اسرائیل …یہودی دانشور نوم چومسکی
کیا کہتے ہیں؟
(رضی الدین سیّد)
(نوم چومسکی امریکا میں مقیم معروف یہودی دانشور ہیں، جنہوں نے بین الاقوامی حالات پر بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔ نوم چومسکی کی خصوصیت یہ ہے کہ باوجود یہودی ہونے کے وہ اسرائیل کے وجود کے خلاف ہیں۔ وہ کھلے عام کہتے ہیں کہ عرب اور فلسطینی مظلوم ہیں، جنہیں بڑی طاقتوں نے ان کے حق سے محروم کر رکھا ہے ۔ ذیل میں ہم عربوں اور صہیونیوں کے خلاف ان کے اہم خیالات پیش کر رہے ہیں، جو ان کی بہت زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ’’ پاور اینڈ پرسپیکٹس‘‘ سے لئے گئے ہیں)
’’جس وقت بغداد پر بمبوں اور میزائلوں کی بارش ہورہی تھی اور بدقسمت عراقی سپاہی ریت میں پناہ تلاش کر رہے تھے ، اس وقت جارج بش (سینئر) نے ’’نئے ورلڈ آرڈر ‘‘ کا فخریہ اعلان کیا۔ اس نئے ورلڈ آرڈر کا آسان زبان میں ترجمہ یہ ہوگا کہ ’’ہو گا وہی جو ہم چاہیں گے‘‘۔ 1960ء کے عشرے میں امریکی تجزیہ کاروں نے محسوس کیا کہ عربوں کے خلاف صدر ناصر (مصر ) کی بڑھتی ہوئی دھمکیوں کو صرف اسرائیل کی طاقت ہی روک سکتی ہے ۔ لہٰذا 1967ء میں اسرائیل کے ہاتھوں مصر کی فوجی قوت کی تباہی سے تجزیہ کاروں کے اس تصور کی تصدیق بھی ہوگئی ۔ جہاں تک فلسطینیوں کا تعلق ہے ، ان کا کیس تو سب سے خراب ہے ۔ ان کے صرف ’’منفی حقوق ‘‘ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس آبلے کو تشدد اور دیگر اذیتوں کی نوک سے وقتاً فوقتاً پھوڑ دیا جاتا ہے ‘‘۔
’’ تیسری دنیا کے کونے کونے میں نفرت اور خوف کا راج ہے کہ وہ (مغربی طاقتیں ) ہم پر کب حملہ کریں گی اور کس بہانے سے کریں گی؟ لیکن اپنی فتح کے نشے میں چور اور اپنی کامیابی پر مسرور مغرب کے کانوں تک ایسی کوئی آواز نہیں پہنچ پاتی‘‘۔
’’مغربی کنارے (West Bank)میں تعمیرات اور بستیوں میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔ ایسی بائی پاس شاہراہیں بڑی تیزی کے ساتھ تعمیر کی گئیں جو یہودی بستیوں کو اسرائیلی شہروں سے ملاتی تھیں۔ منصوبہ یہ ہے کہ ایسی سڑکیں تعمیر کی جائیں جن پر سفر کرتے ہوئے آپ کو دور دور تک کوئی عرب نہ دکھائی دے۔ حکومت کی طرف سے بڑے پیمانے پر تعمیراتی کاموں اور بھاری سرمایہ داری کے ذریعے ایک طرف یہودیوں کو مشرقی یروشلم میں آباد ہونے کی ترغیب دی جارہی ہے اور دوسری طرف فلسطینی آبادی کے پھیلائو اور ترقیاتی منصوبوں کو ختم کیا جارہا ہے ۔ ایسی صورت حال نہ صرف مشرقی یروشلم بلکہ مقبوضہ علاقوں سمیت پورے اسرائیل میں پائی جاتی ہے۔ ’’ بیت السّالم ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق عربوں سے ان کی نجی زمین چھین کر انہیں بے دخل کیا جارہا ہے ۔ تقریباً 38,500مکانات اس زمین پر یہودیوں کے لئے تعمیر کئے گئے ، لیکن ان میں سے ایک بھی مکان فلسطینیوں کے لئے نہیں تھا ۔ فلسطینیوں کے پاس جو بچا کچا علاقہ رہ گیا ہے ، اس تعمیرات ممنوع کردی گئی ہیں‘‘۔
’’ یروشلم کے میئر ’’ کولک‘‘ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا میں نہیں چاہتا کہ عربوں کو ( یہودیوں ) سے برابری کا احساس ہو۔ اگرچہ کہیں کہیں اس برابری کا (جھوٹا) احساس دلانا بھی ضروری ہوتا ہے، مگر وہاں جہاں زیادہ فرق نہ پڑتا ہو‘‘۔
’’ اردن جیسے غریب ملک میں بھی فیکٹریاں ، تجارت ، ہوٹل اور یونیورسٹیاں تیزی سے پھل پھول رہی ہیں، لیکن مغربی کنارے میں اس طرح کا کوئی عمل واقع نہیں ہونے دیا گیا ۔ صرف ہیمبرون کی اسلامی یونیورسٹی ایک ایسا ادارہ ہے جو دراصل اسرائیل کی امداد سے بنا تھا ، جس سے اس کی غرض یہ تھی کہ اس ادارے میں اسلامی بنیاد پرستی کو پروان چڑھایا جائے تاکہ PLOجیسے سیکولر گروپ کی بیخ کئی کی جاسکے، لیکن عجیب تماشہ یہ ہوا کہ یہی اسلامی یونیورسٹی اب حماس جیسے گروپ کا مرکز بن گئی ہے۔ فنانشل ٹائمز کے نامہ نگاروں نے دیکھا کہ فلسطینی گائوں پانی کے لئے کنویں کھودنے کے حق سے بھی محروم ہیں۔ ہفتے دو ہفتے کے بعد کسی روز نلوں میں پانی بھیج دیا جاتا ہے اور اس میں بھی گندے پانی کی ملاوٹ کردی جاتی ہے ۔ گائوں کے باسی میلوں دور جا کر قصبوں سے پانی لے کر آتے ہیں ‘‘۔
’’ امریکا ڈالروں کی برسات کررہا ہے اور یہ پیسہ عربوں سے زمین چھیننے اور یہودی بستیاں تعمیر کرنے کے کام آرہا ہے اور یہی پیسہ سیکورٹی فورسز پر بھی خرچ کیا جارہا ہے ۔ انجام کار یہ ہوگا کہ فلسطینی حقوق سے محروم محض تابعدار رعایا بن کر رہ جائیں گے یا پھر مایوس ہو کر علاقہ ہی چھوڑ جائیں گے‘‘۔
اوری نیر ، ایک مغربی صحافی لکھتا ہے کہ عربوں کے لئے چلنے والی بسوں کے لئے شہر ہیبرون میں سے گزرنے کی معانعت ہے لیکن شہر کی ننھی سی یہودی اقلیت کی بسیں شہر میں مزے سے گھومتی پھرتی ہیں۔ زندگی عربوں کے لئے ایک ڈرائونا خواب بن گئی ہے۔ ان کی معیشت برباد کردی گئی ہے ۔ ان کی گزر گاہوں کے نزدیک لمبی زنجیروں والے خونخوار کتے باندھ دئیے جاتے ہیں تاکہ وہاں سے گزرنا ہی محال ہوجائے ۔ عربوں کے گھروں کی دیواروں پر دائودی ستارہ ( ڈیوڈ اسٹار) پینت کردیا جاتا ہے ۔ ’’ عربو دفع ہوجائو ‘‘ ،’’ عربوں کو مار دو‘‘ وغیرہ قسم کے نعرے بھی جابجا تحریر کردئیے جاتے ہیں ‘‘۔
’’ یہ بھی یاد رکھا جائے کہ امریکا اسرائیل کو جتنی بھی امداد دے رہا ہے۔ وہ باعتبار حجم نہ صرف غیر معمولی ہے بلکہ غیر قانونی بھی ہے ۔ ہیومن رائٹس واچ نے اس معاملے پر حال ہی میں کافی بحث کی ہے، جس کے نتیجے میں بار بار یہی دہرایا گیا ہے کہ امریکی قانون کسی بھی ایسی حکومت کو جو منظم تشدد اور ایذا ارسانی میں ملوث ہو، فوجی اور اقتصادی امداد دینے سے منع کرتا ہے ‘‘۔
’’ جو انتظامات اب نظر آرہے ہیں، وہ سب شرمناک اور توہین آمیز ہیں۔ کچھ اقوام جیتے جاگتے انسانوں کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے اور معاشرے کو کوڑا بنانے میں دوسری اقوام سے آگے نکل گئی ہیں ۔ اس کے باوجود ساری دنیا اسی طرف چل پڑی ہے ۔ یہ دنیا اسی بھیانک سمت میں آگے چلتی رہے گی کیونکہ اس کے آقائوں نے ایک ایسا نیا ورلڈ آرڈر تخلیق کرلیا ہے جس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ’’ہوگا وہی جو ہم چاہیں گے!‘‘ ( کتاب ورلڈ آرڈر کی حقیقت ۔ جمہوری پبلیکیشنز )
یہ تھے انقلابی خیالات یہودی مدبرنوم چومسکی کے! اس کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا پھر بھی ہمیں اسرائیل کو تسلیم کرلینا چاہئے یااسرائیل پر دبائو بڑھاتے رہنا چاہئے ؟ چومسکی نے امریکا اور اسرئیل کے خلاف پوری آزادی کے ساتھ یہ تنقید لکھی ہے لیکن ہمارے ملک میں اس طرح کی سچی باتیں کہنا اب کٹھن بنتا جا رہا ہے۔