• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"یہودیوں اور عیسائیوں سے سلام کرنے میں پہل مت کرو۔۔۔" کیا اسلام کے بارے میں نفرت نہیں پھیلاتی !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
حدیثِ مبارکہ: "یہودیوں اور عیسائیوں سے سلام کرنے میں پہل مت کرو۔۔۔" کیا اسلام کے بارے میں نفرت نہیں پھیلاتی !!!

صحیح مسلم کی حدیث جو کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہود و نصاری سے سلام میں پہل مت کرو، جب تمہاری ملاقات کسی سے ہو تو اسے تنگ راستے کی طرف مجبور کردو)کیا اس حدیث پر عمل کرنے سے یہ لوگ اسلام میں داخل ہونے سے متنفر نہیں ہونگے؟

الحمد للہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں

"یہ جاننا ہمارے لئے ضروری ہے کہ دعوت الی اللہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا صاحبِ بصیرت کوئی نہیں ، اللہ کی طرف دعوت دینے والوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے افضل راہنما ہیں۔

جب ہم یہ بات ذہن نشین کر لیں تو اسکے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بھی فرمان ہمیں حکمت سے عاری نظر آئے تو ہم فرمانِ نبوی کی بجائے اپنی عقل کو قصور وار ٹھہرائیں گے، اور کہیں گے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو سمجھنے میں غلطی لگ رہی ہے، لیکن اسکا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم ہر فرمانِ رسالت کو اپنی عقل اور فہم کیمطابق پرکھنا شروع کردیں، اس لئے ہماری عقل محدود ہے، شریعت میں کچھ عمومی قواعد موجود ہیں جن کا خاص جزئی مسائل میں کلیدی کردار ہوتا ہے"



چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان :

(یہود و نصاری سے سلام میں پہل مت کرو، جب تمہاری ملاقات کسی سے ہو تو اسے تنگ راستے کی طرف مجبور کردو)


کا مطلب ہے کہ: راستے میں جب ان سے ملو تو انکے کیلئے راستہ کھلا مت چھوڑو، کہ وہ چوڑے ہو کر چلیں اور تم تنگی میں پڑ جاؤ، بلکہ تم اپنے راستے پر چلتے جاؤ، اور اگر راستے میں کہیں تنگی ہو تو اُنہیں اس تنگی میں جانے دو خود مت جانا، اور اس حدیث کے سمجھنے کیلئے یہ بات معروف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی مدینہ میں کسی کافر یہودی کو دیکھ کر اسے دیوار کی طرف نہیں دھکیلا، کہ اُسے دیوار کے ساتھ ہی لگا دیا ہو، اور نہ ہی یہ کام صحابہ کرام نے پوری دنیا میں فتوحات کے بعد کیا ۔

چنانچہ اس حدیث کا معنی یہ ہوا کہ، تم ان سے سلام کی ابتدا نہ کرو، اور نہ ہی راستہ کھلا کرو، اور اگر راستے میں وہ ملیں تو تم انہیں راستہ دینے کیلئے نہ بکھرو، بلکہ تم جیسے جا رہے ہو ویسے ہی چلتے رہو، اور اگر راستے میں کوئی تنگی ہو تو اُنہیں تنگی میں جانے دو۔
اس حدیث میں اسلام کے متعلق نفرت نہیں ہے، بلکہ اس میں مسلمان کے وقار کو ظاہر کیا گیا ہے، کہ وہ اپنے رب کے علاوہ کسی کے سامنے نہیں جھکتا"انتہی

کچھ تبدیلی کے ساتھ مجموع فتاوی ابن عثیمین (3/38) سے ماخوذ ہے.

اسلام سوال و جواب
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
حدیثِ مبارکہ: "یہودیوں اور عیسائیوں سے سلام کرنے میں پہل مت کرو۔۔۔" کیا اسلام کے بارے میں نفرت نہیں پھیلاتی !!!

صحیح مسلم کی حدیث جو کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہود و نصاری سے سلام میں پہل مت کرو، جب تمہاری ملاقات کسی سے ہو تو اسے تنگ راستے کی طرف مجبور کردو)کیا اس حدیث پر عمل کرنے سے یہ لوگ اسلام میں داخل ہونے سے متنفر نہیں ہونگے؟

الحمد للہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں

"یہ جاننا ہمارے لئے ضروری ہے کہ دعوت الی اللہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا صاحبِ بصیرت کوئی نہیں ، اللہ کی طرف دعوت دینے والوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے افضل راہنما ہیں۔

جب ہم یہ بات ذہن نشین کر لیں تو اسکے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بھی فرمان ہمیں حکمت سے عاری نظر آئے تو ہم فرمانِ نبوی کی بجائے اپنی عقل کو قصور وار ٹھہرائیں گے، اور کہیں گے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو سمجھنے میں غلطی لگ رہی ہے، لیکن اسکا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم ہر فرمانِ رسالت کو اپنی عقل اور فہم کیمطابق پرکھنا شروع کردیں، اس لئے ہماری عقل محدود ہے، شریعت میں کچھ عمومی قواعد موجود ہیں جن کا خاص جزئی مسائل میں کلیدی کردار ہوتا ہے"







کا مطلب ہے کہ: راستے میں جب ان سے ملو تو انکے کیلئے راستہ کھلا مت چھوڑو، کہ وہ چوڑے ہو کر چلیں اور تم تنگی میں پڑ جاؤ، بلکہ تم اپنے راستے پر چلتے جاؤ، اور اگر راستے میں کہیں تنگی ہو تو اُنہیں اس تنگی میں جانے دو خود مت جانا، اور اس حدیث کے سمجھنے کیلئے یہ بات معروف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی مدینہ میں کسی کافر یہودی کو دیکھ کر اسے دیوار کی طرف نہیں دھکیلا، کہ اُسے دیوار کے ساتھ ہی لگا دیا ہو، اور نہ ہی یہ کام صحابہ کرام نے پوری دنیا میں فتوحات کے بعد کیا ۔

چنانچہ اس حدیث کا معنی یہ ہوا کہ، تم ان سے سلام کی ابتدا نہ کرو، اور نہ ہی راستہ کھلا کرو، اور اگر راستے میں وہ ملیں تو تم انہیں راستہ دینے کیلئے نہ بکھرو، بلکہ تم جیسے جا رہے ہو ویسے ہی چلتے رہو، اور اگر راستے میں کوئی تنگی ہو تو اُنہیں تنگی میں جانے دو۔
اس حدیث میں اسلام کے متعلق نفرت نہیں ہے، بلکہ اس میں مسلمان کے وقار کو ظاہر کیا گیا ہے، کہ وہ اپنے رب کے علاوہ کسی کے سامنے نہیں جھکتا"انتہی

کچھ تبدیلی کے ساتھ مجموع فتاوی ابن عثیمین (3/38) سے ماخوذ ہے.

اسلام سوال و جواب



افسوس صد افسوس۔ محمد خاتم النبیّن صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کیا عجیب باتیں منسوب کردی گئی
ھیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
افسوس صد افسوس۔ محمد خاتم النبیّن صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کیا عجیب باتیں منسوب کردی گئی
ھیں۔
اس آیت کا بارے میں آپ کا کیا خیال ہے

یہودی نصارا کبھی مسلمانوں کے ہمدرد و اور دوست نہیں ہوسکتے

اے ایمان والو ! تم یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ یہ توآپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی ایک کے ساتھ دوستی کرے گا وہ بلاشبہ انہیں میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہت راست نہیں دکھاتا ۔ المائدہ ( 51 ) ۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
اس آیت کا بارے میں آپ کا کیا خیال ہے

یہودی نصارا کبھی مسلمانوں کے ہمدرد و اور دوست نہیں ہوسکتے

اے ایمان والو ! تم یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ یہ توآپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی ایک کے ساتھ دوستی کرے گا وہ بلاشبہ انہیں میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہت راست نہیں دکھاتا ۔ المائدہ ( 51 ) ۔



حدیث میں دوستی کا زکر کہاں ھے؟

کیا اس حدیث کو پڑھ کر کوئی یہود یا عیسائی اسلام کے قریب آئے گا؟
 
Top