• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ دین بڑا قیمتی ہے

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
یہ دین بڑا قیمتی ہے
ایک استاد تھا- وہ اکثر اپنے شاگردوں سے کہا کرتا تھا کہ یہ دین بڑا قیمتی ہے۔ ایک روز ایک طالب علم کا جوتا پھٹ گیا۔ وہ موچی کے پاس گیا اور کہا: میرا جوتا مرمت کردو۔ اس کے بدلہ میں ، میں تمہیں دین کا ایک مسئلہ بتاؤں گا۔
موچی نے کہا : اپنا مسئلہ رکھ اپنے پاس۔ مجھے پیسے دے۔
طالبِ علم نے کہا :میرے پاس پیسے تو نہیں ہیں۔
موچی کسی صورت نہ مانا۔ اور بغیر پیسے کے جوتا مرمت نہ کیا۔
طالبِ علم اپنے استاد کے پاس گیا اور سارا واقعہ سُنا کر کہا:
لوگوں کے نزدیک دین کی قیمت کچھ بھی نہیں۔ استاد بھی عقل مند تھے-
طالبِ علم سے کہا:
اچھا تم ایسا کرو: میں تمہیں ایک موتی دیتا ہوں تم سبزی منڈی جا کر اس کی قیمت معلوم کرو۔
وہ طالبِ علم موتی لے کر سبزی منڈی پہنچا اور ایک سبزی فروش سے کہا:
اس موتی کی قیمت لگاؤ ۔ اس نے کہا کہ تم اس کے بدلے یہاں سے دو تین لیموں اُٹھا لو۔ اس موتی سے میرے بچے کھیلیں گے۔ وہ بچہ استاد کے پاس آیا اور کہا: اس موتی کی قیمت دو یا تین لیموں ہے۔
استاد نے کہا:
اچھا اب تم اس کی قیمت سُنار سے معلوم کرو۔ وہ گیا اور پہلی ہی دکان پر جب اس نے موتی دکھایا تو دکان دار حیران رہ گیا۔
اس نے کہا اگر تم میری پوری دکان بھی لے لو تو بھی اس موتی کی قیمت پوری نہ ہوگی۔ طالبِ علم نے اپنے استاد کے پاس آ کر ماجرا سُنایا۔
استاد نے کہا:
بچے! ہر چیز کی قیمت اس کی منڈی میں لگتی ہے۔ دین کی قیمت اللہ کی منڈی میں لگتی ہے۔ اس قیمت کو اہلِ علم ہی سمجھتے ہیں۔ جاہل کیا جانے دین کی قیمت کو۔۔۔
جو لوگ ہمیں درست طریقے سے سمجھ کر ہمارا ساتھ نہیں دیتے، ہمیں ان کی باتوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے بلکہ اپنے آپ کو ہر قدم پر بہتری کی طرف لیجانا چاہیئے تاکہ ہماری گفتگو، ہمارا لباس، ہمارا رہن سہن اور ہمارا معیار یہ خود بخود ثابت کرے کہ ہم اسلام کو دوسروں سے بہتر اور صحیح معنوں میں سمجھ رہے ہیں- اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح معنوں میں مومن بننے کی توفیق عطا فرمائے- آمین یا رب العالمین

گمنام
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
فارسی کا مشہور محاورہ ہے ۔''قدر جوہر شاہ داند یا بداند جوہری '' ( جواہرات کی قدر یا تو بادشاہ جانتا ہے یا جوہری )

آپ کو ایک جوہر نایاب ۔۔اور ایک جوہر شناس خلیفہ راشد کا قصہ سناتے ہیں ؛
اس گوہر شناس خلیفہ راشد ؓ سے اس دور میں شیطان بھی ڈرتا تھا ۔۔۔اور آج تک شیطان کے پیروکار اس کا نام لینے سے بھی گھبراتے ہیں ؛؛

امام مسلم رحمہ اللہ نے یہ قصہ صحیح مسلم میں نقل فرمایا ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِذَا أَتَى عَلَيْهِ أَمْدَادُ أَهْلِ الْيَمَنِ، سَأَلَهُمْ: أَفِيكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ؟ حَتَّى أَتَى عَلَى أُوَيْسٍ فَقَالَ: أَنْتَ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: مِنْ مُرَادٍ ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَانَ بِكَ بَرَصٌ فَبَرَأْتَ مِنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: لَكَ وَالِدَةٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «يَأْتِي عَلَيْكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ مَعَ أَمْدَادِ أَهْلِ الْيَمَنِ، مِنْ مُرَادٍ، ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ، كَانَ بِهِ بَرَصٌ فَبَرَأَ مِنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ، لَهُ وَالِدَةٌ هُوَ بِهَا بَرٌّ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَأَبَرَّهُ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ فَافْعَلْ» فَاسْتَغْفِرْ لِي، فَاسْتَغْفَرَ لَهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَيْنَ تُرِيدُ؟ قَالَ: الْكُوفَةَ، قَالَ: أَلَا أَكْتُبُ لَكَ إِلَى عَامِلِهَا؟ قَالَ: أَكُونُ فِي غَبْرَاءِ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيَّ. قَالَ: فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ حَجَّ رَجُلٌ مِنْ أَشْرَافِهِمْ، فَوَافَقَ عُمَرَ، فَسَأَلَهُ عَنْ أُوَيْسٍ، قَالَ: تَرَكْتُهُ رَثَّ الْبَيْتِ، قَلِيلَ الْمَتَاعِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «يَأْتِي عَلَيْكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ مَعَ أَمْدَادِ أَهْلِ الْيَمَنِ مِنْ مُرَادٍ، ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ، كَانَ بِهِ بَرَصٌ فَبَرَأَ مِنْهُ، إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ لَهُ وَالِدَةٌ هُوَ بِهَا بَرٌّ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَأَبَرَّهُ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ فَافْعَلْ» فَأَتَى أُوَيْسًا فَقَالَ: اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: أَنْتَ أَحْدَثُ عَهْدًا بِسَفَرٍ صَالِحٍ، فَاسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: أَنْتَ أَحْدَثُ عَهْدًا بِسَفَرٍ صَالِحٍ، فَاسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: لَقِيتَ عُمَرَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَاسْتَغْفَرَ لَهُ، فَفَطِنَ لَهُ النَّاسُ، فَانْطَلَقَ عَلَى وَجْهِهِ، قَالَ أُسَيْرٌ: وَكَسَوْتُهُ بُرْدَةً، فَكَانَ كُلَّمَا رَآهُ إِنْسَانٌ قَالَ: مِنْ أَيْنَ لِأُوَيْسٍ هَذِهِ الْبُرْدَةُ

صحیح مسلم:حدیث نمبر: 1748

سیدنا اسیر بن جابر کہتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس جب یمن سے مدد کے لوگ آتے (یعنی وہ لوگ جو ہر ملک سے اسلام کے لشکر کی مدد کے لئے جہاد کرنے کو آتے ہیں) تو وہ ان سے پوچھتے کہ تم میں اویس بن عامر بھی کوئی شخص ہے؟ یہاں تک کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خود اویس کے پاس آئے اور پوچھا کہ تمہارا نام اویس بن عامر ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم مراد قبیلہ کی شاخ قرن سے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ انہوں نے پوچھا کہ تمہیں برص تھا وہ اچھا ہو گیا مگر درہم برابر باقی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہاری ماں ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ تب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تمہارے پاس اویس بن عامر یمن والوں کی کمکی فوج کے ساتھ آئے گا، وہ قبیلہ مراد سے ہے جو قرن کی شاخ ہے۔ اس کو برص تھا وہ اچھا ہو گیا مگر درہم باقی ہے۔ اس کی ایک ماں ہے۔ اس کا یہ حال ہے کہ اگر اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کو سچا کرے۔ پھر اگر تجھ سے ہو سکے تو اس سے اپنے لئے دعا کرانا۔
پس اویس نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لئے بخشش کی دعا کی۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم کہاں جانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ کوفہ میں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہیں کوفہ کے حاکم کے نام ایک خط لکھ دوں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے خاکساروں میں رہنا اچھا معلوم ہوتا ہے۔ جب دوسرا سال آیا تو ایک شخص نے کوفہ کے رئیسوں میں سے حج کیا۔ وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے اویس کا حال پوچھا تو وہ بولا کہ میں نے اویس کو اس حال میں چھوڑا کہ ان کے گھر میں اسباب کم تھا اور (خرچ سے) تنگ تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اویس بن عامر تمہارے پاس یمن والوں کے امدادی لشکر کے ساتھ آئے گا، وہ مراد قبیلہ کی شاخ قرن میں سے ہے۔ اس کو برص تھا وہ اچھا ہو گیا صرف درہم کے برابر باقی ہے۔ اس کی ایک ماں ہے جس کے ساتھ وہ نیکی کرتا ہے۔
اگر وہ اللہ پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کو سچا کرے۔ پھر اگر تجھ سے ہو سکے کہ وہ تیرے لئے دعا کرے تو اس سے دعا کرانا۔ وہ شخص یہ سن کر اویس کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میرے لئے دعا کرو۔ اویس نے کہا کہ تو ابھی نیک سفر کر کے آ رہا ہے (یعنی حج سے) میرے لئے دعا کر۔ پھر وہ شخص بولا کہ میرے لئے دعا کر۔ اویس نے یہی جواب دیا پھر پوچھا کہ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا؟ وہ شخص بولا کہ ہاں ملا۔ اویس نے اس کے لئے دعا کی۔
اس وقت لوگ اویس کا درجہ سمجھے۔ وہ وہاں سے سیدھے چلے۔ اسیر نے کہا کہ میں نے ان کو ان کا لباس ایک چادر پہنائی جب کوئی آدمی ان کو دیکھتا تو کہتا کہ اویس کے پاس یہ چادر کہاں سے آئی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنا جوہر نایاب ۔۔۔کہ جنت میں محل رکھنے والی شخصیت اور دنیا میں اپنے دورکا با رعب حکمران سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ۔جس کے حالات جاننے کی کوشش میں
میں ہے ؛
اور ملاقات پر جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ۔۔۔جناب اویس رحمہ اللہ کو کہتے ہیں کہ آپ جہاں جانا چاہتے ہیں ۔۔میں وہاں کے حاکم کے نام آپ کی چٹھی لکھ دیتا ہوں
وہ آپ کا خیال رکھے گا ؛
تو سیدنا اویس نے فرمایا :
کہ جناب ایسا نہ کیجیئے گا ۔۔۔اس طرح تو دنیا والوں میں میری شہرت اور شان بڑھ جائے گی ۔۔۔جبکہ میں تو زندگی کے سفر میں لوگوں ہجوم کی دھول میں چھپا رہنا چاہتا ہوں ؛
فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَيْنَ تُرِيدُ؟ قَالَ: الْكُوفَةَ، قَالَ: أَلَا أَكْتُبُ لَكَ إِلَى عَامِلِهَا؟ ۔۔۔۔قَالَ: أَكُونُ فِي غَبْرَاءِ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيَّ ۔۔۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ کہاں جانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ کوفہ میں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہیں کوفہ کے حاکم کے نام ایک خط لکھ دوں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے خاکساروں میں رہنا اچھا معلوم ہوتا ہے۔
اور کچھ عرصہ بعد ایک دفعہ پھر جب جناب عمر ؓ نے اویس کے حالات معلوم کیئے تو انہیں بتایا گیا :
فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ حَجَّ رَجُلٌ مِنْ أَشْرَافِهِمْ، فَوَافَقَ عُمَرَ، فَسَأَلَهُ عَنْ أُوَيْسٍ، قَالَ: تَرَكْتُهُ رَثَّ الْبَيْتِ، قَلِيلَ الْمَتَاعِ،
وہ اس حال میں ہے کہ ان کے گھر میں اسباب کم تھا اور (خرچ سے) تنگ تھے۔
 
Last edited:
Top