آزاد
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 363
- ری ایکشن اسکور
- 920
- پوائنٹ
- 125
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کتب بینی کے دوران بہت سی باتیں انسان کے سامنے آتی ہے، کچھ اچھی، کچھ بری۔
کچھ باتیں وہ جانتا ہوتا ہے، اور کچھ سے ناواقف اور لاعلم ہوتا ہے۔
بعض اوقات کچھ خاص اشارات اور کنایات کا استعمال ہوتا ہے۔ اگر ان کے بارے میں تفصیل معلوم ہوتو پڑھنے کا مزا کچھ اور ہوتا ہے۔ اور اگر بندہ ناواقف ہوتو سارا مزا کرکرا ہوکر رہ جاتا ہے۔
میری یہ عادت ہے کہ دوران مطالعہ اگر کسی لفظ کی سمجھ نہ آئے تو فورا لغت کی طرف لپکتا ہوں، اور اگر کوئی اشارہ سمجھ نہ آئے تو اساتذہ کرام کی طرف۔ اور الحمد للہ اکثر کامیابی ہی نصیب ہوتی ہے۔
ان اشارات میں سے جن کی مجھے سمجھ نہیں آئی، ایک 12 یا 12 منہ کا اشارہ ہے جو اکثر اردو کی پرانی کتابوں کے حاشیہ میں لکھا ہوتا ہے۔ مثال کے طور شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب رحمہ اللہ کی کتابیں، جو پرانی چھپی ہوئی ہیں، ان کے حاشیوں میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔
ایک استاد محترم سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ فی الوقت مجھے یاد نہیں۔
خیر! اس بات کو ذہن میں رکھ کر اپنی پڑھائی میں مصروف ہوگیا۔
ایک دن ایک استاد محترم سے "مضامین شفیق پسروری" نامی کتاب مطالعہ کی غرض سے مستعار لی۔ تو اس میں اس بارے میں حسب ذیل وضاحت پائی:
مولانا شفیق پسروری صاحب لکھتے ہیں:
چونکہ رانا صاحب نے اس پر کوئی حاشیہ نہیں لگایا اور نہ ہی کوئی اعتراض کیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی اس سے من و عن متفق ہیں۔ لیکن یہ بندہ ناچیز عزیر احمد صدیقی صاحب کی زبان اور بیان کے بارے میں یہ عرض کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انہیں شیعہ فوبیا ہوا ہے، جس کی وجہ سے انہیں ہر بات میں شیعہ ہی نظر آتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر یہ کہ وہ علماء سے بے فائدہ ہی ناراض نظر آتے ہیں۔
خطوط غالب کے صفحات اگلی پوسٹ میں ملاحظہ فرمائیں۔
اسی طرح
مقالات شاغف، ص: 270 سے ایک اقتباس:
جزاکم اللہ خیرا
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کتب بینی کے دوران بہت سی باتیں انسان کے سامنے آتی ہے، کچھ اچھی، کچھ بری۔
کچھ باتیں وہ جانتا ہوتا ہے، اور کچھ سے ناواقف اور لاعلم ہوتا ہے۔
بعض اوقات کچھ خاص اشارات اور کنایات کا استعمال ہوتا ہے۔ اگر ان کے بارے میں تفصیل معلوم ہوتو پڑھنے کا مزا کچھ اور ہوتا ہے۔ اور اگر بندہ ناواقف ہوتو سارا مزا کرکرا ہوکر رہ جاتا ہے۔
میری یہ عادت ہے کہ دوران مطالعہ اگر کسی لفظ کی سمجھ نہ آئے تو فورا لغت کی طرف لپکتا ہوں، اور اگر کوئی اشارہ سمجھ نہ آئے تو اساتذہ کرام کی طرف۔ اور الحمد للہ اکثر کامیابی ہی نصیب ہوتی ہے۔
ان اشارات میں سے جن کی مجھے سمجھ نہیں آئی، ایک 12 یا 12 منہ کا اشارہ ہے جو اکثر اردو کی پرانی کتابوں کے حاشیہ میں لکھا ہوتا ہے۔ مثال کے طور شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب رحمہ اللہ کی کتابیں، جو پرانی چھپی ہوئی ہیں، ان کے حاشیوں میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔
ایک استاد محترم سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ فی الوقت مجھے یاد نہیں۔
خیر! اس بات کو ذہن میں رکھ کر اپنی پڑھائی میں مصروف ہوگیا۔
ایک دن ایک استاد محترم سے "مضامین شفیق پسروری" نامی کتاب مطالعہ کی غرض سے مستعار لی۔ تو اس میں اس بارے میں حسب ذیل وضاحت پائی:
مولانا شفیق پسروری صاحب لکھتے ہیں:
عزیر احمد صدیقی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
12 منہ کا اشارہ:
بسم اللہ کے اشارے سے زیادہ دلچسپ اشارہ 12 منہ کا ہے۔ آپ نے پڑھا ہے کہ باطنی اور شیعہ بزرگ اولیاء کے بھیس میں حدیث سازی، تفسیر وتاویل کے کارخانے چلا رہے تھے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسی روایتوں اور عبارتوں کے آگے وہ اپنی خاص علامت بنا دیتے تھے تاکہ جاننے والوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ کمال کس کا ہے؟ وہ علامت تھی: '12 منہ غفرلہ'کی۔ جس کا عربی تلفظ ہے: 'اثناء عشرہ منہ غفرلہ' اور اردو ترجمہ ہوگا کہ لکھنے والا بارہ امامی شیعہ ہے، اللہ اس کی مغفرت کرے۔ شیعہ حضرات آج بھی اپنی کتابوں پر ایسے انتباہ لکھ دیتے ہیں اور صاف الفاظ میں لکھتے ہیں کہ یہ کتاب اثناء عشری مذہب کی ہے، غیر نہ دیکھیں یعنی نہ پڑھیں۔
مگر ہمارا ملا دین کی تلاش میں شیعہ کتابیں پڑھتا ہے اور ان میں سے مضامین چراتا ہے۔ چنانچہ یہ اشارہ بھی چرا لایا اور بے سوچے سمجھے اسے ہر جگہ لکھنے لگا۔ میں نے مودودی صاحب سے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ ہماری مذہبی کتابوں میں حتی کہ قرآن کے حاشیوں پر بھی ہر جگہ 12 منہ لکھا ہوتا ہے۔ موصوف نے اپنے مکتوب حوالہ 4096، مورخہ 3 جون 1965ء میں بتلایا:
محترمی ومکرمی۔۔۔۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
خط ملا۔ آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:۔
12 کے ہندسے سے مراد خاتمہ کلام ہے۔ منہ سے مراد یہ ہے کہ سابق عبارت یا متعلق متن جس شخص کے قلم سے ہے، یہ عبارت جس کے بعد منہ تحریر ہے، یہ بھی اسی مصنف کے قلم سے ہے۔ غفرلہ کا مدعا بھی یہی ہے۔ ویسے منہ کے معنی اسی کی طرف سے اور غفرلہ کے معنی اللہ اسے بخشے کے ہیں۔ خاکسار!"
یہ جواب میری ہدایت کے مطابق ہے۔ شرح دستخط: غلام علی۔ شرح دستخط: ابوالاعلیٰ (معاون خصوصی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ)
اب ہم کس سے پوچھیں کہ حضور! خاتمہ کلام کےلیے 12 منہ کیوں ضروری ہے؟ کیا 4 منہ، یا 10 منہ لکھنے سے کلام ختم نہیں ہوسکتا بلکہ چلییا (x) یا ڈیش (---) بھی تو کلام ختم کرسکتا ہے۔ ہمارے قرآن حکیم نے دائرے (()) آیت سے کلام ختم کیا ہے۔ ج، ط، ء، ف وغیرہ سے بھی خاتمہ کلام ہوجاتا ہے۔ ہمیں تو آپ 12 منہ کی اہمیت بتلائیے۔
ایک دوسرے بزرگ نے بتلایا کہ 12 سے مراد حد ہے۔ پس 12 منہ لکھنے سے کلام ختم ہوجاتا ہے۔ میں نے کہا: یہ حد ظاہری اسلام کی یا باطنی اسلام کی؟ کیونکہ ظاہری اسلام میں حد کے معنی سزا کے ہیں، جیسے: شراب کی حد کوڑے لگانا ہے اور چوری کی حد ہاتھ کاٹنا۔
البتہ باطنی اسلام میں وضو کی حد علی (رضی اللہ عنہ) ہیں اور نماز کی حد محمد (ﷺ) جیسا کہ زاہد علی صاحب نے بتلایا ہے۔ ہمارے بزرگان دین علی کا تصور کرلیتے تھے تو ان کا وضو ہوجاتا تھا اور محمد ﷺ کا خیال کیا تو نماز ادا ہوگئی۔ تو پھر یہ کیسی حد ہے؟ مولوی کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ سنی مولوی نہ علوم باطنی جانتا ہے، نہ علوم ظاہری۔ محض چند عربی، فارسی کی کتابیں پڑھ کر ناظرہ وخطبہ گانا سیکھ لیتا ہے اور مولوی بن جاتا ہے۔ پھر یہ بےچارے کسی سے پوچھنے کی بھی زحمت نہیں کرتے۔ اگر مولوی صاحب نے خطوط غالب ہی پڑھ لیے ہوتے تو معلوم ہوجاتا۔ غالب اپنے دوست اور شاگرد حاتم علی بیگ مہر کو لکھتے ہیں:
صاحب بندہ اثناء عشری ہوں۔ ہر مطلب کے خاتمے پر 12 منہ کا ہندسہ کرتا (لکھتا) ہوں۔ خدا کرے میرا بھی خاتمہ اسی عقیدے پر ہو۔ 12 منہ خطوط غالب، ص: 221
اس کے بعد اپنے ان علماء کے عقائد کا اندازہ لگائیے جو شعوری یا لاشعوری طور پر صدیوں سے 12 منہ لگاتے چلے آئے ہیں۔ یقیناً ان کا خاتمہ بھی مرزا غالب کی طرح ہوا ہوگا۔
ہفت روزہ "اہل حدیث" 25 دسمبر 1992ء
یہ تھا وہ مضمون جو رانا شفیق پسروری صاحب نے عزیر احمد صدیقی صاحب کی کسی کتاب سے نقل فرمایا ہے۔چونکہ رانا صاحب نے اس پر کوئی حاشیہ نہیں لگایا اور نہ ہی کوئی اعتراض کیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی اس سے من و عن متفق ہیں۔ لیکن یہ بندہ ناچیز عزیر احمد صدیقی صاحب کی زبان اور بیان کے بارے میں یہ عرض کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انہیں شیعہ فوبیا ہوا ہے، جس کی وجہ سے انہیں ہر بات میں شیعہ ہی نظر آتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر یہ کہ وہ علماء سے بے فائدہ ہی ناراض نظر آتے ہیں۔
خطوط غالب کے صفحات اگلی پوسٹ میں ملاحظہ فرمائیں۔
اسی طرح
مقالات شاغف، ص: 270 سے ایک اقتباس:
یہاں پر اس مضمون کو شیئر کرنے کا مقصد اہل علم کے خیالات جاننا ہے کہ وہ اس ۱۲ منہ کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہیں؟؟؟دوسری چیز یہ کہ بعض کتب مطبوعہ میں عبارتوں کے اختتام پر (۱۲) ہندسہ پایا جاتا ہے۔ اس کا عام مفہوم یہ ہوتا ہے کہ عبارت کی یہ آخری حد ہے۔ "حد" میں دو حرف ہیں۔ ح اور د اور "ابجد" کے اعتبار سے ح کا عدد 8 اور د کا 4 ہے اور دونوں کا مجموعہ 12 بنتا ہے۔ لیکن میں نے اپنے بعض شیوخ سے سنا ہے کہ یہ شیعوں کی ایجاد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کی انتہا ان کے مزعومہ 12 اماموں پر موقوف ہے لہٰذا ہر چیز کی انتہا کے پیچھے بارہ ائمہ کا ذکر لازمی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
جزاکم اللہ خیرا
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ