عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,132
- پوائنٹ
- 412
یہ دعوت کا کون سا طریقہ ہے؟
تحریر: عبدالغفار سلفی، بنارسآج کل وہاٹس اپ وغیرہ پہ ٹیلیفونک مناظروں کی بڑی دھوم ہے. بالخصوص ہمارے وہ سلفی برادران جو علم وعمل کے اعتبار سے نہ تو پختگی کو پہنچے ہیں نہ علم وتحقیق سے کوئی خاص ربط ہے اس مشغلے میں زیادہ مصروف ہیں. کسی مقلد عالم سے یا عام آدمی سے کسی خاص مسئلے پر گفتگو شروع ہوتی ہے اور پھر جب سامنے والا بدزبانی پر اترتا ہے تو اِدھر سے اُس سے بھی زیادہ گندی زبان استعمال کر کے وہاٹس اپ وغیرہ پہ اپنی فتح کا ڈنکا بجایا جاتا ہے.
سوال یہ ہے کہ یہ دعوت کا کون سا طریقہ ہے؟ اور اس سے ہمیں کیا فائدہ حاصل ہونے والا ہے. ہمارا دین ہمیں حکمت کے ساتھ دعوت کا کام کرنے کا حکم دیتا ہے:
اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ
رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے . (النحل:125)
بدزبانی اور مزاج کی تندی ہمیشہ بنے بنائے کام کو بگاڑتی ہے. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حسن اخلاق اور خوش گفتاری سے ہی لوگوں کا دل جیتا تھا:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَھُمْ ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ
اللہ تعالٰی کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بدزبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چَھٹ جاتے. (آل عمران:159)
جو نبی یہودیوں کے "السام علیک" کا جواب صرف "وعلیکم" سے دیتے ہوں اور اماں عائشہ کو سمجھاتے ہوئے کہتے ہوں:
مهلا يا عائشة ، عليك بالرفق ، وإياك والعنف والفحش
" ٹھہرو) عائشہ! تمہیں نرم خوئی اختیار کرنے چاہیے سختی اور بد زبانی سے بچنا چاہیئے۔" (صحيح بخاري:6030)
اس نبی کے متبعین کا حال یہ ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر اپنا آپا کھو دیتے ہیں اور زبان پر کوئی قابو نہیں رکھتے؟؟؟
یاد رکھو میرے عزیزو! دعوت کا یہ "ماڈرن اسلوب" کتاب وسنت کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے. بہتر ہوتا کہ ہم مستند علماء کے پاس تربیت حاصل کرتے اور پھر روشن دلائل سے سامنے والے کو قائل کرنے کی کوشش کرتے کہ یہی سلفی منہج کے شایان شان اسلوب ہے اور یہی دعوت کا مناسب طریقہ ہے.