- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
یومِ عرفہ کی اہمیت:
============
حضرت عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا حديث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی یوم عرفہ سے زیادہ کسی اوردن میں اپنے بندوں کو آگ (جہنم) سے آزادی نہیں دیتا (مسلم)
یوم عرفہ کا روزہ:
==========
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عرفہ کے روزہ کےبارہ میں فرمایا: یہ گزرے ہوۓ اور آنے والے سال کے گناہوں کاکفارہ ہے (صحیح مسلم)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان عرفات میں یوم عرفہ کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے، لہٰذا حاجیوں کے علاوہ باقی سب کے لیے یہ روزہ رکھنا مستحب ہے ۔
یوم عرفہ کا روزہ کس دن رکھا جائے؟
=====================
اس بارے میں علمائے کرام میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ یوم عرفہ (جو 9 ذی الحجہ کو ہوتا ہے) کا روزہ دنیا بھر کے لوگ اپنے اپنے مقامی قمری تاریخ (9 ذی الحجہ) کے مطابق رکھیں یا اُسی دن رکھیں، جس دن میدانِ عرفات میں حاجی وقوف کرتے ہیں، خواہ مقامی قمری تاریخ آگے پیچھے ہی کیوں نہ ہو۔ اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ یہ مسئلہ دور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش نہیں آیا تھا۔ لہٰذا احادیث میں اس مسئلہ کی ”وضاحت“ موجود نہیں ہے۔ ذیل میں طرفین کے دلائل مختصراً پیش ہیں۔
(الف) مقامی قمری تاریخ پر عمل کریں:
======================
بہت سے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ جس طرح ہم دیگر مذہبی ایام یعنی رمضان، عیدین، ایام نحر،عاشورہ محرم وغیرہ کے تعین کے لئے مقامی قمری تاریخ پر عمل کرتے ہیں، اسی طرح یوم عرفہ کا روزہ بھی مقامی 9 ذی الحجہ کو رکھیں۔ خواہ یہ مقامی تاریخ میدان عرفات میں حاجی کے وقوف والے دن آئے، اس سے پہلے آئے یا بعد میں۔ کیونکہ اگر ہم دنیا بھر میں مکہ کے وقوف عرفات والے دن روزہ رکھیں گے تو بعض ممالک جیسے لیبیا ، تیونس اور مراکش ایسے ممالک ہیں جہاں چاند مکہ مکرمہ سے بھی پہلے نظر آجاتا ہے۔ یعنی ان ممالک میں جب 10۔ذی الحج کا دن آتا ہے تو مکہ مکرمہ میں یومِ عرفہ کا دن ہوتا ہے۔ اگر ان ممالک کے لوگ حجاج کرام کے وقوفِ عرفات والے دن روزہ رکھیں گے تو انہیں عید کے دن روزہ رکھنا ہوگا۔اور یہ تو سب کو معلوم ہے کہ عید کے دن روزہ ممنوع ہے۔
(ب) حاجیوں کے وقوف والے دن روزہ رکھا جائے:
===========================
دیگر علماء بشمول شیخ توصیف الرحمٰن کا موقف ہے کہ عرفہ کا روزہ دنیا بھر میں اسی دن رکھا جائے جس دن میدان عرفات میں حاجی وقوف کرتے ہیں۔ اس موقف کی تائید کرنے والے علماء کا کہنا ہے کہ وقوفِ عرفہ کا دن دیگر مذہبی ایام مثلاً رمضان کے روزوں، شب قدر، عیدین، ایام نحر، عاشورہ محرم وغیرہ کی طرح نہیں ہے جو دنیا بھر میں ہر جگہ ”منایا“ جاتا ہے اور مقامی چاند کے مطابق منایا جاتا ہے۔ بلکہ یوم عرفہ (حج کا رکن اعظم) صرف اور صرف مکہ کے میدان عرفات میں ہی ”منایا“ جاتا ہے۔ یوم عرفہ کسی مخصوص ”قمری تاریخ“ کا نام نہیں بلکہ ”اُس اجتماع والے دن“ کا نام ہے، جب دنیا بھر سے لاکھوں حاجی میدان عرفات میں وقوف کرتے ہیں۔ احادیث میں اسی اجتماع عظیم یعنی ”میگا ایونٹ“ کی فضیلت بیان ہوئی ہے، نہ کہ کسی قمری تاریخ (9 ذی الحجہ) کی۔ اور اسی اجتماع عظیم والے دن غیر حاجیوں کو روزہ رکھنے کا حکم ہے۔ آج جبکہ ہم اس اجتماع عظیم کو اپنے ٹیلیویژن اور کمپیوٹر اسکرین پر براہ راست دیکھنے پر قادر ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ اس اجتماع عظیم (یوم عرفہ) کے انعقاد سے ایک دو دن پہلے یا ایک دو دن بعد ”یوم عرفہ کا روزہ“ رکھیں۔ لہٰذا ہم سب کو اُسی دن روزہ رکھنا چاہئے، جس دن حاجی عرفات میں جمع ہوتے ہیں اور اُن پر اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے تاکہ میدان عرفات سے باہر موجود روزہ دار غیر حاجی بھی روزہ کی حالت میں اللہ کی رحمتوں سے فیض یاب ہوسکیں۔ البتہ اگر عرفہ والے روز کسی ملک میں عید ہو تو وہاں مقامی تاریخ کے مطابق روزہ رکھا جاسکتا ہے کہ یہ ایک استثنائی صورت ہوگی۔
جن ممالک میں چاند سعودی عرب کے اگلے روز نکلتا ہے، وہ اگر چاہیں تو ایک کی بجائے دو دن روزہ رکھ سکتے ہیں۔ ایک مقامی چاند کے مطابق اور ایک مکہ کے چاند کے مطابق۔ ویسے بھی ذی الحجہ کے یہ ایام بہت مبارک اور برکت والے ہیں۔ چنانچہ ہم پاکستانی بدھ اور جمعرات دونوں دن کا روزہ رکھ کر صد فیصد ”یوم عرفہ“ کا روزہ پانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
============
حضرت عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا حديث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی یوم عرفہ سے زیادہ کسی اوردن میں اپنے بندوں کو آگ (جہنم) سے آزادی نہیں دیتا (مسلم)
یوم عرفہ کا روزہ:
==========
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عرفہ کے روزہ کےبارہ میں فرمایا: یہ گزرے ہوۓ اور آنے والے سال کے گناہوں کاکفارہ ہے (صحیح مسلم)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان عرفات میں یوم عرفہ کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے، لہٰذا حاجیوں کے علاوہ باقی سب کے لیے یہ روزہ رکھنا مستحب ہے ۔
یوم عرفہ کا روزہ کس دن رکھا جائے؟
=====================
اس بارے میں علمائے کرام میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ یوم عرفہ (جو 9 ذی الحجہ کو ہوتا ہے) کا روزہ دنیا بھر کے لوگ اپنے اپنے مقامی قمری تاریخ (9 ذی الحجہ) کے مطابق رکھیں یا اُسی دن رکھیں، جس دن میدانِ عرفات میں حاجی وقوف کرتے ہیں، خواہ مقامی قمری تاریخ آگے پیچھے ہی کیوں نہ ہو۔ اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ یہ مسئلہ دور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش نہیں آیا تھا۔ لہٰذا احادیث میں اس مسئلہ کی ”وضاحت“ موجود نہیں ہے۔ ذیل میں طرفین کے دلائل مختصراً پیش ہیں۔
(الف) مقامی قمری تاریخ پر عمل کریں:
======================
بہت سے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ جس طرح ہم دیگر مذہبی ایام یعنی رمضان، عیدین، ایام نحر،عاشورہ محرم وغیرہ کے تعین کے لئے مقامی قمری تاریخ پر عمل کرتے ہیں، اسی طرح یوم عرفہ کا روزہ بھی مقامی 9 ذی الحجہ کو رکھیں۔ خواہ یہ مقامی تاریخ میدان عرفات میں حاجی کے وقوف والے دن آئے، اس سے پہلے آئے یا بعد میں۔ کیونکہ اگر ہم دنیا بھر میں مکہ کے وقوف عرفات والے دن روزہ رکھیں گے تو بعض ممالک جیسے لیبیا ، تیونس اور مراکش ایسے ممالک ہیں جہاں چاند مکہ مکرمہ سے بھی پہلے نظر آجاتا ہے۔ یعنی ان ممالک میں جب 10۔ذی الحج کا دن آتا ہے تو مکہ مکرمہ میں یومِ عرفہ کا دن ہوتا ہے۔ اگر ان ممالک کے لوگ حجاج کرام کے وقوفِ عرفات والے دن روزہ رکھیں گے تو انہیں عید کے دن روزہ رکھنا ہوگا۔اور یہ تو سب کو معلوم ہے کہ عید کے دن روزہ ممنوع ہے۔
(ب) حاجیوں کے وقوف والے دن روزہ رکھا جائے:
===========================
دیگر علماء بشمول شیخ توصیف الرحمٰن کا موقف ہے کہ عرفہ کا روزہ دنیا بھر میں اسی دن رکھا جائے جس دن میدان عرفات میں حاجی وقوف کرتے ہیں۔ اس موقف کی تائید کرنے والے علماء کا کہنا ہے کہ وقوفِ عرفہ کا دن دیگر مذہبی ایام مثلاً رمضان کے روزوں، شب قدر، عیدین، ایام نحر، عاشورہ محرم وغیرہ کی طرح نہیں ہے جو دنیا بھر میں ہر جگہ ”منایا“ جاتا ہے اور مقامی چاند کے مطابق منایا جاتا ہے۔ بلکہ یوم عرفہ (حج کا رکن اعظم) صرف اور صرف مکہ کے میدان عرفات میں ہی ”منایا“ جاتا ہے۔ یوم عرفہ کسی مخصوص ”قمری تاریخ“ کا نام نہیں بلکہ ”اُس اجتماع والے دن“ کا نام ہے، جب دنیا بھر سے لاکھوں حاجی میدان عرفات میں وقوف کرتے ہیں۔ احادیث میں اسی اجتماع عظیم یعنی ”میگا ایونٹ“ کی فضیلت بیان ہوئی ہے، نہ کہ کسی قمری تاریخ (9 ذی الحجہ) کی۔ اور اسی اجتماع عظیم والے دن غیر حاجیوں کو روزہ رکھنے کا حکم ہے۔ آج جبکہ ہم اس اجتماع عظیم کو اپنے ٹیلیویژن اور کمپیوٹر اسکرین پر براہ راست دیکھنے پر قادر ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ اس اجتماع عظیم (یوم عرفہ) کے انعقاد سے ایک دو دن پہلے یا ایک دو دن بعد ”یوم عرفہ کا روزہ“ رکھیں۔ لہٰذا ہم سب کو اُسی دن روزہ رکھنا چاہئے، جس دن حاجی عرفات میں جمع ہوتے ہیں اور اُن پر اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے تاکہ میدان عرفات سے باہر موجود روزہ دار غیر حاجی بھی روزہ کی حالت میں اللہ کی رحمتوں سے فیض یاب ہوسکیں۔ البتہ اگر عرفہ والے روز کسی ملک میں عید ہو تو وہاں مقامی تاریخ کے مطابق روزہ رکھا جاسکتا ہے کہ یہ ایک استثنائی صورت ہوگی۔
جن ممالک میں چاند سعودی عرب کے اگلے روز نکلتا ہے، وہ اگر چاہیں تو ایک کی بجائے دو دن روزہ رکھ سکتے ہیں۔ ایک مقامی چاند کے مطابق اور ایک مکہ کے چاند کے مطابق۔ ویسے بھی ذی الحجہ کے یہ ایام بہت مبارک اور برکت والے ہیں۔ چنانچہ ہم پاکستانی بدھ اور جمعرات دونوں دن کا روزہ رکھ کر صد فیصد ”یوم عرفہ“ کا روزہ پانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب