• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ واقعہ صحیح ہے یا نہیں جس میں وفات النبی ﷺ کے بعد سیدنا بلال ؓ کی اذان کا ذکر ہے

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198

یہ واقع صحیح ہے یا نہیں اور اس سے رسول صلی علیہ وسلم کی قبر کے سفر کا جز نکلتا ہے؟​

مدینہ کی گلیوں میں یہ کہتے پھرتے کہ لوگو تم نے کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے تو مجھے بھی دکھا دو، پھر کہنے لگے کہ اب مدینے میں میرا رہنا دشوار ہے، اور... شام کے شہر حلب میں چلے گئے۔ تقریباً چھ ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے :​

ما هذه الجفوة، يا بلال! ما آن لک أن تزورنا؟​

حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 308​

’’اے بلال! یہ کیا بے وفائی ہے؟ (تو نے ہمیں ملنا چھوڑ دیا)، کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا؟‘‘​

خواب سے بیدار ہوتے ہی اونٹنی پر سوار ہو کر لبیک! یا سیدی یا رسول اﷲ! کہتے ہوئے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے مسجدِ نبوی پہنچ کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی نگاہوں نے عالمِ وارفتگی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ کبھی مسجد میں تلاش کرتے اور کبھی حجروں میں، جب کہیں نہ پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر سر رکھ کر رونا شروع کر دیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا تھا کہ آکر مل جاؤ، غلام حلب سے بہرِ ملاقات حاضر ہوا ہے۔ یہ کہا اور بے ہوش ہو کر مزارِ پُر انوار کے پاس گر پڑے، کافی دیر بعد ہوش آیا۔ اتنے میں سارے مدینے میں یہ خبر پھیل گئی کہ مؤذنِ رسول حضرت بلال رضی اللہ عنہ آگئے ہیں۔ مدینہ طیبہ کے بوڑھے، جوان، مرد، عورتیں اور بچے اکٹھے ہو کر عرض کرنے لگے کہ بلال! ایک دفعہ وہ اذان سنا دو جو محبوبِ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں سناتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں معذرت خواہ ہوں کیونکہ میں جب اذان پڑھتا تھا تو اشہد ان محمداً رسول اﷲ کہتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا تھا۔ اب یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے کسے دیکھوں گا؟​

بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ حسنین کریمین رضی اﷲ عنہما سے سفارش کروائی جائے، جب وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کے لیے کہیں گے تو وہ انکار نہ کرسکیں گے۔ چنانچہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :​

يا بلال! نشتهی نسمع أذانک الذی کنت تؤذن لرسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فی المسجد.​

سبکی، شفاء السقام : 239
هيتمی، الجوهر المنظم : 27​
 
Last edited by a moderator:

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198

یہ واقع صحیح ہے یا نہیں اور اس سے رسول صلی علیہ وسلم کی قبر کے سفر کا جز نکلتا ہے؟


مدینہ کی گلیوں میں یہ کہتے پھرتے کہ لوگو تم نے کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے تو مجھے بھی دکھا دو، پھر کہنے لگے کہ اب مدینے میں میرا رہنا دشوار ہے، اور... شام کے شہر حلب میں چلے گئے۔ تقریباً چھ ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے :

ما هذه الجفوة، يا بلال! ما آن لک أن تزورنا؟

حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 308

’’اے بلال! یہ کیا بے وفائی ہے؟ (تو نے ہمیں ملنا چھوڑ دیا)، کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا؟‘‘

خواب سے بیدار ہوتے ہی اونٹنی پر سوار ہو کر لبیک! یا سیدی یا رسول اﷲ! کہتے ہوئے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے مسجدِ نبوی پہنچ کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی نگاہوں نے عالمِ وارفتگی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ کبھی مسجد میں تلاش کرتے اور کبھی حجروں میں، جب کہیں نہ پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر سر رکھ کر رونا شروع کر دیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا تھا کہ آکر مل جاؤ، غلام حلب سے بہرِ ملاقات حاضر ہوا ہے۔ یہ کہا اور بے ہوش ہو کر مزارِ پُر انوار کے پاس گر پڑے، کافی دیر بعد ہوش آیا۔ اتنے میں سارے مدینے میں یہ خبر پھیل گئی کہ مؤذنِ رسول حضرت بلال رضی اللہ عنہ آگئے ہیں۔ مدینہ طیبہ کے بوڑھے، جوان، مرد، عورتیں اور بچے اکٹھے ہو کر عرض کرنے لگے کہ بلال! ایک دفعہ وہ اذان سنا دو جو محبوبِ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں سناتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں معذرت خواہ ہوں کیونکہ میں جب اذان پڑھتا تھا تو اشہد ان محمداً رسول اﷲ کہتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا تھا۔ اب یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے کسے دیکھوں گا؟

بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ حسنین کریمین رضی اﷲ عنہما سے سفارش کروائی جائے، جب وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کے لیے کہیں گے تو وہ انکار نہ کرسکیں گے۔ چنانچہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :

يا بلال! نشتهی نسمع أذانک الذی کنت تؤذن لرسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فی المسجد.

سبکی، شفاء السقام : 239
هيتمی، الجوهر المنظم : 27
@خضر حیات
@اسحاق سلفی
 

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
154
پوائنٹ
116

یہ واقع صحیح ہے یا نہیں اور اس سے رسول صلی علیہ وسلم کی قبر کے سفر کا جز نکلتا ہے؟


مدینہ کی گلیوں میں یہ کہتے پھرتے کہ لوگو تم نے کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے تو مجھے بھی دکھا دو، پھر کہنے لگے کہ اب مدینے میں میرا رہنا دشوار ہے، اور... شام کے شہر حلب میں چلے گئے۔ تقریباً چھ ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے :

ما هذه الجفوة، يا بلال! ما آن لک أن تزورنا؟

حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 308

’’اے بلال! یہ کیا بے وفائی ہے؟ (تو نے ہمیں ملنا چھوڑ دیا)، کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا؟‘‘

خواب سے بیدار ہوتے ہی اونٹنی پر سوار ہو کر لبیک! یا سیدی یا رسول اﷲ! کہتے ہوئے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے مسجدِ نبوی پہنچ کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی نگاہوں نے عالمِ وارفتگی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ کبھی مسجد میں تلاش کرتے اور کبھی حجروں میں، جب کہیں نہ پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر سر رکھ کر رونا شروع کر دیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا تھا کہ آکر مل جاؤ، غلام حلب سے بہرِ ملاقات حاضر ہوا ہے۔ یہ کہا اور بے ہوش ہو کر مزارِ پُر انوار کے پاس گر پڑے، کافی دیر بعد ہوش آیا۔ اتنے میں سارے مدینے میں یہ خبر پھیل گئی کہ مؤذنِ رسول حضرت بلال رضی اللہ عنہ آگئے ہیں۔ مدینہ طیبہ کے بوڑھے، جوان، مرد، عورتیں اور بچے اکٹھے ہو کر عرض کرنے لگے کہ بلال! ایک دفعہ وہ اذان سنا دو جو محبوبِ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں سناتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں معذرت خواہ ہوں کیونکہ میں جب اذان پڑھتا تھا تو اشہد ان محمداً رسول اﷲ کہتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا تھا۔ اب یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے کسے دیکھوں گا؟

بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ حسنین کریمین رضی اﷲ عنہما سے سفارش کروائی جائے، جب وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کے لیے کہیں گے تو وہ انکار نہ کرسکیں گے۔ چنانچہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :

يا بلال! نشتهی نسمع أذانک الذی کنت تؤذن لرسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فی المسجد.

سبکی، شفاء السقام : 239
هيتمی، الجوهر المنظم : 27
أخرجه ابن عساكر (7/136-137) من طريق محمد بن الفيض ، نا أبو إسحاق
إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال بن أبي الدرداء ، حدثني أبي : محمد بن سليمان ،
عن أبيه سليمان بن بلال ، عن أم الدرداء ، عن أبي الدرداء قال :

لما دخل عمر بن الخطاب الجابية سأل بلال أن يقدم الشام فعل ذلك .
قال : وأخي أبو رويحة الذي آخى بينه وبيني رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟!
فنزل داريا في خولان ، فأقبل هو وأخوه إلى قوم من خولان ، فقال لهم : قد جئناكم خاطبين وقد كنا كافرين فهدانا الله ، ومملوكين فأعتقنا الله ، وفقيرين فأغنانا الله ، فأن تزوجونا فالحمد لله ، وأن تردونا فلا حول ولا قوة إلا بالله .
فزوجوهما ، ثم إن بلالاً رأى في منامه النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقول له :
(( ما هذه الجفوة يا بلال أما آن لك أن تزورني يا بلال )) .
فانتبه حزيناً وجلاً خائفاً ، فركب راحلته ، وقصد المدينة فأتى قبر النبي صلى الله عليه وسلم ، فجعل يبكي عنده ، ويمرغ وجهه عليه ، وأقبل الحسن والحسين فجعل يضمهما ويقبلهما ، فقالا له : يا بلال نشتهي نسمع أذانك الذي كنت تؤذنه لرسول الله صلى الله عليه وسلم في السحر .
ففعل ، فعلا سطح المسجد ، فوقف موقفه الذي كان يقف فيه ، فلما أن قال : "الله أكبر الله أكبر" ارتجت المدينة ، فلما أن قال : "أشهد أن لا إله إلا الله" زاد تعاجيجها ، فلما أن قال : "أشهد أن محمداً رسول الله" خرج العواتق من خدورهن ، فقالوا : أبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟
فما رئي يوم أكثر باكياً ولا باكية بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم من ذلك اليوم .


قلت : هذا إسناد ضعيف جداً ؛ فيه علتان :

الأولى : إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال ؛ ترجمه ابن عساكر فلم يذكر فيه جرحاً ولا تعديلا ، ولم يذكر رواياً عنه غير محمد بن الفيض ، وقال الذهبي : "فيه جهالة" .

قلت : فهو مجهول العين .

الثانية : سليمان بن بلال بن أبي الدرداء ؛ ترجمه ابن عساكر (22/204) فلم يذكر فيه جرحاً ولا تعديلاً ، ولم يذكر في الرواة عنه إلا ابنه - وهو مجهول - ، وأيوب بن مدرك - وهو متروك - .

قلت : فهو مجهول الحال .

قال الذهبي في "سير أعلام النبلاء" (1/358) : [ إسناده لين وهو منكر ] .

وقال ابن حجر في "لسان الميزان" (1/201-ط.الفاروق) : [ وهي قصة بيِّنةُ الوضع ] .

وقال الألباني في "دفاع عن الحديث النبوي" : [ فهذه الراوية باطلة موضوعة ، ولوائح الوضع عليها ظاهرة من وجوه عديدة ] .
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
محترم @ابن قدامہ بھائی :میرے خیال میں آپ کہنا چاہ رہے ہیں :

کیا یہ واقعہ صحیح ہے یا نہیں ، اور اس سے رسول صلی علیہ وسلم کی قبر کے سفر کا جواز نکلتا ہے؟

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد سیدنا بلال رضی اللہ عنہ
مدینہ کی گلیوں میں یہ کہتے پھرتے کہ لوگو تم نے کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے تو مجھے بھی دکھا دو، پھر کہنے لگے کہ اب مدینے میں میرا رہنا دشوار ہے، اور... شام کے شہر حلب میں چلے گئے۔ تقریباً چھ ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے :
ما هذه الجفوة، يا بلال! ما آن لک أن تزورنا؟
حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 308
’’اے بلال! یہ کیا بے وفائی ہے؟ (تو نے ہمیں ملنا چھوڑ دیا)، کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا؟‘‘
خواب سے بیدار ہوتے ہی اونٹنی پر سوار ہو کر لبیک! یا سیدی یا رسول اﷲ! کہتے ہوئے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے۔
جب مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے مسجدِ نبوی پہنچ کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی نگاہوں نے عالمِ وارفتگی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ کبھی مسجد میں تلاش کرتے اور کبھی حجروں میں، جب کہیں نہ پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر سر رکھ کر رونا شروع کر دیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا تھا کہ آکر مل جاؤ، غلام حلب سے بہرِ ملاقات حاضر ہوا ہے۔ یہ کہا اور بے ہوش ہو کر مزارِ پُر انوار کے پاس گر پڑے، کافی دیر بعد ہوش آیا۔ اتنے میں سارے مدینے میں یہ خبر پھیل گئی کہ مؤذنِ رسول حضرت بلال رضی اللہ عنہ آگئے ہیں۔ مدینہ طیبہ کے بوڑھے، جوان، مرد، عورتیں اور بچے اکٹھے ہو کر عرض کرنے لگے کہ بلال! ایک دفعہ وہ اذان سنا دو جو محبوبِ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں سناتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں معذرت خواہ ہوں کیونکہ میں جب اذان پڑھتا تھا تو اشہد ان محمداً رسول اﷲ کہتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا تھا۔ اب یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے کسے دیکھوں گا؟

بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ حسنین کریمین رضی اﷲ عنہما سے سفارش کروائی جائے، جب وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کے لیے کہیں گے تو وہ انکار نہ کرسکیں گے۔ چنانچہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :

يا بلال! نشتهی نسمع أذانک الذی کنت تؤذن لرسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فی المسجد.
اے بلال ! ہماری خواہش ہے کہ ہم آپ سے وہ اذان سنیں ، جو آپ رسول اللہ ﷺ کے دور میں مسجد میں اذان دیتے تھے
سبکی، شفاء السقام : 239
هيتمی، الجوهر المنظم : 27
 
Last edited:

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
محترم @ابن قدامہ بھائی :میرے خیال میں آپ کہنا چاہ رہے ہیں :
کیا یہ واقعہ صحیح ہے یا نہیں ، اور اس سے رسول صلی علیہ وسلم کی قبر کے سفر کا جواز نکلتا ہے؟
جی بلکل اور وہ اس جملے سے روضہ رسول صلی علیہ وسلم کی زیارت کا استدلال کرتے ہیں
ما هذه الجفوة، يا بلال! ما آن لک أن تزورنا؟
حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 308
’’اے بلال! یہ کیا بے وفائی ہے؟ (تو نے ہمیں ملنا چھوڑ دیا)، کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا؟‘‘
@اسحاق سلفی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
جی بلکل اور وہ اس جملے سے روضہ رسول صلی علیہ وسلم کی زیارت کا استدلال کرتے ہیں
ما هذه الجفوة، يا بلال! ما آن لک أن تزورنا؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پہلے اصل روایت تاریخ ابن عساکر سے باسناد پیش ہے :
ابن عساکر لکھتے ہیں :
إبرهيم بن محمد بن سليمان بن بلال ابن أبي الدرداء الأنصاري صاحب رسول الله (صلى الله عليه وسلم)
أبو إسحاق روى عن أبيه روى عنه محمد بن الفيض أنبأنا أبو محمد بن الأكفاني نا عبد العزيز بن أحمد انا تمام بن محمد نا محمد بن سليمان نا محمد بن الفيض نا أبو إسحاق إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال بن أبي الدرداء حدثني أبي محمد بن سليمان عن أبيه سليمان بن بلال عن أم الدرداء عن أبي الدرداء قال (1) لما دخل عمر بن الخطاب الجابية سأل بلال أن يقدم (2) الشام ففعل ذلك قال وأخي أبو رويحة الذي أخى بينه وبيني رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فنزل (3) داريا (4) في خولان فأقبل هو وأخوه إلى قوم من خولان فقال لهم قد جئناكم خاطبين (5) وقد كنا كافرين فهدانا الله ومملوكين فأعتقنا الله وفقيرين فأغنانا الله فأن تزوجونا فالحمد لله وأن تردونا فلا حول ولا قوة إلا بالله فزوجوهما ثم إن بلالا رأى في منامه النبي (صلى الله عليه وسلم) وهو يقول له (ما هذه الجفوة يا بلال أما ان لك أن تزورني يا بلال فانتبه حزينا وجلا خائفا فركب راحلته وقصد المدينة فأتى قبر النبي (صلى الله عليه وسلم) فجعل يبكي عنده ويمرغ وجهه عليه وأقبل الحسن والحسين فجعل يضمهما ويقبلهما فقالا له يا بلال نشتهي نسمع اذانك الذي كنت تؤذنه لرسول الله (صلى الله عليه وسلم) في السحر ففعل فعلا سطح المسجد فوقف موقفه الذي كان يقف فيه فلما أن قال (الله أكبر الله أكبر ارتجت المدينة فلما أن قال (أشهد أن لا إله إلا الله) زاد تعاجيجها (6) فلما أن قال (أشهد أن محمدا رسول الله) خرج العواتق من خدورهن فقالوا أبعث رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فما رئي يوم أكثر باكيا ولا باكية بعد رسول الله (صلى الله عليه وسلم) من ذلك اليوم قال أبو الحسن محمد بن الفيض توفي إبراهيم بن محمد بن سليمان سنة اثنتين وثلاثين ومائتين (7)

( تاریخ ابن عساکر جلد 7 صفحہ 137 )
ترجمہ کی ضرورت نہیں ،کیونکہ اس کے اکثر حصہ کا ترجمہ آپ کی پوسٹ میں موجود ہے ،
اس کی اسناد کی تحقیق یہ ہے کہ :
(1) حافظ ابن حجر ؒ لسان المیزان میں اسی قصہ کا حوالہ دے کر اس کے راوی ابراہیم بن محمد کے بارے لکھتے ہیں :
"إبراهيم" بن محمد بن سليمان بن بلال بن أبي الدرداء فيه جهالة حدث عنه محمد بن الفيض الغساني انتهى ترجم له بن عساكر ثم ساق من روايته عن أبيه عن جده عن أم الدرداء عن أبي الدرداء في قصة رحيل بلال إلى الشام وفي قصة مجيئه إلى المدينة وإذانه بها وارتجاج المدينة بالبكاء لأجل ذلك وهي قصة بينة الوضع "
یعنی ابراہیم بن محمد مجہول ہے ، ابن عساکر نے اس کی اپنے والد سے روایت کردہ ایک روایت نقل کی ہے
جس میں سیدنا بلال کا مدینہ منورہ چھوڑ کر شام جانے ،اور پھر وہاں واپس مدینہ آنے کا واقعہ ہے ،اور واپسی پر مدینہ میں اذان دینے اورآذان سن کر لوگوں کے چیخنے کا ذکر ہے ، لیکن اس قصہ کا گھڑا ہوا ہونا انتہائی واضح ہے یعنی یہ قصہ موضوع ہے "
( لسان المیزان جلد اول ترجمہ ابراہیم بن محمد)

(2) اور امام الذہبی "سیر اعلام النبلاء "(جلد اول صفحہ 357 ) میں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں یہی روایت لکھ کر فرماتے ہیں :

(إسناده لين، وهو منكر ) اس کی اسناد ضعیف ہے ،اور یہ منکر روایت ہے "

(3) اور امام ابن تیمیہ ؒ کے مشہور شاگرد الحافظ المحقق محمد بن عبد الهادي رحمہ اللہ نے اپنی بے مثال تحقیقی کتاب
(الصارم المنكي في الرد على السبكي) میں اس روایت پر تفصیلی کلام کیا ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
جزاک
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پہلے اصل روایت تاریخ ابن عساکر سے باسناد پیش ہے :
ابن عساکر لکھتے ہیں :
إبرهيم بن محمد بن سليمان بن بلال ابن أبي الدرداء الأنصاري صاحب رسول الله (صلى الله عليه وسلم)
أبو إسحاق روى عن أبيه روى عنه محمد بن الفيض أنبأنا أبو محمد بن الأكفاني نا عبد العزيز بن أحمد انا تمام بن محمد نا محمد بن سليمان نا محمد بن الفيض نا أبو إسحاق إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال بن أبي الدرداء حدثني أبي محمد بن سليمان عن أبيه سليمان بن بلال عن أم الدرداء عن أبي الدرداء قال (1) لما دخل عمر بن الخطاب الجابية سأل بلال أن يقدم (2) الشام ففعل ذلك قال وأخي أبو رويحة الذي أخى بينه وبيني رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فنزل (3) داريا (4) في خولان فأقبل هو وأخوه إلى قوم من خولان فقال لهم قد جئناكم خاطبين (5) وقد كنا كافرين فهدانا الله ومملوكين فأعتقنا الله وفقيرين فأغنانا الله فأن تزوجونا فالحمد لله وأن تردونا فلا حول ولا قوة إلا بالله فزوجوهما ثم إن بلالا رأى في منامه النبي (صلى الله عليه وسلم) وهو يقول له (ما هذه الجفوة يا بلال أما ان لك أن تزورني يا بلال فانتبه حزينا وجلا خائفا فركب راحلته وقصد المدينة فأتى قبر النبي (صلى الله عليه وسلم) فجعل يبكي عنده ويمرغ وجهه عليه وأقبل الحسن والحسين فجعل يضمهما ويقبلهما فقالا له يا بلال نشتهي نسمع اذانك الذي كنت تؤذنه لرسول الله (صلى الله عليه وسلم) في السحر ففعل فعلا سطح المسجد فوقف موقفه الذي كان يقف فيه فلما أن قال (الله أكبر الله أكبر ارتجت المدينة فلما أن قال (أشهد أن لا إله إلا الله) زاد تعاجيجها (6) فلما أن قال (أشهد أن محمدا رسول الله) خرج العواتق من خدورهن فقالوا أبعث رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فما رئي يوم أكثر باكيا ولا باكية بعد رسول الله (صلى الله عليه وسلم) من ذلك اليوم قال أبو الحسن محمد بن الفيض توفي إبراهيم بن محمد بن سليمان سنة اثنتين وثلاثين ومائتين (7)

( تاریخ ابن عساکر جلد 7 صفحہ 137 )
ترجمہ کی ضرورت نہیں ،کیونکہ اس کے اکثر حصہ کا ترجمہ آپ کی پوسٹ میں موجود ہے ،
اس کی اسناد کی تحقیق یہ ہے کہ :
(1) حافظ ابن حجر ؒ لسان المیزان میں اسی قصہ کا حوالہ دے کر اس کے راوی ابراہیم بن محمد کے بارے لکھتے ہیں :
"إبراهيم" بن محمد بن سليمان بن بلال بن أبي الدرداء فيه جهالة حدث عنه محمد بن الفيض الغساني انتهى ترجم له بن عساكر ثم ساق من روايته عن أبيه عن جده عن أم الدرداء عن أبي الدرداء في قصة رحيل بلال إلى الشام وفي قصة مجيئه إلى المدينة وإذانه بها وارتجاج المدينة بالبكاء لأجل ذلك وهي قصة بينة الوضع "
یعنی ابراہیم بن محمد مجہول ہے ، ابن عساکر نے اس کی اپنے والد سے روایت کردہ ایک روایت نقل کی ہے
جس میں سیدنا بلال کا مدینہ منورہ چھوڑ کر شام جانے ،اور پھر وہاں واپس مدینہ آنے کا واقعہ ہے ،اور واپسی پر مدینہ میں اذان دینے اورآذان سن کر لوگوں کے چیخنے کا ذکر ہے ، لیکن اس قصہ کا گھڑا ہوا ہونا انتہائی واضح ہے یعنی یہ قصہ موضوع ہے "
( لسان المیزان جلد اول ترجمہ ابراہیم بن محمد)

(2) اور امام الذہبی "سیر اعلام النبلاء "(جلد اول صفحہ 357 ) میں سیدنا بلالرضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں یہی روایت لکھ کر فرماتے ہیں :

(إسناده لين، وهو منكر ) اس کی اسناد ضعیف ہے ،اور یہ منکر روایت ہے "

(3) اور امام ابن تیمیہ ؒ کے مشہور شاگرد الحافظ المحقق محمد بن عبد الهادي رحمہ اللہ نے اپنی بے مثال تحقیقی کتاب
(الصارم المنكي في الرد على السبكي) میں اس روایت پر تفصیلی کلام کیا ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جزاک اللہ خیر
 
Top