• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ حدیث عورت کی تذلیل کرتی ھے، ۔۔۔ ایک منکر حدیث کا اعتراض۔۔۔

شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
باب : اس شخص کی دلیل جس نے یہ کہا کہ نماز کو کوئی چیز نہیں توڑتی

حدیث نمبر : 514
حدثنا عمر بن حفص، قال حدثنا أبي قال، حدثنا الأعمش، قال حدثنا إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة،‏.‏ قال الأعمش وحدثني مسلم، عن مسروق، عن عائشة، ذكر عندها ما يقطع الصلاة الكلب والحمار والمرأة فقالت شبهتمونا بالحمر والكلاب، والله لقد رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يصلي، وإني على السرير ـ بينه وبين القبلة ـ مضطجعة فتبدو لي الحاجة، فأكره أن أجلس فأوذي النبي صلى الله عليه وسلم فأنسل من عند رجليه‏.‏
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم نے اسود کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے ( دوسری سند ) اور اعمش نے کہا کہ مجھ سے مسلم بن صبیح نے مسروق کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہ سے کہ ان کے سامنے ان چیزوں کا ذکر ہوا۔ جو نماز کو توڑ دیتی ہیں یعنی کتا، گدھا اور عورت۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم لوگوں نے ہمیں گدھوں اور کتوں کے برابر کر دیا۔ حالانکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح نماز پڑھتے تھے کہ میں چارپائی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور قبلہ کے بیچ میں لیٹی رہتی تھی۔ مجھے کوئی ضرورت پیش آئی اور چونکہ یہ بات پسند نہ تھی کہ آپ کے سامنے ( جب کہ آپ نماز پڑھ رہے ہوں ) بیٹھوں اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہو۔ اس لیے میں آپ کے پاؤں کی طرف سے خاموشی کے ساتھ نکل جاتی تھی۔

نماز کا بیان : (322)
نمازی کے سترہ کی مقدار کے بیان میں
حدثنا إسحق بن إبراهيم أخبرنا المخزومي حدثنا عبد الواحد وهو ابن زياد حدثنا عبيد الله بن عبد الله بن الأصم حدثنا يزيد بن الأصم عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم يقطع الصلاة المرأة والحمار والکلب ويقي ذلک مثل مؤخرة الرحل
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1134 حدیث مرفوع مکررات 3 متفق علیہ 1 بدون مکرر
اسحاق بن ابراہیم، مخزومی، عبدالواحد، ابن زیاد، عبیداللہ بن عبداللہ بن اصم، یزید بن اصم، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عورت گدھا اور کتا نماز کو قطع کر دیتا ہے ہاں اگر کجاوہ کی پچھلی لکڑی کے برابر سترہ ہو تو نماز باقی رہتی ہے۔

اعتراضات:

١: اللہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نھی فرما سکتے، یہ عورتوں کی توہین ھے۔۔۔
٢: اگر یہ حدیث سنداَ صحیح بھی ھو، تب بھی حضرت عایشہ رضی اللہ عنہ نے اسے عقل سے متعارض سمجھ کر رد کر دیا۔۔۔
٣: مسلم کی حدیث بخاری کی روایت سی متصادم ھے، ایک میں سترہ رکھنے کا حکم ھے، ایک میں ھے کہ حضرت عایشہ رضی اللہ عنہ سامنے ھوتی تھیں اور اللہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پرھتے رھتے۔۔۔

کل ھی ایک بحث میں ایک منکر حدیث نے، جو بد قسمتی سے میرا خالو ھے، حدیث پر یہ اعتراضات اٹھائے، علما سے جواب کی گزارش ھے۔۔ جزاک اللہ۔۔۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
ان روایات میں ایک جمع تو یہ کی گئی ہے کہ عورت اگر نمازی کے سامنے موجود ہو جیسا کہ حضرت عائشہ لیٹی ہوتی تھیں تو اس سے نماز قطع نہیں ہوتی ہے اور اگر نماز کے سامنے سے گزر جائے تو نماز قطع ہو جاتی ہے۔
دوسری جمع یہ کی گئی ہے کہ قطع کے الفاظ سے مراد نماز کا قطع ہونا نہیں ہے بلکہ نمازی کی توجہ کا قطع ہونا ہے، جمہور اہل علم کی یہی رائے ہے کہ عورت کے سامنے سے گزرنے سے نماز قطع نہیں ہوتی ہے اور جس روایت میں قطع کے الفاظ ہیں تو اس سے مراد نماز کا نقصان ہے یعنی توجہ اس عورت کی طرف منتقل ہونے کے سبب سے نماز کامل نہ رہے گی بلکہ اس میں نقص آ جائے گا۔ راقم اس دوسری رائے کو زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاک اللہ خیرا علوی بھائی جان۔

جہاں تک اس حدیث سے عورت کی توہین اخذ کرنے کی بات ہے تو عرض ہے کہ اس حدیث سے توہین ثابت نہیں ہوتی بلکہ عورت کی ایک خوبی کا بیان ہے جو دوران نماز بھی مرد کی توجہ اللہ سے ہٹا کر اپنی جانب مبذول کروا سکتی ہے۔ اور یہ خوبی اس کی وہ جاذبیت اور کشش ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس میں مردوں کے لئے رکھی ہے۔ اور اسی تناظر میں عورت کو فتنہ بھی قرار دیا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے انسان حلال و حرام بھلا بیٹھتا ہے۔

آپ اپنے منکر حدیث خالو کو یہ قرآنی آیت پیش کر سکتے ہیں کہ اگر اس حدیث سے توہین ثابت ہوتی ہے، لہٰذا اس حدیث کا انکار کر دینا ہی اس مسئلے کا حل ہے تو اس ذہنیت کے تحت تو درج ذیل آیت سے بھی عورت کی توہین ثابت ہوتی ہے، کیا وہ اس آیت کا بھی انکار ہی کریں گے؟

یا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
[64:14]
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں، ان سے ہوشیار رہو۔ اور اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کر دو تو اللہ غفور و رحیم ہے۔​

اگر قرآن صراحت سے بیویوں کو ہمارا دشمن قرار دے اور اس سے عورت بحیثیت بیوی کی توہین ثابت نہیں ہوتی، تو حدیث اگر عورت کو نماز کا قاطع قرار دے دے تو اس سے کیسے عورت کی توہین ثابت ہو جائے گی؟

آخر میں عرض ہے کہ اگر حدیث کی وہ تشریح مراد لی جائے جو منکرین حدیث پیش کرتے ہیں، یعنی اس حدیث میں عورت کو کتے اور گدھے کی مثل قرار دیا گیا ہے تو یقیناً ہم بھی اس حدیث کی ایسی تشریح کا انکار کریں گے (نہ کہ خود حدیث کا)، اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ حدیث کو حجت ماننے والا کوئی بھی گروہ، اس حدیث کو صحیح الاسناد تسلیم کرنے کے باوجود اپنی عورتوں کو کتوں اور گدھوں کے مثل نہیں سمجھتا۔

لہٰذا درست رویہ یہ ہے کہ حدیث ہو یا قرآنی آیت، اگر اس کی کوئی ایسی تشریح کی جائے جس سے کسی قسم کی توہین یا گستاخی کا کوئی پہلو نکالا جا سکتا ہو تو ایسی تشریح کا انکار کرنا چاہئے، اور آیت یا حدیث کی مناسب تشریح کرنی چاہئے۔ ایک غلط تشریح کی بنا پر جیسے آیت کا انکار نہیں کیا جا سکتا، ایسے ہی حدیث کا انکار کرنا بھی ضلالت ہے۔

اپنے خالو کو دلائل سے بھی ضرور قائل کرنے کی کوشش کیجئے، لیکن اپنی نمازوں میں ان کے لئے ہدایت کی دعا بھی ضرور کیا کریں۔
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
جزاک اللہ خیرا علوی بھائی جان۔

جہاں تک اس حدیث سے عورت کی توہین اخذ کرنے کی بات ہے تو عرض ہے کہ اس حدیث سے توہین ثابت نہیں ہوتی بلکہ عورت کی ایک خوبی کا بیان ہے جو دوران نماز بھی مرد کی توجہ اللہ سے ہٹا کر اپنی جانب مبذول کروا سکتی ہے۔ اور یہ خوبی اس کی وہ جاذبیت اور کشش ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس میں مردوں کے لئے رکھی ہے۔ اور اسی تناظر میں عورت کو فتنہ بھی قرار دیا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے انسان حلال و حرام بھلا بیٹھتا ہے۔

آپ اپنے منکر حدیث خالو کو یہ قرآنی آیت پیش کر سکتے ہیں کہ اگر اس حدیث سے توہین ثابت ہوتی ہے، لہٰذا اس حدیث کا انکار کر دینا ہی اس مسئلے کا حل ہے تو اس ذہنیت کے تحت تو درج ذیل آیت سے بھی عورت کی توہین ثابت ہوتی ہے، کیا وہ اس آیت کا بھی انکار ہی کریں گے؟

یا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
[64:14]
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں، ان سے ہوشیار رہو۔ اور اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کر دو تو اللہ غفور و رحیم ہے۔​

اگر قرآن صراحت سے بیویوں کو ہمارا دشمن قرار دے اور اس سے عورت بحیثیت بیوی کی توہین ثابت نہیں ہوتی، تو حدیث اگر عورت کو نماز کا قاطع قرار دے دے تو اس سے کیسے عورت کی توہین ثابت ہو جائے گی؟

آخر میں عرض ہے کہ اگر حدیث کی وہ تشریح مراد لی جائے جو منکرین حدیث پیش کرتے ہیں، یعنی اس حدیث میں عورت کو کتے اور گدھے کی مثل قرار دیا گیا ہے تو یقیناً ہم بھی اس حدیث کی ایسی تشریح کا انکار کریں گے (نہ کہ خود حدیث کا)، اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ حدیث کو حجت ماننے والا کوئی بھی گروہ، اس حدیث کو صحیح الاسناد تسلیم کرنے کے باوجود اپنی عورتوں کو کتوں اور گدھوں کے مثل نہیں سمجھتا۔

لہٰذا درست رویہ یہ ہے کہ حدیث ہو یا قرآنی آیت، اگر اس کی کوئی ایسی تشریح کی جائے جس سے کسی قسم کی توہین یا گستاخی کا کوئی پہلو نکالا جا سکتا ہو تو ایسی تشریح کا انکار کرنا چاہئے، اور آیت یا حدیث کی مناسب تشریح کرنی چاہئے۔ ایک غلط تشریح کی بنا پر جیسے آیت کا انکار نہیں کیا جا سکتا، ایسے ہی حدیث کا انکار کرنا بھی ضلالت ہے۔

اپنے خالو کو دلائل سے بھی ضرور قائل کرنے کی کوشش کیجئے، لیکن اپنی نمازوں میں ان کے لئے ہدایت کی دعا بھی ضرور کیا کریں۔
شاکر بھائی مسئلہ تو سمجھ ا گیا الحمدللہ، مگر ایک بات اور واضع کر دیں کے " ھم اگر نھیں کھتے کہ اس حدیث میں عورت کو کتے گدھے سے ملایا ھے، مگر حضرت عایشہ رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا کہ ( تم لوگوں نے ہمیں گدھوں اور کتوں کے برابر کر دیا) تو حضرت عایشہ رضی اللہ عنہ کی سمجھ اور استدلال کا کیا جواب ھوگا۔۔۔ متلب کہی کھے کہ " آج کا مولوی یا حدیث کا شارح ذیادہ سمجھدار ھے یا حضرت عایشہ رضی اللہ عنہ، انھوں نے تو کھا ( تم لوگوں نے ہمیں گدھوں اور کتوں کے برابر کر دیا) اور تم کھتے ھو نھیں کیا۔۔"
اسکا کیا جواب ھوگا۔۔۔ اور میرے گھار میں بس میرے خالو رہ گئے ہیں، باکی سب لوگ اللہ کے فضل سے محوظ ھیں اور اپنے نانا اور ماموں کو اس فتنہ کی گمراھی سے اللہ کے فضل سے نکال چکا ھوں۔۔۔ آپ کی دعاوں کی ضرورت ھے، اور بس اللہ ہمت دے، اور کچھ کتب کا بولا ھے کلیم بھائی کو، وہ مل جائیں تو اس گمراہی کا مقابلہ اور احسن طریقہ سے ھو سکیگا ان شاء اللہ۔۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
ایک بات اور واضع کر دیں کے " ھم اگر نھیں کھتے کہ اس حدیث میں عورت کو کتے گدھے سے ملایا ھے، مگر حضرت عایشہ رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا کہ ( تم لوگوں نے ہمیں گدھوں اور کتوں کے برابر کر دیا) تو حضرت عایشہ رضی اللہ عنہ کی سمجھ اور استدلال کا کیا جواب ھوگا۔۔۔ متلب کہی کھے کہ " آج کا مولوی یا حدیث کا شارح ذیادہ سمجھدار ھے یا حضرت عایشہ رضی اللہ عنہ، انھوں نے تو کھا ( تم لوگوں نے ہمیں گدھوں اور کتوں کے برابر کر دیا) اور تم کھتے ھو نھیں کیا۔۔"
محترم بھائی،
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی حدیث کی اس تشریح ہی کا انکار کیا ہے کہ عورت ، کتے اور گدھے کی مثل نہیں ہے۔ اور ہم بھی اس تشریح کا انکار ہی کر رہے ہیں۔
باقی، جو تشریح اوپر پیش کر دی ہے، اگر حدیث کو ان معنوں میں مراد لے لیا جائے تو ان معنوں پر نہ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو کوئی انکار ہوتا (واللہ اعلم) اور نہ آج منکرین حدیث کو انکار کرنا چاہئے۔

یہ بھی یاد رہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر یہ الزام لگانا درست نہیں کہ انہوں نے اس حدیث کو عقل سے متعارض ہونے کی بنا پر رد کر دیا۔ بلکہ اسی حدیث میں صراحت ہے کہ وہ خود چونکہ نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لیٹی ہوتی تھیں، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب اس حدیث کی نسبت کو انہوں نے اپنے ذاتی واقعہ کی روشنی میں درست نہ سمجھتے ہوئے رد کیا۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے حدیث کو دوسری حدیث سے متعارض جان کر رد کیا، نہ کہ فقط عقلی استبعاد کے باعث۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اعتراضات:

١: اللہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نھی فرما سکتے، یہ عورتوں کی توہین ھے۔۔۔
نبی کریمﷺ نے کہیں بھی عورتوں کو گدھوں یا کتوں کے مشابہ قرار نہیں دیا۔ یہ معترض کا ناقص ذاتی فہم ہے جسے وہ نبی کریمﷺ کی طرف منسوب کر رہا ہے۔

مختلف اشیاء کا اکٹھا ذکر ان کے مشابہ ہونے کو مستلزم نہیں!

مثلاً اسی حدیث میں عورت کے ساتھ کتے اور گدھے کا بھی ذکر ہوا، کیا یہ دونوں (کتا اور گدھا) ایک دوسرے کے مشابہ ہیں؟ نہیں!

کتوں کے الگ احکام ہیں اور گدھوں کے الگ (بلکہ جنگلی گدھے تو حلال بھی ہیں۔)

منکرین حدیث کا عموماً طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ پہلے خود ساختہ ایک اصول گھڑتے ہیں پھر اسے حدیث پر جڑ دیتے ہیں۔

حدیث دشمنی میں انہیں یہ اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ ان کے اس خود ساختہ اعتراض کی زد میں تو قرآن کریم بھی آرہا ہے۔

درج ذیل آیات کریمہ میں اللہ اور مخلوقات کا اکٹھا ذکر ہوا، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مشابہ ہیں؟

﴿ مَن كانَ عَدُوًّا لِلَّـهِ وَمَلـٰئِكَتِهِ وَرُ‌سُلِهِ وَجِبر‌يلَ وَميكىٰلَ فَإِنَّ اللَّـهَ عَدُوٌّ لِلكـٰفِر‌ينَ ٩٨ ﴾ ۔۔۔ سورة البقرة
﴿ إِنَّ الَّذينَ كَفَر‌وا وَماتوا وَهُم كُفّارٌ‌ أُولـٰئِكَ عَلَيهِم لَعنَةُ اللَّـهِ وَالمَلـٰئِكَةِ وَالنّاسِ أَجمَعينَ ١٦١ ﴾ ۔۔۔ سورة البقرة
﴿ إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّـهُ وَرَ‌سولُهُ وَالَّذينَ ءامَنُوا الَّذينَ يُقيمونَ الصَّلوٰةَ وَيُؤتونَ الزَّكوٰةَ وَهُم رٰ‌كِعونَ ٥٥ ﴾ ۔۔۔ سورة المائدة
﴿ يَقولونَ لَئِن رَ‌جَعنا إِلَى المَدينَةِ لَيُخرِ‌جَنَّ الأَعَزُّ مِنهَا الأَذَلَّ ۚ وَلِلَّـهِ العِزَّةُ وَلِرَ‌سولِهِ وَلِلمُؤمِنينَ وَلـٰكِنَّ المُنـٰفِقينَ لا يَعلَمونَ ٨ ﴾ ۔۔۔ سورة المنافقون
﴿ كَتَبَ اللَّـهُ لَأَغلِبَنَّ أَنا۠ وَرُ‌سُلى ۚ إِنَّ اللَّـهَ قَوِىٌّ عَزيزٌ ٢١ ﴾ ۔۔۔ سورة المجادلة


اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
شاکر بھائی مسئلہ تو سمجھ ا گیا الحمدللہ، مگر ایک بات اور واضع کر دیں کے " ھم اگر نھیں کھتے کہ اس حدیث میں عورت کو کتے گدھے سے ملایا ھے، مگر حضرت عایشہ رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا کہ ( تم لوگوں نے ہمیں گدھوں اور کتوں کے برابر کر دیا) تو حضرت عایشہ رضی اللہ عنہ کی سمجھ اور استدلال کا کیا جواب ھوگا۔۔۔ متلب کہی کھے کہ " آج کا مولوی یا حدیث کا شارح ذیادہ سمجھدار ھے یا حضرت عایشہ رضی اللہ عنہ، انھوں نے تو کھا ( تم لوگوں نے ہمیں گدھوں اور کتوں کے برابر کر دیا) اور تم کھتے ھو نھیں کیا۔۔"
یہ غلط فہمی ہے کہ یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور آج کےعلماء کا آپس میں اختلاف ہے۔

یہ طرز استدلال بالکل ایسا ہی ہے جیسے مقلدین کہتے ہیں کہ امام صاحب دین کو زیادہ جانتے تھے یا آج کے علماء؟

حالانکہ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ اختلاف امام صاحب کے دور میں موجود تھا اور یہ اختلاف بڑے بڑے علماء میں تھا، اگر آج کا کوئی عالم سلف صالحین میں سے کسی کے قول کو دلیل کے مخالف ہونے کے بناء پر تسلیم نہ کرے تو وہ در اصل بذات خود ان کے قول کو ردّ نہیں کر رہا ہوتا بلکہ وہ سلف صالحین میں سے ہی ان کے مخالف علماء کے دلائل کی تائید کر رہا ہوتا ہے۔

دیگر صحابہ کرام﷢ نے اس حدیث مبارکہ سے وہ مفہوم نہیں لیا جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اخذ کیا۔ اب دونوں متضاد مفاہیم میں ایک صحیح ہے، دوسرے کو غلطی لگی ہے۔

صحابہ کرام﷢ بھی انسان تھے، دین کے فہم میں انہیں بھی غلطی لگ سکتی ہے۔ یا پھر یہ کہا جائے کہ تمام صحابہ کرام﷢ معصوم ہیں، انہیں غلطی لگ ہی نہیں سکتی۔

یہ تو ایک صحابیہ اور حدیث کے فہم کا معاملہ ہے، ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ بہت سارے صحابہ کرام﷢ کو قرآن کریم کی آیات کے فہم میں غلطی لگی۔

مثلاً جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:

﴿ الَّذينَ ءامَنوا وَلَم يَلبِسوا إيمـٰنَهُم بِظُلمٍ أُولـٰئِكَ لَهُمُ الأَمنُ وَهُم مُهتَدونَ ٨٢ ﴾ ۔۔۔ سورة الأنعام

تو صحابہ کرام﷢ نے اس سے عام ظلم مراد لیا اور بہت پریشان ہوگئے تو پھر نبی کریمﷺ نے انہیں وضاحت فرمائی کہ یہاں ظلم سے مراد سب سے بڑا ظلم یعنی شرک ہے۔

اس کی اور بھی بہت مثالیں ہیں۔
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
جزاک اللہ انس نظر بھائی۔۔۔ آپ کا جواب اور بھی تسلی بخش ھے۔۔۔ اللہ ھمیں دین کی سمجھ عطا کرے۔۔۔ ویسے علماء کو کم از کم صحیح بخاری و مسلم کی اردو میں ایک ایسی شرح لکھنی چاھئے جو صرف ان جددت پسند منکرین حدیث کے اعتراضات کے رد میں ھو، اور ان کی عقل اور اعتراضات کا علماء سے زیادہ کس کو علم ھوگا۔۔۔ یا کوئی ایسی کتاب ھو جس میں ان کے تمام اعتراضات کے خود ساختہ اصولوں کو قرآن کے میزان میں پرکھا جاعے اور رد کیا جائے۔۔۔ کیونکہ منکرین حدیث نا تو دوسروں کی عقل و منطق مانتے ھیں، نا ہی احادیث مانتے ھیں، نا تاریخ مانتے ھیں، جیسا کہ ایک جاھل ملا جو کھتا ھے جنگ جمل ھویئ ھی نہی، اور قرآن سے صحابہ کے پیار و قرابت کی آیات پیش کرنے لگا۔۔۔ یہ منطقی عقلی، بلکہ بد عقلی فتنہ بھت تیزی سے ہمارے معاشرے میں پھیل رھا ھے، خصوصاََ جدید تعلیم یافتہ شہری تبقہ میں جو آگے جا کر اہم سرکاری و غیر سرکاری دفاتر سمبھالینگے اور معاشی لحاظ سے بھی سٹرونگ ھیں۔۔۔ آگے علماء بھتر جانتے ھیں ما شاء اللہ۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
جزاک اللہ خیرا علوی بھائی جان۔

جہاں تک اس حدیث سے عورت کی توہین اخذ کرنے کی بات ہے تو عرض ہے کہ اس حدیث سے توہین ثابت نہیں ہوتی بلکہ عورت کی ایک خوبی کا بیان ہے جو دوران نماز بھی مرد کی توجہ اللہ سے ہٹا کر اپنی جانب مبذول کروا سکتی ہے۔ اور یہ خوبی اس کی وہ جاذبیت اور کشش ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس میں مردوں کے لئے رکھی ہے۔ اور اسی تناظر میں عورت کو فتنہ بھی قرار دیا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے انسان حلال و حرام بھلا بیٹھتا ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ یہاں مرد نمازی یا نمازی عورت کی بات نہیں ہورہی بلکہ بات ہورہی ہے نمازی کی کہ دوران نماز اگر نمازی (چاھے مرد ہو یا عورت)کے آگے سے عورت کتا یا گدھا گذر جائے تو اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے
اوردوسری بات یہ کہ عورت دوران نماز بھی مرد کی توجہ اللہ سے ہٹا کر اپنی جانب مبذول کروا سکتی ہے۔ اور یہ خوبی اس کی وہ جاذبیت اور کشش ہے جس کی وجہ سے نماز ٹوٹ جاتی ہے کیا یہ خوبی کتے اور گدھے میں نہیں اگر نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ کتے اور گدھے کے نمازی کے آگے سے گذرنے پر نماز ٹوٹ جاتی ہے ؟؟؟
 
Top