عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
قانون وقضا
اس مضمون کو کتاب وسنت ڈاٹ کام سے پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
’ملی مجلس شرعی‘ کے مقتدر علماے کرام اِن دنوں ’متفقہ تعبیر شریعت‘کی تیاری کے مراحل میں ہیں تاکہ نفاذِ شریعت کے کسی بھی مرحلے پر ایک متفقہ تعبیر اور نفاذِ شریعت کاطے شدہ منہج پہلے سے موجود ہو۔ اس سلسلے میں ’ملی مجلس شرعی‘ نے مختلف مکاتب ِفکر کے نمائندہ ۳۱؍علمائے کرام کے ۱۹۵۱ء میں تیار کردہ ۲۲ نکات کو ہی عصر حاضر میں ریاست وحکومت کے اسلامی کردار کو استوار کرنے کے لئے اساس قرار دیتے ہوئے انہی نکات کی تصویب و حمایت کی ہے۔
راقم کو اس سلسلے میں علماے کرام کی طرف سے قانونی رہنمائی کی درخواست کے ساتھ مولانا ابو عمار زاہد الراشدی کی زبانی یہ تجویز بھی موصول ہوئی ہے کہ چونکہ اس وقت تمام مکاتب ِفکر اور سیاسی اکائیوں کی متفقہ رائے سے دستورِ پاکستان ۱۹۷۳ء نافذ ِعمل ہے اور ملک میں پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے،اس لئے انتہائی ضروری ہے کہ ۲۲؍نکات کے مطالبے کو آگے بڑھانے سے قبل یہ جائزہ لے لیا جائے کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خاں کی پیش کردہ قراردادِ مقاصد۱۹۴۹ء اور ۱۹۵۱ء میں ۳۱؍علما ئے کرام کے طے کردہ ۲۲نکات کے کو ن سے رہنما اُصول، دستورِ پاکستان میں شامل کئے جا چکے ہیں۔ زیر نظر تحقیق اسی حوالے سے پیش کی جارہی ہے کہ یہ نشاندہی کردی جائے کہ ۲۲ نکات دستور میں کس کس مقام پر شامل کئے جاچکے ہیں تاکہ مستقبل میں اِن نکات کا اِعادہ نہ ہو۔
۲۲نکات میں سے پہلے ہر نکتہ کا مستند متن شائع کیا گیاہے، بعد ازاں دستورِ پاکستان ۱۹۷۳ء کی متعلقہ دفعہ اور ذیلی دفعات کا اُردو متن دیا گیا ہے۔ دستور میں شامل تشریح کو بھی ’وضاحت‘ کے زیر عنوان پیش کیا گیا ہے، جس میں بعض تشریحی جملے راقم کی طرف سے بھی اضافہ کئے گئے ہیں جبکہ اس پر راقم کے تاثرات و تبصرہ کو ’تشریح وتبصرہ‘ کے مستقل عنوان سے پیش کیا گیا ہے۔ یہی اُسلوب تمام ۲۲؍نکات کے سلسلے میں اختیار کیا گیا ہے۔ تجزیہ وتقابل کے آخر میں فی الوقت درکار تجاویز و ترامیم کی نشاندہی کی گئی ہے جن کا مطالبہ ’ملی مجلس شرعی‘ کے علما کو اس وقت حکومت ِوقت سے کرنا چاہئے۔ [ان ترامیم کو نمبر7 کے تحت ص نمبر۵۴ پر ملاحظہ فرمائیے]
جسٹس (ر)خلیل الرحمن خاں
۲۲ نکات اور دستورِ پاکستان ۱۹۷۳ء؛ ایک تقابل
اس مضمون کو کتاب وسنت ڈاٹ کام سے پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
’ملی مجلس شرعی‘ کے مقتدر علماے کرام اِن دنوں ’متفقہ تعبیر شریعت‘کی تیاری کے مراحل میں ہیں تاکہ نفاذِ شریعت کے کسی بھی مرحلے پر ایک متفقہ تعبیر اور نفاذِ شریعت کاطے شدہ منہج پہلے سے موجود ہو۔ اس سلسلے میں ’ملی مجلس شرعی‘ نے مختلف مکاتب ِفکر کے نمائندہ ۳۱؍علمائے کرام کے ۱۹۵۱ء میں تیار کردہ ۲۲ نکات کو ہی عصر حاضر میں ریاست وحکومت کے اسلامی کردار کو استوار کرنے کے لئے اساس قرار دیتے ہوئے انہی نکات کی تصویب و حمایت کی ہے۔
راقم کو اس سلسلے میں علماے کرام کی طرف سے قانونی رہنمائی کی درخواست کے ساتھ مولانا ابو عمار زاہد الراشدی کی زبانی یہ تجویز بھی موصول ہوئی ہے کہ چونکہ اس وقت تمام مکاتب ِفکر اور سیاسی اکائیوں کی متفقہ رائے سے دستورِ پاکستان ۱۹۷۳ء نافذ ِعمل ہے اور ملک میں پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے،اس لئے انتہائی ضروری ہے کہ ۲۲؍نکات کے مطالبے کو آگے بڑھانے سے قبل یہ جائزہ لے لیا جائے کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خاں کی پیش کردہ قراردادِ مقاصد۱۹۴۹ء اور ۱۹۵۱ء میں ۳۱؍علما ئے کرام کے طے کردہ ۲۲نکات کے کو ن سے رہنما اُصول، دستورِ پاکستان میں شامل کئے جا چکے ہیں۔ زیر نظر تحقیق اسی حوالے سے پیش کی جارہی ہے کہ یہ نشاندہی کردی جائے کہ ۲۲ نکات دستور میں کس کس مقام پر شامل کئے جاچکے ہیں تاکہ مستقبل میں اِن نکات کا اِعادہ نہ ہو۔
۲۲نکات میں سے پہلے ہر نکتہ کا مستند متن شائع کیا گیاہے، بعد ازاں دستورِ پاکستان ۱۹۷۳ء کی متعلقہ دفعہ اور ذیلی دفعات کا اُردو متن دیا گیا ہے۔ دستور میں شامل تشریح کو بھی ’وضاحت‘ کے زیر عنوان پیش کیا گیا ہے، جس میں بعض تشریحی جملے راقم کی طرف سے بھی اضافہ کئے گئے ہیں جبکہ اس پر راقم کے تاثرات و تبصرہ کو ’تشریح وتبصرہ‘ کے مستقل عنوان سے پیش کیا گیا ہے۔ یہی اُسلوب تمام ۲۲؍نکات کے سلسلے میں اختیار کیا گیا ہے۔ تجزیہ وتقابل کے آخر میں فی الوقت درکار تجاویز و ترامیم کی نشاندہی کی گئی ہے جن کا مطالبہ ’ملی مجلس شرعی‘ کے علما کو اس وقت حکومت ِوقت سے کرنا چاہئے۔ [ان ترامیم کو نمبر7 کے تحت ص نمبر۵۴ پر ملاحظہ فرمائیے]