محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
۲۔شرعی نقطۂ نظر
بلکہ لڑکے کو چاہیے کہ وہ خود لڑکی کو دیکھے اور لڑکی بھی لڑکے کو دیکھے پھر اگر دونوں ایک دوسرے سے راضی ہوں تو لڑکا ہاں کردے۔ تاکہ شادی کے بعد کوئی دوسرے کو مداخلت و تنقید کا نشانہ نہ بنائے۔ نیز بہتر یہ ہے کہ دیکھنے کے وقت لڑکا لڑکی ایک دوسرے سے بات چیت کریں کبھی کبھی بات چیت سے کچھ ایسی خوبیاں یا خامیاں ظاہر ہوتی ہیں جو صرف چہرہ دیکھنے سے پتہ نہیں چلتیں۔ اس کے علاوہ دونوں کو ایک دوسرے کی سوچ اور خیالات کے متعلق اندازہ قائم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
بعض ممالک میں یہ نظریہ بڑا فروغ پا رہا ہے کہ ایک تیسری پارٹی لڑکے یا لڑکی کے لیے مناسب رشتہ تلاش کرتی ہے اور ایسا خاص طور پے لڑکوں کے معاملوں میں زیادہ ہوتا ہے۔ تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ یہ نظریہ مکمل طور پے ناکام ثابت ہوا ہے اور اس کی ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ اکثر ایسی پارٹیاں، جو کہ عموماً عورتیں ہوتی ہیں، لڑکی کے بارے میں تفاصیل سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہوتیں اور ایسی شادیوں کی ناکامیوں کی شرح اوسط (۶۵%) پینسٹھ فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ (۱) (اخبار۔ دنیا۔ عدد (۱۷۲) ۷ شعبان ۱۴۷۵)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا کہ اس نے انصار کی ایک عورت سے شادی کی بات طے کر لی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اسے دیکھا؟ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جائو اور جا کے اسے دیکھو کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ نقص ہے۔ (۲) (مسلم /نسائی)
امام غزالی احیاء علوم الدین میں فرماتے ہیں: حدیث میں موجود لفظ (شیئا) کی تفسیر میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض نے کہا کہ اس سے مراد بھینگا نہیں ہے جبک بعض نے اس سے مراد آنکھوں میں پیلاہٹ لی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھنے کا حکم اس لیے فرمایا تاکہ شادی کے بعد دیکھنے پے ایسا نہ ہو کہ اسے کوئی چیز بری لگے۔
نیز ترمذی اور نسائی میں روایت ہے کہ مغیرہ بن شبہؓ نے ایک عورت کو شادی کا پیغام بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو دیکھ لینا، یہ محبت قائم رکھنے میں معاون ثابت ہوگا۔
ابودائود اور حاکم میں جابرؓسے مرفوعاً روایت ہے۔ جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو شادی کاپیغام بھیجے تو اگر ہوسکے تو اسے دیکھ لے۔ یہ تمام احادیث واضح طور پے ثابت کر رہی ہیں کہ جو شخص کسی لڑکی سے شادی کا ارادہ کے تو وہ اس کو شادی سے پہلے دیکھ سکتا ہے۔ یہاں پے بعض والدین یہ محبت پیش کرسکتے ہیں کہ رشتہ کرنے والے نے رشتہ لڑکی کے دین اور خاندان کی وجہ سے کیا ہے تاکہ اس کی شکل و صورت کی وجہ سے۔ یہ بات اپنی جگہ پے بجا لیکن خود کے لئے عورت کی ظاہری شکل وصورت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا چنانچہ عورت کو دیکھنے کے بعد اس نے شادی کرنا اس سے بہتر ہے کہ شادی اس حال میں ہو کہ لڑکے کو لڑکی کا کچھ پتہ نہ ہو اور پھر شادی کے بعد وہ اسے پسند نہ آئے۔ کتنی ہی لڑکیاں ایسی ہیں جن کے والدین نے انہیں دکھانے سے انکار کر دیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ شادی کے بعد خاندان والی یہ لڑکی طلاق لے کے گھر بیٹھ گئی۔
اور کتنی ہی لڑکیاں ایسی ہیں جن کو لڑکے نے دیکھنے کے بعد شادی سے انکار کر دیا۔ یہ اس لحاظ سے بہتر ہے کہ قبل از عقد ہی لڑکے کی ناپسندیدگی کا علم ہوگیا۔ نیز والدین کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ دیکھنے کا حق صرف لڑکے کو نہیں بلکہ لڑکی کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ قبل از نکاح لڑکے کو دیکھے، ہوسکتا ہے کہ وہ لڑکے کو دیکھنے کے بعد انکار کر دے اور اس طرزِ عمل میں دونوں کے لئے بہتری ہے۔ ایسے کتنے ہی گھرانے تباہ ہوگئے جس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے و سنت کو پس پشت ڈال کے اپنی تقالید و روایات کو ترجیح دی۔