں نے یہ دونوں وصف آپ میں دیکھے ہیں اور مجھے پسند آئے ہیں۔ اس وقت میں نے آپ کو ایسی بات کے لیے لکھا ہے کہ یزید کے لیے بیعت لینے کا جو ارادہ امیر المومنین نے کیا ہے، اس میں وہ مجھ سے مشورہ طلب کر رہے ہیں۔ اسلام کا تعلق اور ذمہ داری بہت بڑی چیز ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ یزید کی طبیعت میں کاہلی اور سہل پسندی بہت ہے۔ پھر وہ سیر اور شکار کا شوقین ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میری طرف سے امیر المومنین کے پاس جائیں اور یزید کے جو مسائل میں نے بیان کیے ہیں، ان سے بیان کر دیجیے اور کہیے کہ ابھی تامل کیجیے۔ آپ جو چاہتے ہیں ، یہ بات ہو کر رہے گی۔ جلدی نہ کیجیے۔ جس تاخیر میں بہتری ہو، وہ اس جلدی سے بہتر ہے جس میں ہدف کے حاصل نہ ہونے کا اندیشہ ہو۔”
عبید نے کہا: "آپ کے خیال میں کیا اور کوئی طریقہ نہیں ہے؟” زیاد نے کہا: "اور کیا طریقہ سے کیا مراد ہے؟” عبید نے کہا: "حضرت معاویہ کی رائے پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے کہ ان کے بیٹے کی طرف سے انہیں نفرت دلانا مناسب نہیں ہے۔ میں انہیں بتائے بغیر یزید سے ملاقات کروں گا اور آپ کا پیغام دوں گا کہ امیر المومنین نے تمہاری بیعت کے لیے مجھ سے مشورہ کیا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ تمہاری بعض عادات سے لوگ بیزار ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ تمہاری بیعت میں وہ مخالفت کریں گے۔ میری رائے یہ ہے کہ جن باتوں کو لوگ پسند نہیں کرتے، وہ سب باتیں ترک کر دو۔ اس سے امیر المومنین کی بات بھی پوری ہو جائے گی اور آپ بھی جو چاہتے ہیں (کہ یزید کی اصلاح ہو،) وہ کام بھی آسانی سے ہو جائے گا۔ اس طرح آپ یزید سے بھی خیر خواہی کریں گے اور امیر المومنین بھی راضی رہیں گے۔ امت اسلام کی ذمہ داری کے بارے میں بھی آپ کو جو خدشہ ہے، اسے سے بھی آپ محفوظ رہیں گے۔”
زیاد نے کہا: "یہ تو بڑا تیر بہدف نسخہ ہے۔ اب خیر و برکت کے ساتھ آپ روانہ ہو جائیے۔ اگر (یزید کی) اصلاح ہو جائے تو اس سے بہتر کیا بات ہو سکتی ہے۔ اگر کچھ غلط بھی ہو گیا تو اس فعل میں کوئی خطرہ نہیں۔ اللہ نے چاہا تو وہ ہمیں غلطی سے بھی محفوظ رکھے گا۔” عبید نے کہا: "آپ اپنی رائے سے جو یہ بات کہتے ہیں، باقی اللہ کو جو منظور، وہ تو غیب میں ہے۔”
عبید یزید کے پاس پہنچے اور اس سے بات کی۔ زیاد نے بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو انتظار کے لیے لکھا اور جلدی سے منع کیا۔ حضرت معاویہ نے ان کی بات مان لی۔ یزید نے بھی اکثر افعال کو ترک کر دیا۔
زیاد جب فوت ہو گئے تو حضرت معاویہ نے ایک تحریر نکالی اور لوگوں کے سامنے پڑھی۔ اس میں یزید کو جانشین کرنے کا مضمون تھا کہ اگر معاویہ فوت ہو گئے تو یزید ولی عہد ہو گا۔ یہ سن کر پانچ افراد کے سوا سب لوگ یزید کی بیعت پر تیار ہو گئے۔ پانچ افراد حسین بن علی، ابن عمر، ابن زبیر، عبدالرحمن بن ابی بکر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے بیعت نہیں کی۔( طبری۔ 4/1-116)
سند کے اعتبار سے یہ روایت بھی کمزور ہے کیونکہ یہ مسلمہ بن محارب کا بیان ہے اور ان کے حالات کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے ہیں کہ وہ کس درجے میں قابل اعتماد تھے۔ البتہ اس روایت سے یہ بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یزید کی طبیعت میں کچھ کاہلی اور تن آسانی پائی جاتی تھی۔ وہ سیر و تفریح اور شکار کا شوقین تھا۔ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ چیزیں اخلاقی برائی کے زمرے میں نہیں آتیں تاہم خلیفہ وقت کا جو منصب تھا، اس کا تقاضا یہ تھا کہ ان خامیوں پر قابو پایا جائے۔ روایت کے مطابق یزید نے ان خامیوں پر قابو پا لیا۔
دوسری طرف روایات کا ایک ایسا گروپ ہے، جس کے مطابق یزید شراب، بدکاری اور ہم جنس پرستی کا شوقین تھااور نمازیں ترک کر دیتا تھا۔ ان روایات کی یا تو سند ہی نہیں ملتی یا پھر اگر ملتی ہے تو اس میں بھی وہی ہشام کلبی اور ابو مخنف نظر آتے ہیں۔ تاریخی تجزیہ کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ جو شخص کسی دوسرے شخص کے معاملے میں متعصب ہو، اس کی اس شخص کے بارے میں بات کو قبول نہ کیا جائے۔
شراب اور بدکاری جیسے جرائم دو طرح ہی انجام دیے جا سکتے ہیں۔ ایک تو کھلے عام اور دوسرے چھپ کر۔ اگر یزید یہ افعال کھلے عام انجام دیتا تو صحابہ کرام بشمول سعد بن ابی وقاص، ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کبھی اس کی بیعت نہ کرتے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ وہ چھپ کر یہ افعال کرتا تھا۔ ایسی صور ت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان راویوں کو کیسے علم ہوا کہ وہ چھپ کر یہ کام کرتا تھا؟ کیا یہ راوی خود بھی اس کے شریک مجلس رہے تھے یا یزید نے خود آ کر ان کے سامنے اپنی بدکاریوں کا اعتراف کیا تھا؟ یہی وہ جواب ہے جو حضرت علی کے تیسرے بیٹے اور حسین رضی اللہ عنہما کے چھوٹے بھائی محمد بن علی رحمہ اللہ، جو کہ اپنی والدہ کی نسبت سے ابن حنفیہ کے نام سے مشہور ہیں، نے ان معترضین کو دیا تھا جب وہ یزید کے خلاف بغاوت کے لیے انہیں تیار کرنے گئے تھے۔ انہوں نے کہا:
"ہمارے ساتھ نکلیے کہ ہم یزید سے جنگ کریں۔‘‘ محمد بن علی نے ان سے کہا: ’’کس بات پر میں اس سے جنگ کروں اور اسے منصب خلافت سے ہٹاؤں؟‘‘ وہ بولے: ’’وہ کفر اور فسق و فجور میں مبتلا ہے، شراب پیتا ہے اور دین کے معاملے میں سرکشی کرتا ہے۔”
اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا: "کیا آپ لوگ اللہ سے نہیں ڈرتے۔ کیا آپ میں سے کسی نے اسے ایسا کرتے دیکھا ہے جو آپ ذکر کر رہے ہیں۔ میں اس کے پاس رہا ہوں اور میں نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔” وہ کہنے لگے: ’’اس نے آپ کو اپنے اعمال کی خبر نہ ہونے دی ہو گی۔‘‘ محمد بن علی نے فرمایا: ’’تو کیا اس نے آپ لوگوں کو خبر کر کے یہ برائیاں کی ہیں؟ اس صورت میں تو آپ بھی اس کے ساتھی رہے ہوں گے۔ اگر اس نے آپ کو نہیں بتایا تو پھر تو آپ لوگ بغیر علم کے گواہی دینے چل پڑے ہیں۔‘‘( بلاذری۔ انساب الاشراف۔ 3/471۔ باب محمد بن حنفیہ)
ہمارے ہاں جب یزید کی مذمت کی جاتی ہے تو لوگوں کے سامنے سانحہ کربلا، سانحہ حرہ اور مکہ مکرمہ پر حملے کے واقعات ہوتے ہیں۔ ان سب کے ساتھ تقریباً پچھلے چودہ سو برس سے یزید کے خلاف جو کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے، وہ ہوتا ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب یزید کو نامزد کیا تو اس وقت نہ تو سانحہ کربلا ہوا تھا اور نہ ہی اور سانحات وجود میں آئے تھے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ سانحات وجود میں آ جائیں گے۔ اس وجہ سے حضرت معاویہ پر الزام تراشی کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔
حضرت حسین اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم نے اختلاف کیوں کیا؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یزید کا کردار اگر برا نہ تھا، تو پھر حضرت حسین اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم نے اس کی نامزدگی میں اختلاف کیوں کیا اور اس کے حکومت سنبھالنے کے بعد اس کی بیعت میں پس و پیش کیوں کیا ؟ اس سوال کے جواب میں بعض حضرات ان دونوں بزرگوں سے بدگمانی کرتے ہیں اور نعوذ باللہ انہیں بغاوت کا مجرم سمجھتے ہیں۔ ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ حضرت حسین اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم کے بارے میں بدگمانی کریں۔
ان دونوں کے معاملے کی تفصیل انشاء اللہ ہم اگلے باب میں بیان کریں گے۔ یہاں مختصراً اتنا عرض کر دینا ضروری ہے کہ ان دونوں حضرات نے اگر یزید کی نامزدگی کے سلسلے میں اختلاف رائے کیا تو انہیں اس کا حق حاصل تھا۔ ہر انسان کو اپنی رائے کا حق حاصل ہے اور اس میں کوئی برائی نہیں کہ انسان کوئی بھی رائے رکھے۔ برائی اس وقت ہوتی ہے جب انسان محض اپنی انا اور اقتدار کے لیے فتنہ و فساد برپا کرے۔ ان دونوں حضرات نے ایسا کوئی فتنہ و فساد برپا نہیں کیا۔ ممکن ہے کہ ان دونوں حضرات نے دیانتداری سے یہ رائے قائم کی ہو کہ باپ کے بعد بیٹے کا خلیفہ بننا مناسب عمل نہیں ہے اور انہیں یہ خطرہ محسوس ہوا ہو کہ ا ن حضرات کے اس عمل کے نتیجے میں مستقبل میں کہیں ملوکیت کی راہیں ہموار نہ ہو جائیں۔ اس وجہ سے انہوں نے اس باب میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی رائے سے اختلاف کیا۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد یزید کے اقتدار سنبھالتے ہی عراق، بالخصوص کوفہ میں انارکی کی سی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ اہل کوفہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یزید کی نامزدگی کے معاملے میں اتفاق کر لیا تھا۔ اب انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خطوط لکھ کر اپنے پاس بلانا شروع کیا اور آپ وہاں تشریف لے گئے۔ آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے کسی ایسے عزم کا اظہار نہیں فرمایا کہ آپ حکومت کے خلاف بغاوت کرنا چاہتے تھے۔ اس کے برعکس آپ کو جب اطلاع ملی کہ اہل کوفہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئے ہیں تو آپ نے یزید کی بیعت کر لینے کا ارادہ فرمایا۔ اس کے بعد وہ سانحہ پیش آیا جس میں آپ کو شہید کر دیا گیا۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے یزید کی بیعت نہیں کی لیکن انہوں نے اس کی زندگی کے دوران اپنی خلافت کا دعوی بھی نہیں کیا۔ جب انہیں یزید کی وفات کی اطلاع ملی تو اس وقت سرکاری فوج کے کمانڈر حصین بن نمیر نے انہیں خلافت کی پیشکش کی اور انہوں نے اس کے بعد اسے قبول کر لیا۔ یہ تفصیلات ہم انشاء اللہ اگلے باب میں بیان کریں گے۔
یزید پر الزامات
سانحہ کربلا میں یزید کا کردار کیا تھا؟
سانحہ کربلا میں یزید کے کردار کے بارے میں دو متضاد تھیوریز پیش کی جاتی ہیں اور دونوں کی بنیاد یہی تاریخی روایتیں ہیں: ایک تھیوری تو یہ ہے کہ ابن زیاد نے یزید کے حکم سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر فوج کشی کی اور یزید نے آپ کی شہادت پر خوشی کا اظہار کیا۔ یہ تمام کی تمام روایات ابو مخنف نے بیان کی ہیں۔ دوسری تھیوری یہ ہے کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ ابن زیاد نے اپنی طرف سے سختی کی۔ پھر باغی تحریک کے جو لوگ فوج میں شامل تھے، ان کے اقدام کے نتیجے میں یہ حادثہ رونما ہوا۔ یزید کو اس کی جب اطلاع ملی تو اس نے افسوس کا اظہار کیا تاہم اس نے ان قاتلین کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔
تاریخ طبری میں ابو مخنف ہی کی بیان کردہ بعض روایات موجود ہیں، جن سے اس دوسری تھیوری کی تائید ہوتی ہے۔ ابو مخنف کے بیان کے مطابق ابن زیاد نے جب مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کے قتل کی خبر یزید کو بھیجی تو یزید نے کوفہ کی بغاوت پر قابو پا لینے پر ابن زیاد کی تعریف کی لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے متعلق لکھا:
قال أبو مخنف: عن أبي جناب يحيى بن أبي حية الكلبي: ۔۔۔۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ حسین بن علی عراق کی جانب روانہ ہوئے ہیں۔ سرحدی چوکیوں پر نگران مقرر کر دیجیے۔ جن کے بارے میں شک ہو، انہیں حراست میں لے لیجیے اور جس پر کوئی الزام ہو، اسے گرفتار کر لیجیے۔ لیکن جو خود آپ لوگوں سے جنگ نہ کرے، اس سے آپ بھی جنگ نہ کیجیے۔ جو بھی واقعہ پیش آئے، اس کی مجھے اطلاع دیجیے۔ والسلام۔ ( ایضاً ۔ 4/1-173)
سانحہ کربلا کے بعد یزید اور اس کے اہل خاندان کا طرز عمل ابو مخنف نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی پوتی سیدہ فاطمہ رحمہا اللہ کے حوالے سے کچھ یوں بیان کیا ہے۔
قال أبو مخنف، عن الحارث بن كعب، عن فاطمة بنت علي: یزید نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے کہا: "نعمان! ان لوگوں کی روانگی کا سامان، جیسا مناسب ہو ، کر دیجیے۔ اور ان کے ساتھ اہل شام میں سے کسی ایسے شخص کو بھیجیے جو امانت دار اور نیک کردار ہو۔ اس کے ساتھ کچھ سوار اور خدمت گار بھیج دیجیے کہ ان سب کو مدینہ پہنچا دے۔ اس کے بعد اس نے خواتین کے لیے حکم دیا کہ انہیں علیحدہ مکان میں ٹھہرایا جائے اور اس میں ضرورت کی سب چیزیں موجود ہوں۔ ان کے بھائی علی بن حسین (رحمہ اللہ ) اسی مکان میں رہیں جس میں وہ سب لوگ ابھی تک رہ رہے ہیں۔ اس کے بعد یہ سب لوگ (خواتین) اس گھر سے یزید کے گھر میں گئیں تو آل معاویہ میں سے کوئی خاتون ایسی نہ تھی جو حسین (رضی اللہ عنہ) کے لیے روتی اور نوحہ کرتی ہوئی ان کے پاس نہ آئی ہو۔ غرض سب نے وہاں پر سوگ منایا۔
یزید صبح و شام کھانے کے وقت علی بن حسین کو بھی بلا لیا کرتا تھا۔ ۔۔۔ جب ان لوگوں نے روانہ ہونے کا ارادہ کیا تو یزید نے علی بن حسین کو بلا بھیجا اور ان سے کہا: "اللہ مرجانہ کے بیٹے (ابن زیاد) پر لعنت کرے۔ واللہ اگر حسین میرے پاس آتے، تو مجھ سے جو مطالبہ کرتے، میں وہی کرتا۔ ان کو ہلاک ہونے سے جس طرح ممکن ہوتا بچا لیتا خواہ اس کے لیے میری اولاد میں سے کوئی مارا جاتا۔ لیکن اللہ کو یہی منظور تھا، جو آپ نے دیکھا۔ آپ کو جس چیز کی ضرورت ہو، مجھے بتائیے اور میرے پاس لکھ کر بھیج دیجیے۔ پھر یزید نے سب کو کپڑے دیے اور اس قافلے (کے لیڈروں) کو ان لوگوں کے بارے میں خاص تاکید کی۔ ( ایضاً ۔ 4/1-237)
بلاذری نے اس ضمن میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کےبھائی محمد بن علی رحمہ اللہ کا یہ واقعہ بیان کیا ہے:
حدثني أبو مسعود الكوفي عن عوانة قال: یزید نے ابن حنفیہ کو ملاقات کے لیے بلایا اور اپنے پاس بٹھا کر ان سے کہا: "حسین کی شہادت پر اللہ مجھے اور آپ کو بدلہ دے۔ واللہ! حسین کا نقصان جتنا بھاری آپ کے لیے ہے، اتنا ہی میرے لیے بھی ہے۔ ان کی شہادت سے جتنی اذیت آپ کو ہوئی ہے، اتنی ہی کو بھی ہوئی ہے۔ اگر ان کا معاملہ میرے سپرد ہوتا اور میں دیکھتا کہ ان کی موت کو اپنی انگلیاں کاٹ کر اور اپنی آنکھیں دے کر بھی ٹال سکتا ہوں تو بلا مبالغہ دونوں ہی ان کے لیے قربان کر دیتا، اگرچہ انہوں نے میرے ساتھ بڑی زیادتی کی تھی اور خونی رشتہ کو ٹھکرایا تھا (یعنی اہل عراق کی دعوت پر وہاں چلے گئے تھے۔)
آپ کو معلوم ہوگا کہ ہم عوام کے سامنے حسین (کے اقدام) پر تنقید کرتے ہیں لیکن واللہ یہ اس لیے نہیں کہ عوام میں حضرت علی کے خاندان کو عزت و حرمت حاصل نہ ہو بلکہ ہم لوگوں کو اس سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حکومت و خلافت میں ہم کسی حریف کو برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔ ”
یہ سن کر ابن حنفیہ نے کہا: "اللہ آپ کا بھلا کرے اور حسین پر رحم فرمائے اور ان کی خطاؤں کو معاف کرے۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ ہمارے نقصان کو اپنا نقصان اور ہماری محرومی کو اپنی محرومی سمجھتے ہیں۔ حسین اس بات کے ہرگز مستحق نہیں ہیں کہ آپ ان پر تنقید کریں یا ان کی مذمت کریں۔ امیر المومنین! میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ حسین کے بارے میں ایسی بات نہ کہیے جو مجھے ناگوار گزرے۔” یزید نے جواب دیا: "میرے چچا زاد بھائی! میں حسین کے متعلق کوئی ایسی بات نہ کہوں گا جس سے آپ کا دل دکھے۔ ”
اس کے بعد یزید نے ان سے ان کے قرض کے بارے میں پوچھا۔ محمد بن علی نے فرمایا: ’’مجھ پر کوئی قرض نہیں ہے۔‘‘ یزید نے اپنے بیٹے خالد بن یزید سے کہا: ’’میرے بیٹے! آپ کے چچا کم ظرفی، ملامت اور جھوٹ سے بہت دور ہیں۔ اگر ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو کہہ دیتا کہ مجھ پر فلاں فلاں کا قرض ہے۔‘‘ پھر یزید نے حکم جاری کیا کہ انہیں تین لاکھ درہم دیے جائیں جو انہوں نے قبول کر لیے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہیں پانچ لاکھ درہم کیش اور ایک لاکھ کا سامان دیا۔
یزید ابن حنفیہ کے ساتھ بیٹھتا تھا اور ان سے فقہ اور قرآن سے متعلق سوالات کرتا تھا۔ جب انہیں الوداع کرنے کا وقت آیا تو اس نے ان سے کہا: ’’ابو القاسم! اگر آپ نے میرے اخلاق میں کوئی برائی دیکھی ہو تو بتائیے، میں اسے دور کر دوں گا۔ اور آپ جس چیز کی طرف اشارہ کریں گے، اسے درست کر دوں گا۔‘‘ ابن حنفیہ نے فرمایا: ’’واللہ! میں نے اپنی وسعت کے مطابق کوئی ایسی برائی نہیں دیکھی جس سے آپ نے لوگوں کو روکا نہ ہو او راس معاملے میں اللہ کے حق کے بارے میں بتایا نہ ہو۔ یہ اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے لیے حق بات کو واضح کریں اور اسے نہ چھپائیں۔ میں نے آپ میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا ہے۔‘‘( بلاذری۔ انساب الاشراف ۔ 3/470۔ باب: محمد بن حنفیہ)
ابو مخنف سے روایا ت کا جو دوسرا گروپ مروی ہے، ان کے مطابق شہادت حسین پر یزید خوش ہوا اور اس میں اس کی رضا شامل تھی۔ اس کے برعکس انہی ابو مخنف کی اوپر بیان کردہ روایات سے اس کے برعکس تصویر سامنے آتی ہے کہ یزید کو سانحہ کربلا کا شدید افسوس ہوا اور وہ اس نے اس سانحے پر غم کا ظہار کیا۔ اب یہ شخص کی اپنی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ ابو مخنف کی روایات میں سے کن روایات کو قبول کرتا ہے۔ اتنی صدیوں بعد کسی کا دل چیر کر نہیں دیکھا جا سکتا ہےکہ اس کے دل میں کیا ہے۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یزید اس سانحہ میں ملوث نہیں تھا تو اس نے ابن زیاد اور سانحہ کربلا کے دیگر ذمہ داروں کو سزا کیوں نہیں دی؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ ایک تحقیقاتی ٹیم بناتا جس میں ایسے دیانت دار لوگ ہوتے جن پر امت کو کامل اعتماد ہوتا۔ یہ لوگ سانحہ کربلا کی تحقیقات کرتے اور جو لوگ اس میں ملوث تھے، انہیں قرار واقعی سزا دی جاتی۔ یہ ایسا سوال ہے جس کا کتب تاریخ کے صفحات میں کوئی جواب نہیں ہے۔ نرم سے نرم الفاظ میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ یزید کی ایسی بھیانک غلطی تھی جس کے نتیجے میں اس کا نہ تو اقتدار قائم رہ سکا اور اس کے مخالفین نے اس کے اس اقدام کو بنیاد بنا کر اس پر لعن طعن کا وہ سلسلہ شروع کیا جو اب تک جاری ہے۔خود یزید کو سانحہ کربلا کی وجہ سے سخت نقصان ہوا۔ اس کی اب تک جو رہی سہی ساکھ تھی، وہ بالکل ہی ختم ہو گئی اور لوگ اس سے نفرت کرنے لگے۔ طبری ہی کی ایک روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ یزید کو اس نقصان کا اندازہ ہو گیا تھا اور وہ ابن زیاد سے سخت نفرت کرنے لگا تھا۔
قال أبو جعفر: وحدثني أبو عبيدة معمر بن المثنى أن يونس بن حبيب الجرمي حدثه، قال: تھوڑے ہی دن بعد وہ (یزید) پشیمان ہوا اور اکثر کہا کرتا تھا: "اگر میں ذرا تکلیف گوارا کرتا اور حسین کو اپنے ہی گھر میں رکھتا، جو وہ چاہتے، انہیں اس کا اختیار دے دیتا۔ اس لیے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی تھی اور ان کے حق اور قرابت کی رعایت تھی۔ اگر میری حکومت کی اس میں سبکی بھی ہو جاتی تو اس میں کیا حرج تھا۔ اللہ ابن مرجانہ (ابن زیاد) پر لعنت کرے کہ اس نے انہیں لڑنے پر مجبور کیا۔ وہ تو یہ کہتے تھے کہ مجھے واپس چلا جانے دو یا (مجھے یزید کے پاس بھیج دو) تاکہ میں اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں دے دوں یا مسلمانوں کی سرحدوں میں سے کسی سرحد کی طرف مجھے نکل جانے دو۔ وہاں اللہ عزوجل میری حفاظت کرے گا۔ یہ بات بھی اس نے نہ مانی اور اس سے بھی انکار کر دیا۔ ان کو کوفہ کی طرف واپس لایا اور قتل کر دیا۔ اس واقعہ سے اس نے مسلمانوں کے دلوں میں میرا بغض بھر دیا اور میری عداوت کا بیج بویا۔ اب نیک ہوں یا بد، سب مجھ سے اس بات پر بغض رکھتے ہیں کہ میں نے حسین کو قتل کیا۔ لوگ اسے بہت بڑا واقعہ سمجھتے ہیں۔ مجھے ابن مرجانہ سے کیا غرض ہے؟ اللہ اس پر لعنت کرے اور اس پر اپنا غضب نازل کرے۔ ( طبری۔ 4/1-270)
اسی روایت کے کچھ بعد بیان ہے کہ یزید کے مرنے کے بعد ابن زیاد نے ایک خطبہ دیا اور اس کی مذمت بھی کی۔ وہ جانتا تھا کہ یزید اس کے ساتھ بہت برا پیش آنے والا ہے اور اس وجہ سے اس سے خائف تھا۔ ممکن ہے کہ یزید اگر کچھ عرصہ اور زندہ رہتا تو ابن زیاد کے خلاف کاروائی بھی کر ڈالتا لیکن بہرحال اب بہت دیر ہو چکی تھی اور شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا جو نقصان اسے پہنچنا تھا، وہ پہنچ چکا تھا۔
سانحہ حرہ
اب ہم واپس یزید کے دور کی طرف آتے ہیں۔ یزید کے دور میں تین افسوسناک سانحے ہوئے: سانحہ کربلا، سانحہ حرہ اور مکہ مکرمہ پر حملہ۔ اب ہم سانحہ حرہ کی تفصیلات بیان کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا۔ ہمارے ہاں اردو کتب تاریخ میں اس معاملے میں بڑا مبالغہ کیا گیا ہے کہ سرکاری فوج نے مدینہ منورہ پر حملہ کیا ، ہزاروں لوگوں کو قتل کیا اور خواتین کی عصمت دری کی جبکہ حقیقت اس سے مختلف ہے۔
تاریخ طبری میں اس سانحے کی تقریباً تمام تفصیلات ابو مخنف ہی کی بیان کر دہ ہیں۔ ابو مخنف کی روایت کے مطابق ہوا یوں کہ یزید نے ایک اموی نوجوان عثمان بن محمد بن ابی سفیان کو مدینہ منورہ کا گورنر بنا کر بھیجا۔ یہ ناتجربہ کار تھے اور حکومتی معاملات کو صحیح طرح سنبھال نہ پائے۔ اس پر اہل مدینہ کا ایک وفد یزید کے پاس روانہ ہوا۔ اس کے بعد جو ہوا، وہ ابو مخنف کی زبانی سنیے:
ذكر لوط بن يحيى، عن عبد الملك بن نوفل ابن مساحق، عن عبد الله بن عروة: ۔۔۔ اہل مدینہ نے ایک وفد یزید کے پاس روانہ کیا۔ اس میں عبداللہ بن حنظلہ انصاری غسیل الملائکہ رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عمرو مخزومی، منذر بن زبیر اور بہت سے لوگ اشراف مدینہ سے ان کے ساتھ تھے۔ یہ لوگ یزید کے پاس آئے تو وہ اکرام و احسان سے پیش آیا۔ سب کو انعام و اکرام دیا۔ وہاں سے سوائے منذر بن زبیر کے، یہ سب لوگ مدینہ چلے گئے جبکہ منذر بصرہ میں ابن زیاد کے پاس چلے گئے۔ انہیں بھی یزید نے ایک لاکھ درہم انعام دیا تھا۔
(جو لوگ مدینہ آئے) انہوں نے اہل مدینہ کے سامنے یزید کو سب و شتم شروع کردیا او رکہا: "ہم ایسے شخص کے پاس سے آئے ہیں، جو کوئی دین نہیں رکھتا، شراب پیتا ہے، ساز بجاتا ہے اور اس کی صحبت میں گلو کارائیں گاتی ہیں۔ کتوں سے کھیلتا ہے، لفنگوں اور لونڈیوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے۔ آپ لوگ گواہ رہیں کہ ہم نے اسے خلافت سے معزول کیا۔ یہ سن کر کچھ اور لوگ بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ ۔۔
یزید کو خبر ہوئی کہ وہ اس کے بارے میں یہ پراپیگنڈا کر رہے ہیں تو وہ کہنے لگا: "یا اللہ! میں نے تو ان کے ساتھ احسان کیا اور ان لوگوں نے جو کچھ کیا، وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ ” پھر اس نے ان لوگوں کے جھوٹ اور قطع رحمی کا ذکر کیا۔ ( ایضاً ۔ 4/252 to 253)
ابو مخنف کے بیان کے مطابق اب یزید نے حضرت نعمان بن بشیر انصاری رضی اللہ عنہما کو مدینہ بھیجا جنہوں نے اہل مدینہ کو سمجھایا کہ وہ بغاوت نہ کریں تاہم انہوں نے اس سے انکار کر دیا۔ سن 63/683 میں ایک ہزار کے قریب آدمیوں نے بغاوت کر دی اور مدینہ میں موجود بنو امیہ پر حملہ کر دیا۔ یہ اموی مروان بن حکم کے گھر میں اکٹھے ہوئے تو ان لوگوں نے ان کا محاصرہ کر لیا۔ بنو امیہ نے یزید کو خط لکھ کر آگاہ کیا۔( ایضاً ۔ 4/1-254)۔ اس کے بعد یزید نے مسلم بن عقبہ کی سرکردگی میں ایک فوج مدینہ کی طرف بھیجی جس نے ایک مختصر سی لڑائی کے بعد اس بغاوت پر قابو پا لیا۔
سانحہ حرہ کے موقع پر اکابر صحابہ کا کردار کیا تھا؟
اس بغاوت کے موقع پر اکابر صحابہ نے اس سے علیحدگی اختیار کی اور اسے اچھی نظر سے نہ دیکھا۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں نقل ہوا ہے:
نافع بیان کرتے ہیں کہ جب اہل مدینہ (کے بعض لوگوں نے) یزید بن معاویہ کے خلاف بغاوت کی تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے ساتھیوں اور اولاد کو جمع کر کے فرمایا: "میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ‘قیامت کے دن ہر معاہدہ توڑنے والے کے لیے ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا۔’ ہم لوگ اللہ اور رسول کے نام پر اس شخص (یزید) کی بیعت کر چکے ہیں۔میں نہیں جانتا کہ اللہ اور رسول کے نام پر کی گئی بیعت کو توڑنے اور بغاوت کرنے سے بڑھ کر کوئی معاہدے کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ ہر ایسا شخص جو اس بیعت سے الگ ہو جائے اور اس معاملے (بغاوت) کا تابع ہو جائے، تو اس کے اور میرے درمیان علیحدگی ہے۔ ( بخاری، کتاب الفتن، حدیث 6694)
حضرت محمد بن علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں روایت ہے کہ واقعہ حرہ کے موقع پر عبداللہ بن مطعع اور ان کے ساتھی حضرت محمد بن علی رحمہ اللہ کے پاس گئے اور ان سے کہا:
"ہمارے ساتھ نکلیے کہ ہم یزید سے جنگ کریں۔‘‘ محمد بن علی نے ان سے کہا: ’’کس بات پر میں اس سے جنگ کروں اور اسے منصب خلافت سے ہٹاؤں؟‘‘ وہ بولے: ’’وہ کفر اور فسق و فجور میں مبتلا ہے، شراب پیتا ہے اور دین کے معاملے میں سرکشی کرتا ہے۔”
اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا: "کیا آپ لوگ اللہ سے نہیں ڈرتے۔ کیا آپ میں سے کسی نے اسے ایسا کرتے دیکھا ہے جو آپ ذکر کر رہے ہیں۔ میں اس کے پاس رہا ہوں اور میں نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔” وہ کہنے لگے: ’’اس نے آپ کو اپنے اعمال کی خبر نہ ہونے دی ہو گی۔‘‘ محمد بن علی نے فرمایا: ’’تو کیا اس نے آپ لوگوں کو خبر کر کے یہ برائیاں کی ہیں؟ اس صورت میں تو آپ بھی اس کے ساتھی رہے ہوں گے۔ اگر اس نے آپ کو نہیں بتایا تو پھر تو آپ لوگ بغیر علم کے گواہی دینے چل پڑے ہیں۔‘‘
ان لوگوں کو یہ خوف ہوا کہ محمد بن علی کے بیٹھ رہنے سے لوگ (بغاوت کے لیے اٹھنے پر) آمادہ نہ ہوں گے۔ انہوں نے ان کو پیشکش کی کہ اگر آپ ابن زبیر کی بیعت نہیں کرنا چاہتے تو ہم آپ کی بیعت کرنے کو تیار ہیں۔ ‘‘ انہوں نے فرمایا: ’’میں نہ تو لیڈر بن کر جنگ کرنا چاہتا ہوں اور نہ ہی پیروکار بن کر۔‘‘ وہ بولے: ’’آپ نے اپنے والد (علی) کے ساتھ مل کر بھی تو جنگ کی تھی؟‘‘ انہوں نے فرمایا: ’’آج کل کون میرے والد جیسا ہے؟‘‘
ان لوگوں نے جبر کر کے محمد بن علی کو نکالا اور ان کے مسلح بیٹے ان کے ساتھ تھے ۔ انہوں نے گلابی رنگ کی جوتی پہن رکھ تھی اور کہہ رہے تھے: ’’اے قوم! اللہ سے ڈرو اور خون مت بہاؤ۔ ‘‘ جب ان لوگوں نے دیکھا کہ آپ کسی لیڈری پر تیار نہیں ہیں تو انہیں چھوڑ دیا۔ ( بلاذری۔ انساب الاشراف۔ 3/471۔ باب محمد بن حنفیہ)۔
حضرت زین العابدین بن حسین رضی اللہ عنہما نے نہ صرف بغاوت سے علیحدگی اختیار کی بلکہ بنو امیہ کی مدد بھی کی۔ طبری کی روایت یہ ہے:
قال عبد الملك بن نوفل: حدثني حبيب: بنو امیہ جب شام کی طرف روانہ ہوئے تو مروان بن حکم کی اہلیہ عائشہ بنت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما نے مروان کے تمام ساز و سامان کے ساتھ علی بن حسین رضی اللہ عنہما کے یہاں آ کر پناہ لی تھی۔
وقد حدثت عن محمد بن سعد، عن محمد بن عمر، قال: بنو امیہ مدینہ سے نکالے گئے تو مروان نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: "میرے اہل و عیال کو آپ اپنے پاس چھپا لیجیے۔” انہوں نے (کسی وجہ سے) منع کر دیا۔ علی بن حسین رضی اللہ عنہما سے مروان نے کہا: "میں آپ کا رشتے دار ہوں۔ میرے اہل بیت کو اپنے اہل بیت کے ساتھ رکھ لیجیے۔” تو انہوں نے اسے منظور کر لیا۔ مروان نے اپنے اہل و عیال کو علی بن حسین کے گھر بھیج دیا۔ یہ ان لوگوں کو اپنے اہل و عیال کے ساتھ لے کر ینبوع چلے آئے اور وہیں سب کو رکھا۔ مروان ان کا شکر گزار تھا اور ان دونوں میں بہت پرانی محبت تھی۔
علی بن حسین کی کچھ زمین مدینہ کے قریب تھی اور (بغاوت کے وقت) وہ شہر سے نکل کر یہیں گوشہ نشین ہو گئے تھے تاکہ وہاں کے کسی معاملے میں شریک نہ ہوں۔ عائشہ (مروان کی اہلیہ جو ان کے گھر پناہ گزین تھیں) جب طائف جانے لگیں تو آپ نے کہا: "میرے بیٹے عبداللہ کو اپنے ساتھ طائف لیتی جائیے۔ ” عائشہ اپنے ساتھ عبداللہ کو طائف لے آئیں اور اپنے ہی پاس اس وقت تک رکھا جب تک کہ اہل مدینہ کا معاملہ ٹھنڈا نہ پڑ گیا۔( طبری۔ 4/1-256)
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مروان کی جانب سے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کی روایات بھی جعلی ہیں ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مروان تو حضرت علی کو معاذ اللہ گالیاں دیتے ہوں اور ان کے پوتے حضرت زین العابدین رحمہ اللہ، کی مروان سے پرانی محبت چلی آ رہی ہو اور وہ بنو امیہ کی اس درجے میں مدد کریں؟
کیا مدینہ منورہ کو تین دن کے لیے مباح کیا گیا؟
طبری میں واقعہ حرہ کی تمام تر روایات ابو مخنف اور ہشام کلبی کی روایت کردہ ہیں جن کا بنو امیہ سے بغض اور تعصب مشہور ہے۔ اس وجہ سے ان کی بیان کردہ ان تفصیلات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے کہ جن میں انہوں نے ظلم کو بنو امیہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ یہ لوگ بیان کرتے ہیں کہ بغاوت پر قابو پا لینے کے بعد مدینہ منورہ کو تین دن تک کے لیے مباح کر دیا گیا، شہریوں کا مال لوٹا گیا اور لوگوں کو بے جا قتل کیا گیا۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ پھر اس کا بیان کرنے والا اکیلا ابو مخنف نہ ہوتا بلکہ اور بھی بہت سے لوگ اسے بیان کر رہے ہوتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تفصیلات بھی بنو امیہ کے خلاف اس پراپیگنڈے کا حصہ تھیں جو ان کی حکومت کو گرانے کے لیے کیا گیا۔ ممکن ہے کہ سرکاری فوجوں نے کچھ زیادتیاں کی ہوں لیکن اس بارے میں یقین کے ساتھ کوئی بات نہیں کہی جا سکتی ہے کیونکہ ان روایات کا راوی صرف ایک ہی شخص ہے اور وہ ناقابل اعتماد ہے۔
رہی یہ بات کہ تین دن کے لیے مدینہ شہر میں فوجیوں نے ہزاروں خواتین کو ریپ کیا اور اس کے نتیجے میں ایک ہزار خواتین حاملہ ہوئیں، ایسی بے بنیاد بات ہے کہ ابو مخنف کو بھی اس کا خیال نہیں آیا۔ اگر اس میں کچھ بھی حقیقت ہوتی، تو جہاں ابو مخنف نے ڈھیروں دوسری روایتیں وضع کی ہیں، وہاں اس کو وہ کیسے چھوڑ دیتا؟ پھر اگر یہ واقعہ ہوا ہوتا تو ہر ہر شہر میں یزید کے خلاف بغاوت اٹھتی جاتی۔ عربوں کے بارے میں تو دور جاہلیت میں بھی یہ گمان مشکل ہے کہ ان کی خواتین پر کوئی ہاتھ ڈالے تو وہ خاموشی سے دیکھتے رہیں کجا یہ کہ دور اسلام میں ایسا ہو او رسب لوگ تماشا دیکھتے رہیں۔ کیا ان سب نے چوڑیاں پہن رکھی تھیں یا ان کی غیرت گھاس چرنے چلی گئی تھی؟
ان باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور ابو مخنف نے بھی انہیں بیان نہیں کیا ہے۔ یہ روایت ابن کثیر (701-774/1301-1372)نے مدائنی (135-225/752-840)کے حوالے سے البدایہ و النہایہ میں درج کی ہے اور ساتھ واللہ اعلم لکھ کر اس واقعے سے متعلق شک کا اظہار کیا ہے۔ مدائنی نے بھی اس کی سند یہ بیان کی ہے: قال المدائني عن أبي قرة قال۔ اب معلوم نہیں کہ یہ ابو قرۃ کون صاحب ہیں اور کس درجے میں قابل اعتماد ہیں۔ اور وہ خود واقعہ حرہ کے ساٹھ سال بعد پیدا ہوئے۔ وہ واقعے کے عینی شاہد نہیں تھے۔ اگر یہ خواتین اس طرح ریپ ہوئی ہوتیں اور اس کے نتیجے میں ایک ہزار ولد الحرام پیدا ہوئے ہوتے تو انساب کی کتابوں میں تو اس کا ذکر ملتا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے باپ کا نام معلوم نہیں ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔ ابن کثیر نے بھی اس روایت کو محض نقل کیا ہے اور اس پر اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔
مکہ مکرمہ پر حملہ
مکہ مکرمہ پر حملہ کیسے ہوا؟

مکہ مکرمہ میں اس وقت حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما موجود تھے جنہوں نے یزید کی بیعت نہ کی تھی مگرا نہوں نے اپنی خلافت کا اعلان بھی نہ کیا تھا۔ مدینہ منورہ سے فارغ ہو کر مسلم بن عقبہ کا یہ لشکر مکہ مکرمہ کی طرف بڑھا۔ اس وقت تک 64/684 کا آغاز ہو چکا تھا۔ راستے میں مسلم کے مرنے کے بعد حصین بن نمیر اس لشکر کا سربراہ بنا۔ اس لشکر نے آ کر مکہ مکرمہ کا محاصرہ کر لیا جو کہ 40 یا بروایت دیگر 64 دن جاری رہا۔ فریقین کے درمیان کچھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔ اس زمانے میں خانہ کعبہ کا غلاف جل گیا۔ اس معاملے میں طبری نے دو متضاد روایتیں نقل کی ہیں:
• ایک روایت کے مطابق سرکاری فوج نے منجنیق سے خانہ کعبہ پر پتھر پھینکے جس سے اس کا غلاف جل گیا۔ یہ ہشام کلبی کی روایت ہے۔
• دوسری روایت کے مطابق لوگ آگ رات کو آگ جلاتے تھے۔ اس کی کچھ چنگاریاں ہوا سے اڑ کر خانہ کعبہ پر پڑیں جس سے اس کا غلاف جل گیا۔ یہ روایت محمد بن عمر الواقدی نے بیان کی ہے۔
ان دونوں مورخین کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ دونوں جھوٹی روایتیں بیان کرتے ہیں۔ اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے کہ حقیقت کیا تھی؟
ربیع الاول 64/684 میں محاصرہ ابھی جاری تھا کہ یزید کے مرنے کی اطلاع مکہ پہنچی۔ یہ سن کر جنگ بندی ہو گئی اور سرکاری فوج کے کمانڈر حصین بن نمیر نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے ملاقا ت کی۔ ہشام کلبی نے اس واقعے کو یوں بیان کیا ہے:
وأما عوانة بن الحكم فإنه قال – فيما ذكر هشام، عنه: ابن نمیر نے یہ سن کر ابن زبیر رضی اللہ عنہما کو کہلا بھیجا کہ آج رات مجھ سے مقام ابطح میں ملیے۔ دونوں اکٹھے ہوئے تو حصین بن نمیر نے کہا: "اگر یزید فوت ہو گیا ہے تو آپ سے زیادہ کوئی خلافت کا حق دار نہیں ہے۔ آئیے! ہم آپ کی بیعت کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد آپ میرے ساتھ چلیے۔ یہ لشکر جو میرے ساتھ ہے، اس میں شام کے تمام رؤساء اور سردار شامل ہیں۔ واللہ! دو افراد بھی آپ کی بیعت سے انکار نہیں کریں گے۔ شرط یہ ہے کہ آپ سب کو امان دے کر مطمئن کر دیجیے۔ ہمارے اور آپ کے درمیان اور ہمارے اور اہل حرہ کے درمیان جو خونریزی ہوئی ہے، اس سے چشم پوشی کیجیے۔
ہشام کلبی کے بیان کے مطابق حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اس آفر کو ٹھکرا دیا اور کہا: "اگر میں ایک ایک شخص کے بدلے دس دس آدمیوں کو قتل کروں ، تب بھی مجھے چین نہ آئے گا۔”( ایضاً ۔ 4/1-267)۔ چونکہ ہشام کلبی صحابہ کرام بالخصوص حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی اولاد کے بارے میں متعصب مورخ ہیں، اس وجہ سے ان کی اس بات کو قبول نہیں کیا جا سکتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر کے بارے میں یہ جملہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ آپ ایک آدمی کے عوض دس افراد کے قتل کو جائز سمجھتے ہوں گے۔
ہشام کلبی کے بیان کے مطابق حصین بن نمیر نے مکہ کا محاصرہ اٹھا دیا اور فوج شام کی طرف واپس چلی گئی۔ جب یہ مدینہ پہنچی تو اس کی ملاقات حضرت زین العابدین رحمہ اللہ سے ہوئی۔ ابن نمیر کے گھوڑے بھوکے تھے اور اس کے پاس چارہ ختم ہو گیا تھا۔ حضرت زین العابدین رحمہ اللہ نے اس کے گھوڑوں کو چارہ فراہم کیا۔ ( ایضاً ۔ 4/1-268)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے جلیل القدر والد کی شہادت کا ذمہ دار حکومت اور بنو امیہ کو نہ سمجھتے تھے بلکہ کربلا کو محض ایک سانحہ اور حادثہ سمجھتے تھے۔ اگر آپ کی رائے مختلف ہوتی تو کم از کم آپ سرکاری افواج سے اتنا تعاون نہ کرتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور کے مسلمانوں میں جو بھی اختلافات تھے، وہ محض سیاسی تھے اور دینی اعتبار سے ان میں کوئی ایسا اختلاف نہ تھا ، جس کی بنیاد پر ایک فریق کو کافر قرار دیا جائے۔
یزید کے دور میں یہ تین سانحات کیونکر پیش آئے؟
یزید کے دور کے ان تینوں سانحات کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ اس کی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے پیش آئے۔ اسے چاہیے تھا کہ مذاکرات کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتا۔ اگر وہ حکومت سنبھالنے کے بعد مدینہ اور مکہ کا سفر کرتا اور یہاں خود حضرت حسین، عبداللہ بن زبیر اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے مل کر ان سے براہ راست معاملات طے کر لیتا تو شاید یہ تینوں سانحے وقوع پذیر نہ ہوتے۔ ان حضرات کے بارے میں یہ بدگمانی درست نہیں ہے کہ یہ حکومت کے طالب تھے اور اس کے لیے مسلمانوں میں افتراق و انتشار کو جائز سمجھتے تھے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ تو براہ راست شام جا کر یزید سے بیعت کے لیے تیار تھے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بھی اس کی بات چیت ہو جاتی، یزید ان کے مطالبات مان لیتا اور جن امور کی وہ اصلاح چاہتے تھے، ان پر عمل کر لیتا تو معاملہ اتنا نہ بڑھتا۔
افسوس کہ یزید نے اپنے جلیل القدر والد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے حلم اور تدبر کا مظاہرہ نہ کیا اور ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کر دیا۔ پہلے ابن زیاد کی افواج نے طاقت کا بے جا استعمال کر کے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا اور یزید نے اس کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی۔ اس کے بعد مدینہ کے کچھ لوگوں کی بغاوت کو کچلنے کے لیے سرکاری فوج نے ضرورت سے زیادہ طاقت استعمال کی اور پھر مکہ مکرمہ پر حملہ کر کے حکومت کی رہی سہی ساکھ بھی ختم کر دی۔ 64/684یزید کے مرتے ہی خانہ جنگیوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا جو کہ اگلے نو برس جاری رہا۔
یزید کے بارے میں کیا رائے رکھنی چاہیے؟
اس معاملے میں مسلمانوں کے ہاں تین نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں:
1۔ عام طور پر یزید کو سانحہ کربلا، سانحہ حرہ اور مکہ مکرمہ پر حملے کا مجرم قرار دے کر اس پر لعن طعن کی جاتی ہے۔ بعض لوگ اسے اسلام دشمن ، کافر ، منافق، فاسق و فاجر کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ ہمارے دور میں بہت سے لوگوں کا یہی موقف ہے۔ یہ حضرات بالعموم تمام تاریخی روایتوں کو من و عن قبول کر کے یزید پر لعنت کرتے ہیں۔ اس نقطہ نظر پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسا ہی تھا تو پھر یزید کے دور میں موجود جلیل القدر صحابہ خاص کر ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم نے اس کے خلاف کوئی تحریک پیدا کیوں نہیں کی اور ان حضرات نے حضرات حسین اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم کا ساتھ کیوں نہیں دیا؟
2۔ ایک اقلیتی گروہ کا موقف یہ ہے کہ یزید ایک جلیل القدر تابعی تھا۔ وہ اس کے نام کے ساتھ "رحمۃ اللہ علیہ” بلکہ بعض اوقات "رضی اللہ عنہ” بھی لگا دیتے ہیں۔ یہ حضرات سانحہ کربلا، حرہ اور مکہ کی ایسی توجیہ کرتے ہیں جس سے قصور سراسر حضرت حسین اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کا نکلتا ہے۔ اگر اس نقطہ نظر کو درست مان لیا جائے تو پھر حضرت حسین اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر بزرگوں پر تہمت کا دروازہ کھلتا ہے۔
3۔ ایک تیسرا موقف یہ ہے کہ یزید کے بارے میں خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔ اس نقطہ نظر کے حاملین کا کہنا یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایسا پیمانہ موجود نہیں ہے جس سے اس بات کا ٹھیک ٹھیک تعین کیا جا سکے کہ ان تینوں سانحات میں یزید یا کسی اور شخص کا قصور کتنا تھا؟ تینوں سانحات سے متعلق جو تاریخی روایتیں ہمیں ملتی ہیں، وہ ابو مخنف ، ہشام کلبی اور واقدی کی روایت کردہ ہیں۔ ابو مخنف اور کلبی کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ لوگ بنو امیہ کے دشمن تھے اور ان سے شدید تعصب رکھتے تھے۔ دوسری طرف واقدی پر بھی کذاب ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اس وجہ سےہم قطعی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ان واقعات کی اصل شکل کیا تھی اور اس میں کس شخص کا قصور کتنا تھا؟ ہونا یہ چاہیے کہ ہم اس معاملے میں خاموشی اختیار کریں اور اس معاملے کو اللہ تعالی پر چھوڑ دیں۔
اس تیسرے نقطہ نظر کی نمائندگی کرتے ہوئے امام غزالی (d. 505/1111) کہتے ہیں:
جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ یزید نے قتل حسین کا حکم دیا تھا یا اس پر رضا مندی کا اظہار کیا تھا، تو جاننا چاہیے کہ وہ شخص پرلے درجے کا احمق ہے۔ اکابر و وزراء اور سلاطین میں سے جو جو اپنے اپنے زمانہ میں قتل ہوئے، اگر کوئی شخص ان کی یہ حقیقت معلوم کرنا چاہے کہ قتل کا حکم کس نے دیا تھا، کون اس پر راضی تھا اور کس نے اسے ناپسند کیا، تو اس پر قادر نہ ہو گا کہ اس کی تہہ تک پہنچ سکے خواہ یہ قتل اس کے پڑوس میں اور اس کے زمانے اور موجودگی میں ہی کیوں نہ ہوا ہو۔ پھر تو اس واقعہ تک کیسے رسائی ہو سکتی ہے جو دور دراز شہروں اور قدیم زمانہ میں گزرا ہو۔ پس کیسے اس واقعے کی حقیقت کا پتہ چل سکتا ہے جس میں چار سو برس (اب ساڑھے تیرہ سو برس) کی طویل مدت حائل ہو اور مقام بھی بعید ہو۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اس بارے میں شدید تعصب کی راہ اختیار کی گئی ہے، اسی وجہ سے اس واقعہ کے بارے میں مختلف گروہوں کی طرف سے بکثرت روایتیں مروی ہیں۔ پس یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی حقیقت کا ہرگز پتہ نہیں چل سکتا اور جب حقیقت تعصب کے پردوں میں روپوش ہے تو پھر ہر مسلمان کے ساتھ حسن ظن رکھنا واجب ہے، جہاں حسن ظن کے قرائن ممکن ہوں۔( شمس الدین ابن طولون(880-953/1475-1546)۔ قید الشرید من اخبار الیزید۔ 47۔ http://www.archive.org/details/qsmay (ac. 13 Aug 2012)۔ مزید دیکھیے: غزالی، احیاء العلوم الدین (اردو ترجمہ: ندیم الواجدی)۔ 3/199۔ کراچی: دار الاشاعت۔)
امام غزالی کے یہ دلائل اس درجے میں مضبوط ہیں کہ ہمیں ہر تاریخی شخصیت کے بارے میں یہی رویہ رکھنا چاہیے۔ تاریخ کی کتب میں جو کچھ لکھا ہو، وہ ہم پڑھیں اور بیان کریں تو ساتھ ہی یہ وضاحت بھی ضرور کر دیں کہ حقیقت کا علم اللہ تعالی ہی کو ہے اور ہم تمام سابقہ لوگوں کے بارے میں حسن ظن کا رویہ رکھتے ہیں۔ اس کتاب میں بھی ہم نے یہی کوشش کی ہے۔ جن لوگوں کے نام قاتلین عثمان میں آتے ہیں یا قاتلین حسین، ان کا تذکرہ کرتے وقت ہم نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ یہ باتیں تاریخی روایات ہی سے ملتی ہیں جن کی صحت مشکوک ہے۔ ہاں نام لیے بغیر اجمالی طور پر قاتلین عثمان اور قاتلین حسین کی مذمت کی جا سکتی ہے۔
جب یکساں درجے کی منفی اور مثبت تاریخی روایات موجود ہوں تو پھر ایک مثبت ذہنیت کے حامل شخص سے یہی توقع ہونی چاہیے کہ وہ مثبت پہلوؤں ہی پر توجہ دے۔ منفی پہلوؤں پر سوچنے سے دنیا میں سوائے فرسٹریشن اور آخرت میں سوائے مواخذہ کے کچھ حاصل نہ ہو گا۔اللہ تعالی ہم سے آخرت میں ہمارے ہی اعمال سے متعلق سوال کریں گے اور کسی بھی تاریخی شخصیت کے اعمال کا حساب ہم سے نہ لیا جائے گا۔ حسن ظن اور بدگمانی، مثبت ذہنیت یا منفی رویہ ہمارا اپنا عمل ہے، جس کے لیے ہم اللہ تعالی کے حضور جواب دہ ہوں گے۔
واللہ العلم​
 
Top