السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
محترم بھائی محمد نعیم یُونس صاحب ،
رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے معراج کے واقعہ کے بیان میں خبر فرمایا کہ ، تیسرے آسمان پر اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مُلاقات یُوسُف علیہ السلام سے ہوئی، اور یُوسُف علیہ السلام کے حُسن کے بارے میں بتایا کہ﴿ قَدْ أُعْطِىَ شَطْرَ الْحُسْن:::انہیں آدھا حُسن عطاء کیا گیا تھا﴾صحیح مُسلم/حدیث 429/کتاب الاِیمان/باب76،
اِس کے عِلاوہ ہمیں ، صحیح ثابت شدہ سُنت شریفہ میں ، یُوسُف علیہ السلام کو عطاء کردہ حُسن کی مقدار یا کیفیت کی کوئی خبر نہیں ملتی،
اس خبر میں ذِکر کردہ """آدھے""" کے بارے میں عُلماء کے مختلف اقوال ہیں ، جِن میں دو زیادہ قرین قیاس ہیں :::
::: (1) ::: یُوسف علیہ السلام کو آدم علیہ السلام کے حُسن کے مُطابق آدھا حُسن عطاء ہوا،
::: (2) ::: یُوسف علیہ السلام کو، رسول اللہ محمد صلہ اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حُسن کے مُطابق آدھا حُسن عطاء ہوا،
رہا معاملہ حُسن کو تین حصوں میں بانٹنے ، اور اُن میں ایک حصہ یُوسُف علیہ السلام اور اُن کی والدہ کو دینے والی روایت کا ، تو یہ روایت صحیح نہیں ہے ، اسے امام ابن جریر الطبری نے اپنی سند سے اپنی تفسیر میں ، حسن بصری رحمہُ اللہ کی مرسل روایت کے طور پر خارج کیا ہے، اور اُنہی سے دیگر تفاسیر میں بھی منقول ہے،
اِس روایت کے اِلفاظ درج ذیل ہیں :
(((أُعْطِيَ يُوسُفُ وَأُمُّهُ ثُلُثَ حُسْنِ أَهْلِ الدُّنْيَا، وَأُعْطِيَ النَّاسُ الثُّلُثَيْن)))
اور یہ (((أُعْطِيَ يُوسُفُ وَأُمُّهُ الثُّلُثَيْنِ، وَأُعْطِيَ النَّاسُ الثُّلُثَ)))
إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ /حدیث رقم 1481 کے ضمن میں اِس روایت کی تحقیق بیان کی ہے اور اِسے "باطل "قرار دِیا ہے،
اور انس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ کی روایت کردہ ایک اور حدیث جو اسی تفسیر طبری میں درج الفاظ میں منقول ہے (((أُعْطِيَ يُوسُفُ وَأُمُّهُ شَطْرَ الْحُسْنِ)))کو صحیح قرار دِیا ہے ،
پس ، دُرست خبر یہ ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے یُوسف علیہ السلام اور اُن کی والدہ کو سارے حُسن کا آدھا حصہ عطاء فرمایا تھا، لیکن اِس آدھے کی تقسیم ، کِس پورے کے مُطابق سمجھی جائے، اِس کے بارے میں عُلماء کی دو رائے کا ذِکر پہلے کیا جا چکا ہے،
امید ہے یہ معلومات آپ کے سوال کے جواب میں کافی ہوں گی ، اِن شاء اللہ ،
اس کے بعد میں یہ جاننے کی جسارت کرنا چاہوں گا کیا اِس سوال کا کوئی خاص مقصد ہے؟ یا صِرف روایت کے بارے میں معلومات درکار تِھیں ؟
والسلام علیکم۔