- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 3,416
- ری ایکشن اسکور
- 2,733
- پوائنٹ
- 556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
وَقَالَتْ : إِذَا بَلَغْتَ هَذِهِ الْآيَةَ فَآذِنِّي حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى،
اور آپ کو یہ بات پہلے بھی بتلائی گئی تھی:
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى پر پہنچوں تو مجھے بتانا ، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہیں بھی معلوم ہے کہ یہ آیت قرآن میں کس طرح ہے۔ فتدبر!
چلو خیر! شکر ہے سمجھ تو آگئی!، ڈاکڑ الفرایونی کے ترجمہ کو تو میں نے نہیں دیکھا، آپ نے کہیں سے لیا ہوگا، ممکن ہے ان سے ہی یہ خطا ء ہوئی ہو، مگر آپ کو بھی کیا مکھی پر مکھی ہی مارنی تھی! لیکن ایسا ہو جاتا ہے، یہ کوئی بڑی بات نہیں! اسی لئے ہم نے اتنا ہی کہا تھا کہ:یہ خطاء مجھ سے نہیں ہوئی یہ خطاء ڈاکٹر عبد الرحمٰن بن عبدالجبار الفریوائی سے سرزد ہوئی میں نے ان ہی کا کیا گیا ترجمہ یہاں پیش کی تھا اور اس ترجمہ کے درج کرنے سے پہلے صاف طور سے یہ رقم کردیا تھا کہ " اردو ترجمہ :ڈاکٹر عبد الرحمٰن بن عبدالجبار الفریوائی "
اردو ترجمہ :ڈاکٹر عبد الرحمٰن بن عبدالجبار الفریوائی
قعقاع بن حکیم ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ابویونس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے لیے ایک مصحف لکھوں اور کہا کہ جب تم آیت کریمہ: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين» پر پہنچنا تو مجھے بتانا، چنانچہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو انہیں اس کی خبر دی، تو انہوں نے مجھ سے اسے یوں لکھوایا: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين» پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
صحيح أبي داود، الصفحة أو الرقم: 410
حدیث کے الفاظ لکھنے میں آپ سے خطا ہو ئی ہے
یہ سوالات علم الحدیث نے نابلد ہونے کی وجہ سے جنم لیتے ہیں، یہ ناسخ و منسوخ کس طرح ثابت ہوتا ہے۔ اور ناسخ ومنسوخ اس تھریڈ کا موضوع نہیں ہے!لیکن ایک بات یاد رکھنے کی ہے قرآن کی آیات صحابی کے قول سے نسخ نہیں ہوتی کیونکہ اس آیت کے نسخ ہونے کی خبر جس سورس سے ان صحابی کو ملی اس کا انھوں نے ذکر نہیں کیا لیکن امی عائشہ نے اس آیت کو اپنے مصحف میں جس طرح درج کروایا اس کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت میں نے ایسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سماعت کی ہے اور اگر صحابی کے اس نسخ والے قول کو قبول کیا جائے تو اس پر چند سوالات قائم ہوتے کہ
اگر اس آیت کے نسخ کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دی تو کیوں اس آیت کے نسخ ہونے کے دعویٰ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب نسبت نہیں دی گئی ؟؟؟اس معلوم ہوا کہ یہ صرف ان صحابی کا فہم ہے جو اہل حدیث کے لئے معتبر نہیں
اس آیت کے نسخ کے بارے میں صحابی نے فرمایا کہ ثُمَّ نَسَخَهَا اللَّهُ یعنی اس کو اللہ نے نسخ کردیا اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ کیا اللہ نے اس آیت کے نسخ کی خبر ان صحابی کو بذریعہ وحی کی تھی یا کسی اور ذریعہ سے ؟؟؟؟
پچھلی پوسٹ کے یہ پوائنٹ آپ کی رائے کے منتظر ہیں اس پر بھی اپنی رائے کا اظہار فرمائیں شکریہ
اول کہ یہ تخیل نہیں بلکہ صریح بات ہے اور وہ ان الفاظ میں موجود ہے:ویسے ایک بات تو بتائیں کہ اس روایت کے کن الفاظ سے آپ نے یہ تخیل قائم فرمایا ہے کہ یہ قول تفسیری ہے کیونکہ مجھ تو اس روایت میں یہ نظر آرہا ہے کہ امی عائشہ ان زائد الفاظ کے بارے میں فرمارہی ہے کہ یہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سماعت کئے ہیں
وَقَالَتْ : إِذَا بَلَغْتَ هَذِهِ الْآيَةَ فَآذِنِّي حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى،
اور آپ کو یہ بات پہلے بھی بتلائی گئی تھی:
اگر اب بھی سمجھنے میں مشکل ہو، تو میں اسے ایک ساتھ لکھ دیتا ہوں:عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ اس آیت پر پہنچوں تو مجھے بتانا ، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہیں بھی معلوم ہے کہ یہ آیت قرآن میں کس طرح ہے،
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى پر پہنچوں تو مجھے بتانا ، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہیں بھی معلوم ہے کہ یہ آیت قرآن میں کس طرح ہے۔ فتدبر!
کیا آپ نے کبھی قرآن پر حاشیہ لکھا ہوا نہیں دیکھا؟تیسری بات یہ کہ اگر بلفرض محال یہ مان لیا جائے کہ یہ زائد الفاظ تفسیری قول ہیں تو اس طرح کوئی بھی قرآن مجید میں آیت قرآنی کے درمیان اس طرح تفسیری اقوال لکھ سکتا ہے یا یہ کام صرف امی عائشہ کے لئے مخصوص ہے اگر یہ صرف امی عائشہ کے لئے خاص ہے تو اس پر دلیل عنایت فرمادیں شکریہ
باقر مجلسی صاحب نے تو کوئی احتمال چھوڑا ہی نہیں!! باقر مجلسی صاحب نے تو صراحت کے ساتھ اپنا اور شیعہ کا عقیدہ تحریف القرآن کا قائل ہونا بتلایا ہے!یہاں آپ نے غلط بیانی سے کام لیا ہے کیوں ایک جانب تو آپ یہ فرمارہے ہیں" فقہ الجعفریہ کے مطابق جب احتمال آجائے تو استدلال باطل ہو جاتا ہے "اور دوسری جانب باقر مجلسی کے حدیث سے احتمال کو باطل نہیں مان رہے ،
پچھلی پوسٹ کے یہ پوائنٹ آپ کی رائے کے منتظر ہیں اس پر بھی اپنی رائے کا اظہار فرمائیں شکریہ