عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
یہ ٹوپی جو اچھالی جائے ہے ۔۔۔۔۔
کالم : مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا
کالم نگار : اودیش رانی
مکمل کالم پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
اردو زبان میں ٹوپی ، پگڑی اور دستار کی خاصی اہمیت ہے۔ ٹوپی ڈالنا ، پگڑی اچھالنا ، دستار اتارنا ، دھوکہ دینا ، بےعزت کرنا ، افسوس ظاہر کرنا جیسے محاورے شامل ہیں۔
حیدرآباد میں سالار جنگ ڈیوڑھی کے سامنے ٹوپیوں کا بڑا بازار تھا اور انگریزی میں "کیپ مارٹ" کہلاتا تھا۔ اب یہاں صرف شادی کا سامان جیسے مچھردان ، تکیے وغیرہ بکتے ہیں۔ دستار بنانے والے اور رومی ٹوپی بنانے والے کہیں نہیں رہے۔
اگر ہم مغربی ممالک کی تصویریں دیکھیں تو آپ کو سر پر ٹوپیاں نہیں ملیں گی۔ دیگر ممالک میں بالوں والی ٹوپیاں مل جاتی ہیں مگر گاندھی ٹوپی ، رامپوری ٹوپی ، قراقری ٹوپی اور رومی ٹوپی حیدرآباد میں عام تھیں۔ گاندھی ٹوپی آزادی کے بعد خاصی مقبول ہوئی اور اس کی شناخت سیاسی تھی۔ یہ عام طور پر سفید کھادی کی بنی ہوتی تھی۔
آزادی سے پہلے مسلمانوں اور کائستھوں میں دستار ہی استعمال ہوتی تھی۔ تقریبات میں دستار کی خاصی اہمیت تھی۔ یہ آٹھ گز نفیس ترین ململ سے بنائی جاتی ہیں۔ سر پر درمیان میں روٹی کی شکل میں کپڑا ہوتا ہے جس کے اطراف سات پلیٹیں دائرے کی شکل میں ہوتی ہیں ، سامنے تاج کی شکل ہوتی ہے۔ گھر میں تین رنگ کی دستاریں ہوتی تھیں ۔۔۔
سفید - عام استعمال کیلئے
سیاہ - غم کے موقع پر
گلابی - شادیوں کے موقع پر