ثمر علي چانديو
مبتدی
- شمولیت
- مئی 14، 2015
- پیغامات
- 19
- ری ایکشن اسکور
- 0
- پوائنٹ
- 6
۔ قرآن مجید میں تحریف نہیں ہوئی ہے ۔
شيعون کي کتاب (ہمارے عقیدے) اقتباس
ہمارا عقیدہ ہے کہ آج دنیا کے مسلمانوںکے پاس جو قرآن مجید ہے ، وہ وہی ہے جو پیغمبر اسلام ﷺ پر نازل ہوا تھا اور اس میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں ہوئی ہے۔ ابتداء نزول وحی سے ہی اصحاب کا ایک بڑا گروہ ، قرآن مجید کی آیات کو نازل ہونے کے بعد لکھا کرتا تھا اور مسلمانوںکایہ فریضہ تھا کہ شب و روز اس کی تلاوت کریں اور پنج گانہ نماز میں اس کی تکرار کریں ۔ایک عظیم گروہ قرآن مجید کے حافظ اور قاری کی حیثیت رکھتا تھا جس کو اسلامی معاشرہ میں ایک خاص مقام و منزلت حاصل رہی ہے ۔
یہ ساری باتیں اور ان کے علاوہ دوسری باتیں سبب بنیںکہ قرآن مجید چھوٹی سے چھوٹی تحریف و تغییر سے محفوظ رہا ۔
اس کے علاوہ خدا وند عالم نے قرآن مجید کی دنیا کے ختم ہو نے تک حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس ذمہ داری کے بعد قرآن مجید میں کسی بھی طرح کی تغییر و تحریف کا ہونا ممکن نہیں ہے۔ ( انّا نحن نزلنا الذکر و انّا لہ لحافظون ) ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی قطعی طور پر اس کی حفاظت کریں گے۔ بزرگ اسلامی علماء و محققین شیعہ ہوں یا سنی سب اس امر پر متفق ہیں کہ قرآن مجید میں کسی بھی طرح کی تحریف نہیں ہوئی ہے ، سوائے دونوںگروہ کے بعض افراد کے جو بعض روایات کی وجہ سے تحریف کے قائل ہیں حالانکہ دونوںگروہوں کے علماء ان کے نظریہ کو قاطعیت کے ساتھ رد کرتے ہیں اور تحریف کی روایات کو جعلی قرار دیتے ہیں۔ یا انہیں تحریف معنوی (یعنی آیات قرآن کی غلط تفسیر کرنا)یا تفسیر قرآن کو متن قرآن سے خلط کردینا، جانتے ہیں، اس بات پر دقت ہونا چاہئے۔
ایسے کو تاہ فکر حضرات جن کا تحریف قرآن پر عقیدہ ہے حالانکہ شیعوں اور سنیوں کے بزرگ علماء صریحاً تحریف قرآن کی مخالفت کرتے ہیں ، شیعہ و غیر، گروہ کی طرف اس کی نسبت دیتے ہیںاور ناآگاہانہ طو رپر قرآن مجید کی حیثیت کونقصان پہنچاتے ہیں اور اپنے ان تعصب بھرے عمل سے ، اس مقدس آسمانی کتاب کے اعتبار کو زیر سوال لارہے ہیں اور اس کے تقدس کو مخدوش کر نے کا موقع دشمن کو فراہم کررہے ہیں
جمع آورئی قرآن کے تاریخ سے یہ بات روشن ہو جاتی ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ کے زمانے ہی میں جمع آوری قرآن کے تاریخی عصر پیغمبر ﷺ میں قرآن کے جمع ہو جانے ، اس کے لئے غیر معمولی اہتمام و انتظام ، مسلمانوں کا کتابت ، حفظ و حفاظت کرنا خصوصاً گروہ کاتبان وحی کا روز اول سے وجود میں آنا ، اس حقیقت کو آشکار کردیتا ہے کہ قرآن مجید میں تحریف ہو نا غیر ممکن امر رہاہے۔
اور اس قرآن کے علاوہ کسی دوسرے قرآن کا وجود نہیں ہے اس بات کی دلیل بالکل واضح ہے اور اس کی تحقیق کے راستے سب کے لئے کھلے ہوئے ہیں اس لئے کہ آج قرآن تمام گھروں ، مسجدوں ، کتب خانوں میں موجود ہے حتی کہ وہ خطی نسخے بھی سینکڑوں سال پہلے لکھے گئے ہیں اور میوزیم میں رکھے ہوئے ہیں سب اس بات کی علامت ہیں کہ یہ وہی قرآن ہے جو جو تمام اسلامی ممالک میں پایا جاتا ہے اور اگر گزشتہ وقتوں میں اس بات کی تحقیق کے وسائل فراہم نہیںتھے تو آج یہ امکان فراہم ہے اور سب کے لئے تحقیق کے راستے کھلے ہیں مختصر جستجو اور تحقیق سے ان باتوں کے بے بنیاد ہونے کی حقیقت آشکار ہو جائے گی۔ فبشّر عبادی الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ ۔ میرے بندوںکو بشارت دیدو کہ جب وہ باتوں کو سنتے ہیں تو ان میں سے بہترین کی پیروی کرتے ہیں آج کے دور میں ہمارے مدرسوں میں علوم قرآنی بطور وسیع تدریس کئے جاتے ہیں مھم ترین بحث جو ان مدرسوں میں ہو تی ہے وہ قرآن مجید میں تحریف و تغیر کا نہیں پایا جانا ہے۔ (1)
(1) ہم نے اپنی کتابوں تفسیر و اصول فقہ کے علاوہ تحریف قرآن سے متعلق مفصل بحثیںکی ہیں (کتاب انوار الاصول اور تفسیر نمونہ کی طرف رجوع کریں )
قرآن اور انسانی زندگی کی مادی و معنوی ضروریات
ہمارا عقیدہ ہے کہ جو کچھ انسانی زندگی کی مادی و معنوی ضروریات ہیں ان کے اصول و کلیات قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں نظام حکومت اور مسائل سیاسی دوسرے کے ساتھ معاشرتی روابط ، اصول معاشرت ، جنگ و صلح عدالتی و اقتصادی مسائل وغیرہ ان کے اصول و کلیات بیان ہوئے ہیں جن پر عمل سے ہماری زندگی کے مسائل حل اور بہتر ہو سکتے ہیں
ترجمہ آیت : ہم نے اس کتاب کو تم پر نازل کیا جو تمام چیزوں کے بارے میں بیان کرنے والی ہے اور مسمانوں کے لئے ھدایت و بشارت ہے اور مسلمانوں کو حکم دیتی ہے کہ اپنی حکومت کی زمام خود سنبھالیں اور بلند پایہ اسلامی اقدار کو اس کی مدد سے زندہ کریں اور اسلامی سماج کی اس طرح سے تربیت ہو کہ تمام لوگ عدل و انصاف کی راہ پر گام زن ہو جائیں اور دوست و دشمن سب کے ساتھ عدل و انصاف کرنے کا نظام قائم ہو جائے ۔یا ایھا الذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط شھداء للہ و لو علی انفسکم اووالدین و الاقربین ۔
اے ایمان لانے والوں عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے قیام کرو اور خدا کے لئے شھادت دو اگر چہ وہ تمہارے یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں کے لئے نقصان کا باعث ہو۔ولا یجرمنکم شنئان قوم علی ان الا تعدلوا اعدلو ا ھوا اقرب للتقوی ۔
ہر گز ایسا نہ ہو کہ کسی گروہ سے دشمنی تمہیں گناہ وبے انصافی تک لے جائے عدل و انصاف کرو کہ وہ تقوی اور پرھیزگاری سے زیادہ نزدیک ہے ۔
اس دلیل کی وجہ سے ہمارا عقیدہ ہے کہ ہرگز اسلام حکومت و سیاست سے جدا نہیں ہے ۔
قرآن مجید، پیغمبر اسلام(ص) کاسب سے بڑا معجزہ ۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید، پیغمبر اسلام (ص)کے مہمترین معجزوں میں ہے، صرف فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے ہی نہیں بلکہ شیرینی بیان اور معانی کے بلیغ ہونے کے لحاظ سے بھی، ان کے علاوہ دوسرے مختلف جہات کے اعتبار سے بھی قرآن مجید اعجاز ی حیثیت رکھتاہے۔ جس کی شرح و تفصیل عقاید و کلام کی کتابوں میں موجود ہے۔
اسی دلیل کے سبب ہمارا عقیدہ ہے کہ کوئی قرآن کی مانند حتی اس کے ایک سورہ کی مثال نہیں لاسکتا ۔قرآن نے بارھا شک و تردید کرنے والوں کو دعوت مقابلہ دی مگر کسی میں اس کی نظیر لانے کی جرات پیدا نہ ہوسکی: قل لئن اجتمعت الانس والجن ولی ان یاتوا بمثل ھذا القرآن لا یاتون بمثلہ و لو کان بعضھم لبعض ظھیرا۔
اے بنی کہہ دیجئیے کہ اگر انسان و جنات مل کر اس قرآن کا جواب لانا چاہیں تو بھی اس کا جواب نہیں لاسکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے شریک بن جائیں۔(1)و ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتوا بسورة من مثلہ وادعوا شھداء کم من دون اللہ ان کنتم صادقین۔
جو کچھ ہم نے اپنے بندہ (محمد) پر نازل کیاہے اگر اس میں شک و تردید ہے تو (کم از کم) اس جیسا ایک سورہ لے آؤ اور اللہ کے سوا اس کام کے لیے اپنے گواہوں کو دعوت دو اگر تم سچے ہو۔(۲)
اور ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید، زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف یہ کہ کہنہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے اعجازی نکات اور زیادہ آشکار اور اس کی عظمت دنیا والوں پر روشن ہوتی جاتی ہے۔
امام صادق علیہ السلام ایک حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں: ان اللہ تبارک و تعالی لم یجعلہ لزمان دوزمان و لناس دون ناس فھو فی کل زمان جدید و عند کل قوم غض الی یوم القیامة۔
خداوند متعال نے قرآن مجید کو ایک خاص زمانہ یا گروہ کے لیے قرار نہیں دیاہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ ہر زمانہ میں تازہ اور ہر گروہ کے نزدیک قیامت تک کے لیے با طراوت رہے گا۔ (3)
(1) سورہ اسراء آیہ ۸۸
(۲)سورہ بقرہ آیہ ۲۳
(۲)سورہ بقرہ آیہ23
۔ تفسیر بہ رای کے خطرات
ہمارا عقیدہ ہے کہ تفسیر بہ رای قرآن کے وجود کے لئے سب سے خطرناک چیز ہے جسے اسلامی روایات میں گناہ کبیرہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور تفسیر بہ رای کرنے والا بارگاہ قرب خداوند ی سے مردود ہو جاتا ہے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ خداوند نے ارشاد فرمایا کہ ما امن بی من فسّر برایہ کلامی ۔ جس نے میرے سخن کی اپنے میل اور من سے اپنے ھوای نفس کے مطابق تفسیر کی وہ ایسا ہے کہ گویا مجھ پر ایمان ہی نہیں لایا۔
بہت سی معروف مشہور کتابوں میں (جیسے صحیح ترمذی و سنن نسائی و سنن ابی داوود )( یہ حدیث پیغمبر اسلام ﷺ سے نقل ہو ئی ہے آپ نے فرمایا : من قال فی القرآن برایہ او بما لا یعلم فلیتّبوء مقعدہ فی النار ۔ جس نے قرآن مجید کی تفسیر اپنے ھوا و ھوس اور میل کے مطابق کی یا نہ جاننے کے باوجود اس بارے میں اپنی رای کا اظہار کیا ، اس کا مقام اور ٹھکانا جہنم ہے۔
تفسیر بہ رای سے مراد یہ ہے کہ انسان قرآن مجید کو اپنی تمایلات اور شخصی عقیدہ یا گروہی عقیدہ کے مطابق معنا و تفسیر کرے یا ان پر تطبیق کرے حالانکہ اس پر کوئی قرینہ یا شاھد موجود نہ ہو ایسا کرنے والا وقعیت میں قرآن کے حضور میں تابع اور اس کا مطیع نہیں ہے بلکہ وہ قرآن کو اپنا تابع بنانا چاہتا ہے اور اگر وہ قرآ ن مجید پر کاملا ً ایمان رکھتا تو ہر گز ایسا نہیں کرتا ۔ اگر تفسیر بہ رای قرآن کے بارے میں ہوتی رہی تو بلا شبہ پوری طرح سے اس کا اعتبار ختم ہوجائے گا اور جب ہر شخص اپنی میلان کے مطابق اس کے معنا اور تفسیر کرنے لگے گا تو ہر باطل عقیدہ قرآن کے اوپر تطبیق دیا جانے لگے گا ۔
لہذا تفسیر بہ رای یعنی قوانین و مقررات علم لغت اور ادبیات عرب ، فھم اھل زبان کے خلاف قرآن مجید کی تفسیر اور اسے اپنے باطل گمان اور خیالات و رای اور تمایلات شخصی و گروہی کے مطابق تطبیق دینا ، قرآن مجید میں معنوی تحریف کا سبب ہو جائے گا ۔ تفسیر بہ رای کی کئی شاخیں ہیں ان میںسے ایک آیات قرآن کے ساتھ جدا جد نا برتاؤ کرنا ہے ، اس معنا میں کہ انسان مثلاً شفاعت و توحید و امامت وغیرہ کی بحث میں صرف ان آیات کا انتخاب کرے جو اس کے نظریہ کے موافق ہو ں اور ان آیات کو جو اس کے مزاق سے موافقت نہ رکھتی ہوں اور دوسری آیات کی تفسیر کر سکتی ہوں انھیں نظر انداز کرے یا ان کی بحث سے سرسری اور بے توجھی سے گزرجائے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ : جس طرح سے الفاظ قران کریم کے بارے میںجمود اختیار کرنا اور معتبر وعقلی و نقلی قرینوں پر توجہ نہ کرنا ایک طرح سے انحراف ہے تفسیر بہ را ی بھی اسی طرح کا انحراف شمار کی جائے گی جبکہ دونوں ہی قرآن کی اعلی و مقدس تعلیمات سے دوری کا سبب بنتا ہے یہ نکتہ غور طلب ہے ۔
۔ تلاوت تدبر و تفکر اور عمل
ہمارا عقیدہ ہے کہ تلاوت قرآن افضل ترین عبادتوں میں سے ہے کم عبادتیں ہیں کہ جو اس کے پائیہ منزلت تک پہونچ سکتی ہیں اس لئے کہ یہ تلاوت فکر کو الھام بخشنے والا ، قرآن میں تدبر اور تفکر کرنے اور نیک و صالح اعمال کا سرچشمہ ہے ۔
قرآن پیغمبر اسلام کو خطاب کرکے فرماتا ہے :قم اللیل الا قلیلاً ،نصفہ او انقص منہ قلیلاً او زد علیہ و رتّل القرآن ترتیلاً ۔
شب میںکم عبادتیںکریں آدھی رات (بیدار ہوں) یا اس سے پہلے کی بیداری کو کم کریں یا بڑھائیں اور تلاوت قرآن مجید کو دقت اور فکر کے ساتھ تلاوت کریں قرآن تمام مسلمانوں کو خطاب کر کے فرماتا ہے : جہاں تک ممکن ہو سکے قرآن کی تلاوت کیا کرو ۔قرآن کی تلاوت تا حد امکان کرو ۔
ہاں لیکن جیسا کہ بیان کیا گیا قرآن کی تلاوت اس میں اور اس کے معنی میں تفکر و رتدبر کا سبب ہونا چاہئے اور یہ تفکر و تدبر اس پر عمل کرنے کے لئے مقدم ہونا چاہئے افلا یتدبرون القرآن ام علی قلو بھم اقفالھا۔ کیا وہ قرآن میں تفکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر مہر لگ گئی ہے۔
و لقد یسرنا القرآن للذکر فہل من مذکر ۔ ہم نے قرآن مجید کو یاد آوری کے لئے آسان کر دیا ہے آیا کوئی ہے جو اس پر عمل کرے۔ (۱)
ہذا کتاب انزلناہ مبارک فاتبعوہ یہ پر برکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ نازل کیا ہے لہذا اس کی پیروی کریں لہذا وہ لوگ جو قرآن کی تلاوت اور حفظ پر قناعت کر تے ہیں اور اس کی آیات میں غورو فکر نہیں اور اس کے معنا پر عمل نہیں کرتے ، اگر چہ انہوں نے تین میں سے ایک رکن پر عمل کیا ہے لیکن دو زیادہ اہم رکن سے محروم رہے ہیں اور عظیم خسارہ اٹھایا ہے ۔
(۱) بدیہی اور واضح ہے اگر تفسیر بہ رای کرنے والا شخص صحیح و سالم ایمان کا مالک ہو تا تو کلام خداکو اسی معانی و مفاھیم کے ساتھ قبول کرلیتا اور اسے اپنے میل اور ھوا وھوس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہ کرتا ۔
شيعون کي کتاب (ہمارے عقیدے) اقتباس
ہمارا عقیدہ ہے کہ آج دنیا کے مسلمانوںکے پاس جو قرآن مجید ہے ، وہ وہی ہے جو پیغمبر اسلام ﷺ پر نازل ہوا تھا اور اس میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں ہوئی ہے۔ ابتداء نزول وحی سے ہی اصحاب کا ایک بڑا گروہ ، قرآن مجید کی آیات کو نازل ہونے کے بعد لکھا کرتا تھا اور مسلمانوںکایہ فریضہ تھا کہ شب و روز اس کی تلاوت کریں اور پنج گانہ نماز میں اس کی تکرار کریں ۔ایک عظیم گروہ قرآن مجید کے حافظ اور قاری کی حیثیت رکھتا تھا جس کو اسلامی معاشرہ میں ایک خاص مقام و منزلت حاصل رہی ہے ۔
یہ ساری باتیں اور ان کے علاوہ دوسری باتیں سبب بنیںکہ قرآن مجید چھوٹی سے چھوٹی تحریف و تغییر سے محفوظ رہا ۔
اس کے علاوہ خدا وند عالم نے قرآن مجید کی دنیا کے ختم ہو نے تک حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس ذمہ داری کے بعد قرآن مجید میں کسی بھی طرح کی تغییر و تحریف کا ہونا ممکن نہیں ہے۔ ( انّا نحن نزلنا الذکر و انّا لہ لحافظون ) ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی قطعی طور پر اس کی حفاظت کریں گے۔ بزرگ اسلامی علماء و محققین شیعہ ہوں یا سنی سب اس امر پر متفق ہیں کہ قرآن مجید میں کسی بھی طرح کی تحریف نہیں ہوئی ہے ، سوائے دونوںگروہ کے بعض افراد کے جو بعض روایات کی وجہ سے تحریف کے قائل ہیں حالانکہ دونوںگروہوں کے علماء ان کے نظریہ کو قاطعیت کے ساتھ رد کرتے ہیں اور تحریف کی روایات کو جعلی قرار دیتے ہیں۔ یا انہیں تحریف معنوی (یعنی آیات قرآن کی غلط تفسیر کرنا)یا تفسیر قرآن کو متن قرآن سے خلط کردینا، جانتے ہیں، اس بات پر دقت ہونا چاہئے۔
ایسے کو تاہ فکر حضرات جن کا تحریف قرآن پر عقیدہ ہے حالانکہ شیعوں اور سنیوں کے بزرگ علماء صریحاً تحریف قرآن کی مخالفت کرتے ہیں ، شیعہ و غیر، گروہ کی طرف اس کی نسبت دیتے ہیںاور ناآگاہانہ طو رپر قرآن مجید کی حیثیت کونقصان پہنچاتے ہیں اور اپنے ان تعصب بھرے عمل سے ، اس مقدس آسمانی کتاب کے اعتبار کو زیر سوال لارہے ہیں اور اس کے تقدس کو مخدوش کر نے کا موقع دشمن کو فراہم کررہے ہیں
جمع آورئی قرآن کے تاریخ سے یہ بات روشن ہو جاتی ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ کے زمانے ہی میں جمع آوری قرآن کے تاریخی عصر پیغمبر ﷺ میں قرآن کے جمع ہو جانے ، اس کے لئے غیر معمولی اہتمام و انتظام ، مسلمانوں کا کتابت ، حفظ و حفاظت کرنا خصوصاً گروہ کاتبان وحی کا روز اول سے وجود میں آنا ، اس حقیقت کو آشکار کردیتا ہے کہ قرآن مجید میں تحریف ہو نا غیر ممکن امر رہاہے۔
اور اس قرآن کے علاوہ کسی دوسرے قرآن کا وجود نہیں ہے اس بات کی دلیل بالکل واضح ہے اور اس کی تحقیق کے راستے سب کے لئے کھلے ہوئے ہیں اس لئے کہ آج قرآن تمام گھروں ، مسجدوں ، کتب خانوں میں موجود ہے حتی کہ وہ خطی نسخے بھی سینکڑوں سال پہلے لکھے گئے ہیں اور میوزیم میں رکھے ہوئے ہیں سب اس بات کی علامت ہیں کہ یہ وہی قرآن ہے جو جو تمام اسلامی ممالک میں پایا جاتا ہے اور اگر گزشتہ وقتوں میں اس بات کی تحقیق کے وسائل فراہم نہیںتھے تو آج یہ امکان فراہم ہے اور سب کے لئے تحقیق کے راستے کھلے ہیں مختصر جستجو اور تحقیق سے ان باتوں کے بے بنیاد ہونے کی حقیقت آشکار ہو جائے گی۔ فبشّر عبادی الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ ۔ میرے بندوںکو بشارت دیدو کہ جب وہ باتوں کو سنتے ہیں تو ان میں سے بہترین کی پیروی کرتے ہیں آج کے دور میں ہمارے مدرسوں میں علوم قرآنی بطور وسیع تدریس کئے جاتے ہیں مھم ترین بحث جو ان مدرسوں میں ہو تی ہے وہ قرآن مجید میں تحریف و تغیر کا نہیں پایا جانا ہے۔ (1)
(1) ہم نے اپنی کتابوں تفسیر و اصول فقہ کے علاوہ تحریف قرآن سے متعلق مفصل بحثیںکی ہیں (کتاب انوار الاصول اور تفسیر نمونہ کی طرف رجوع کریں )
قرآن اور انسانی زندگی کی مادی و معنوی ضروریات
ہمارا عقیدہ ہے کہ جو کچھ انسانی زندگی کی مادی و معنوی ضروریات ہیں ان کے اصول و کلیات قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں نظام حکومت اور مسائل سیاسی دوسرے کے ساتھ معاشرتی روابط ، اصول معاشرت ، جنگ و صلح عدالتی و اقتصادی مسائل وغیرہ ان کے اصول و کلیات بیان ہوئے ہیں جن پر عمل سے ہماری زندگی کے مسائل حل اور بہتر ہو سکتے ہیں
ترجمہ آیت : ہم نے اس کتاب کو تم پر نازل کیا جو تمام چیزوں کے بارے میں بیان کرنے والی ہے اور مسمانوں کے لئے ھدایت و بشارت ہے اور مسلمانوں کو حکم دیتی ہے کہ اپنی حکومت کی زمام خود سنبھالیں اور بلند پایہ اسلامی اقدار کو اس کی مدد سے زندہ کریں اور اسلامی سماج کی اس طرح سے تربیت ہو کہ تمام لوگ عدل و انصاف کی راہ پر گام زن ہو جائیں اور دوست و دشمن سب کے ساتھ عدل و انصاف کرنے کا نظام قائم ہو جائے ۔یا ایھا الذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط شھداء للہ و لو علی انفسکم اووالدین و الاقربین ۔
اے ایمان لانے والوں عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے قیام کرو اور خدا کے لئے شھادت دو اگر چہ وہ تمہارے یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں کے لئے نقصان کا باعث ہو۔ولا یجرمنکم شنئان قوم علی ان الا تعدلوا اعدلو ا ھوا اقرب للتقوی ۔
ہر گز ایسا نہ ہو کہ کسی گروہ سے دشمنی تمہیں گناہ وبے انصافی تک لے جائے عدل و انصاف کرو کہ وہ تقوی اور پرھیزگاری سے زیادہ نزدیک ہے ۔
اس دلیل کی وجہ سے ہمارا عقیدہ ہے کہ ہرگز اسلام حکومت و سیاست سے جدا نہیں ہے ۔
قرآن مجید، پیغمبر اسلام(ص) کاسب سے بڑا معجزہ ۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید، پیغمبر اسلام (ص)کے مہمترین معجزوں میں ہے، صرف فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے ہی نہیں بلکہ شیرینی بیان اور معانی کے بلیغ ہونے کے لحاظ سے بھی، ان کے علاوہ دوسرے مختلف جہات کے اعتبار سے بھی قرآن مجید اعجاز ی حیثیت رکھتاہے۔ جس کی شرح و تفصیل عقاید و کلام کی کتابوں میں موجود ہے۔
اسی دلیل کے سبب ہمارا عقیدہ ہے کہ کوئی قرآن کی مانند حتی اس کے ایک سورہ کی مثال نہیں لاسکتا ۔قرآن نے بارھا شک و تردید کرنے والوں کو دعوت مقابلہ دی مگر کسی میں اس کی نظیر لانے کی جرات پیدا نہ ہوسکی: قل لئن اجتمعت الانس والجن ولی ان یاتوا بمثل ھذا القرآن لا یاتون بمثلہ و لو کان بعضھم لبعض ظھیرا۔
اے بنی کہہ دیجئیے کہ اگر انسان و جنات مل کر اس قرآن کا جواب لانا چاہیں تو بھی اس کا جواب نہیں لاسکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے شریک بن جائیں۔(1)و ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتوا بسورة من مثلہ وادعوا شھداء کم من دون اللہ ان کنتم صادقین۔
جو کچھ ہم نے اپنے بندہ (محمد) پر نازل کیاہے اگر اس میں شک و تردید ہے تو (کم از کم) اس جیسا ایک سورہ لے آؤ اور اللہ کے سوا اس کام کے لیے اپنے گواہوں کو دعوت دو اگر تم سچے ہو۔(۲)
اور ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید، زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف یہ کہ کہنہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے اعجازی نکات اور زیادہ آشکار اور اس کی عظمت دنیا والوں پر روشن ہوتی جاتی ہے۔
امام صادق علیہ السلام ایک حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں: ان اللہ تبارک و تعالی لم یجعلہ لزمان دوزمان و لناس دون ناس فھو فی کل زمان جدید و عند کل قوم غض الی یوم القیامة۔
خداوند متعال نے قرآن مجید کو ایک خاص زمانہ یا گروہ کے لیے قرار نہیں دیاہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ ہر زمانہ میں تازہ اور ہر گروہ کے نزدیک قیامت تک کے لیے با طراوت رہے گا۔ (3)
(1) سورہ اسراء آیہ ۸۸
(۲)سورہ بقرہ آیہ ۲۳
(۲)سورہ بقرہ آیہ23
۔ تفسیر بہ رای کے خطرات
ہمارا عقیدہ ہے کہ تفسیر بہ رای قرآن کے وجود کے لئے سب سے خطرناک چیز ہے جسے اسلامی روایات میں گناہ کبیرہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور تفسیر بہ رای کرنے والا بارگاہ قرب خداوند ی سے مردود ہو جاتا ہے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ خداوند نے ارشاد فرمایا کہ ما امن بی من فسّر برایہ کلامی ۔ جس نے میرے سخن کی اپنے میل اور من سے اپنے ھوای نفس کے مطابق تفسیر کی وہ ایسا ہے کہ گویا مجھ پر ایمان ہی نہیں لایا۔
بہت سی معروف مشہور کتابوں میں (جیسے صحیح ترمذی و سنن نسائی و سنن ابی داوود )( یہ حدیث پیغمبر اسلام ﷺ سے نقل ہو ئی ہے آپ نے فرمایا : من قال فی القرآن برایہ او بما لا یعلم فلیتّبوء مقعدہ فی النار ۔ جس نے قرآن مجید کی تفسیر اپنے ھوا و ھوس اور میل کے مطابق کی یا نہ جاننے کے باوجود اس بارے میں اپنی رای کا اظہار کیا ، اس کا مقام اور ٹھکانا جہنم ہے۔
تفسیر بہ رای سے مراد یہ ہے کہ انسان قرآن مجید کو اپنی تمایلات اور شخصی عقیدہ یا گروہی عقیدہ کے مطابق معنا و تفسیر کرے یا ان پر تطبیق کرے حالانکہ اس پر کوئی قرینہ یا شاھد موجود نہ ہو ایسا کرنے والا وقعیت میں قرآن کے حضور میں تابع اور اس کا مطیع نہیں ہے بلکہ وہ قرآن کو اپنا تابع بنانا چاہتا ہے اور اگر وہ قرآ ن مجید پر کاملا ً ایمان رکھتا تو ہر گز ایسا نہیں کرتا ۔ اگر تفسیر بہ رای قرآن کے بارے میں ہوتی رہی تو بلا شبہ پوری طرح سے اس کا اعتبار ختم ہوجائے گا اور جب ہر شخص اپنی میلان کے مطابق اس کے معنا اور تفسیر کرنے لگے گا تو ہر باطل عقیدہ قرآن کے اوپر تطبیق دیا جانے لگے گا ۔
لہذا تفسیر بہ رای یعنی قوانین و مقررات علم لغت اور ادبیات عرب ، فھم اھل زبان کے خلاف قرآن مجید کی تفسیر اور اسے اپنے باطل گمان اور خیالات و رای اور تمایلات شخصی و گروہی کے مطابق تطبیق دینا ، قرآن مجید میں معنوی تحریف کا سبب ہو جائے گا ۔ تفسیر بہ رای کی کئی شاخیں ہیں ان میںسے ایک آیات قرآن کے ساتھ جدا جد نا برتاؤ کرنا ہے ، اس معنا میں کہ انسان مثلاً شفاعت و توحید و امامت وغیرہ کی بحث میں صرف ان آیات کا انتخاب کرے جو اس کے نظریہ کے موافق ہو ں اور ان آیات کو جو اس کے مزاق سے موافقت نہ رکھتی ہوں اور دوسری آیات کی تفسیر کر سکتی ہوں انھیں نظر انداز کرے یا ان کی بحث سے سرسری اور بے توجھی سے گزرجائے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ : جس طرح سے الفاظ قران کریم کے بارے میںجمود اختیار کرنا اور معتبر وعقلی و نقلی قرینوں پر توجہ نہ کرنا ایک طرح سے انحراف ہے تفسیر بہ را ی بھی اسی طرح کا انحراف شمار کی جائے گی جبکہ دونوں ہی قرآن کی اعلی و مقدس تعلیمات سے دوری کا سبب بنتا ہے یہ نکتہ غور طلب ہے ۔
۔ تلاوت تدبر و تفکر اور عمل
ہمارا عقیدہ ہے کہ تلاوت قرآن افضل ترین عبادتوں میں سے ہے کم عبادتیں ہیں کہ جو اس کے پائیہ منزلت تک پہونچ سکتی ہیں اس لئے کہ یہ تلاوت فکر کو الھام بخشنے والا ، قرآن میں تدبر اور تفکر کرنے اور نیک و صالح اعمال کا سرچشمہ ہے ۔
قرآن پیغمبر اسلام کو خطاب کرکے فرماتا ہے :قم اللیل الا قلیلاً ،نصفہ او انقص منہ قلیلاً او زد علیہ و رتّل القرآن ترتیلاً ۔
شب میںکم عبادتیںکریں آدھی رات (بیدار ہوں) یا اس سے پہلے کی بیداری کو کم کریں یا بڑھائیں اور تلاوت قرآن مجید کو دقت اور فکر کے ساتھ تلاوت کریں قرآن تمام مسلمانوں کو خطاب کر کے فرماتا ہے : جہاں تک ممکن ہو سکے قرآن کی تلاوت کیا کرو ۔قرآن کی تلاوت تا حد امکان کرو ۔
ہاں لیکن جیسا کہ بیان کیا گیا قرآن کی تلاوت اس میں اور اس کے معنی میں تفکر و رتدبر کا سبب ہونا چاہئے اور یہ تفکر و تدبر اس پر عمل کرنے کے لئے مقدم ہونا چاہئے افلا یتدبرون القرآن ام علی قلو بھم اقفالھا۔ کیا وہ قرآن میں تفکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر مہر لگ گئی ہے۔
و لقد یسرنا القرآن للذکر فہل من مذکر ۔ ہم نے قرآن مجید کو یاد آوری کے لئے آسان کر دیا ہے آیا کوئی ہے جو اس پر عمل کرے۔ (۱)
ہذا کتاب انزلناہ مبارک فاتبعوہ یہ پر برکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ نازل کیا ہے لہذا اس کی پیروی کریں لہذا وہ لوگ جو قرآن کی تلاوت اور حفظ پر قناعت کر تے ہیں اور اس کی آیات میں غورو فکر نہیں اور اس کے معنا پر عمل نہیں کرتے ، اگر چہ انہوں نے تین میں سے ایک رکن پر عمل کیا ہے لیکن دو زیادہ اہم رکن سے محروم رہے ہیں اور عظیم خسارہ اٹھایا ہے ۔
(۱) بدیہی اور واضح ہے اگر تفسیر بہ رای کرنے والا شخص صحیح و سالم ایمان کا مالک ہو تا تو کلام خداکو اسی معانی و مفاھیم کے ساتھ قبول کرلیتا اور اسے اپنے میل اور ھوا وھوس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہ کرتا ۔
Last edited: