• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یمن میں حوثی شیعوں کی فساد انگیزی ( فضیلۃ الشیخ عبدالمعید مدنی ِ علیگڑھ)

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
یمن میں حوثی شیعوں کی فساد انگیزی

عبدالمعید مدنیؔ علی گڑھ
وطن گھر گاؤں علاقہ خاندان اور رشتہ داروں سے انسان کا مضبوط رشتہ ہوتاہے ۔ اگر یہ رشتہ ٹوٹ جائے یا کمزور ہوجائے تو انسان کٹی پتنگ بن جاتا ہے۔ آدمی خواہ کتنا بڑا ہوجائے لیکن ان رشتوں کے بغیر وہ سماج میں نہیں جی سکتا۔ ان تمام رشتوں کا ایک شرعی دائرہ ہے اس دائرے میں رہ کر ان رشتوں کو نبھانا ضروری ہوتا ہے۔
ان میں ہر رشتے کے الگ تقاضے ہیں وطن گاؤں ملک کار شتہ قانونا مختلف اوقات میں مختلف مشکل رکھتا ہے اگر اسلامی ریاست ہے ملک کی حفاظت جہاد کے دائرے میں آتا ہے گھر مال اورآبروکی حفاظت میں انسان مرتا ہے تو شہیدماناجاتا ہے۔ اگر اسلامی ریاست نہیں ہے لیکن اس کے حق وطنیت کو قانونی و عملی تحفظ ملا ہوا ہے تو ایسے ملک کے ساتھ اسلامی دائرے میں وفا داری ضروری ہے ۔ لیکن اسلامی دائرے سے باہر کسی طرح ملک قوم و طن اور گھر کو بت نہیں بنایا جاسکتا نہ وہ عقیدہ کا درجہ پائیں گے ان کی شرعی حیثیت طے ہوگی اور ان کی شرعیت اگر نہیں بن پاتی ہے اور راہ ہے تو ہجرت کرنا ضروری ہوتا ہے ورنہ مجبورا پڑا رہنا پڑتا ہے۔ ایسا ملک جہاں حق وطنیت قانونا اور عملا محفوظ ہے اور اس پر کسی ملک کا اگر یسن ہو جس میں ہمیں بحیثت مسلمان یا بحیثیت انسان حق وطنیت نہیں ملا ہے نہ اس کا جواز ،تو ملک کی وفا داری کا تقاضا ہے کہ ہم بھی ملک سے دفاع کا حق ادا کریں اور ملک کی سالمیت اور حفاظت کے دعویدارر ہیں۔
ملک سے نسبت وطنیت کی اہمیت سمجھنا اور اس کے ساتھ وفاداری رکھنا لازمی ہے ۔ اگر یہ نسبت باقی نہ رہے تو انسان کی وطنیت اور شہریت بے وزن ہو کر رہ جائے گی۔ اور مسلمان اگر کسی مسلم میں رہتا ہے تو اس کے اوپر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ اس کی سالمیت اور حفاظت میں پورا یقین رکھے اور کبھی ملک کے تئیں بے وفائی اور غداری کی نہ سوچے اور نہ ملک و ملت کے مفاد کے خلاف ادنیٰ کام کرے نہ کسی کے بہکاوے میں آئے۔
آج مشکل یہی ہے کہ مسلمان اپنے وطن میں اپنوں سے لڑتا ہے علاقائیت، غربت، مسلکی تعصبات مالی مفادات نے اسے ایسا دیوانہ بنادیا ہے کہ وہ وطنی نسبت مفادات وطن مفادات دین مفادات قوم اور مفادات انسانیت کے برخلاف رہنے کرنے اور سوچنے لگتا ہے۔ آج مسلمان وطنیت اور اس کے تقاضوں سے غافل ہے ۔ جائز وطنیت اور جائز تقاضوں سے بھی بے خبر ہے۔ اس کی نسبت اپنے وطن سے بہت زیادہ کمزور ہے ۔ آج وہ جس قدر ذہنی انتشار کا شکار ہے ایسا انتشار کسی بھی قوم میں نہیں ہے۔ اور اس کے بے شمار وجوہ ہیں۔ (۱)سماج میں بے انصافی (۲) مفادات پر ستی (۳) مسلکی تعصبات (۴)فرقہ پرستی (۵) سماج دشمن طاقتیں۔
یہ وجوہ تقریباً ہر مسلم ملک میں پائے جاتے ہیں اور بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اور مسلم ممالک میں سب سے زیادہ خطرناک رول انقلاب کے نام پر لڑنے والے انقلاب پسند ہیں۔تحریکیت زدہ انقلاب پسند عناصر نے کسی مسلم ملک کے امن کو مشکل سے بر قرار رہنے دیا ہے۔
خود مسلم ممالک کے حکمرانوں نے مسلم عوام اور علماء پر اس قدر ظلم ڈھایا ہے کہ عوام و علماء کے لیے یہ ناقابل برداشت ہوگیا۔ آئے دن کے عسکری انقلابات ملک و قوت کو لوٹنا کھسوٹنا، ظلم کی چکی میں اسے پیسنا۔ عوام کی توہین ہوتی رہی ان کے دین اور ان کی عزت کے ساتھ کھلواڑ ہوتا رہا۔ حکمراں اور پارٹیاں باہم دست بہ گریباں ہیں۔ اس بے اعتمادی کے ماحول میں پُر امن اور باصلاحیت ملک چھوڑ کر بھاگنے لگے۔
اس صورت حال سے استعماری عناصر اور ان کے چیلے ناجائز فائدہ اٹھاتے رہے اور مسلمانوں کو باہم لڑاتے رہے ۔ اور مسلمانوں کے ذخائر معدنیات اور صلاحیات کو لوٹتے رہے۔
آخری دہے میں اس صورت کا سب سے زیادہ فائدہ امامی ایران کو ملا۔ اس نے اہل سنت کے اندر جس جگہ لوپ ہول دیکھا فوراً چپکے سے اس لوپ ہول کے اندر گھس گیا۔ ایک طرف اہل سنت کا بکھرا ہوا شیزارہ ہے اور دوسری طرف خمینی ایران کی رشہ دوانیاں ہیں۔ اس کی ریشہ دوانیاں اہل سنت کے خلاف سارے عالم میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ دول افریقیہ اور ممالک عرب اس کے خاص نشانے پر ہیں۔ عراق کو انہوں نے ٹکڑے ٹکڑے بناڈالے۔ امریکہ کی طاغوتی اور شیطانی طاقت نے عراق کو ان شکاریوں کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔ افغانستان اور پاکستان ان کی ترکتازی کا شکار ہیں۔ البتہ سب سے زیادہ اس وقت خمینی ایران کی نظر عنایت یمن پر ہے۔
یمن کی ناعاقبت اندیش قیادت نے خلیج کی جنگ ثانی میں صدام کا ساتھ دیا تھا۔ اس کے رد عمل میں سعودی عرب کویت اور دیگر بلاد خلیج سے یمنی شہریوں کو نکال دیا گیا تھا۔ اس جنگ سے پہلے کویت اور سعودی عرب کی یمن اوریمنیوں پر بڑی عنایت تھی تعلیم، صحت، اور ترقیاتی پرو جیکٹ پر اسے کافی تعاون ملتا تھا۔ ان دونوں ملکوں میں یمنیوں کو کام کرنے اوررہنے کی بڑی سہولت تھی اور یہ بہت پرُ امن لوگ بھی تھے۔ اس سے قبل بلاد خلیج میں خصوصاً سعودی عرب میں انہیں پوری چھوٹ ملی ہوئی تھی رہنے اور کمانے کی ۔ جب بلاد خلیج سے نکالے گئے اور اپنے ملک واپس جاکر معاشی مشکلات کا شکار بن گئے یمن میں بے روز گاری بڑھی۔ اس صورت حال کا ناجائز فائدہ آہستہ آہستہ ایران نے اٹھانا شروع کیا۔
ایران نے اس استحصال کی ابتدا اس جنگ کے بعد ہی کردی تھی۔ اس نے حوثی شیعہ قبیلے کو یمن کے خلاف تیار کرنا شروع کردیا۔ سرحدی علاقے میں آباد صعدہ کے حوثی قبیلے کو ایران نے آہستہ آہستہ مسلح کردیا اور اب تک حوثیوں نے یمنی حکومت سے سات مرتبہ جنگی ٹکراؤ کی ہے۔ ان جنگوں میں حکومت کو پسپائی اٹھانی پڑی ہے۔ اور یہی قبیلے یمنی سرحد پار کرکے سعودی عرب میں بھی بد امنی پھیلانے میں لگے ہوئے تھے۔ اور علاقہ کی صورت حال کو بین الاقوامی بنانا چاہتے تھے لیکن سعودی عرب کی چوکسی کے سبب حوثیوں کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور ایران ٹراتا رہ گیا۔تھک ہار کر اس نے چپی سادھ لی۔
یمن میں ایران کی مداخلت اور شیعہ گردی خلیج جنگ ثانی کے فورا بعد ہی شروع ہوگئی تھی۔ اور اس کے لیے ایران کو سنہرا موقع مل گیا تھا۔ سعودی عرب کی یمن سے ناراضگی۔ یمن کا صدام حسین کا ساتھ دینا، یمنیوں کی کویت اور سعودی عرب سے واپس اور بے روز گاری میں اضافہ، شمالی اور جنوبی یمن کے اتحاد کے لیے لڑائی اور ملکی معیشت پر بوجھ یہ اور ان جیسے اسباب مہیا تھے جن کی وجہ سے حالات ساز گار تھے کہ یمن میں ایران کی مداخلت کامیا ب ہو۔
ایران نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ اس نے یمن میں اپنے نمائندے تیار کیے۔ اس نے حسین بدرالدین حوثی کو یمن میں شیعہ گردی کی مہم سونپی۔ حسین ایک زبردست کامیاب خطیب تھا اور اس پر مستزادتشیع کا تبرائی و عزائی جذبات انگیز لہجہ۔ یہ شخص بھیڑ جمع کرنے اور اپنے ساتھ لوگوں کو لے کر چلنے میں ماہر تھا۔ اس نے سب سے پہلے نوجوانوں کے اندر اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔ پھر انہیں ''امامی '' شیعی دینیات پڑھنے کے لیے تیار کیا اور اس کے لیے ایک انجمن بنائی۔ اس کام کے لیے اس نے سیکڑوں شیعہ نوجوان کو تیار کرلیا یمن میں ان کے لیے امامی شیعہ دینیات کے پڑھنے پڑھانے کا انتظام کیا۔ ایرانی یونیورسٹیوں میں انہیں داخلہ دلوایا۔ ایرانی اسپتالوں میں اپنے چاہنے والوں کا علاج کرایا۔ ایران سے ان کو مالی تعاون دلوایا۔ انہیں ایران میں عسکری تربیت ملی اور ہمدردی اور ہدایت بھی اور انہیں یمن میں شیعی انقلاب کا سپاہی بنادیا گیا۔
حسین نے اپنی خطیبانہ مہارت اور انقلابی نعروں سے زیدی شیعی قائدین اور عوام کو اپنے گرد جمع کرلیا۔ اور بہت سے فوجی کمانڈروں اور حزب مخالف کے لیڈروں کو بھی اپنے شیشے میں اتار لیا۔
حسین نے ان عوام قائدین ہمدردوں اور حمایتوں پر اپنی پکڑ مضبوط بنالی اور اس کے لیے سب سے بڑی چیز ایران کی پشت پناہی مالی عسکری تربیتی تعلیمی تعاون تو تھا ہی اس نے یہ دعوی بھی کیا کہ وہ مقدس اور پاکیزہ نسل سے ہے اور اس کاعزم یہ ہے کہ ایران میں دو بارہ شیعہ امامی حکومت قائم ہوجائے۔ اس کی خاطر اس نے ایک بیعت نامے کی دستاویز تیار کی اور اپنے تمام ماننے اور چاہنے والوں سے مطالبہ کیا کہ اس کے مطابق وہ حسین کے ہاتھ پر بیعت کریں۔ بیعت نامے کی عبارت یہ تھی۔
''اشھد اللہ علی ان سیدی حسین بدرالدین الحوثی ہو حجۃ اللہ فی ارضہ فی ہذالزمن، واشہد اللہ علی ان ابی العیہ علی السمع والطاعۃ والتسلیم، وانا مقر بولایتہ ، و انی سلم لمن سالمہ و حرب لمن حاربہ'' میں اس پراللہ کوگواہ بناتا ہوں کہ سیدی بدرالدین حوثی اللہ کی زمین پراس دور میں اللہ کی حجت ہیں اور میں اس پر اللہ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں اس سے سمع و طاعت سرنگونی کی بیعت کرتا ہوں اور میں ان کی ولایت کا مقر ہوں، اور جن سے وہ صلح کریں میری ان سے صلح ہے اور جن سے وہ جنگ کریں میری ان سے جنگ ہے۔
حسین نے یہ دعوی بھی کیا کہ وہ مہدی منتظر کا داہنا ہاتھ ہے جو اس زماننے میں نکلیں گے اور نواصب اور اعداء اہل بیت (اہل سنت) سے قتال کریں گے اور سارے عالم پر حکومت کریں گے ۔ ان کا گزر شمالی یمن کے علاقے صعدہ کے منطقیہ خولان میں واقع'' کرعہ'' سے گزریں گے۔ اس نے اپنے اتباع سے وعدہ کیا کہ انہیں نصرت اور غلبہ حاصل ہوگا اور حوثی کا تعاون کرنا ان کے اوپر واجب ہے اور یہ مقدس کام بھی ہے اور اس عظیم کام کا ذمہ دار ہونے کے سبب اموال والناس میں خمس کا مستحق ہے۔ اس کے اتباع نے اس کے ان دعاوی کو دل و جان سے قبول کیا اور سونے کی طشت میں سجا کر اسے خمس پیش کیا۔
ذرا غور کریں کام کے تیور ۔ دعاوی کی ذہنیت اور مستحکم شیعی عز م کا مظاہرہ اورطنطنہ ان پر کون ایسا شیعہ ہے جو قربان ہونے کو نہ چاہے گا۔ اس کا یہ بھی دعوی تھا۔
''ان الرئیس لدینہ الے المذہب السنی فیجب تغییرہ لاسیما أنہ لیس من آل البیت''صدر نے اپنا دین بدل دیا کہ سنی مذہب اختیار کرلیا ہے اس لیے اسے بدل دینا واجب ہے ۔ خاص کر اس لیے بھی کہ وہ اہل بیت میں سے نہیں ہے۔ اس نے اپنا یہ عز م ارادہ اور عندیہ چھپا کر نہیں رکھا اس نے اپنے انٹر نیٹ سائٹ پر یہ سب عالمی طور پر پھیلا رکھا ہے اور تمام یمنی شیعوں کو جو دنیا میں کسی جگہ آباد ہیں دعوت دے رکھی ہے کہ یمن میں علی عبداللہ صالح کی حکومت اکھاڑ پھینکنے میں مدد کریں۔
یمن میں جو بکھراؤ ہے اور سیاسی اقتصادی ابتری ہے اور جس طرح فساد اور کرپشن پھیلا ہوا ہے اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے بارہا عسکری کوشش کی کہ فوج اور اس کے ہمنوا قبائل کو مغلوب کرلے۔
اس کا بہت بڑا دعوی یہ بھی ہے کہ امت مسلمہ کو کتاب و سنت کی ضرورت نہیں ہے اسے ضرورت ہے امام کی جو ان کی دینی قیادت کرے اور انہیں دین سکھلائے اس طرح اس کا پرو پیگنڈا یہ بھی جاری ہے کہ عربوں کے امام کی جو ان کی دینی قیادت کرے اور انہیں دین سکھائے۔ اسی طرح اس کا پرو پیگنڈا یہ بھی جاری ہے کہ عربوں کے پاس مال بھی ہے ہتھیار بھی ہے لیکن اسرائیل کے سامنے سرنگوں ہیں شکست خوردہ ہیں مگر ایران اور اس کے مساندین حزب اللہ و غیرہ نے اسرائیل کو سبق سکھادیا ہے۔
حوثی نے یمنی حکومت کو گرانے کا عزم کو لے کر الیکشن میں حصہ لیا اور یمنی پارلیمنٹ میں بھی اس کی رسائی ہوئی اور اس کا بھائی یحیی حوثی بھی ممبر پارلیمنٹ بنا دونوں نے اس سیاسی قوت کو استعمال کیا اور سفارت خانوں اور ان کے ذمہ داروں سے انہوں نے گہرے تعلقات بنالیے اور چھ سال قبل جب حسین کا قتل ہوگیا تو یحیی نے برلن جرمنی میں سیاسی پناہ لے لی اور حوثیوں کا سیاسی ذمہ دار بن گیا۔حوثیوں نے حکومت کے خلاف پبلک کوبھڑکانے کی کوشش کی ۔ حکومت کی مشکلات کو پیچیدہ بنایا۔ اور حکومت کو گرانا دینی فریضہ قرار دیا۔ آل بیت کے حوالے سے نعرے پروپیگنڈے جاری تھے اور طاقت وتقوی کا مظاہرہ بھی ہوتا رہا ۔ حوثیوں نے اتنی طاقت پکڑ لی کہ بارہ سالوں کے تہ خانے زمین دوزراستے بنا لیے تاکہ جنگ کے وقت وہاں پناہ لے سکیں اور بہت سے ترقیاتی پروگراموں کے ذریعہ عوام کوریجھالیا۔
بھٹکے ہوئے نوجوانوں کے فقرکا بھی استحصال ہوا اور انہیں خریداگیا یہی نہیں بعض فوجی کمانڈروں کو رشوت دے کر خریدا گیا پھر ان سے اسلحے بھی ملے اہم حربی نقشہ جات بھی حاصل ہوئے اور فوجی ولکی راز بھی حاصل ہوئے اور حد ہے خیانت کی ان کمانڈروں نے عسکری اہمیت کا ایک علاقہ زعلا بھی انہیں سونپ دیا اور ساتھ ہی ستر فوجی بھی ۔ یہ صوبہ معیشیت ضلع عمران میں ہوا ہے اور ان خائن کمانڈروں کی کوشش ہے کہ مدائن کا علاقہ بھی حوثیوں کے حوالے کردیں۔
اس شیعی انقلابی عمل میں حوثیوں نے صوفی رجحان رکھنے والوں کو شریک کرلیا ہے آل بیت کی عظمت و محبت کے حوالے سے انہیں ہمنوا بنا لیا ہے مزاروں پر چڑھاوے کے ذریعہ انہیں خوش کر رکھا ہے اور ان کی غیر مشروط تائید حاصل کرلی ہے۔
ایرانی انقلابی اہل سنت کہلانے والوں کی تائید حاصل کرنے میں اتنے تیز ہیں کہ تحریکیوں کی تائید انقلاب کے نعرے سے حاصل کرلیتے ہیں اور صوفیوں کی صوفیا و ائمہ کے تقدس وتعظیم کے ذریعہ ۔دو رجحان تحریکی وصوفی اکثر اس کی تائید کرنے لگتے ہیں۔ اہل سنت کا تیسرا رجحان سلفی ہے اس پر وہابیت کا ٹھپہ لگا ہے اس کے خلاف پر وپیگنڈا کرکے صوفی تحریکی رجحانات کے حاملین کو اس سے دور کرکے اپنی راہ سے ہٹانے کی بھر پور کوشش آتے ہیں اور اکثر کامیاب رہتے ہیں۔ اس لیے خمینیت ہر جگہ آسانی سے اور تیزی کے ساتھ پھیلتی چلی جارہی ہے۔
یمن میں انقلاب لانے کے لیے ایران امکانی حد تک کوشش کررہا ہے اور چھ سال قبل 2004میں جب یمنی حکومت نے حوثیوں کو گھیرنے اور ان کی عسکری بھیڑ کو خرد کرنے کی کوشش کی اس وقت حوثیوں کے قبضے سے ایسی دستاویزات حاصل ہوئیں جن سے یہ واضح ہوتاہے کہ ایران نے حوثیوں کو خفیف و ثقیل ہر طرح کا اسلحہ دیا ہے اور بڑی مقدار میں ان اسلحوں کی سپلائی ہوئی ہے صنعاء میں ایرانی اسپتال یمنی حکومت کو گرانے کے لیے سازش کا گڑھ بنا ہوا ہے اور یہ حوثیوں کو کمانڈ کرنے کے لیے سازش کا اڈہ بنا ہواہے۔ اسپتال میں ملی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ایرانی انقلاب کا منصوبہ یہ تھا کہ یمن حکومت گرجائے اور شمالی یمن ''صعدۃ'' میں''شیعی امامی'' حکومت قائم ہوجائے ۔ ایسے ایرانی علماء گرفتار ہوئے ہیں اور ان کے پاس سے ایسے ذرائع ابلاغ بر آمد ہوئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ حوثیوں کو براہ راست ایران سے احکامات صادر ہوتے تھے اور برابر ایرانی سفارت کاروں کا تعلق حوثیوں سے قائم رہتا تھا۔ تہران بیروت اور برلن میں ان کی ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں اور قم کے آیات وعلماء یمن میں حوثیوں کی فساد انگیزیزی اور عسکریت کے وجوب کے متعلق فتاوی صادر کرتے رہتے تھے۔
ایران نے حوثیوں کو عسکری تربیت بھی دی اور ایرانی میڈیا برابر اپنے چینلوں سے ان کے قضیے کی تائید میں برابر بولتی رہتی تھی۔ اور حسین حوثی کا ایک بھائی ایک محاذ یہ سنبھالے ہوئے ہے کہ جوانوں کی عسکری تربیت کے پروگراموں میں ایرانی انقلاب کو ایک ماوے کی حیثیت سے پڑھاتا ہے۔
ان تفصیلات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالم اسلام میں سنی حکومتوں کے خلاف اور پوری دنیا میں سنی عوام کے خلاف انقلاب ایران کی سازش کتنی گہری ہے ۔ یمن کے متعلق ایران کی ہمہ جہتی تدبیریں حمایت اور سازشیں بس گہری ہیں اور ان کا فساد بہت مہلک ہے۔ اوکٹوپس کی طرح ہر طرف ان کا منہ ہے اور ہر جہت میں ان کی سر گرمی جاری ہیں۔ اور انتہائی مفسدانہ مہلک اور خونی سرگرمیاں۔ہوشیار اور بیدار ہونے کی سخت ضرورت ہے ۔ ایرانی انقلاب اور تصویر انقلاب کا پروگرام کتنا خطرناک ہے اہل سنت کو اس کا صحیح ادراک ہی نہیں ہے ۔غفلت وبے حسی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ انقلاب ایران کے خوش کن نعروں کی دنیا میں اب تلک تحریکی اور صوفی رجحانات کے حامل لوگ جی رہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ علماء کرام اور دینی ذمہ دار حضرات بھی اکثر ایران کے متعلق ایسی باتیں کرتے ہیں کہ لگتا ہے انہیں دنیا میں خیرو شر کے درمیان فرق کرنے کی رتی بھر تمیز نہیں ہے۔
حوثیوں نے قبائلی اختلافات کو بھی ہوا دے رکھی ہے اور مسلکی جھگڑوں کو چھیڑ رکھا ہے ضمائر کی خریداری کررہے ہیں۔ ملک کے خلاف سازش کا جال بچھا رکھا ہے۔ ایران کے لیے حق جاسوسی ہورہی ہے۔ حکومت کو گرانے کے لیے ایران سے عسکری تربیت مل رہی ہے اسلحے مل رہے ہیں مالی تکنیکی تعاون مل رہاہے فوج کو خریدا جارہاہے جنگ ہورہی ہے اعداء اسلام کا تعاون مل رہاہے۔ اس صورت حال کو درست کرنے کے لیے خلیجی ممالک نے بارہا حکومت اور حوثی شیعوں کے درمیان صلح کرائی ہے لیکن جب سامنے گندے منصوبے ہوں تو صلح کی بیل منڈھے کہاں چڑھے گی۔
یمن میں حوثی شیعوں کا قضیہ ملک کے لئے ناسور بن گیا ہے۔حوثیوں کی ملک دشمن سرگرمیاں غداری بے وفائی اور ملک دشمنی کی رسوا کن داستان ہے اس تخاذل اور وطن دشمنی کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ایک طرف اندورن ملک فساد کی یہ آگ لگی ہوئی ہے ۔ دوسری طرف مغربی ملک دشمنی اوراسلام شمن ممالک خصوصا امریکہ بہادر اسے جکڑنے اور اس کے خلاف عسکری یلغار کرنے کی تیاری میں ہے اورآئے دن دھمکیاں مل رہی ہیں۔ اوراس کے خلاف زبردست تشہیرہورہی ہے اوراس کا ہر طرح بائیکاٹ ہورہا ہے۔
اس اندوہ ناک صورت حال میں ملک دشمن شیعی حوثی عناصر کے لئے مواقع فراہم ہیں۔ اپنی دسیسہ کاریوں کا جال بچھانے کے لئے اوراپنی فریب کاریوں کو پھیلانے کے لئے شیعوں کی یہی تاریخ رہی ہے کہ جب بھی دشمن مسلمانوں کی گھات میں لگا انہوں نے مسلمانوں پر پیچھے سے وار کیا۔ اللہ تعالیٰ ان سے اوران کے تحریکی بھائیوں سے نمٹے۔آمین
 
Top