• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہودیوں کے بارے میں مغربی شخصیات کی آراء

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یہودیوں کے بارے میں
سابق اہم مغربی شخصیات کیا کہتی ہیں ؟
۱۔ جارج واشنگٹن سب سے پہلا امریکی صدر (1732-1799)

’’ یہ (یہودی)ہمارے خلاف دشمن کی افواج سے کہیں زیادہ مؤثر طور پر کام کررہے ہیں ۔ وہ ہماری آزادیوں اور ان مقاصد کے لئے جن کے لئے ہم مصروف کار ہیں ، سو گنا زیادہ خطرناک ہیں ۔ ہمارے لئے یہ بہت ماتم کا مقام ہے کہ ہماری کسی بھی ریاست نے مہم کے طور پر ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی یہ یہودی ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔یہ (یہودی ) امریکہ کی خوشی کے سب سے بڑے دشمن ہیںــ‘‘۔
( حوالہMaxims of George Washington by A.A. Appleton & Co)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
۔ بنجامین فرینکلین( سابق مصنف ، سائنسدان اور امریکی دستور کا بانی )


’’یہ لوگ خون آشام چمگاڈریں ہیں … ان کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ عیسائیوں اور دوسری غیر یہودی قوموں کے خون پر گذارا کریں ۔ اگر آپ انہیں امریکہ سے نہیں نکالیں گے تو دو سال سے بھی کم عرصے میں وہ اتنی بڑی تعداد میں ہوجائیں گے کہ وہ اس سرزمین پر قبضہ کرلیں گے اور ہمارے اس طرز حکومت کو تبدیل کردیں گے جس کیلئے ہم امریکیوں نے اپنے خون بہائے اور جانیں قربان کی ہیں ۔

اگر آپ انہیں امریکہ بدر نہیں کریں گے تو 200سال سے بھی کم عرصے میں، ہماری نسلیں ان کے کھیتوں میں انہیں پیدا وار فراہم کرنے کی غرض سے ملازم کی حیثیت سے کام کررہی ہوں گی اور وہ اپنے محلات میں بیٹھے رقمیں گن رہے ہوں گے ۔ معزز سامعین ، میں آپ کو متنبہ کرتا ہوں کہ اگر آپ نے ان یہودیوں کو ہمیشہ کے لئے نکال باہر نہ کیا تو آپ کے بچے ٓپپ کی قبروں میں آپ کو کوس رہے ہوں گے ……چیتا اپنی کھال کے دھبے کبھی تبدیل نہیں کرسکتا ۔ یہودی بنیادی طور پر ایشائی ہیں ۔ انہیں اگر یہاں داخلے کی اجازت دی گئی تو وہ ہمارے لئے المیہ ثابت ہوں گے۔ لہٰذا اس آئینی اجلاس کے ذریعے انہیں باہر نکال دینا چاہئے ‘‘۔
(حوالہ : فلاڈلفیا کنونشن ۔ 1787)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

۳۔ہنری فورڈ اول ( بانی فورڈ موٹر کمپنی۔ 1863-1947)


’’آپ 50مالدار ترین یہودی سرمایہ کروں کو پکڑ لیجئے ، یعنی ان لوگوں کو جو محض اپنے منافع کی خاطرجنگوں کی آگ بھڑکاتے ہیں، ان پر قابو پائیے اور پھر دیکھیں گے کہ یہ تمام حرکتیں (جنگیں بھڑکانا ، اور ملکوں کو کمزور کرنا وغیرہ ) ایک دم بند ہوجائیں گی ۔
( حوالہ اخبار کلیولینڈ نیوز ۔20ستمبر 1923)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
۔ نپولئین بونا پارٹ ۔ فرانسیسی جنرل


یہودیوں کے ساتھ مختلف سلوک ہونا چاہئے ۔ یہ لوگ ریاست کے اندر ریاست کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جدید دور کے سب سے بڑے ڈاکوں اور انسانیت کا سڑا ہوا گوشت ہیں۔ انہوں نے حضرت موسیٰ ؑکے زمانے ہی سے سود خوری جاری رکھی ہوئی ہے اور انہوں نے دوسری قوموں پر ظلم و ستم ڈھایا ہے ہمیں چاہئے کہ ہم کاروباری دنیا میں یہودیوں کا داخلہ بند کردیں کیونکہ وہ تجارت کو بھی خراب کردیتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ دنیا اس سب سے زیادہ قابل نفرت قوم پر میں نے اپنی ناپسندیگی ظاہر کردی ہے ۔
( حوالہ : کتاب اینٹی زئین ص 13۔ولئیم گرمسٹاڈ)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ونسٹن چرچل ۔ برطانوی وزیر اعظم


یہودیوں کی یہ تحریک نئی نہیں ہے ویشاپُٹ ( ایک یہودی مفکر) کے دور سے لے کر آج ٹراٹسکی اور کارل مارکس تک تہذیب کو برباد کرنے اور دشمنی اور نفرت سے پُر تعمیر نو اور ایک ناقابل عمل مساوات پر مبنی معاشرے کے قیام کے لئے اسکی عالمی سازش آہستہ آہستہ جاری ہے خاص بات یہ ہے کہ ( دنیا کی تمام بڑی فکری تحریکوں کے) سر کردہ حضرات یہی یہودی لوگ ہیں ۔
( حوالہ : کتاب اینٹی زئین ۔ ص 28ولئیم گرمسٹاڈ)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اسرائیل …یہودی دانشور نوم چومسکی
کیا کہتے ہیں؟
(رضی الدین سیّد)

(نوم چومسکی امریکا میں مقیم معروف یہودی دانشور ہیں، جنہوں نے بین الاقوامی حالات پر بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔ نوم چومسکی کی خصوصیت یہ ہے کہ باوجود یہودی ہونے کے وہ اسرائیل کے وجود کے خلاف ہیں۔ وہ کھلے عام کہتے ہیں کہ عرب اور فلسطینی مظلوم ہیں، جنہیں بڑی طاقتوں نے ان کے حق سے محروم کر رکھا ہے ۔ ذیل میں ہم عربوں اور صہیونیوں کے خلاف ان کے اہم خیالات پیش کر رہے ہیں، جو ان کی بہت زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ’’ پاور اینڈ پرسپیکٹس‘‘ سے لئے گئے ہیں)

’’جس وقت بغداد پر بمبوں اور میزائلوں کی بارش ہورہی تھی اور بدقسمت عراقی سپاہی ریت میں پناہ تلاش کر رہے تھے ، اس وقت جارج بش (سینئر) نے ’’نئے ورلڈ آرڈر ‘‘ کا فخریہ اعلان کیا۔ اس نئے ورلڈ آرڈر کا آسان زبان میں ترجمہ یہ ہوگا کہ ’’ہو گا وہی جو ہم چاہیں گے‘‘۔ 1960ء کے عشرے میں امریکی تجزیہ کاروں نے محسوس کیا کہ عربوں کے خلاف صدر ناصر (مصر ) کی بڑھتی ہوئی دھمکیوں کو صرف اسرائیل کی طاقت ہی روک سکتی ہے ۔ لہٰذا 1967ء میں اسرائیل کے ہاتھوں مصر کی فوجی قوت کی تباہی سے تجزیہ کاروں کے اس تصور کی تصدیق بھی ہوگئی ۔ جہاں تک فلسطینیوں کا تعلق ہے ، ان کا کیس تو سب سے خراب ہے ۔ ان کے صرف ’’منفی حقوق ‘‘ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس آبلے کو تشدد اور دیگر اذیتوں کی نوک سے وقتاً فوقتاً پھوڑ دیا جاتا ہے ‘‘۔

’’ تیسری دنیا کے کونے کونے میں نفرت اور خوف کا راج ہے کہ وہ (مغربی طاقتیں ) ہم پر کب حملہ کریں گی اور کس بہانے سے کریں گی؟ لیکن اپنی فتح کے نشے میں چور اور اپنی کامیابی پر مسرور مغرب کے کانوں تک ایسی کوئی آواز نہیں پہنچ پاتی‘‘۔

’’مغربی کنارے (West Bank)میں تعمیرات اور بستیوں میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔ ایسی بائی پاس شاہراہیں بڑی تیزی کے ساتھ تعمیر کی گئیں جو یہودی بستیوں کو اسرائیلی شہروں سے ملاتی تھیں۔ منصوبہ یہ ہے کہ ایسی سڑکیں تعمیر کی جائیں جن پر سفر کرتے ہوئے آپ کو دور دور تک کوئی عرب نہ دکھائی دے۔ حکومت کی طرف سے بڑے پیمانے پر تعمیراتی کاموں اور بھاری سرمایہ داری کے ذریعے ایک طرف یہودیوں کو مشرقی یروشلم میں آباد ہونے کی ترغیب دی جارہی ہے اور دوسری طرف فلسطینی آبادی کے پھیلائو اور ترقیاتی منصوبوں کو ختم کیا جارہا ہے ۔ ایسی صورت حال نہ صرف مشرقی یروشلم بلکہ مقبوضہ علاقوں سمیت پورے اسرائیل میں پائی جاتی ہے۔ ’’ بیت السّالم ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق عربوں سے ان کی نجی زمین چھین کر انہیں بے دخل کیا جارہا ہے ۔ تقریباً 38,500مکانات اس زمین پر یہودیوں کے لئے تعمیر کئے گئے ، لیکن ان میں سے ایک بھی مکان فلسطینیوں کے لئے نہیں تھا ۔ فلسطینیوں کے پاس جو بچا کچا علاقہ رہ گیا ہے ، اس تعمیرات ممنوع کردی گئی ہیں‘‘۔

’’ یروشلم کے میئر ’’ کولک‘‘ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا میں نہیں چاہتا کہ عربوں کو ( یہودیوں ) سے برابری کا احساس ہو۔ اگرچہ کہیں کہیں اس برابری کا (جھوٹا) احساس دلانا بھی ضروری ہوتا ہے، مگر وہاں جہاں زیادہ فرق نہ پڑتا ہو‘‘۔

’’ اردن جیسے غریب ملک میں بھی فیکٹریاں ، تجارت ، ہوٹل اور یونیورسٹیاں تیزی سے پھل پھول رہی ہیں، لیکن مغربی کنارے میں اس طرح کا کوئی عمل واقع نہیں ہونے دیا گیا ۔ صرف ہیمبرون کی اسلامی یونیورسٹی ایک ایسا ادارہ ہے جو دراصل اسرائیل کی امداد سے بنا تھا ، جس سے اس کی غرض یہ تھی کہ اس ادارے میں اسلامی بنیاد پرستی کو پروان چڑھایا جائے تاکہ PLOجیسے سیکولر گروپ کی بیخ کئی کی جاسکے، لیکن عجیب تماشہ یہ ہوا کہ یہی اسلامی یونیورسٹی اب حماس جیسے گروپ کا مرکز بن گئی ہے۔ فنانشل ٹائمز کے نامہ نگاروں نے دیکھا کہ فلسطینی گائوں پانی کے لئے کنویں کھودنے کے حق سے بھی محروم ہیں۔ ہفتے دو ہفتے کے بعد کسی روز نلوں میں پانی بھیج دیا جاتا ہے اور اس میں بھی گندے پانی کی ملاوٹ کردی جاتی ہے ۔ گائوں کے باسی میلوں دور جا کر قصبوں سے پانی لے کر آتے ہیں ‘‘۔

’’ امریکا ڈالروں کی برسات کررہا ہے اور یہ پیسہ عربوں سے زمین چھیننے اور یہودی بستیاں تعمیر کرنے کے کام آرہا ہے اور یہی پیسہ سیکورٹی فورسز پر بھی خرچ کیا جارہا ہے ۔ انجام کار یہ ہوگا کہ فلسطینی حقوق سے محروم محض تابعدار رعایا بن کر رہ جائیں گے یا پھر مایوس ہو کر علاقہ ہی چھوڑ جائیں گے‘‘۔

اوری نیر ، ایک مغربی صحافی لکھتا ہے کہ عربوں کے لئے چلنے والی بسوں کے لئے شہر ہیبرون میں سے گزرنے کی معانعت ہے لیکن شہر کی ننھی سی یہودی اقلیت کی بسیں شہر میں مزے سے گھومتی پھرتی ہیں۔ زندگی عربوں کے لئے ایک ڈرائونا خواب بن گئی ہے۔ ان کی معیشت برباد کردی گئی ہے ۔ ان کی گزر گاہوں کے نزدیک لمبی زنجیروں والے خونخوار کتے باندھ دئیے جاتے ہیں تاکہ وہاں سے گزرنا ہی محال ہوجائے ۔ عربوں کے گھروں کی دیواروں پر دائودی ستارہ ( ڈیوڈ اسٹار) پینت کردیا جاتا ہے ۔ ’’ عربو دفع ہوجائو ‘‘ ،’’ عربوں کو مار دو‘‘ وغیرہ قسم کے نعرے بھی جابجا تحریر کردئیے جاتے ہیں ‘‘۔

’’ یہ بھی یاد رکھا جائے کہ امریکا اسرائیل کو جتنی بھی امداد دے رہا ہے۔ وہ باعتبار حجم نہ صرف غیر معمولی ہے بلکہ غیر قانونی بھی ہے ۔ ہیومن رائٹس واچ نے اس معاملے پر حال ہی میں کافی بحث کی ہے، جس کے نتیجے میں بار بار یہی دہرایا گیا ہے کہ امریکی قانون کسی بھی ایسی حکومت کو جو منظم تشدد اور ایذا ارسانی میں ملوث ہو، فوجی اور اقتصادی امداد دینے سے منع کرتا ہے ‘‘۔

’’ جو انتظامات اب نظر آرہے ہیں، وہ سب شرمناک اور توہین آمیز ہیں۔ کچھ اقوام جیتے جاگتے انسانوں کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے اور معاشرے کو کوڑا بنانے میں دوسری اقوام سے آگے نکل گئی ہیں ۔ اس کے باوجود ساری دنیا اسی طرف چل پڑی ہے ۔ یہ دنیا اسی بھیانک سمت میں آگے چلتی رہے گی کیونکہ اس کے آقائوں نے ایک ایسا نیا ورلڈ آرڈر تخلیق کرلیا ہے جس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ’’ہوگا وہی جو ہم چاہیں گے!‘‘ ( کتاب ورلڈ آرڈر کی حقیقت ۔ جمہوری پبلیکیشنز )

یہ تھے انقلابی خیالات یہودی مدبرنوم چومسکی کے! اس کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا پھر بھی ہمیں اسرائیل کو تسلیم کرلینا چاہئے یااسرائیل پر دبائو بڑھاتے رہنا چاہئے ؟ چومسکی نے امریکا اور اسرئیل کے خلاف پوری آزادی کے ساتھ یہ تنقید لکھی ہے لیکن ہمارے ملک میں اس طرح کی سچی باتیں کہنا اب کٹھن بنتا جا رہا ہے۔
 
Top