باذوق
رکن
- شمولیت
- فروری 16، 2011
- پیغامات
- 888
- ری ایکشن اسکور
- 4,011
- پوائنٹ
- 289
یومِ عرفہ کا روزہ
9۔ذی الحجہ کو یا وقوفِ عرفات پر ؟
9۔ذی الحجہ کو یا وقوفِ عرفات پر ؟
بشکریہ :
روزنامہ "اردو نیوز" ، روشنی سپلیمنٹ ، مورخہ 14۔ڈسمبر 2007ء
روزنامہ "اردو نیوز" ، روشنی سپلیمنٹ ، مورخہ 14۔ڈسمبر 2007ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دنیا بھر کے مسلمان ، یومِ عرفہ کا روزہ کس دن رکھیں ؟
اپنے ملک کے کیلنڈر (اسلامی/قمری) کے حساب سے 9۔ذی الحجہ کو یا حج کے دوران حجاج کرام کے وقوفِ عرفات کے دن؟
اس اختلاف کا سبب دراصل رویت ہلال کی رو سے اختلافِ مطالع اور مختلف ممالک میں قمری تاریخ کے مختلف ہونے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس اختلاف کا کوئی واضح ثبوت کم و بیش نصف قرن پہلے تک نہیں ملتا البتہ اب کچھ سالوں سے یہ اختلاف ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔
اختلافِ مطالع کو جو لوگ معتبر مانتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ :
جس ملک میں جب 9۔ذی الحجہ ہوگی ، وہ یومِ عرفہ ہوگا اور وہاں کے لوگوں کو اسی دن یومِ عرفہ کا روزہ رکھنا ہوگا۔
اس کی دلیل میں ان لوگوں کے پاس صحیح بخاری کی درج ذیل حدیث ہے :
صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ ، فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ - صحیح بخاری ، کتاب الصوم
چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند کو دیکھ کر روزوں کا اختتام کرو اور اگر تم پر چاند مخفی ہو جائے تو پھر تم شعبان کے 30 دن پورے کر لو۔
اس حدیث سے چاند دیکھنے کی اور قمری تاریخ کی اہمیت کی دلیل لی جاتی ہے۔
اگر برصغیر ، جاپان و کوریا کے مسلمان ، بغیر چاند دیکھے ، سعودی عرب کے مطابق رمضان کے روزے شروع کر دیں اور عید بھی منا لیں تو کیا یہ صحیح ہوگا؟
دوسری طرف جو لوگ اختلافِ مطالع کو معتبر نہیں مانتے ، ان کے پاس دلیل یہ ہے کہ ۔۔۔
موجودہ تیز تر وسائلِ نقل و حرکت اور ذرائع ابلاغ کے پیشِ نظر ، حجاجِ کرام کے میدانِ عرفات میں ہونے کی خبر لمحہ بہ لمحہ دنیا بھر میں پہنچ رہی ہوتی ہے ، لہذا یومِ عرفہ کا روزہ بھی اسی دن رکھا جائے جب حجاج کرام ، عرفات میں وقوف کرتے ہیں۔
اس عقلی دلیل پر چند اشکالات وارد ہوتے ہیں :
بعض ممالک مثلاً : لیبیا ، تیونس اور مراکش ۔۔۔ ایسے ہیں جہاں چاند مکہ مکرمہ سے بھی پہلے نظر آتا ہے۔ یعنی ان ممالک میں جب 10۔ذی الحج کا دن آتا ہے تو مکہ مکرمہ میں یومِ عرفہ کا دن ہوتا ہے۔ اگر ان ممالک کے لوگ حجاج کرام کے وقوفِ عرفات والے دن روزہ رکھیں تو یہ گویا ، ان کے ہاں عید کے دن کا روزہ ہوا اور یہ تو سب کو پتا ہے کہ عید کے دن روزہ ممنوع ہے۔
دوسری اہم بات یہ کہ :
اختلافِ مطالع اگر معتبر نہیں ہے تو ہر چیز میں نہیں ہونا چاہئے۔
مثلاً ، افطار و سحری کے اوقات بھی وہی ہونا چاہئے جو مکہ مدینہ کے اوقات ہوں۔
نمازوں کے اوقات بھی وہی ہونا چاہئے جو مکہ مدینہ کی نمازوں کے اوقات ہوں۔
اگر یہ ممکن نہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ : اختلاف مطالع نمازوں اور افطار و سحر کے معاملے میں تو معتبر ہے لیکن رمضان کے روزوں اور یومِ عرفہ کے روزے میں معتبر نہیں ؟؟
کیا یہ عجیب بات نہیں ؟؟
صحیح مسلم میں ایک حدیث یوں ہے کہ ۔۔۔۔ (صحیح مسلم ، کتاب الصیام)
ملک شام میں لوگوں نے روزہ رکھا اور مدینہ منورہ کے لوگوں نے اس کے اگلے دن روزہ رکھنا شروع کیا۔
فقہائے مدینہ نے اہلِ شام کے ایک دن پہلے روزہ رکھنے کی خبر کو بنیاد بنا کر اہلِ مدینہ کو یہ فتویٰ نہیں دیا کہ : تم ایک روز قضا کرو کیونکہ شام میں چاند ہو چکا تھا۔ بلکہ یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ان کی رویت ان کے لیے اور ہماری رویت ہمارے لیے ہے اور (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسا ہی حکم دیا ہے)۔
علاوہ ازیں ، جو لوگ نعرہ لگاتے ہیں کہ : پوری مسلم امت کیوں ایک دن اپنی عید نہیں مناتی ؟
تو دراصل یہ لوگ گریگورین کلینڈر (عیسائی تقویم) کی برتری کو ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ عیسوی تقویم کی رو سے بعض جگہ یکم ڈسمبر تو کسی جگہ تین ڈسمبر کو عید ہوتی ہے۔
حالانکہ اگر غور کیا جائے تو حقیقی ، فطری اور الٰہی یعنی ہجری و قمری تقویم کے مطابق ہر جگہ عید الفطر ، یکم شوال کو اور عید الاضحیٰ 10۔ذی الحجہ کو منائی جاتی ہے۔ ایک مستند فطری اور الٰہی تقویم کو انسانوں کے خودساختہ اصولوں پر مبنی تقویم (گریگورین کلینڈر) پر پرکھنا ، بھلا کہاں کا انصاف ہے ؟
روزہ و عیدین وغیرہ کے سلسلہ میں بعض حضرات ترمذی شریف کی ایک حدیث سے دلیل دیتے ہیں :
الصَّوْمُ يَوْمَ تَصُومُونَ وَالْفِطْرُ يَوْمَ تُفْطِرُونَ وَالْأَضْحَى يَوْمَ تُضَحُّونَ - جامع ترمذی ، کتاب الجمعہ
روزہ اس دن رکھا جائے جس دن لوگ روزہ رکھتے ہیں ، عید الفطر اور عید الاضحیٰ بھی اسی دن منائی جائے جب لوگ مناتے ہیں۔
یہ حدیث واضح تو ہے لیکن اس کے مفہوم کو اپنی مرضی کے مطابق کر لیا جاتا ہے۔
اس کے حقیقی معنی و مفہوم بیان کرتے ہوئے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے :
"روزہ اور عید ، جماعت اور لوگوں کی اکثریت کے ساتھ معتبر ہے"۔
اور امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے بیان کردہ اسی مفہوم کی تائید علامہ البانی رحمۃ اللہ نے " تمام المنۃ " میں یوں کی ہے :
آخری بات ۔۔۔۔جب تک تمام ممالکِ اسلامیہ کسی نقطۂ اتحادِ رویت پر متفق نہ ہو جائیں ، تب تک ہر ملک کے باشندوں کو ، میری رائے کے مطابق ، اپنے ملک اور اپنی حکومت کے ساتھ رہنا چاہئے ، الگ نہیں ہو جانا چاہئے کہ کوئی اپنے ملک کی رویت پر عمل کرنے لگے اور دوسرا کسی دوسرے ملک کی رویت پر ، کیونکہ ایسا کرنے سے ایک ہی ملک والوں کے مابین اختلاف و انتشار کے مزید وسیع ہو جانے کا خطرہ ہے۔
یومِ عرفہ کے روزہ کا معاملہ ، علماء کرام کے درمیان کا اجتہادی معاملہ ہے۔ اس معاملے میں کوئی حتمی حکم نہیں لگایا جا سکتا۔
جسے اختلافِ مطالع پر اعتبار و اطمینان ہو ، وہ اپنے ملک کی تقویم کے حساب سے 9۔ذی الحجہ کو "یومِ عرفہ" کا روزہ رکھیں۔
اور جو موجودہ تیز ترین ذرائع ابلاغ کا اعتبار کرتے ہوئے اختلافِ مطالع کو معتبر نہیں مانتا ، وہ حجاج کو میدانِ عرفات میں دیکھ کر روزہ رکھ لے۔