- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
اسی روایت کے متعلق تو علماء کا فیصلہ یا حکم بتایا تھا ۔۔کہ جو ابن مسعود سے معوذتین کے متعلق نقل کیا جاتا ہے وہ بالکل ثابت نہیں‘‘اگر کسی کتاب کو قبول یا رد کرنے کا معیار اس کی تقدیم و تاخیر کی بنیاد پر ہے تو ’‘ مجمع الزوائد ’‘ اور" نوی " ،"ابن حزم " اور "فخرالدین رازی "سے بھی قدیم ایک محدث "ابن حبان "کی کتاب "صحیح ابن حبان "کا حوالہ بھی پیش کیا ہے لیکن کیا کریں کہ وہ آپ کو نظر نہیں آیا اس لئے ایک بار پھرپیش کئے دیتا ہوں امید ہے اب آپ پنترا نہیں بدلیں گے اور " نوی " ،"ابن حزم " اور "فخرالدین رازی " کے وجود سے پہلے ابن حبان کی پیش کی گئی روایت کو قبول فرمالیں گے جیسے ابن حبان نے اپنی صحیح ابن حبان میں پیش کیا
قُلْتُ لِأُبَيِّ بنِ كعبٍ : إنَّ ابنَ مسعودٍ لا يكتُبُ في مُصحَفِه المُعوِّذتَيْنِ فقال : قال لي رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( قال لي جِبريلُ : {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} [الفلق: 1] فقُلْتُها وقال لي : {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ} [الناس: 1] فقُلْتُها ) فنحنُ نقولُ ما قال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم
الراوي : أبي بن كعب | المحدث : ابن حبان | المصدر : صحيح ابن حبان
الصفحة أو الرقم: 797 | خلاصة حكم المحدث : أخرجه في صحيحه
اب آپ کو لغت اسلام نہیں آتی ،تو میرا ۔۔یا ۔۔اہلسنت کے علماء کا کیا قصور ؟
یا آپ سمجھ کر بھی دانستہ انجان بنے دل لگی کرتے ہیں ؟؟؟
اپنی پیش کردہ روایت کے متعلق علماء کی تصریح ایک پھر دیکھ لیں ::
’‘ اہل السنہ ’‘کے علماء کی تصریح تو یہ ہے کہ:
النَّوَوِيّ فِي شَرح الْمُهَذَّب : أَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَنَّ الْمُعَوِّذَتَيْنِ وَالْفَاتِحَة مِن الْقُرْآن ، وَأَنَّ مَنْ جَحَدَ مِنْهُمَا شَيْئًا كَفَرَ ، وَمَا نُقِلَ عَنْ اِبْن مَسْعُود بَاطِل لَيْسَ بِصَحِيحٍ ، فَفِيهِ نَظَر ،
وَقَدْ سَبَقَهُ لِنَحْوِ ذَلِكَ أَبُو مُحَمَّد بْن حَزْم فَقَالَ فِي أَوَائِل " الْمُحَلَّى " : مَا نُقِلَ عَنْ اِبْن مَسْعُود مِنْ إِنْكَار قُرْآنِيَّة الْمُعَوِّذَتَيْنِ فَهُوَ كَذِب بَاطِل .
وَكَذَا قَالَ الْفَخْر الرَّازِيَُّ فِي أَوَائِل تَفْسِيره : الأغلب عَلَى الظَّنّ أَنَّ هَذَا النَّقْل عَنْ اِبْن مَسْعُود كَذِب بَاطِل .
ان تیں بڑے علماء نے واضح الفاظ میں ۔۔سیدنا ابن مسعود ؓ ۔۔سے معوذتین کے قرآن نہ ہونے کے قول کو ’‘ سنداً ’‘ بے بنیاد کہا ہے ؛
یعنی یہ ثابت ہی نہیں کہ جناب عبد اللہ بن مسعود نے ۔۔معوذتین۔۔کے قرآن کا حصہ ہونے سے انکار کیا ہو