• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

۔۔۔ مجھے اس پر غرور کا ڈر ہے !!

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
امام عبدالرحمٰن ابن جوزی (علیہ الرحمۃ) نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف "منہاج القاصدین" میں امر بالمعروف و نھی عن المنکر کے موضوع کو نہایت تفصیل اور وضاحت سے سمجھایا ہے۔ یہ سارا ہی باب تفصیلی مطالعے کا متقاضی ہے۔ فی الحال ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں جو برائی سے روکنے کے مدارج اور درجات و آداب پر مشتمل ہے۔

***
انسان کے محاسبے کا چوتھا رکن "نفسِ محاسبہ" ہے اور اس کے کچھ درجات و آداب ہیں۔
مثال کے طور پر ۔۔۔

پہلا درجہ
یہ ہے کہ "منکر" کو بغیر تجسس کے پہچانے۔ کسی کے مکان پر جا کر کان لگانا درست نہیں کہ باجے وغیرہ کی آواز سن سکے اور نہ سونگھنے کی کوشش کرے کہ شراب کی بو معلوم کر سکے اور نہ کپڑے سے ڈھکی چیز کو ٹٹولے کہ سارنگی کی شکل پہچانے۔ اور نہ اس کے ہمسایوں سے پوچھنا چاہیے کہ وہ اس کے حالات کی اطلاع دیں۔ ہاں ، اگر از خود دو معتبر آدمیوں نے خبر دی ہو کہ فلاں آدمی شراب پیتا ہے تو اس صورت میں مکان میں داخل ہو کر برائی کو روکنا چاہیے۔

دوسرا درجہ
تعریف ہے (یعنی برائی کے مرتکب کو برائی کا ذہن نشین کرانا) کیونکہ جاہل آدمی بعض اوقات اس وجہ سے برائی کا ارتکاب کرتا ہے کہ اسے اس کے برا ہونے کا علم نہیں ہوتا۔ اسے سمجھانا چاہیے اور وہ سمجھ جائے تو اسے چھوڑ دیتا ہے تو ضروری ہے کہ نرم لہجے میں اس کی برائی اسے ذہن نشین کرائی جائے۔
انسان پیدائشی عالم تو نہیں ہوتا۔ خود ہم بھی شریعت کے امور سے ناواقف تھے۔ یہاں تک کہ علماء نے ہمیں بتایا۔ نرم نرم باتیں کرے تاکہ بغیر کسی تکلیف کے اسے اس کی برائی کا پتا چل جائے۔ جو برائی سے خاموش رہنے کے گناہ سے تو بچے لیکن بےضرورت مسلمان کو تکلیف پہنچائے تو اس نے گویا خون کو پیشاب سے دھویا۔

تیسرا درجہ
وعظ اور نصیحت اور اللہ کا خوف دلا کر برائی سے روکنا ہے۔ وعید کی احادیث سنائے اور سلف کی سیرت اس کے سامنے بیان کرے۔ اور یہ سب کچھ نہایت شفقت اور نرمی سے ہو۔ غصے اور ناراضگی سے نہ ہو۔ یہاں ایک بہت بڑی آفت ہے جس سے بچنا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ عالم آدمی جب گناہ کی برائی بتاتا ہے تو علم کی وجہ سے اپنے آپ کو معزز اور دوسرے کو جہالت کی وجہ سے ذلیل سمجھتا ہے۔ اس کی مثال اس آدمی کی سی ہے جو دوسرے کو آگ سے بچاتے ہوئے اپنے آپ کو جلا لے۔
شیطانی دھوکہ اور اس کے فریب اور اثر سے بچنے کا ایک معیار اور ایک کسوٹی ہے۔ چاہیے کہ محاسبہ کرنے والا پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کر لے۔ دوسروں کو برائی سے روکنے سے پہلے یہ بات ضروری ہے کہ انسان خود برائی سے رکے، دوسروں کی برائیاں تلاش نہ کرے اور یہ خواہش ہو کہ احتساب کا فرض اس کے بجائے کوئی اور انجام دے تو اچھا ہے۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو یہ اپنے نفس کی خواہش کا متبع ہے اور وہ اصلاح کے بجائے اپنے مرتبے کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ اسے اللہ سے ڈرنا چاہیے اور پہلے اسے اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔
حضرت داؤد طائی (رحمۃ اللہ علیہ) سے کہا گیا : "اس آدمی کے متعلق کیا خیال ہے جو امراء کے پاس جائے اور ان کو نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے؟"
فرمایا : "مجھے خوف ہے کہ اس کی پشت پر کوڑے پڑیں گے۔"
کہا گیا : "اگر وہ یہ ظلم برداشت کرنے کی طاقت رکھتا ہو؟"
تو کہا : "مجھے اس پر تلوار کا خوف ہے۔"
کہا گیا : "وہ اس کے برداشت کرنے کی بھی طاقت رکھتا ہے۔"
تو کہا : "مجھے اس پر پوشیدہ بیماری ، یعنی عُجب (غرور) کا ڈر ہے۔"

اقتباس : منہاج القاصدین (تلخیص از امام ابن قدامہ مقدسی)
اردو ترجمہ: محمد سلیمان کیلانی
 
Top