- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 3,416
- ری ایکشن اسکور
- 2,733
- پوائنٹ
- 556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال کہ جب احتمال آجائے تو استدلال باطل ہو جاتا ہے!!
اس کا جواب کہاں ہے؟
یہ باقر مجلسی کے الفاظ ہیں:
مرآة العقول »» ملا باقر المجلسي (1111 ھ)
(الحديث الثامن و العشرون)
موثق. و في بعض النسخ عن هشام بن سالم موضع هارون بن مسلم، فالخبر صحيح و لا يخفى أن هذا الخبر و كثير من الأخبار الصحيحة صريحة في نقص القرآن و تغييره، و عندي أن الأخبار في هذا الباب متواترة معنى، و طرح جميعها يوجب رفع الاعتماد عن الأخبار رأسا بل ظني أن الأخبار في هذا الباب لا يقصر عن أخبار الإمامة فكيف يثبتونها بالخبر.
مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول - العلامة محمد باقر المجلسي –مجلد 12 صفحه525
قابل اعتماد ہے اصول کافی کے بعض نسخوں میں ہشام بن سالم کی جگہ ہارون بن مسلم کا نام ہے۔ پس یہ حدیث صحیح ہے اور بات واضح رہے کہ بلا شبہ یہ حدیث اور بہت سی دوسری احادیث جو صراحتا قرآن میں کمی اور تبدیلی پر دلالت کرتی ہیں میرے نزدیک یہ تحریف کے باب میں معنا متواتر ہیں ۔ اور ان سب کا انکار کرنے سے ذخیرہ احادیث سے اعتماد ختم ہوگا۔ بلا شبہ اس باب (یعنی تحریف القرآن) کی روایات امامت کی روایات سے کم نہیں ہیں (ان روایات تحریف القرآن کا انکار کردیا جائے ) تو عقیدہ امامت حدیث سے کس طرح ثابت ہوگا۔
فإن قيل: إنه يوجب رفع الاعتماد على القرآن لأنه إذا ثبت تحريفه ففي كل آية يحتمل ذلك و تجويزهم عليهم السلام على قراءة هذا القرآن و العمل به متواتر معلوم إذ لم ينقل من أحد من الأصحاب أن أحدا من أئمتنا أعطاه قرانا أو علمه قراءة، و هذا ظاهر لمن تتبع الأخبار،
اگر یہ کہا جائے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ قرآن سے اعتماد ختم ہو جائے، کیونکہ جب قرآن میں تحریف ثابت ہے تو اس کی ہر ہر آیت میں تحریف کا احتمال ہے، اور ائمہ علیہ السلام نے اس قرآن کی قراءت کو تجويز کیا ہے، اور اسی قرآن پر متواتر عمل ہے معلوم ہے، ہمارے کسی ایک امام کے بھی کسی بھی صاحب نے یہ نقل نہیں کیا کہ انہیں امام نے قران دیا ہو ، یا قراءت سکھلائی ہو، اور ہم اسی ظاہر اخبار کی اتباع کرتے ہیں۔
یہ قاعدہ قرآن کا نہیں ، یہ آپ کو اخذ کر دہ قاعدہ ہے، جو آپ کے ہی مؤقف کے خلاف ہے، کیونکہ آپ کو خود تسلیم ہے کہ تلاوت منسوخ حکم باقی بھی نسخ کی ایک قسم ہے!! کیونکہ صرف قرآن سے شریعت اخذ نہیں کی جاتی، اس کے ساتھ حدیث بھی ضروری ہے!!اور متعد بار میں عرض کرچکا ہوں کہ یہ قاعدہ میرا نہیں بلکہ یہ قاعدہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے پھر کس طرح یہ مکمل نہیں ؟؟؟؟
یہ آپ کو'' ہو سکتا'' تو ہے لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں ، اس کی وضاحت اسی تھریڈ میں گذر چکی ہے، اگر نہ ملے تو فرمائیے گا، میں اقتباس کی صورت میں دوبارہ پیش کردوں گا!!یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ امی عائشہ کی روایت کے مطابق اس آیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد بکری کھا گئی تھی اس لئے یہ قرآن میں نہیں ؟؟؟؟؟
كذا وكذا کہ مذکورہ ترجمہ احتمال پر مبنی ہے! اور یہ قاعدہ تو فقہ الجعفریہ کا بھی ہے کہ:حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا عبدة بن أبي لبابة، عن زر بن حبيش، وحدثنا عاصم، عن زر، قال سألت أبى بن كعب قلت يا أبا المنذر إن أخاك ابن مسعود يقول كذا وكذا. فقال أبى سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لي قيل لي. فقلت، قال فنحن نقول كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم
اردو ترجمہ داؤد راز
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عبدہ بن ابی لبابہ نے بیان کیا، ان سے زر بن حبیش نے (سفیان نے کہا) اور ہم سے عاصم نے بھی بیان کیا، ان سے زر نے بیان کیا کہ میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا یا اباالمنذر! آپ کے بھائی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما تو یہ کہتے ہیں کہ سورۃ معوذتین قرآن میں داخل نہیں ہیں۔ ابی بن کعب نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کو پوچھا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ (جبرائیل علیہ السلام کی زبانی) مجھ سے یوں کہا گیا کہ ایسا کہہ اور میں نے کہا، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم بھی وہی کہتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔
صحیح بخاری حدیث نمبر: 4977
اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال کہ جب احتمال آجائے تو استدلال باطل ہو جاتا ہے!!
اس کا جواب کہاں ہے؟
یہ باقر مجلسی کے الفاظ ہیں:
مرآة العقول »» ملا باقر المجلسي (1111 ھ)
(الحديث الثامن و العشرون)
موثق. و في بعض النسخ عن هشام بن سالم موضع هارون بن مسلم، فالخبر صحيح و لا يخفى أن هذا الخبر و كثير من الأخبار الصحيحة صريحة في نقص القرآن و تغييره، و عندي أن الأخبار في هذا الباب متواترة معنى، و طرح جميعها يوجب رفع الاعتماد عن الأخبار رأسا بل ظني أن الأخبار في هذا الباب لا يقصر عن أخبار الإمامة فكيف يثبتونها بالخبر.
مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول - العلامة محمد باقر المجلسي –مجلد 12 صفحه525
قابل اعتماد ہے اصول کافی کے بعض نسخوں میں ہشام بن سالم کی جگہ ہارون بن مسلم کا نام ہے۔ پس یہ حدیث صحیح ہے اور بات واضح رہے کہ بلا شبہ یہ حدیث اور بہت سی دوسری احادیث جو صراحتا قرآن میں کمی اور تبدیلی پر دلالت کرتی ہیں میرے نزدیک یہ تحریف کے باب میں معنا متواتر ہیں ۔ اور ان سب کا انکار کرنے سے ذخیرہ احادیث سے اعتماد ختم ہوگا۔ بلا شبہ اس باب (یعنی تحریف القرآن) کی روایات امامت کی روایات سے کم نہیں ہیں (ان روایات تحریف القرآن کا انکار کردیا جائے ) تو عقیدہ امامت حدیث سے کس طرح ثابت ہوگا۔
فإن قيل: إنه يوجب رفع الاعتماد على القرآن لأنه إذا ثبت تحريفه ففي كل آية يحتمل ذلك و تجويزهم عليهم السلام على قراءة هذا القرآن و العمل به متواتر معلوم إذ لم ينقل من أحد من الأصحاب أن أحدا من أئمتنا أعطاه قرانا أو علمه قراءة، و هذا ظاهر لمن تتبع الأخبار،
اگر یہ کہا جائے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ قرآن سے اعتماد ختم ہو جائے، کیونکہ جب قرآن میں تحریف ثابت ہے تو اس کی ہر ہر آیت میں تحریف کا احتمال ہے، اور ائمہ علیہ السلام نے اس قرآن کی قراءت کو تجويز کیا ہے، اور اسی قرآن پر متواتر عمل ہے معلوم ہے، ہمارے کسی ایک امام کے بھی کسی بھی صاحب نے یہ نقل نہیں کیا کہ انہیں امام نے قران دیا ہو ، یا قراءت سکھلائی ہو، اور ہم اسی ظاہر اخبار کی اتباع کرتے ہیں۔