• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یسوبئوس المتوفی ٣٤٠ ع ، قبریں اور مساجد

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
یسوبئوس المتوفی ٣٤٠ ع ، قبریں اور مساجد

سن ٣٢٥ بعد مسیح کی بات ہے قیصر روم کونستینٹین کی والدہ فلاویہ اولیا ہیلینا آگسٹا نے عیسائی مبلغ یسوبئوس کو طلب کیا اور نصرانی دھرم کی حقانیت جاننے کے لئے شواہد طلب کیے-

کونستینٹین نے اپنی والدہ کو نصرانی دھرم سے متعلق آثار جمع کرنے پر مقرر کیا یا بالفاظ دیگر ان کو آرکیالوجی کی وزارت کا قلمدان دیا گیا اور اس سب کام میں اس قدر جلدی کی وجہ یہ تھی کہ مملکت کے حکمران طبقہ نے متھرا دھرم چھوڑ کر نصرانی دھرم قبول کر لیا تھا اور اب اس کو عوام میں بھی استوار کرنا تھا لہذا راتوں رات

روم میں بیچ شہر میں موجود جوپیٹر یا مشتری کے مندر کو ایک عیسائی عبادت گاہ میں تبدیل کیا گیا اس کے علاوہ یہی کام دیگر اہم شہروں یعنی دمشق اور یروشلم میں بھی کرنے تھے لیکن ایک مشکل درپیش تھی کہ کن کن مندروں اور مقامات کو گرجا گھروں میں تبدیل کیا جائے اسی کام کو کرنے کا کونستینٹین کی والدہ ہیلینا نے بیڑا اٹھا لیا اور عیسائی مبلغ یسوبئوس کو ایک مختصر مدت میں ساری مملکت میں اس قسم کے آثار جمع کرنے کا حکم دیا

عیسائی مبلغ یسوبئوس نے نصرانیت کی تاریخ پر کتاب بھی لکھی اور بتایا کہ ہیلینا کس قدر مذہبی تھیں – یہ یسوبئوس ہی تھے جنہوں نے کونستینٹین کے سامنے نصرانیوں کا عیسیٰ کی الوہیت پر اختلاف پیش کیا اور سن ٣٢٥ ب م میں بادشاہ نے فریقین کا مدعا سننے کے بعد تثلیث کے عقیدے کا پسند کیا اور اس کو نصرانی دھرم قرار دیا گیا واضح رہے کہ کونستینٹین ابھی ایک کافر بت پرست ہی تھا کہ اس کی سربراہی میں نصرانی دھرم کا یہ اہم فیصلہ کیا گیا کچھ عرصہ بعد بادشاہ کونستینٹین نے خود بھی اس مذھب کو قبول کیا

بحر الحال، یسوبئوس نے راتوں رات کافی کچھ برآمد کر ڈالا جن میں انبیاء کی قبریں، عیسیٰ کی پیدائش اور تدفین کا مقام ،اصلی صلیب، یحیی علیہ السلام کے سر کا مقام، کوہ طور، بھڑکتا شجر جو موسی کا دکھایا گیا اور عیسیٰ کے ٹوکرے جن میں مچھلیوں والا معجزہ ہوا تھا وغیرہ شامل تھے – یہودی جو فارس یا بابل میں تھے وہ بھی بعض انبیاء سے منسوب قبروں کو پوجتے تھے جو عسائیوں کے نزدیک ثابت نہیں تھیں مثلا دانیال کی قبر وغیرہ- ان مقامات کو فورا مقدس قرار دیا گیا اور یروشلم واپس دنیا کا ایک اہم تفریحی اور مذہبی مقام بن گیا جہاں ایک میوزیم کی طرح تمام اہم چیزیں لوگوں کو دین مسیحیت کی حقانیت کی طرح بلاتی تھیں

یسوبئوس سے قبل ان مقامات کوکوئی جانتا تک نہیں تھا اور نہ ہی کوئی تاریخی شواہد اس پر تھے اور نہ ہی یہودی اور عیسائیوں میں یہ مشھور تھے- مسلمان آج اپنی تفسیروں ،میگزین اور فلموں میں انہی مقامات کو دکھاتے ہیں جو در حققت یسوبئوس کی دریافت تھے

اسی نام نہاد اصلی صلیب کو فارس والے ایک لڑائی میں روم والوں سے مال غنیمت میں لے گئے اور پھر ان میں ایک معاہدہ کے بعد اس کو واپس کیا گیا یہ سب نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں ہوا

سن ١٧ ہجری میں مسلمان ان علاقوں میں داخل ہوئے اور ان مذہبی مقامات کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا – خلیفہ عبد الملک بن مروان کے دور میں ان میں سے بعض مقامات کو مسجد قرار دیا گیا مثلا جامع الاموی دمشق جس میں مشھور تھا کہ اس میں یحیی علیہ السلام کا سر دفن ہے اس سے قبل اس مقام پر الحداد کا مندر تھا پھر مشتری کا مندر بنا اور جس کو یسوبئوس کی دریافت پر یحیی علیہ السلام کے سر کا مدفن کہا گیا-



مسجد الدمشق میں یحیی علیہ السلام سے منسوب مقام

اسی طرح وقت کے ساتھ مسلمانوں نے ان مقامات پر قبضہ کرنا شروع کیا جو بنیادی طور پر یسوبئوس کی دریافت تھے اور وہی قبریں جن سے دور رہنے کا فرمان نبوی تھا ان کو اس امت میں واپس آباد کیا گیا- عبد الملک بن مروان نے کافی تعمیراتی کام کروایے لیکن ان سب کو اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد کیا گیا – اگر ان کے سامنے یہ سب ہوتا تو وہ اس کو پسند نہ کرتے

مسلمانوں نے بھی اپنے شہروں کا ٹورزم بڑھانے کے لئے کافی مقامات دریافت کر ڈالے

مثلا تاریخ بیت المقدس نامی کتاب میں جو ابن جوزی تصنیف ہے اس میں مصنف نے بتایا ہے یہاں کس کس کی قبر ہے جو روایت بلا سند کے مطابق جبریل علیہ السلام نے بتایا

هذا قبر أبراهيم، هذا قبر سارة، هذا قبر إسحاق، هذا قبر ربعة، هذا قبر يعقوب، هذا قبر زوجته


انہی قبروں کو یہود و نصاری نے آباد کر رکھا تھا جن پر کوئی دلیل نہیں تھی کہ یہ انہی کی قبریں ہیں اب مسلمانوں نے ان کو آباد کر رکھا ہے


لنک

file:///C:/Users/Zoni/Downloads/%D8%AA%D8%A7%D8%B1%D9%8A%D8%AE_%D8%A8%D9%8A%D8%AA_%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%82%D8%AF%D8%B3.pdf

ابن عساکر تاریخ الدمشق ج ٢ ص ٣١٥ میں لکھتے ہیں

مسجد مغارة الدم مسجد الدير الذي كان لرهبان النصارى فجعل مسجدا


مسجد مغارة الدم مسجد دیر عیسائی راہبوں کا مسکن تھے جن کو مسجد بنایا گیا



یہ مقام جبل قاسيون دمشق میں ہے اور ہابیل علیہ السلام سے منسوب تھا اور بعض کے نزدیک عزیر سے

جو مقامات یسوبئوس نے کھوجے تھے ان کو بغیر تحقیق کے قبول کر لیا گیا جبکہ نہ کوئی حدیث تھی نہ حکم رسول

حوالہ
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
کتاب البداية والنهاية از ابن کثیر کے مطابق

بِجَبَلِ قَاسِيُونَ شَمَالِيَّ دِمَشْقَ مَغَارَةٌ يُقَالُ لَهَا مَغَارَةُ الدَّمِ مَشْهُورَةٌ بِأَنَّهَا الْمَكَانُ الَّذِي قَتَلَ قَابِيلُ أَخَاهُ هَابِيلَ عِنْدَهَا وَذَلِكَ مِمَّا تَلَقَّوْهُ عَنْ أَهْلِ الْكِتَابِ فَاللَّهُ أَعْلَمُ بِصِحَّةِ ذَلِكَ.


جبل قاسیون شمال دمشق میں ایک غار ہے جس کو کہا جاتا ہے جو اس مکان کے طور پر مشھور ہے اس میں قابیل نے ہابیل کا قتل کیا تھا اور ایسا اہل کتاب میں قبول چلا آ رہا ہے اور الله ہی اس بات کی صحت جانتا ہے


ابن کثیر مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ قدامة کے لئے البداية والنهاية میں لکھتے ہیں کہ ہر پیر اور جمعرات کو وہ اس مقام پر جاتے

وَكَانَ يَزُورُ مَغَارَةَ الدَّمِ فِي كُلِّ يَوْمِ اثنين وخميس


جو مقامات یسوبئوس نے کھوجے تھے ان کو بغیر تحقیق کے قبول کر لیا گیا جبکہ نہ کوئی حدیث تھی نہ حکم رسول

عبد الله بن احمد کتاب العلل ومعرفة الرجال میں اپنے باپ امام احمد کی رائے پیش کرتے ہیں

سَأَلته عَن الرجل يمس مِنْبَر النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ويتبرك بمسه ويقبله وَيفْعل بالقبر مثل ذَلِك أَو نَحْو هَذَا يُرِيد بذلك التَّقَرُّب إِلَى الله جلّ وَعز فَقَالَ لَا بَأْس بذلك


میں نے باپ سے سوال کیا اس شخص کے بارے میں جو رسول الله کا منبر چھوئے اور اس سے تبرک حاصل کرے

اور اس کو چومے اور ایسا ہی قبر سے کرے اور اس سے الله کا تقرب حاصل کرے پس انہوں نے کہا اس میں کوئی برائی نہیں


الغرض بعض علماء کے نزدیک تبرک حاصل کرنا اور قبر کا ہونا اس بات کے لئے کافی تھا کہ اس سے الله کا قرب حاصل ہو، لیکن اس رائے کی دلیل پیش نہیں کی گئی
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
کتابالقراءة عند القبوراز أبو بكر أحمد بن محمد بن هارون بن يزيد الخَلَّال البغدادي الحنبلي (المتوفى: 311هـ) کے مطابق

وَأَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ الْوَرَّاقُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ مُوسَى الْحَدَّادُ، وَكَانَ صَدُوقًا، وَكَانَ ابْنُ حَمَّادٍ الْمُقْرِئُ يُرْشِدُ إِلَيْهِ، فَأَخْبَرَنِي قَالَ: ” كُنْتُ مَعَ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، وَمُحَمَّدِ بْنِ قُدَامَةَ الْجَوْهَرِيِّ فِي جِنَازَةٍ، فَلَمَّا دُفِنَ الْمَيِّتُ جَلَسَ رَجُلٌ ضَرِيرٌ يَقْرَأُ عِنْدَ الْقَبْرِ، فَقَالَ لَهُ أَحْمَدُ: يَا هَذَا، ” إِنَّ الْقِرَاءَةَ عِنْدَ الْقَبْرِ بِدْعَةٌ فَلَمَّا خَرَجْنَا مِنَ الْمَقَابِرِ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ لِأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، مَا تَقُولُ فِي مُبَشِّرٍ الْحَلَبِيِّ؟ قَالَ: ثِقَةٌ، قَالَ: كَتَبْتَ عَنْهُ شَيْئًا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَخْبَرَنِي مُبَشِّرٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْعَلَاءِ بْنِ اللَّجْلَاجِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ أَوْصَى إِذَا دُفِنَ أَنْ يُقْرَأَ عِنْدَ رَأْسِهِ بِفَاتِحَةِ الْبَقَرَةِ وَخَاتِمَتِهَا، وَقَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يُوصِي بِذَلِكَ. فَقَالَ لَهُ أَحْمَدُ: فَارْجِعْ، فَقُلْ لِلرَّجُلِ يَقْرَأْ


الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ الْوَرَّاقُ نے خبر دی کہا مجھ کو عَلِيُّ بْنُ مُوسَى الْحَدَّادُ نے خبر دی … کہ میں احمد بن حنبل اور محمد بْنِ قُدَامَةَ الْجَوْهَرِيِّ ایک جنازہ میں تھے پس جب میت دفن کی تو ایک اندھے شخص نے قبر پر قرات شروع کی پس امام احمد نے کہا یہ کیا بے شک قبر پر قرات بدعت ہے پس جب ہم قبرستان سے نکلنے لگے تو مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ نے احمد سے کہا اے ابو عبد الله اپ کی مُبَشِّرٍ الْحَلَبِيِّ کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ انہوں نے کہا ثقہ ہے میں نے پوچھا اپ نے اس سے لکھا کہا ہاں میں نے کہا کہ مجھے مُبَشِّرٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْعَلَاءِ بْنِ اللَّجْلَاجِ، نے اپنے باپ سے خبر دی کہ انہوں نے وصیت کی کہ جب دفن کرو تو سوره البقرہ کا شروع اور آخر پڑھو اور کہا میں نے ابن عمر سے سنا انہوں نے بھی اسی طرح کی وصیت کی- پس احمد نے ان سے کہا آؤ واپس چلیں اور اس شخص سے کہیں کہ پڑھے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
کتاب فضائل الشام ودمشق از ابن أبي الهول (المتوفى: 444هـ) کے مطابق

قال هشام: سمعت الوليد بن مسلم يقول سمعت سعيد بن عبد العزيز يقول صعدنا في خلافة هشام بن عبد الملك إلى موضع دم ابن آدم نسأل الله سقيا فأتانا فأقمنا في المغارة ستة أيام


هشام بن عمار کہتے ہیں میں سے ولید بن مسلم کو سنا کہ انہوں نے سعید بن عبد العزیز کو سنا کہ ہم هشام بن عبد الملك کی خلافت میں ابن آدم کے قتل کے مقام پر گئے اور الله سے بارش کی دعا کی اور وہاں چھ دن رہے


اسی کتاب میں ہے

وأخبرنا تمام قال: حدثنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ المعلى حدثنا القاسم بن عثمان قال: سمعت الوليد بن مسلم وسأله رجل يا أبا العباس أين بلغك رأس يحيى بن زكريا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بلغني أنه ثم وأشار بيده إلى العمود المسفط الرابع من الركن الشرقي.


ولید بن مسلم نے ایک شخص کے سوال پر کہ یحیی کا سر کہاں ہے کہا کہ مجھ تک پہنچا پھر ہاتھ سے چوتھے ستون کی طرف رکن شرقی کی طرف اشارہ کیا کہ وہاں ہے


یکایک یہ دریافتیں شاید دمشق کی اہمیت بڑھانے کے لئے تھیں کہ امت دمشق کو بھی مقدس سمجھے اور وہاں جا کر ان

مقامات کو دیکھے، جبکہ بخاری و مسلم میں انبیاء کی ان نام نہاد قبروں کا وجود و خبر نہیں
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
ابن بطوطہ المتوفی ٧٧٩ ھ کتاب تحفة النظار في غرائب الأمصار وعجائب الأسفار میں لکھتے ہیں

وفي وسط المسجد قبر زكرياء عليه السلام ، وعليه تابوت معترض بين أسطوانتين مكسو بثوب حرير أسود معلّم فيه مكتوب بالأبيض:” يا زكرياء إنا نبشرك بغلام اسمه يحيى «


اور مسجد کے وسط میں زکریا علیہ السلام کی قبر ہے اور تابوت ہے دو ستونوں کے درمیان جس پر کالا ریشمی کپڑا ہے

اور اس پر لکھا ہے سفید رنگ میں یا زكرياء إنا نبشرك بغلام اسمه يحيى


کبھی اس کو یحیی کی قبر کہا جاتا ہے کہیں اس کو زکریا کی قبر کہا جاتا ہے بعض کتابوں میں اس کو هود علیہ السلام کی قبر

بھی کہا گیا ہے

کتاب فضائل الشام ودمشق از ابن أبي الهول (المتوفى: 444هـ) کے مطابق

أخبرنا عبد الرحمن بن عمر حدثنا الحسن بن حبيب حدثنا أحمد بن المعلى حدثنا أبو التقي الحمصي حدثنا الوليد بن مسلم قال لما أمر الوليد بن عبد الملك ببناء مسجد دمشق كان سليمان بن عبد الملك هو القيم عليه مع الصناع فوجدوا في حائط المسجد القبلي لوح من حجر فيه كتاب نقش فأتوا به الوليد بن عبد الملك فبعث به إلى الروم فلم يستخرجوه ثم بعث به إلى العبرانيين فلم يستخرجوه ثم بعث به إلى من كان بدمشق من بقية الأشبان فلم يقدر أحد على أن يستخرجه فدلوه على وهب بن منبه فبعث إليه فلما قدم عليه أخبروه بموضع ذلك الحجر الذي وجدوه في ذلك الحائط ويقال إن ذلك الحائط من بناء هود النبي عليه السلام وفيه قبره


ولید بن مسلم کہتے ہیں کہ جب ولید بن عبد الملک نے مسجد دمشق بنانے کا ارادہ کیا تو سلیمان بن عبد الملک اس پر مقرر کیا

جو کاریگروں کا کام دیکھتے تھے اور ان کو ایک لوح ملی مسجد کے صحن سے پتھر کی جس پر نقش تھے اور اس کو ولید

بن عبد الملک کو دکھایا گیا جس نے اس کو روم بھجوایا ان سے بھی حل نہ ہوا پھر یہودیوں کو دکھایا ان سے بھی حل نہ ہوا

پھر دمشق کے بقیہ افراد کو دکھایا اور کوئی بھی اس کے حل پر قادر نہ ہوا پس اس کو وھب بن منبہ پر پیش کیا انہوں نے کہا کہ یہ دیوار هود کے دور کی ہے اور یہاں صحن میں ان کی قبر ہے


افسوس امت کو کسی نہ کسی قبر کی تلاش رہی

الغرض صحابہ رضوان الله علیھم اجمعین اس مقام کو گرجا کے طور پر ہی جانتے تھے اور ایسی مسجد جس میں جمعہ ہو

کے لئے یہ جگہ معروف نہ تھی

منار بنانا ایک عیسائی روایت تھی جس میں راہب اس کے اوپر بیٹھتے اور عبادت کرتے اور باقی لوگوں کو اوپر انے کی اجازت نہیں ہوتی تھی کتاب أخبار وحكايات لأبي الحسن الغساني از محمد بن الفيض بن محمد بن الفياض أبو الحسن ويقال أبو الفيض الغساني (المتوفى: 315هـ) کی ایک مقطوع روایت ہے

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ هِشَامِ بن يحيى الغساني قَالَ حدثن أَبِي عَنْ جَدِّي يَحْيَى بْنِ يحي قَالَ لَمَّا هَمَّ الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بِكَنِيسَةِ مَرْيُحَنَّا لِيَهْدِمَهَا وَيَزِيدَهَا فِي الْمَسْجِدِ دَخَلَ الْكَنِيسَةَ ثُمَّ صَعَدَ مَنَارَةَ ذَاتِ الْأَكَارِعِ الْمَعْرُوفَةَ بِالسَّاعَاتِ وَفِيهَا رَاهِبٌ نُوبِيٌّ صومعة لَهُ فأحدره من الصوعمعة فَأَكْثَرَ الرَّاهِبُ كَلَامَهُ فَلَمْ تَزَلْ يَدُ الْوَلِيدِ فِي قَفَاهُ حَتَّى أَحْدَرَهُ مِنَ الْمَنَارَةِ ثُمَّ هَمَّ بِهَدْمِ الْكَنِيسَةِ فَقَالَ لَهُ جَمَاعَةٌ مِنْ نَجَّارِي النَّصَارَى مَا نَجْسُرُ عَلَى أَنْ نَبْدَأَ فِي هَدْمِهَا يَا أَمِير الْمُؤمنِينَ نخشى أنَعْثُرَ أَوْ يُصِيبَنَا شَيْءٌ فَقَالَ الْوَلِيد تحذرون وتخافون يَا غلان هَاتِ الْمِعْوَلَ ثُمَّ أُتِيَ بِسُلَّمٍ فَنَصَبَهُ عَلَى مِحْرَابِ الْمَذْبَحِ وَصَعَدَ فَضَرَبَ بِيَدِهِ الْمَذْبَحَ حَتَّى أَثَّرَ فِي هـ أَثَرًا كَبِيرًا ثُمَّ صَعَدَ الْمُسْلِمُونَ فَهَدَمُوهُ وَأَعْطَاهُمُ الْوَلِيدُ مَكَانَ الْكَنِيسَةِ الَّتِي فِي الْمَسْجِدِ الْكَنِيسَةَ الَّتِي تُعْرَفُ بِحَمَّامِ الْقَاسِمِ بِحِذَاءِ دَارِ أَن الْبَنِينَ فِي الْفَرَادِيسِ فَهِيَ تُسَمَّى مَرْيُحَنَّا مَكْانَ هَذِهِ الَّتِي فِي الْمجد وَحَوَّلُوا شَاهِدَهَا فِيمَا يَقُولُونَ هُمْ إِلَيْهَا إِلَى تِلْكَ الْكَنِيسَةِ قَالَ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَنَا رَأَيْتُ الْوَلِيدَ بْنَ عَبْدِ الْمَلِكِ فَعَلَ ذَلِكَ بِكَنِيسَةِ


يَحْيَى بْنِ يحي کہتے ہیں کہ جب الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ نے کنِيسَةِ مَرْيُحَنَّا کو گرانے کا ارادہ کیا اور اس کی جگہ مسجد کو بنانے کا تو وہ کنِيسَةِ میں آئے اور مَنَارَةَ ذَاتِ الْأَكَارِعِ پر چڑھے جو السَّاعَاتِ کے نام سے معروف ہے جن میں راہب نُوبِيٌّ تھا … پس عیسائی بڑھییوں نے کہا اے امیر المومنین ہم خوف زدہ ہیں کہ ہم کو کوئی برائی نہ پہنچے پس ولید نے کہا تم سب ڈرتے ہو اوزار لاؤ پھر محراب الْمَذْبَحِ پر گئے اور وہاں ضرب لگائی جس پر بہت اثر ہوا پھر مسلمان چڑھے اور انہوں نے ضرب لگائی اور اس کو گرایا اور ولید نے عیسائیوں کو کنِيسَةِ کی جگہ….. دوسرا مقام دیا


مسلمانوں نے بھی اپنے شہروں کا ٹورزم بڑھانے کے لئے کافی مقامات دریافت کر ڈالے
 
Top