یہ احساس کہ تم صنف نازک ہو
بارش کے ننھے ننھے قطرے باہر صحن میں گر کر دھیما دھیما سا شور پیدا کر رہے تھے میں نےکمرے سے باہر جھانک کر دیکھا تو وہ ننھے قطرے ہی تھےجو مل کر ایسا سماں پیدا کر رہے تھے کہ دل نے کہا کہ جب یہ حقیرقطرے بھی اتنے اہم ہیں کہ کہیں برس پڑیں تو موسم کی گرمی کو ٹھنڈک میں بدل دیں ،خشک ہوتے میدانوں کو لہلہاتے کھلیانوں میں تبدیل کردیں مرجھائے پتے اور پھول اپنی جگہ پر کھل اٹھیں اور سبز درختوں کی سبزی میں کچھ اور نکھار آجائے ، جب ان معصوم قطروں کی زندگی میں بھی اس قدر اہم مقصد پوشیدہ ہے تو پھر مجھے اللہ نے اس زمیں پر کس مقصد کے لئے بھیجا ؟ ابھی میرے ذہن میں یہ سوال گردش کر ہی رہا تھا کہ مجھے یاد آیا اللہ نے قرآن میں بتایا ہے كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ ،(مومنو) جتنی امتیں (یعنی قومیں) لوگوں میں پیدا ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتےہو،بات سمجھ تو آگئی کہ میں بھی اس بہترین امت کی ایک فرد ہوں جس کا مقصد زندگی نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہے اس خیال کے آتے ہی دل خوشی سے جھوم اٹھا ، لیکن اگلے ہی لمحے پھر ایک سوال ذہن میں ابھر آیا کہ اگر اس قدر عظیم کام کے لئے میرے رب نے مجھے وجود بخشا تو پھر صنف نازک کیوں بنایا ؟ یہ کام جو طاقت اور اقتدار کے بغیر سر انجام نہیں دیا جاسکتا ،کیا میں صنف نازک ہوتے ہوئے بھی اس قابل ہوں ؟ ابھ میں اس سوال کا جواب تلاش کر ہی رہی تھی تو اچانک خیال ایا کہ آج "صنف نازک"محض صنف نازک نہیں رہی بلکہ وہ مردوں کی برابری کے بھنور میں پھنس کر دفتروں میں نوکری کے لئے اپنے جوتے چٹخاتی پھر تی ہے کہیں زرق برق لباس میں ملبوس کیٹ واک کرتی شمع محفل بنی ہوئی ہے اور کہیں اپنے چراغ خانہ ہونے کی حیثیت کو فراموش کرکے بیرون خانہ سر گرمیوں میں کھلاڑی بنی نظر آتی ہے اور کبھی اسمبلیوں میں مردوں کو ڈکٹیشن کراتی نظر آتی ہے جب ان سب فتنہ سامانیوں کے ساتھ صنف نازک زندگی بسر کر رہی ہے تو کیا وہ اپنے مقصد تخلیق کی تکمیل نہیں کر سکتی ؟
دل نے جواب دیا کیوں نہیں کرسکتی ؟ اور ذہن نے ماضی کے اوراق میں محفوظ ان مراحل کو سامنے لاکر رکھ دیا جو ہمیشہ تن تنہا صنف نازک ہی نے سر کئے ، جب وہ چراغ خانہ بنی تو خاندان ہی نہیں پورا معاشرہ بھی پر نور ہوگیا جب ماں کی حیثیت میں سامنے آئی تو صدیوں تک میدان جہاد کو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ اور خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ جیسے بہادر مجاہد فراہم کرتی رہی بہن بنی تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ جیسے مظبوط اعصاب کے مالک انسان کا دل بھی موم ہوگیا اور پل بھر میں زندگی کی کایا پلٹ گئی ، بیوی اور بیٹی کی صورت مین خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا جیسی ایثار و وفا کی تصویریں اور فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا جیسے صبر و رضا کے پیکر تارخ اسلام کی اسٹیج پر صدیوں سے نظر آرہے ہیں جہاں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا جیسی فہم وفراست بھی ہے اور ام عمارہ جیسی جرات و شجاعت بھی اور اسما ئ بنت ابی بکر جیسی باحوصلہ اور قربانی کے جذبے سے سر شار خواتین بھی ، اور آج وقت پھر منتظر ہے صنف نازک کے ایسے ہی عظیم کردار کا جس مین پہاڑوں جیسی عظمت ہے اور اسی عظمت میں تمہاری پہچان ہے ، میں جب اس خیال سے واپس پلٹی تو میرا دل ایک اہم فیصلہ کرچکا تھا اپنی زندگی کا نصب العین رب کی رضا کے حصول کو بنا لینے کا اپنی عمر اور ساری توانائیاں اسی راہ میں کھپا دینے کا اور اپنی سیرت وکردار کو اسوہ حسنہ ﷺ اور سیرت صحابہ کے چھوڑے ہوئے نقوش کے مطابق ڈھال لینے کا ، یہ سوچ کر اطمینان کی ایک لہر میرے رگ وپے میں دوڑ گئی کہ اصل میں یہی تو میری منزل تھی جس کا راستہ مجھے صاف واضح اور روشن نظر آرہا تھا اور ذہن کے گوشے سے یہ صدا آرہی تھی کہ
یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگادو ڈر کیسا ؛؛؛
گر جیت گئے تو کیا کہنے ہارے بھی تو بازی مات نہیں ۔
نسرین فاطمہ سحر