اصل مضمون نگار: ابو عدنان سہیل حفظہ اللہ
بحوالہ ویب سائٹ: [LINK=http://www.deenekhalis.net/play.php?catsmktba=524]دین خالص[/LINK]
تنبیہہ: ابو تراب بھائی سے گزارش ہے کہ دیگر سائٹس سے مواد کی شیئرنگ کرتے وقت اصل ویب سائٹ کا حوالہ ضرور دیں۔
یہودی اور شیعہ بھائی بھائی
(١) دین میں غلو یا مبالغہ آرائی:
مذہبی پیشواؤں اور دینی رہنماؤں کے مرتبہ میں حد سے زیادہ مبالغہ آرائی اہل کتاب خصوصاً قوم یہود کی نمایاں صفت ہے ،قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر اس عیب کی نشان دہی کی گئی ہے ،مثلاً:
( یا اھل الکتاب لا تغلوا ف د ینکم ولا تقولوا علی ﷲ الا الحق )
''اے اہل کتاب !(یہود ونصاریٰ)اپنے دین میں غلو اختیار نہ کرو اور ﷲ تعالیٰ سے منسوب کرکے غلط باتیں نہ کہو ''۔ (النساء:٧١)
( وقالت الیھود عزیر ابن ﷲ وقالت النصاری المسیح ابن ﷲ )
''یہود نے عزیر کے بارے میں دعویٰ کیا کہ وہ ﷲ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ مسیح کو ﷲکا بیٹا بتاتے ہیں''۔ (التوبة:٣٠)
( وقالوا لن یدخل الجنة الا من کان ھود ا او نصاریٰ تلک امانیھم قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین )
''یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہود ونصاریٰ کے علاوہ کوئی دوسرا جنت میں داخل نہ ہونے پائے گا ۔یہ ان لوگوں کی دل بہلاوے کی باتیں یں ،آپ ان سے پوچھئے کہ اپنے اس دعویٰ کی کوئی دلیل ہو تو لاؤ اگر تم سچے ہو''۔ (البقرة:١١١)
(٢) اپنے دینی رہنماؤں کو اﷲکے اختیارات سے متصف کرنا :
( اتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا من دون ﷲ ) (التوبة:٣١)
''انہوں نے ﷲ کو چھوڑ کر اپنے دینی پیشواؤں او ر علماء ومشائخ کو اپنا رب بنالیا ہے ''
( قل یا اھل الکتاب تعالوا الی کلمة سواء بینا وبینکم الا نعبد الا ﷲ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون ﷲ ) (آل عمران:٦٤)
''(اے نبی !)آپ اہل کتاب سے کہہ دیجئے کہ آؤ اس بات کی طرف جو تمہارے اور ہمارے درمیان مشترک ہے و ہ یہ کہ ﷲکے علاوہ ہم میں سے کوئی کسی کو اپنا رب قرار نہ دے''
(٣) التباس وکتمانِ حق:
( ان الذ ین یکتمون ما انزلنا من البینات والھدیٰ من بعد ما بيناہ للناس في الکتاب اولئک یلعنھم ﷲ ویلعنھم اللاعنون )
''جو لوگ ہماری نازل کردہ نشانیوں اور فرمان ہدایت کو چھپاتے ہیںحالانکہ ہم نے اسے اپنی کتاب(توریت وانجیل)میں لوگوں کے لیے واضح طور پر بیان کردیاتھا ۔ایسے ہی لوگوں پر ﷲتعالیٰ لعنت فرماتا ہے اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنتیں بھی ان پر پڑ تی ہیں'' (البقرة:١٥٩)
( یا اھل الکتاب لم تکفرون بایات ﷲ وانتم تشھدون ، یا اھل الکتاب لم تلبسون الحق بالباطل وتکتمون الحق وانتم تعلمون )
''اے اہل کتاب !(یہود ونصاریٰ )تم جان بوجھ کر کس لئے ﷲ کی آیات کاانکا ر کرتے ہو؟اور اے اہل کتاب!تم کس لیے حق پر باطل کا غلاف چڑھا کر اسے پوشیدہ کرتے ہو ۔حالانکہ تم دیدہ دانستہ حق کو نظر انداز کررہے ہو''۔ (آل عمران:٧٠ـ٧١)
(٤) مسلمانوں سے شدید عداوت ودشمنی:
( لتجدن اشد الناس عد اوة للذ ین آ منوا الیھود والذ ین اشرکوا )
''تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عداوت رکھنے والے تم قوم یہود کو پاؤگے اور ان لوگوں کو بھی جو شرک کا ارتکاب کرتے ہیں''۔ (المائدة:٨٢)
یہ ہے قرآن کی گواہی اہل کتاب خصوصاً یہود کے بارے میں ﷲتعالیٰ سے زیادہ سچی بات اور کس کی ہوسکتی ہے؟؟
آئیے اب ہم یہود کی ان خصوصیات کی شیعی لٹریچر میں تلاش کرتے ہیں :
سب سے پہلے دین میں غُلو یا مبالغہ آرائی کو لیجئے:
امت مسلمہ کے نزدیک جس طرح تمام نبی ورسول ﷲتعالیٰ کی طرف سے مقرر اور نامزد ہوتے ہیں ،امت یا قوم اسے منتخب نہیں کرتی ٹھیک اسی طرح شیعہ حضرات کے یہاں نبی کے بعد ان کے جانشین وخلیفہ اور امام بھی ﷲتعالیٰ ہی کی طرف سے نامزد کیے جاتے ہیں ۔ان کے عقیدے کے مطابق ان کے یہ تمام ''امام''ایک ''نبی''کی طرح معصوم ہی ہوتے ہیں ،انبیاء ورسل ہی کی طرح ان کی اطاعت امت پر فرض ہوتی ہے ۔مرتبہ کے لحاظ سے یہ''ائمہ ''تمام انبیاء ورسولوں سے افضل اور رسول اکرم ۖ کے برابر ہوتے ہیں ۔ان کے خیال میں خاتم النبیین ۖ کی وفات کے بعد اس دنیا کے خاتمہ تک ﷲتعالیٰ کی طرف سے بارہ امام نامزد ہیں ۔جو امام اول حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے شروع ہوکر علی الترتیب حسن عسکری تک دنیا میں آکر کاروبار امامت انجام دینے کے بعد وفات پاگئے مگر بارہویں اور آخری امام بغداد کے پاس ''سرمن رای ''کے غار میں روپوش ہیں اور وہی قرب قیامت میں مہدی بن کر نمودار ہوں گے اور دنیا پر بلا شرکت غیرحکومت کریں گے وغیرہ وغیرہ۔
ایران کے مقتدر شیعی رہنما اور ایرانی انقلاب کے بانی آنجہانی آیت ﷲ خمینی اپنی کتاب ''الحکومة الاسلامیہ ''میں ''الولاية التکوینیہ ''کے عنوان کے تحت رقم طراز ہیں :
(وان من ضروریات مذ ھبنا ان لأئمتنا مقاماً لا یبلغہ ملک مقرب ولا نبي مرسل ) (الحکومة الاسلامیہ ،آیت ﷲ خمینی ص:٥٢)
''اور ہمارے مذہب (اثنا عشریہ )کے ضروری اور بنیادی عقائد میں سے یہ عقیدہ بھی ہے کہ ہمارے ائمہ کو وہ مقام ومرتبہ حاصل ہے ،جس تک کوئی مقرب فرشتہ اور نبی مرسل بھی نہیں پہنچ سکتا''۔
جمہور امت مسلمہ کے نزدیک کائنات کے ذرہ ذرہ پر حکومت وفرماروائی صرف ﷲ تعالیٰ کی ہے اور ساری مخلوق اس کے تکوینی حکم کے سامنے سرنگوں اور تابع وفرمان ہے یہ شان کسی نبی اور رسول کی بھی نہیں ۔قرآن مجید کی بے شمار آیتیں اس بات کا واضح طور پر اعلان کرتی ہیں مگر اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ :
(فان للامام مقاماً محمود اً ودرجة ساميةً وخلافةً تکوینية تخضع لولایتھا وسیطرتھا جمیع ذرات الکون )
''امام کو وہ مقام اور بلند درجہ اور ایسی تکوینی حکومت حاصل ہوتی ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے حکم واقتدار کے آگے سرنگوں اور تابع فرمان ہوتا ہے '' (الحکومة الاسلامیہ ،آیت ﷲخمینی :٥٢)
اثنا عشری مذہب کی روسے شیعہ حضرات کے ائمہ کو انبیاء علیہم السلام کے تمام خصائص اور کمالات ومعجزات تک حاصل تھے اور ان کا درجہ ا نبیاء سابقین ،یہاں تک کہ اولوالعزم انبیاء نوح ،ابراہیم ،موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے بھی بلند وبرتر ہے ۔شیعہ حضرات کی مستند ترین کتاب ''الجامع الکافی ''جو ابوجعفر یعقوب کلینی راوزی (المتوفیٰ ٣٢٨ھ )کی تصنیف ہے ،صحت واستناد کے لحاظ سے اہل تشیع کے نزدیک اس کا وہی درجہ ہے جو امت مسلمہ کے نزدیک صحیح بخاری کا ہے ،بلکہ اس سے بھی زیادہ کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق ''الجامع الکافی''بارہویں غائب امام کی تصدیق شدہ شیعہ مذہب کا سارا دارومدار اسی کتاب پر ہے ''اصول کافی ''میں کتاب الحجہ باب (ان الارض کلھا للامام )کے تحت ابوبصیر سے روایت ہے کہ ان کے ایک سوال کے جواب میں امام جعفرصادق نے فرمایا :
(اما علمت انّ الد ینا والاخرة للامام یضعھا حیث یشاء ویدفعھا الی من یشاء )
''کیا تم کو یہ بات معلوم نہیں کہ دنیا اور آخرت سب امام کی ملکیت ہے ۔وہ جس کو چاہیں دے دیں اور جو چاہیں کریں '' (اصول کافی :ص ٢٥٩)
شیعوں کے کثیر التصانیف بزرگ اورمجتہد مُلّا باقر مجلسی اپنی تصنیف ''حیاة القلوب''میں تحریر فرماتے ہیں:
''امامت بالاتر از رتبہ پیغمبری ''امامت کا درجہ نبوت و پیغمبری سے بالا تر ہے ''۔
(حیات القلوب :ملا باقر مجلسی ج٣ ص١٠)
ائمه كو صفات الہیہ سے متصف کرنا :
اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ ازل سے ابد تک ساری باتوں کا علم (ما کان وما یکون کا علم)ﷲتعالیٰ کے سوا کسی کو حاصل نہیں اور اس کا علم ساری کائنات کو محیط ہے:وانّ ﷲ قد احاط بکل ش ء علما (الطلاق:١٢) یہودی ذہن وفکر نے اپنی افتاد طبع کے مطابق ''غلو عقیدت ''کے نظریہ کو فروغ دینے کے لیے پہلے رسول ﷲۖ کے لیے (ماکان وما یکون)کے علم کا پروپیگنڈا کیا اور پھر آپ ۖ کے بعد شیعہ حضرات کے خود ساختہ ''ائمہ معصومین ''اس علم کے وارث اور امین ٹھہرائے گئے ،شدہ شدہ یه مشرکانہ نظریہ عقیدت رسول کے بھیس میں عامة المسلمین کے ایک خاص طبقہ یعنی ''اہل بدعت ''کا بھی اوڑھنا بچھونا بن گیا۔
ملاحظہ کیجئے شیعی روایت :امام جعفر صادق نے اپنے خاص رازداروں کی ایک محفل میں ارشاد فرمایا :
(لو کنت بین موسی والخضر لأخبرتھما انی اعلم منھما ولانباتھما ما لیس فی اید یھما لأن موسیٰ والخضر علیھما السلام اعطیا علم ما کان ولم یعطیا علم ما یکون وما ھو کائن حتی تقوم الساعة وقد ورثناہ من رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ السلام وآلہ وراثة )
''اگر میں موسیٰ اور خضر کے درمیان ہوتا تو ان کو بتا تا کہ ان دونوں سے زیادہ علم رکھتا ہوں ،اور ان کو اس سے باخبر کرتا ہوں جو ان کے علم میں نہیں تھا ۔کیونکہ موسیٰ وخضر علیہما السلام کو صر ف ''ماکان''کا علم حاصل ہوا تھا اور ''ما یکون ''اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے اس کا علم ان کو نہیں دیا گیا تھا ۔اور ہم کو وہ علم رسول ﷲۖ اور آپ کی آل سے وراثت میں حاصل ہوا ہے '' (اصول کافی :ص:١٦٠)
اہل تشیع کا یہ عقیدہ ہے کہ دنیا کبھی امام سے خالی نہیں رہ سکتی ،اصول کافی میں ابوحمزہ سے روایت ہے کہ انہوں نے چھٹا امام جعفر صادق سے دریافت کیا کہ یہ زمین بغیر امام کے باقی اور قائم رہ سکتی ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر زمین پر امام کا وجود باقی نہ رہے تو وہ دھنس جائے گی باقی نہیں رہے سکے گی۔ (اصول کافی ،ص:١٠٤)
اسی طرح اما م باقر سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ اگر امام کو ایک گھڑی کے لئے بھی زمین سے اٹھالیا جائے تو وہ اپنی آبادی کے ساتھ ایسے ڈولے گی جیسے سمندرمیں موجیں آتی ہیں۔
اہل کتاب (یہود ونصاریٰ)کا دعویٰ ہے کہ یہود ونصاریٰ کے علاوہ کوئی دوسراگروہ جنت میں داخل نہیں ہوپائے گا ۔اہل تشیع کے یہاں بھی یہ دعویٰ اسی کروفر کے ساتھ پایا جاتا ہے ان کے نزدیک ائمہ معصومین کو ماننے والے (یعنی شیعہ حضرات )اگر ظالم اور فاسق بھی ہیں تب بھی جنت ہی میں جائیں گے اور ان کے علاوہ مسلمان اگرچہ متقی اور پرہیز گار بھی ہوں اس کے باوجود دوزخ میں ڈالیں جائیں گے ۔اصول کافی میں امام باقر سے روایت کی گئی ہے آپ نے فرمایا:
( ان ﷲ لا یستحي ان یعذب امة آمنت بامام لیس من ﷲ ، وان کانت في اعمالھا برئية تقية وانّ ﷲ لیستحی ان یعذب امة آمنت بامام من ﷲ وان کانت فی اعمالھا ظالمة مسیئة ) (اصول کافی :ص،٢٣٨)
ﷲتعالیٰ ایسی امت کو عذاب دینے سے نہیں شرمائے گا جو ایسے امام کو مانتی ہو جو ﷲ تعالیٰ کی طرف سے نامزد نہیں کیا گیا ہے ،اگرچہ یہ امت اپنے اعمال کے لحاظ سے نیکو کار اور متقی وپرہیز گار ہو،اور ایسے لوگوں کو عذاب دینے ﷲتعالیٰ احتراز فرمائے گا جو ﷲتعالیٰ کی طرف سے نامزد اماموں کو مانتے ہوں ۔اگرچہ یہ لوگ اپنی عملی زندگی میں ظالم و بدکردار ہوں''
واضح رہے کہ اسی قسم کی شیعی ذہنیت یا دوسرے لفظوں میں ''یہودی اندازِ فکر ''بعد کے دور میں رفتہ رفتہ مسلمانوں میں بھی رچ بس گیا اور نوبت بہ ایں جارسید کہ چند فقہی یا فروعی اختلافات کی بنیاد پر امت مسلمہ میں موجود بدعت پسند گروہ کے ''شیخ الشیوخ'' احمد رضا خاں بریلوی نے جو برصغیر میں مشہور ومعروف ہیں اپنے مخالف توحید مسلم افراد جماعتوں کے خلاف یہ بھپتی تصنیف کرڈالی کہ :
تجھ سے اور جنت سے کیا نسبت وہابی دور ر ہو
ہم رسول ﷲ کے ،جنت رسول ا ﷲ کی !
قطع نظر اس کے کے ان کے اپنے گروہ کے افراد کی اکثریت دین وشریعت کی کتنی پیروکار اور نماز ،روزہ ،زکاة ،حج وغیرہ ارکانِ اسلام پر کس حد تک عمل پیرا ہے ؟؟ صریح مشرکانہ اعمال اور بدعتی رسوم میں دان رات مبتلا ہونے اور اسلام کے صاف وشفاف اور پاکیزہ دامن میں فسق وفجور اور ہر طرح کی معصیت کے داغ ودھبے لگاتے رہنے کے باوجود یہ لوگ خود کو جنت کا ٹھیکیدار سمجھ بیٹھے ہیں ۔
اہل کتاب (یہود ونصاریٰ )کی دوسری صفت جو قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے وہ ان کا اپنے دینی پیشواؤں ،اور راہبوں اور درویشوں کو ﷲکے صفات سے متصف کرنا ہے ۔یہ مذموم اور مشرکانہ نظریہ بھی ''شیعی مذہب''میں پورے آب وتاب کے ساتھ جلودہ گر ہے ان کی کتابوں سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
اصول کافی کتاب الحجہ باب مولد النبی ۖ میں محمد بن سنان سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوجعفر ثانی (محمد بن علی نقی)سے (جو نویں امام ہیں)حرام وحلال کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا :
( یا محمد !ْ ان ﷲ تبارک وتعالیٰ لم یزل منفرداً بواحدنیتہ ثم خلق محمد اً وعلیاً وفاطمة فمکثوا الف دھرٍ ثم خلق جمیع الأشیاء فأشھد ھم خلقا واجری طاعتھم علیھا وفوّض امورھا الیھم فھم یحلون مایشاؤن ویحرمون ما یشاؤن ولن یشاؤا الا ان یشاء ﷲ تبارک وتعالیٰ )۔ (اصول کافی :ص:٢٧٨)
اے محمد! ﷲتعالیٰ ازل سے اپنی وحدانیت کے منفرد رہا ،پھر اس نے محمد،علی ،اور فاطمہ کو پیدا کیا ،پھر یہ لوگ ہزاروں قرن ٹھہرے رہے ۔اس کے بعد ﷲنے دنیا کی تمام چیزوں کو پیدا کیا ،پھر ان مخلوقات کی تخلیق پر ان کو شاہد بنایا اور ان کی اطاعت وفرمانبرداری ان تمام مخلوقات پر فرض کی اور ان کے تمام معاملات ان کے سپرد کئے ۔یہ تو حضرات جس چیز کو چاہتے ہیں حلال کردیتے ہیں اور جس چیز کو چاہتے ہیں حرام کردیتے ہیں۔اور یہ نہیں چاہتے مگر جو ﷲ تبارک تعالیٰ چاہے ''۔
علامہ قزوینی نے اس ''روایت''کی شرح میں یہ تصریح کردی ہے کہ یہاں محمد ،علی اور فاطمہ سے مراد یہ تینوں حضرات اور ان کی نسل سے پیدا ہونے والے تمام ائمہ ہیں ۔ (الصافی شرح اصول کافی جزء :٣ جلد ٢ ص:١٤٩)
اصول کافی ہی میں امام جعفر صادق سے روایت ہے :
( قال ولا یتنا ولاية ﷲ التی لم يبعث نبي قط الا بھا) (اصول کافی :ص٢٧٦)
''ہماری ولایت (یعنی بندوں اور تمام مخلوقات پر ہماری حاکمیت )بعینہ ﷲتعالیٰ کی ولایت وحاکمیت جیسی ہے جو نبی بھی ﷲکی طرف سے بھیجا گیا وہ اس کی تبلیغ کا حکم لے کر بھیجا گیا''۔
شیعی لٹریچر کے مطابق ان کے ائمہ تمام الوہی صفات کے حامل ہیں ۔ان کی شان یہ ہے کہ عالم ماکان وما یکون میں کوئی چیز ان سے مخفی اور غیب نہیں ،انسانوں کے نامۂ اعمال روزانہ ان کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں ،ان کے بارے میں غفلت سہو اور نسیان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اورکائنات کے ذرہ ذرہ پر اُن کی تکوینی حکومت ہے ،وہ دنیا وآخرت کے مالک ہیں ،جس کو چاہیں دیں اور جسے چاہیں محروم رکھیں وغیرہ وغیرہ۔
كتمان وتقيه
قرآن مجید کے مطالعہ سے اہل کتاب یعنی یہود ونصاریٰ کی ایک اور کمینہ صفت اور ذلیل حرکت جو ہمیں معلوم ہوتی ہے وہ ان کی حق کو چھپانے اور دین کی اصلیت پر نفاق اور جھوٹ کا پردہ ڈالنے کی مجرمانہ عادت اور ذلیل فطرت ہے۔جب ہم شیعہ لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں التباس اور کتمان حق کی یہ دونوں قبیح عادتیں تقیہ او ر''کتمان''کے عنوان کے تحت اس میں نمایاں نظر آتی ہیں ۔اگر فرق ہے تو صرف اس قدر کہ یہود دُنیوی مفاد کے لئے حق کے بیان سے گریز کرنے اور ﷲکی تعلیمات کو پوشیدہ رکھنے کے مجرم تھے ،مگر ان کے یہ معنوی سپوت شیعہ حضرات ﷲکی مخلوق کو گمراہ کرنے کے لئے اپنے باطل نظریات وفکار کو حق کے لبادے میں چھپا کر پیش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں:
''کتمان'' اور ''تقیہ''شیعہ مذہب کی اصولی تعلیمات میں سے ہے۔''کتمان''کا مطلب ہے اپنے اصل عقیدہ اور مذہب ومسلک کو چھپانا اور دوسروں پر ظاہر نہ ہونے دینا ،اسی طرح ''تقیہ''کہتے ہیں اپنے قول یا عمل سے نفس واقعہ یا حقیقت کے خلاف یا اپنے عقیدہ وضمیر اورمذہب ومسلک کے برعکس ظاہر کرنا اور اس طریقہ سے دوسروں کو دھوکہ اور فریب میں مبتلا کرنا۔
شیعہ مذہب کی معتبر ترین کتاب''اصول کافی''میں امام جعفر صادق کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے:
(انکم علی د ین من کتمہ اعزّہ ﷲ ومن اذ اعہ اذ لہ ﷲ ) ''تم ایسے دین پر ہو ،جو اس کو چھپائے گا ﷲتعالیٰ اسے عزت عطافرمائے گا اور جو کوئی اسے شائع وظاہر کرے گا ۔ﷲاس کو ذلیل اور رسوا کردے گا '' (اصول کافی :ص:٤٨٥)
''تقیہ''کے ایک مستقل باب کے تحت اصول کافی میں روایت ہے :
( عن ابی عمیر الأعجمی قال قال لہ ابو عبد ﷲ علیہ السلام یا ابا عمیر تسعة اعشار الد ین فی التقية ولا دین لمن لا تقية لہ ۔)
''ابو عمیر اعجمی روایت کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق نے مجھ سے فرمایا کہ اے ابوعمیر !دین کے دس حصوں میں سے نو حصے تقیہ میں ہیں جو تقیہ نہیں کرتا وہ بے دین ہے ''۔ (اصول کافی ،ص:٤٨٢)
امام باقر سے بھی تقیہ کے سلسلے میں ایک روایت اسی ''اصول کافی''میں درج ہے :
(قال ابوجعفر علیہ السلام : التقية من دینی ود ین آباء ی ولا ایمان لمن لا تقية لہ )
''امام باقر نے فرمایا تقیہ میرا دین ہے اور میرے آباء اجداد کا دین ہے ،جو شخص تقیہ نہیں کرتا اس میں ایمان ہی نہیں'' (اصول کافی ،ص:٤٨٤)
''من لا یحضرہ الفقیہ''نامی کتاب میں جو شیعہ حضرات کے اصولِ اربعہ میں سے ہے ،تقیہ کے بارے میں ایک روایت درج کی گئی ہے :
(لو قلت ان تارک التقية کتارک الصلاة لکنت صادقاً ، وقال علیہ السلام: لا د ین لمن لا تقية لہ )۔ (من لایحضرہ الفقیہ بحوالہ الباقیات الصالحات ص:٢١٦)
امام جعفر نے فرمایا اگر میں کہوں کہ تقیہ ترک کرنے والا ایسا ہی گناہ گار ہے جیسا کہ نماز ترک کرنے والاتو میری بات صحیح اور سچ ہوگی ۔اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو تقیہ نہیں کرتا وہ بے دین ہے''
حقیقت یہ ہے کہ تقیہ اورکتمان کے اس خطرناک عقیدے کے ذریعے یہودی عناصر کو امت مسلمہ میں نفوذ کرنے اور ان میں نفاق وتفرقہ ڈالنے میں جس قدر کامیابی ہوئی ہے وہ کسی اور طریقے سے ممکن نہ تھی ۔اس طرح یہ لوگ عامة المسلمین میں گھل مل گئے اور اندر ہی اندر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ،ان کے عقائد میں فساد اور انہیں دین اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے ۔ظاہر ہے کہ یہودیت براہ راست اور کھل کر تو مسلمانوں کے قلوب واذہان پر اثر انداز ہو نہ سکتی تھی ۔اس نے شیعیت کے روپ میں جن لوگوں کو اپنے دام فریب میں گرفتار کرلیا تھا وہ بھی بہرحال ایک محدود طبقہ تھا جس کے بل بوتے پر یہودیت کے خطرناک عزائم کی تکمیل ممکن نہ تھی ،اس لئے عام مسلمانوں میں اثر ونفوذ کے لئے ''کتمان''اور ''تقیہ''سے بہتر کوئی اور تدبیر ممکن نہ تھی ۔
اس غیر محسوس طریقہ پر یہ لوگ مسلمانوں میں گھل مل گئے اور ان کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد فلسفہ اور علم کلام کی مدد سے انہوں نے مسلمانوں کے مختلف عقائد اور دین کے مسلمات میں شکوک وشبہات پیدا کرنے شروع کردئیے ۔رفتہ رفتہ مسلمان ان شاطر اور گھاک یہودیوں کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ گئے ،کچھ عرصے بعد چشم فلک نے یہ عبرت منظر بھی دیکھ لیا کہ ہمارے یہ عیار دشمن ''یہودی ''دنیا کے مختلف مقامات پر خاص طور سے برصغیر ہندوپاک میں اسی تقیہ اور کتمان کے پرفریب ہتھکنڈوں کے سہارے صوفیوں کے بھیس میں مسلمانوں کے مذہبی پیشوا اور مقتدی بن بیٹھے ہیں اور کھلے عام اپنے معتقدین پر ''شیعیت ''یا دوسرے لفظوں میں ''یہودیت ''کی تعلیم وتبلیغ کرنے میں مصروف ہیں ،حالانکہ ان کی شیعیت وضلالت ان کے خیالات وافکار کتابوں سے عیاں اور صاف ظاہر تھی ،مگر بھولے بھالے مسلمان عقیدت کے نشہ میں چُور انہیں اپنا ''روحانی پیشوا''ہی نہیں بلکہ مطاع اور ''حاجت روا ''تک سمجھے بیٹھے ہیں۔
عدوات مسلمين :
جہاں تک مسلمانوں سے نفرت وعداوت رکھنے کا سوال ہے تو قرآن مجید اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ''یہودی''مسلمانوں کے شدید دشمن ہیں اور ان کی دشمنی ودلی عداوت اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ اس کی تمنا اور تگ ودو کرتے رہیں کہ مسلمانوں کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ جائے ،اس مقصد کے لیے انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ شیعیت کے روپ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت وعداوت اور تبّرا کا محاذ کھول دیا ،اور صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم وخیرالقرون کے مسلمانوں سے لوگوں کو بدظن کرنے کے لیے ہر وہ ہتھکنڈہ استعمال کیا جو ان کے امکان میں تھا ۔
رسول ﷲۖ کی وفات کے بعد اسلام کے عروج وترقی کا سنہرا دور خلفاء ثلاثہ یعنی حضرت ابوبکر ،حضرت عمرفاروق ،اور حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہم کی خلافت کا عہد زریں تھا ،جس میں مسلمانوں نے مختصر عرصے کے اندر قیصر وکسریٰ کی حکومتوں کو روند ڈالا اور اسلام کا پیغام سرزمین عرب سے نکل کر مصر وشام ،ایران وعراق ،ماوراء النہر ،آزربائیجان اور افغانستان تک جا پہنچا ،ظاہر ہے کہ اسلام کی یہ ترقی اور کامیابی کمینہ فطرت قوم یہود آسانی سے کس طرح برداشت کرسکتی تھی ؟اسلام کا یہ سیل عظیم روکنا ان بدبختوں کے بس کا روگ تو نہ تھا مگر انہوں نے اپنے دلی بغض وعداوت سے جوانہیں اسلام اور مسلمانوں سے تھی ،اس بات کی کوشش کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی کہ امت مسلمہ کو خلفاء ثلاثہ اور تقریبا تمام صحابہ کرام سے بدظن کردیاجائے ۔
یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ کا قابل فخر سرمایہ رسول ﷲۖ کے بعد دور خلفاء راشدین اور صحابہ کرام کا اُسوہ ہی ہے ۔دین اور اس کی تمام جزئیات ہم تک صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم کے ذریعہ ہی پہنچی ہیں ۔یہ لوگ اسلام کا مرکز عقیدت ہی نہیں ،منبع رشد وہدایت اور مسلمانوں کے لیے سرمایہ افتخار ہیں ۔دین وملت کے پاسبان ہیں ۔ان سے ذہنی رشتہ ٹوٹ جانے کے بعد اسلام کا کوئی تصور ہی باقی نہیں رہ سکتا۔کیونکہ قرآن مجید جو دین کی اساس ہے اور ذخیرہ احادیث جو ہمارے اعمال کی بنیاد ہے ۔دونوں ہی ناقابل اعتبار اور بے وقعت ہوجاتے ہیں اگر حاملین قرآن وحدیث گروہ صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم ،خاص طور پر خلفاء ثلاثہ کو کافر ومرتد سمجھنے اور اسلام سے پھر جانے کا تصور عام ہوجائے ۔
کیونکہ قرآن کے جامع ابوبکر وعثمان رضی ﷲعنہما اور احادیث کے حافظ اجل صحابہ رضی ﷲعنہم ہی جب رسول ﷲۖ کی وفات کے فوراً بعد اسلام سے پھر جائیں ،تو ان کے جمع کئے ہوئے قرآن اور ذخیرہ احادیث کا کیا اعتبار رہے گا ؟اور جب قرآن وحدیث سے ہی اعتبار اٹھ گیا تواسلام کہاں باقی رہ جائے گا؟یہی وجہ ہے کہ شیعہ حضرات ظاہر دعویٰ ایمان کے باوجود نہ صرف موجودہ قرآن کو تحریف شدہ اور ناقابل اعتبار کہتے ہیں بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ اصل قرآن جو حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے جمع کیا تھا ،مسلمانوں کے قرآن سے تقریباً ڈھائی گناہ زیادہ ضخیم تھا ،وہ ان سے حضرت حسن وحسین رضی ﷲ عنہما اور دیگر ائمہ معصومین کے ہاتھوں منتقل ہوتا ہوا دسویں غائب امام تک پہنچا اور وہ اسے اور دیگر انبیاء کی نشانیوں کو لے کر ''سرمن رای''کیغار میں روپوش ہوگئے اور قرب قیامت میں اس قرآن کو لے کر ظاہر ہوں گے ۔ (اصول کافی ،ص:١٣٩،٦٧١)
مسلمانوں کی بدقسمتی کہ قرون اولیٰ میں مختلف سیاسی عوامل اور ناگزیر حالات کے تحت امت مسلمہ میں ''یہودی لابی''کے قیام،اثر ونفوذ اور اسلام میں انہیں اندر سے نقصان پہنچانے اور تارپیڈو کرنے کا موقع مل گیا اور مسلمان اپنی سادہ لوحی کی بنا پر ان دشمنانِ اسلام کی سازشوں سے باخبر نہ ہوسکے ۔یا پھر کچھ طالع آزما حکمرانوں کی چشم پوشی اور سیاسی مفاد کے لیے ان خطرناک عناصر کی درپردہ ہمت افزائی سے یہودیت کے جراثیم اسلام کے جسد صالح میںتیزی سے سرایت کرگئے !وجہ کچھ بھی ہو ،ان خبیث دشمنوں کی جراء ت کی داد دینی پڑے گی جنہوں نے عین اسلامی حکومتوں کے زیر سایہ اور ''سرپرستی میں ''اسلام کی بنیاد کھودنے اور ملت اسلامیہ کو فنا کے گھاٹ اتارنے کی خطرناک سازشیں کیں اورکامیاب ہوئے ۔آج بھی وہ علی الاعلان اسلام کے مشاہیر اور صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم کی توہین کرنے اور غلوئے عقیدت کے بھیس میں مسلمانوں کی برگزیدہ شخصیات کو ''ارباباً من دون ﷲ''بناکر توحید کے قلعہ کو زمین بوس کرنے میں مصروف عمل ہیں ۔اور مسلمان آنکھ بند کرکے ان یہود کی پیروی کررہے ہیں اور یہود صفت دشمنان اسلام کو اپنا مقتدیٰ وپیشوا بنائے ہوئے ہیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار!!