• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یوم محبت یا یوم زنا

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
یوم محبت یا یوم زنا


احسان کوہاٹی

سیلانی یہ نہیں کہتا کہ دنیا بھر میں محبت کا استعارہ اور ستارہ قرار دیا جانے والا کون تھا؟

آپ اسے ہوس پرست انسان کہیں تو سیلانی کی بلا سے اور اگر شہید محبت کہیں تو بھی کہتے رہیں۔

سیلانی ماضی کے اس کردار پر عدالت لگانے جا رہا ہے نہ وہ ویلنٹائن کو کٹہرے میں کھڑا کر کے وکیل صفائی اور استغاثہ کے دلائل سننے کے موڈ میں ہے. سیلانی کی دلچسپی کچی عمر کے ان لڑکے لڑکیوں سے ہے جو آپ کو بھائی جان، لالہ، بھیا، بڑا بھائی یا باجی، آپی، آپا، بہنا کہتے ہیں یا پھر اسکول کالج یونیورسٹی جاتے ہوئے آپ کے سامنے سر جھکا کر ڈھیروں دعائیں اور آپ کا اعتماد اعتبار لے کر گھر سے نکلتے ہیں، جو لاڈ سے آپ کو ڈیڈی، بابا، پاپا کہہ کر اپنا جیب خرچ بڑھوا لیتے ہیں یا پھر جو آپ کو امی، مما، اماں اور ماں کہہ کر چھوٹی بڑی فرمائشیں کرتے ہیں، اپنے دکھ سکھ بتاتے ہیں، اپنا ہمراز بناتے ہیں. سیلانی ان پر جھپٹے والے ویلنٹائینی عفریتوں کے شکنجے میں جکڑے ’’گوروں‘‘ کی کچھ سچی کہانیاں سناتا ہے.

پہلی کہانی ایک اسکول ٹیچر کی ہے، سیاہ زلفوں اور کالی آنکھوں والی الیگزینڈرا ویرا کے چہرے پر چھائی معصومیت سے کوئی اندازہ بھی نہیں لگا سکتا کہ اس صورت کے پیچھے کتنا بھیانک خوفناک چہرہ موجود ہے. امریکی ریاست ہیوسٹن میں انگریزی پڑھانے والی الیگزینڈرا آج کل امریکی اخبارات کی ہیڈ لائنز میں ہے، یہ ہاٹ اسٹوری نیوز چینلز میں بھی مل جائے گی اور انٹرنیٹ پر بھی. اس کہانی کا مرکزی کردار اس کا نوعمر ویلنٹائن ہے، اس کی عمر محض تیرہ برس ہے، جی ہاں! اس نے ایک تیرہ برس کے طالب علم سے دوستی کی اور دوستی کے بعد وہ سب کچھ کیا جو ماضی کی ’’شہید محبت‘‘ کا خواب تھا، اس خواب کی یہ تعبیر اسے دس برس کے لیے جیل بھجوا رہی ہے.

ہیوسٹن میں آٹھویں گریڈ کی ٹیچر الیگزینڈرا نے پولیس کو بتایا کہ اس کی تیرہ برس کے طالب علم سے 2015ء میں ایک سمر اسکول میں ملاقات ہوئی تھی. پھر یہ ملاقات ملاقاتوں میں بدل گئی. بچے نے اسے انسٹاگرام پر اپنی تصویر بھیجی اور یوں یہ سلسلہ چل نکلا اور ایسا چلا کہ وہ بچہ اس کے گھر آنے جانے لگا، اور اس آنے جانے میں وہ سب کچھ ہوتا گیا جو اس بکھرے ہوئے معاشرے میں عام سی بات ہے. الیگزینڈرا نے اپنے پڑوسیوں کو بتا رکھا تھا کہ وہ اس کے بوائے فرینڈ کا چھوٹا بھائی ہے، اس لیے کسی نے زیادہ ٹوہ لینے کی کوشش بھی نہیں کی، ویسے بھی اس معاشرے میں یہ پرسنل لائف کہلاتی ہے. اس روز روز کے ملنے اور رنگ رلیوں کا نتیجہ الیگزینڈرا کے حاملہ ہونے کی صورت میں آیا۔ اس نے یہ خوشخبری بچے کے تیرہ سالہ والد کی مما پاپا کو بھی سنا دی اور بقول ٹیچر انہوں نے اسے ویلکم کیا. الیگزینڈرا کے اعترافی بیان کے مطابق ان کے ناجائز تعلقات کا بچے کے گھر والوں کو بھی علم تھا، یہاں تک کہ اس کے حاملہ ہونے پر انہیں کوئی اعتراض بھی نہیں تھا، لیکن چائلڈ پروٹیکٹو سروسز والوں کی پوچھ گچھ کے ڈر کے خوف سے اس نے اسقاط حمل کرادیا. اس کہانی کی افسوس ناک بات یہ ہے کہ الیگزینڈرا کی ایک چھ برس کی بیٹی بھی ہے جو اس سارے معاملے سے باخبر تھی. وہ تیرہ برس کے ویلنٹائن کو ڈیڈی کہہ کر پکارا کرتی تھی۔ عدالت نے سزا سناتے ہوئے کہا کہ وہ اسے کچھ عرصے کے لیے جیل بھیج کر سوسائٹی کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارے ٹیچر ہمارے بچوں کو پڑھائیں، نہ کہ ویلنٹائن بنیں‘‘۔

ایک اور کہانی سنیے. یہ بھی امریکی ریاست کی ہے. اوہائیو کے شہر ہوبرڈ کے سابق میئر رچرڈ کینن پینسٹھ برس کے ہیں، اس پیرانہ سالی میں وہ آج کل ایک مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں. ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک چار برس کی بچی سے جنسی زیادتی کی ہے. پینسٹھ برس کی عمر کے بابے کاچار برس کی بچی کے ساتھ ایسا فعل، بات سمجھ میں آتی ہے نہ یقین کرنے کو جی چاہتا ہے، لیکن آپ یقین کر لیجیے کہ ایسا ہی ہوا اور یہ سیلانی کے کہے پر نہیں، واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹر کرسٹائن گوریراکی رپورٹ پر کیجیے جو 14 ستمبر 2016ء کو شائع ہوئی. اس کے مطابق میئر نے اس تعلق کا اعتراف کیا، اور یہ کہہ کر سب کو حیرت میں ڈال دیا کہ یہ سب کرنے کے لیے اس بچی نے اسے دعوت دی تھی۔

اب نیلی آنکھوں اور گوری چمڑے والوں کے ایک اور اعزاز کا ذکر بھی سن لیجیے. آکلینڈ نیوزی لینڈ کو اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا کے کم عمر ترین ڈیڈی کا شہر ہے. یہاں گیارہ برس کے بچے نے چھتیس برس کی خاتوں کے ساتھ بدکاری کر کے یہ منفرد اعزاز حاصل کیا. ینگ ڈیڈیز کے نام سے نیٹ پر سرچ کرکے سینٹ ویلنٹائن کے روحانی سپوتوں کے نام دیکھے جا سکتے ہیں۔
اب سیلانی آپ سے کچھ اعداد و شمار کی زبان میں بات کرتا ہے. دنیا کی سپر پاور دنیا کے ناجائز بچوں کا سب سے بڑا ملک ہے، 2015ء کے دستیاب ڈیٹا کے مطابق اس برس انتالیس لاکھ ستتر ہزار سات سو پینتالیس بچے پیدا ہوئے جن میں سے سولہ لاکھ دو سو آٹھ بچے وہ تھے جو رنگ رلیوں اور خرمستیوں کے نتیجے میں دنیا میں آئے، ان کی مائیں غیر شادی شدہ تھیں، یہ اس برس شرح تولید کا 42 فیصد بنتا ہے۔

ٹھہر جائیے کہاں جا رہے ہیں! جانس ہیپکنز یو نیورسٹی کی ریسرچ تو دیکھ لیں، 2012ء میں کی گئی ریسرچ کے مطابق چونسٹھ فیصد خواتین شادی کی زحمت کیے بنا ہی ماں بنیں۔ ویلنٹائنی سوسائٹی کی ایک اور خوبی بھی سن لیجیے، 72.3 فیصد سیاہ فام شادی کے بکھیڑوں میں پڑے بنا ہی بچے پیدا کر ڈالتے ہیں، امریکی انڈینز میں یہ تناسب 66.2 فیصد، الاسکا کے مخصوص نقوش والوں میں یہ شرح 53 فیصداور ہسپانوی نژاد امریکیوں میں 29 فیصد ہے۔

گھوم گیا ناں آپ کا دماغ! سیلانی بھی ایسے ہی چکرا کر سوچ رہا تھا کہ کیا پاکستان میں ویلنٹائن ڈے کی خباثت متعارف کرانے والوں نے اپنے مڈویک میگزین میں ’’یوم محبت‘‘ کا شمارہ نکال کر کتنا کمایا ہوگا؟ دس پندرہ کروڑ یا زیادہ سے زیادہ سو کروڑ روپے۔ ان کرنسی نوٹوں کے بدلے اس خاندان نے ساری زندگی کے لیے اس گناہ کی کالک اپنی پیشانی پر مل لی اور قوم کو بھی یہ راہ دکھا دی. سیلانی کو آج بھی مڈویک میگزین کا وہ شمارہ یاد ہے جس میں اوباش لڑکے بدقماش مرد خواتین کا نام لکھ لکھ کر اظہار محبت کر رہے تھے. اس بڑے اشاعتی گروپ کے بڑے نیوز چینل نے بھی اپنے مارننگ شوز کے سرخ سیٹ پر سرخ لباس میں میزبانوں کو بٹھا کر یوم زنا کا خوب رنگ جمایا اور اسے یوم محبت کا نام دے کر خوب ریٹنگ کمائی اور اشتہار سمیٹے. اب یہ لعنت ایک آدھ نیوز چینل کو چھوڑ کر ہر چینل میں دکھائی دے رہی ہے. نیوز چینلز پر ویلنٹائن ڈے کے حق میں پروگرام ہو رہے ہیں، دلیلوں اور تاریخی حوالوں سے ثابت کیا جا رہا ہے کہ یہ تو یوم محبت ہے جس کا پیغام صرف محبت کے سوا کچھ نہیں۔

ویلنٹائن کی ایسی ہی دلالی پر مبنی ایک پروگرام پر سیلانی کی منہ بولی ماں نے فون کر کے توجہ دلائی. سیلانی نے نیوز چینل لگایا، اسکرین پر ایک طرف فرید پراچہ صاحب، مولاناحمداللہ صاحب تشریف فرما دکھائی دیے، اور دوسری طرف دو لبرل خواتین نظر آئیں جو ان سے الجھ رہی تھیں، دلائل دے رہی تھیں. ان کی بحث کا لب لباب یہ تھا کہ آپ شکر نہیں کرتے کہ بچوں نے سرخ قمیضیں ہی پہن رکھی ہیں بارودی جیکٹس نہیں، ان کے ہاتھ میں گلاب ہی تو ہیں کلاشن کوف نہیں۔ اگر یہ کسی لڑکی کو پسند کرتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے ۔ سیلانی یہ بکواس سن کر بس سر پیٹ کر ہی رہ گیا، بےشک نوجوانوں کا حق ہے کہ وہ اپنے لیے بہترین من پسند شریک حیات منتخب کریں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے سرکار دوعالم کو پسند کیا تھا اور نکاح کا پیغام پہنچایا تھا۔ صحابہ کرام نے بھی پسند کی خواتین کو نکاح میں لیا. ہمیں بھی یہ حق ہے کہ مسلمان لڑکی اور مسلمان لڑکا ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکتے ہیں، پسند بھی کر سکتے ہیں، سیلانی بھی یہی کہتا ہے کہ پسند کرو، نکاح کرو اور پھر ہاتھ پکڑ کر پارک جاؤ یا نیو یارک، پھول چھوڑ کر گملہ دو، خوب محبت کرو، احترام کرو، ایک دوسرے کا خیال کرو، مزے سے رہو، اس پر شکایت کس کو، اعتراض کس کو؟ مسئلہ تو ان ویلنٹائینوں کا ہے جو اسے امریکہ بنانا چاہتے ہیں، ہمارے سوسائٹی کا شیرازہ بکھیرنا چاہتے ہیں، کیا ہم اسے بکھرنے دیں؟ سرخ قمیض والے اوباشوں کو اپنی بہن بیٹیوں سے کھلواڑ کرنے دیں؟ سیلانی یہ سوال اس معاشرے میں ابا، بابا، ڈیڈی، پاپا اور امی، مما، موم اور اماں کہلانے والی ہر ہستی کے ذمے چھوڑ کر چشم تصور میں پھولوں کی آڑ میں پھول روندنے والے ویلنٹائینیوں کو مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ شکار کی تلاش میں کالجوں، یونی ورسٹیوں اور پارکوں میں گھومتا دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

https://daleel.pk/2017/02/14/30680
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ویلنٹائن ڈے اور حزب الشیطان


شازیہ طاہر

ویلنٹائن ڈے کے جائز یا ناجائز ہونے کے حوالے سے دلائل دیے جا رہے ہیں، اور سب لوگ اس کی تاریخ سے بھی واقف ہیں۔ آج ہم اس موضوع پر ذرا مختلف انداز سے بات کریں گے۔

بحیثیت مسلمان ہمارے ہر عمل کا معیار صرف اور صرف قرآن و سنت ہے۔ قرآنی رہنمائی اور احادیث کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی بھی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ اعمال اور کردار کے حوالے سے دنیا میں بنیادی طور پر دو ہی قسم کے انسان ہوتے ہیں۔ حزب اللہ اور حز ب الشیطان۔ حزب کے معنی ہیں لوگوں کی جماعت، فریق یاگروہ نیز وہ لوگ جن کے اعمال اور دل ایک دوسرے سے ملتے ہوں، یعنی ایک اللہ اور اس کے رسولﷺ کےتابعداروں کی جماعت ہے جس کو قرآن کریم میں حزب اللہ قرار دیا گیا ہے، اور دوسری اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نافرمانوں کی جماعت جسے حزب الشیطان کا نام دیا گیا ہے۔

وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے رستے پر چلتے ہیں، اور اپنے ہر قول و فعل میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی رضا اور خوشنودی کو مقدم سمجھتے ہیں، ایسے لوگوں کو قرآن میں مؤمن اور حزب اللہ یعنی اللہ کاگروہ یا جماعت کہا گیا ہے. جو اللہ ہی کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کو محبوب رکھتے ہیں اور اللہ ان کو محبوب رکھتا ہے۔ ان کی سعی، ان کی جدوجہد، ان کا اٹھنا بیٹھنا، زمین پر چلنا پھرنا، غرض ہر ہر عمل صرف اور صرف اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری ہوتا ہے، وہ گناہ و معصیت کے کاموں، موسیقی، فحاشی، زنا اور بےحیائی سے دور بھاگتے ہیں. شیطان کو اپنا کھلا دشمن سمجھتے ہوئے اس کے پھیلائے ہوئے طاغوتی شکنجے سے اپنے آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں. مؤمن مرد اور عورتیں دونوں غضِ بصر پر یقین رکھتے ہیں اور غیر محرم کے ساتھ کسی بھی قسم کے اختلاط کو حرام سمجھتے ہیں، اور یہی جماعت اللہ کی پسندیدہ جماعت ہے جس کے لیے انعام کے طور پر اخروی فلاح اور کامیابی رکھی گئی ہے.

اس کے برعکس دوسرے گروہ یا جماعت کو یعنی بےحیائی، فحاشی، زنا کاری اور برے کام کرنے والوں اور دوسرے لوگوں کو برائی پر ابھارنے والوں کو حزب الشیطان یعنی شیطان کی جماعت کہا گیا ہے. ان لوگوں کی نشانی قرآن کریم میں کچھ یوں بیان کی گئی ہے کہ:

”شیطان نے ان کو قابو میں کر لیا ہے اور اللہ کی یاد ان کو بھلا دی ہے۔ یہ لوگ شیطان کا ٹولہ (گروہ) ہیں اور سن رکھو کہ شیطان کا ٹولہ ہی نقصان اٹھانے والا ہے۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کرتے ہیں وہ نہایت ذلیل ہوں گے. ( سورہ مجادلہ 19.20)“

حزب الشیطن کی ایک اور پہچان یہ بھی ہے کہ وہ خود تو بےحیائی اور برے کاموں کا ارتکاب کرتے ہی ہیں لیکن کمزور ایمان والوں کو بھی اپنے رستے پر چلانے کے لیے ہر وقت کوشش کرتے رہتے ہیں، ایسے گروہ کے بارے میں اللہ پاک سورہ النور میں فرماتا ہے:

”بےشک جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بدکاری کا چرچا ہو، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (سورہ النور: 19)“

ابلیس مردود یعنی شیطان نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ انسان کو قیامت برپا ہونے یعنی آخری دم تک گمراہ کرنے کی کوششں کرے گا۔ نفس امارہ جو ہر انسان کے اندر موجود ہے، وہ بھی دراصل شیطانی وساوس ہی ہیں، شیطان انسان کے سامنے اس دنیا کو ہی جنت بنا کر پیش کرتا ہے اور اسے نئی نئی امیدیں دلاتا وعیدیں سناتا ہے، وقتی لذت اور مادیت سے بھرپور جسمانی و نفسانی خواہشوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شیطانی چالوں کے ذریعے بڑھتا رہتا ہے اور گمراہ انسان ان وساوس کے ہتھے چڑھ کر صراط مستقیم سے دور ہوتا چلا جاتا ہے، اور پھر جہالت اور کفر کی اتھاہ گہرائیوں میں گم ہو کر حزب الشیطان کا رکن بن جاتا ہے اور اپنا کام شروع کر دیتا ہے. مسلمانوں میں اغیار کی تقلید میں ان کے نقش قدم پر چلنے کی تاکید، ویلنٹائن ڈے یا یومِ تجدید محبت منانے کے نام پر کھلم کھلا بےراہ روی کی ترغیب، اور اسلامی معاشرے میں ان غیر مسلموں کے تہواروں کو محبت، روشن خیالی اور شخصی آزادی کے نام پر اخبارات اور مادہ پرست میڈیا کے ذریعے تشہیر تاکہ مسلمان اپنے مبارک اور پاک تہوار چھوڑ کر غیر اسلامی تہوار منا کر اسلام سے دور ہو جائیں۔ یہ سب حزب الشیطان کے کارکنان کی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے انہیں عزت، غیرت اور ایمان سب کچھ گروی رکھنا پڑتا ہے.

کسی بھی قوم کی پہچان اپنی اخلاقی، تہذیبی اور مذہبی اقدار کے تحفظ سے قائم ہے. اگر کوئی قوم اپنی تہذیب و روایات اور اقدار کا خود اپنے ہاتھوں گلا گھونٹنے پر آمادہ ہوگئی ہو تو اغیار کے گھناؤنے عزائم اور ناپاک سازشیں اس قوم کو ہمیشہ زوال کی طرف لے جاتی ہیں۔ اسی طرح اگر کسی قوم کی نوجوان نسل کے دل میں اس کے اپنے مذہب، عقائد، روایات اور تہذیب کے بارے میں نفرت کے جذبات پیدا کر دیے جائیں تو یہی نسل لہو و لعب میں مشغول ہو کر دوسروں قوموں کی غلامی اور نقالی پر راضی ہو جاتی ہے۔

پیارے نبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی، وہ انھی میں سے ہے۔ ( أبوداؤد)

قرآن کریم میں شیطان کے ساتھ یہود و نصاری کو بھی اہلِ ایمان کا دشمن کہا گیا ہے اور ایمان والوں کو ان سے دور رہنے اور ان سے دوستی نہ کرنے کی واضح تنبیہہ کی گئی ہے۔

”اے ایمان والو! شیطان کے قدموں پر نہ چلو، اور جو کوئی شیطان کے قدموں پر چلے گا سو وہ تو اسے بے حیائی اور بری باتیں ہی بتائے گا، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا اور لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک کر دیتا ہے، اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔ (سورہ النور :20)“

لیکن کیا کہا جائے کہ مغربی تہذیب نے لبرلز کو اپنا اس قدر گرویدہ بنا لیا ہے کہ وہ اپنے مذہب اور تہذیب سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے اغیار کی تہذیب کو اپنے گلے کا طوق بنا کر فخر محسوس کر رہے ہیں۔ ان کے ہر دن اور تہوار کو بھلے وہ اسلامی تعلیمات سے ہی کیوں نہ ٹکراتا ہو، بڑے فخر اور جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ انہوں نے اس ازلی حقیقت کو فراموش کر دیا ہے کہ جب مسلمان قوم حزب الشیطان کے نقشِ قدم پر چل نکلتی ہے اور اسلامی تعلیمات سے اپنا رشتہ توڑ کر فحاشی و عریانی، بےحیائی، بے راہروی، بدکاری اور زنا کاری کی روش اختیار کرتی ہے تو جلد یا بدیر ذلت و رسوائی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔

اسی مسلمان کے بارے میں عابی مکھنوی نے کہا ہے

؏ خودی کو بیچ کر ڈُوبا ہے مَستی میں ترا مومن
جُنوں کو تابع عِشرت ممولہ کر گیا تیرا
اسیرِ زُلف و رُخسار و لَبِ جاناں ہوا مُسلم
کوئی اِقبال سے کہہ دے کہ شاہیں مر گیا تیرا

بحیثیت مسلمان ہمارےطور طریقے، رہن سہن، رسم و رواج اور نصب العین اسلام کے مطابق ہونےچاہییں۔ اگر ہم دوسری قوموں کی نقالی میں حدود اللہ سے تجاوز کر رہے ہیں، حلال و حرام کی قیود سے آزاد ہو رہے ہیں اور اسی میں خوشی اور اطمینان محسوس کرتے ہیں تو پھر ہمارا تعلق حزب اللہ کی بجائے حزب الشیطان سے ہے۔ چونکہ بات ہو رہی تھی ویلنٹائن ڈے کی تو اب اس کو منانے والے اور اس کے حق میں بودی دلیلیں دینے والے خود ہی اس بات کا تعین کر لیں کہ ان کا تعلق کس گروہ سے ہے حزب اللہ سے یا حزب الشیطان سے؟

حضرت علاّمہ اقبال نے کہا تھا

کون ہے تارک آئین رسولِ مختارؐ
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعار اغیار
ہو گئی کس کی نگہ طرز ِسلف سے بیزار
قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام محمد کا تمھیں پاس نہیں
وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائے یہود
مثلِ انجم افق پہ روشن بھی ہوئے
بتِ ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے
 
Top