• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ گراں قیمت سر ۔ ۔ ۔عرفان صدیقی

شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
122
ری ایکشن اسکور
422
پوائنٹ
76
”جائے پیدائش سرگودھا (پنجاب، پاکستان) تاریخ ولادت 6/مئی 1950، جنس مرد، بالوں کا رنگ سرخ، آنکھیں بھورے رنگ کی، قومیت پاکستانی، شہریت پاکستانی، نام حافظ محمد سعید، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کومطلوب ہے۔ اس کی گرفتاری اور سزا کے لئے معلومات فراہم کرنے اور مدد دینے والے کو ایک کروڑ ڈالر کا انعام دیا جائے گا۔ حافظ سعید، عربی زبان اور انجینئرنگ کا سابق پروفیسر ہے، وہ ایک بنیاد پرست اہل حدیث تنظیم جماعت الدعوة کا بانی ہے جو پاکستان اوربھارت کے کچھ حصوں پر اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتی ہے۔ لشکر طیبہ اس کا عسکری بازو ہے۔ حافظ سعید پر الزام ہے کہ اس نے 2008ء کے ممبئی حملوں سمیت بھارت میں کئی دہشت گردانہ وارداتیں کیں۔ ممبئی حملوں میں چھ امریکیوں سمیت 166 افراد ہلاک ہوگئے۔ بھارت نے حافظ سعید کے خلاف انٹرپول ریڈ کارنر نوٹس جاری کررکھا ہے۔ امریکہ نے بھی ایگزیکٹو آرڈر 13224 کے تحت حافظ سعید کو خصوصی فہرست میں شامل کررکھا ہے۔ 2001ء میں لشکر طیبہ کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا جاچکا ہے۔ اپریل 2008 میں جماعت الدعوة کو بھی دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا گیا تھا۔ دسمبر 2008ء میں اقوام متحدہ نے بھی اسے دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔

جائے پیدائش بہالپور (صوبہ پنجاب، پاکستان) تاریخ ولادت 1948ء جنس مرد، قومیت پاکستانی، شہریت پاکستانی، نام حافظ عبدالرحمٰن مکی بھی امریکہ کو مطلوب ہے۔ اس کا اتہ پتہ بتانے اور تلاش میں مدد دینے والے کو بیس لاکھ ڈالر کا انعام دیا جائے گا۔“

یہ تفصیلات امریکہ کی سرکاری ویب سائٹ پر فراہم کردی گئی ہیں جہاں حافظ محمد سعید کی تصویر قندھار کے مرد جری ملا محمد عمر کے پہلو میں چسپاں ہے۔ سر فہرست ایمن الظواہری کی تصویر ہے جس کے سر کی قیمت اڑھائی کروڑ ڈالر لگائی گئی ہے۔ پانچ کروڑ ڈالر کی قیمت رکھنے والا سر، اسامہ بن لادن کا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں۔ حافظ محمد سعید کے سر کی قیمت کا سرکاری اعلان کرنے امریکی نائب وزیر خارجہ بھارت تشریف لائے۔ بھارتی زعما نے اس اعلان پر بغلیں بجائیں۔ وزیر خارجہ نے توقع ظاہر کی کہ اب حافظ محمد سعید جیسے دہشت گرد کو گرفت میں لینا آسان ہوجائے گا۔

اس سب کچھ کے جواب میں حافظ صاحب نے جو کہنا تھا کہا۔ امریکہ کو ایک پروفیسر ہی کے انداز میں سمجھایا کہ اس طرح کے انعامات ان کے لئے رکھے جاتے ہیں جو روپوش اور مفرور ہوں۔ جو لوگوں کی نظروں سے دور کہیں پہاڑوں کے غاروں میں چھپے ہوں یا زیر زمین چلے گئے ہوں۔ راولپنڈی میں پریس سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے شہنشاہ عالم پناہ کو خبر دی کہ میں آج کل لاہور میں ہوں اور سر عام گھومتا پھرتا ہوں۔ دفاع پاکستان کونسل نے بھی اظہار یکجہتی کیا۔ قومی پریس بھی آواز اٹھا رہا ہے۔ لیکن پاکستانیت کے پاسبانوں اور قومی خودی کے نگہبانوں کی زبانوں میں لکنت سی آگئی ہے جو بے موسمی گھٹاؤں کی طرح ہر آن گرجتے رہتے ہیں۔ ہر موضوع پر شعلہ بیانی کرنے والے وزیر داخلہ رحمان ملک سے پوچھا گیا تو وہ حوصلے کی تمام تر متاع کو لفظوں میں سمیٹ کر صرف اتنا کہہ پائے کہ ابھی ہمیں سفارتی ذرائع سے کچھ نہیں بتایا گیا۔ ”چھتیس گھنٹوں بعد وزارت خارجہ کی ممیاہٹ سنائی دی کہ ”حافظ سعید اور حافظ عبدالرحمٰن مکی کے خلاف امریکہ ٹھوس ثبوت فراہم کرے تو ہی پاکستان میں ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوسکتی ہے۔“

امریکہ کے بارے میں کیا کہا جائے؟ اللہ کی گرفت بڑی بے ڈھب ہے اور اس کے عذاب کی نوعیتیں انسانی فہم و ادراک سے ماوریٰ ہوتی ہیں۔ اگر وہ اپنے تمام تر وسائل بے ننگ و نام جنگوں میں جھونک رہا ہے، اگر وہ ہر سال اپنی مجموعی قومی آمدنی کے برابر، یا اس سے کچھ زائد رقم قرض لے رہا ہے، اگر وہ تعلیم، صحت، بہبود عامہ اور عالمی سطح پر خیر و فلاح کے منصوبوں کے بجائے 40 کھرب ڈالر صرف افغانستان اور عراق کے آتشکدوں میں جھونک چکا ہے اور اگر وہ اپنی اس خوئے شرانگریزی کے باعث 160 کھرب ڈالر کے بھاری قرضے تلے آچکا ہے تو میں اسے قدرت کی ایک سزا ہی خیال کرتا ہوں۔ اگر اتنی رقم وہ دنیا کے تہی دست ممالک میں وسائل کی فراہم اور تعمیر و ترقی پر خرچ کرتا تو آج اربوں انسانوں کے دلوں پر اس کا راج ہوتا۔ وہ عالمی افق کا ایک درخشاں ستارہ اور انسانیت کا روشن استعارہ ہوتا۔ اعزاز و افتخار کی ان مستقیم راہوں کو چھوڑ کر اگر وہ پوری دنیا میں اپنے خلاف نفرتیں کاشت کررہا ہے اور کھربوں ڈالر خرچ کرکے ذلتیں اور ملامتیں سمیٹ رہا ہے تو کیوں نہ یقین کرلیا جائے کہ بد دعائیں اس کے تعاقب میں ہیں اوروہ اس انجام کی طرف بڑھ رہا ہے جو خدا فراموش فرعونوں کا مقدر ہوا کرتا ہے۔

حافظ محمد سعید کے حوالے سے بھارت کا واویلا اور ہمیں اپنے کروسیڈ کے کولہو میں جوتنے والے امریکہ کی بھارتی خوشنودی کے لئے عاشقانہ بے کلی، کوئی حیرت کی بات نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ”حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے۔“ پاکستانی حکومت کی طرف سے آنے والا رد عمل اسی ”محبوبیت“ کے آشوب میں لپٹا ہوا ہے۔ اس کا تذکرہ میں کرتا رہتا ہوں۔ وزیر داخلہ افلاس بیاں کا شکار ہوگئے اور دفتر خارجہ کو یہ کہنے کا حوصلہ نہیں ہوا کہ پاکستان کے کسی آزاد شہری کے سرکی قیمت لگانا اور لوگوں کو ترغیب دینا کہ وہ اس کی زندگی کے در پے ہو جائیں انتہائی مجرمانہ فعل ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ کیوں نہیں امریکی سفیر کو بلا کر شدید احتجاج کیا گیا ہے۔ حافظ سعید اور حافظ عبدالرحمٰن مکی پر ایسا کوئی الزام بھی نہیں کہ انہوں نے امریکہ میں کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ امریکیوں نے ان کے سروں کی قیمت لگاتے وقت اپنے ہاں کوئی جھوٹی سچی عدالتی کارروائی بھی نہیں کی۔ پھر اس نے کیوں کر محض بھارت کی خوشنودی کے لئے ایسا مکروہ اقدام کیا؟ پاکستانی حکام نہیں جانتے کہ شہریوں کے حقوق کیا ہیں؟ ہر پاکستانی اپنی ذات میں ایک پاکستان ہے۔ اس پاکستان کی تکریم و تعظیم ریاست کا فرض ہے۔ دفتر خارجہ کو یہ کہنے تک کا حوصلہ نہیں ہوا کہ ٹھوس شواہد کے بغیر کسی پاکستانی شہری کے خلاف اس نوع کا اعلان، سفارتی، اخلاقی اور بین الاقوامی قرینوں کے خلاف ہے۔

حافظ محمد سعید سے کسی کو بھی اختلاف ہوسکتا ہے لیکن وہ ایک محترم پاکستانی ہیں۔ جماعت الدعوة، سماجی اور انسانی خدمات کے شعبوں میں بے مثال کام کررہی ہے۔ آزاد کشمیر کے زلزلوں سے لے کر سندھ کے سیلابوں تک اس کے پر عزم کارکنوں نے جوکچھ کردکھایا وہ حکومتی اداروں کے بس میں نہ تھا۔ خود امریکہ اور یورپ کے میڈیا نے اس کے اس کردار کا اعتراف کیا۔ میں نے آزاد کشمیر میں دیکھا کہ جہاں حکومت کے ہیلی کاپٹر تک نہ جاتے تھے۔ وہاں جماعت الدعوة کے کارکن راشن کی بوریاں پیٹھ پر اٹھائے پہنچ جاتے تھے۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھی اس کی کاوشیں قابل قدر ہیں۔ ان پر لگنے والے الزامات کسی فورم پر ثابت نہ ہوئے اور پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے بھی انہیں بری قرار دیا۔ ”دفاع پاکستان کونسل“کی تخلیق، شجرہ نسب اور سرگرمیوں پر کسی کو بھی اعتراض ہوسکتا ہے لیکن ایک جمہوری معاشرے میں ہر کسی کو اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہے۔ بھارت کی برہمی کا یہ مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ امریکہ بھی وہی راگ الاپنے لگے اور امریکہ کے سپر پاور ہونے کا مفہوم یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہمارے حکمراں اتنے سنگین حملے کے جواب میں جاپانی گڑیا بن کے رہ جائیں۔

حافظ صاحب سے ملے اور ان کے گھر کا ناشتہ کئے کئی دن ہوگئے۔ اب کے لاہور جانا ہوا تو ان کی خدمت میں حاضری دوں گا۔ انہیں مبارک باد پیش کروں گا کہ ان کی تصویرقندھار کے مرد جری ملا محمد عمر کے پہلو میں لگی ہے، کابل کے چغہ پوش مسخرے کے بازو میں نہیں۔ اور یہ کہ ان کا شمار ایسے سروں میں ہوتا ہے جو استعمار کی چوکھٹ پہ سجدہ ریز نہیں اور جن کی سربلندی فرعونوں کے نزدیک بھی بڑی گراں قیمت ہوتی ہے۔
 
Top