محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
ڈاکٹر سول جورڈن جو فرانس میں سوشیالوجی ( علم اجتماع) کے استاد ہیں اپنی ایک رپورٹ میں کہتے ہیں کہ پیار محبت اور عشق کی (۸۵%) شادیاں یا تو طلاق پر ختم ہوتی ہیں یا پھر آنے والی مشکلات ان کی زندگی کو جہنم بنا دیتی ہیں اور ان کی محبت ہوا میں تحلیل ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس کے بالمقابل جو شادیاں عقل اور مروج چنائو کے ذریعے طے ہوتی ہیں وہ نہ صرف آگے بڑھتی ہیں بلکہ کامیاب بھی ہوتی ہیں۔۴۱۔ شادی سے پہلے تعلقات قائم کرنے سے بچیے:
اپنی ریسرچ کے نتائج کے کی تفسیر کرتے ہوئے آپ کہتے ہیں: پیار محبت کی شادی میں شادی کے بعد ہی جب خوبصورت لمحات کا دور ختم ہوجاتا ہے جذبات بخارات بن کر ہوا میں اڑ جاتے ہیں اور جذبات و احساسات دفن ہوجاتے ہیں تو دونوں کو ایک دوسرے کی خامیاں اور عیوب سامنے نظر آنے لگتے ہیں اور اس طرح کی شادی پیچھے کی طرف سفر کرتی ہے کیونکہ دونوں میاں بیوی کا اپنے کام یا پڑھائی کو نظر انداز کرتے ہیں اور اپنی ازدواجی زندگی پر توجہ نہیں دیتے۔ ان کا سارا وقت عشق و محبت کے ڈائیلاگ بولنے میں صرف ہوتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ (۸۵%) محبت کی شادیاں طلاق پر ختم ہوتی ہیں جبکہ طلاق کی نسبت اختیار اور چناو والی مروج شادیوں (%۵) بھی نہیں ہے کیونکہ شادیاں محبت کے اچانک جذبات ریلے کا نتیجہ نہیں ہوتیں جو جیسے ہی جذبات ہوتے ہیں رشتے بھی ختم ہوجاتے ہیں پاگل جوانی کے جذبات کی یہ آدمی کو اندھا کر دیتی ہے اور وہ دوسرے کے عیوب نہیں دیکھ پاتا۔ اس سے دونوں یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ محبت معجزات دکھا سکتی ہے جبکہ مروج شادی میں دونوں میاں بیوی رشتے کی کامیابی کے لئے محنت کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ شادی ایک ذمے داری ہے۔ بوجھ ہے۔ اور معاف اور درگزر کرنا ہے جبکہ عاشقوں کا خیال ہوتا ہے کہ شادی ایک سفر ہے جو ختم نہیں ہوتا اور جس میں مسائل و مشکلات کا کوئی وجود نہیں (۱) (الأسرۃ ، عدد ۱۱۲۔ رجب ۱۴۳۲ھ ص ۹)
جہاں تک موجودہ ڈاکٹروں کا تعلق ہے تو وہ محبت کے ساتھ وہی معاملہ کرتے ہیں جو وہ باقی کائنات کے ظاہری اشیاء کے ساتھ کرتے ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق محبت ایک مادہ ہے اور محبت کے نتیجے میں جسم میں ہونے والی کیمیائی تغیرات کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں عصر حاضر کی بعض سائنسی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ محبت کرنے والوں کے جسموں میں ہونے والی کیمیائی تبدیلیاں بہت واضح ہیں۔ اٹلی کے شہر ٹوسکاینی میں واقع پیزا یونیورسٹی کے طبِ نفس کے انسٹیٹوٹ کے محققین نے بڑی تعداد میں محبت میں گرفتار طلبہ و طالبات پر تجربات ہیں۔ نتائج سے پتہ چلا کہ ان کی حالت بہت حد تک ہسٹریا (Hysteria) کے مریضوں سے ملتی جلتی ہے۔ تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا کہ عاشق طلبہ کے خون میں ۴۰فیصد پروٹین کم ہوچکی ہے۔ پروٹین وہ عنصر ہے جو سسیرو ٹوئین کو الگ کرتا ہے جو ایک کیمیائی مادہ ہے جو دماغ کے خلیوں سے پیدا ہوتا ہے اور دماغ اور اعصابی خلیوں کے درمیان درمیانی ایجنٹ کا کام کرتا ہے سیرو ٹوین انسانی سلوک پر زبردست طریقے سے اثر انداز ہوتا ہے خاص طور پر تکلیف کا احساس نیند کا نظام، اس کے جذبات و احساسات اور جنسی مزاج پر اثر کرتا ہے۔ تحقیقات سے یہ بھی ثابت ہوا کہ محبت میں واقع ہونے کا یہ مرحلہ ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا بلکہ تبدیل ہوتا رہتا ہے اور (۶۔۸) مہینے کے بعد یکسر طور پر ختم بھی ہوسکتا ہے۔ چنانچہ یا تو یہ مرحلہ سرے سے ہی ختم ہوجاتا ہے اور محبت کی آگ ٹھنڈی پڑ کر راکھ میں تبدیل ہوجاتی ہے یا پھر یہ محبت ایک عام سی محبت بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی صورت مادہ سیروٹینن اپنی نارمل شرح اوسط پر واپس آجاتا ہے۔ (۱) (کتاب الحب و الحبض، ولازواج بین الطب والشریعۃ ص ۱۰۔۱۱۔ تالیف ڈاکٹر احمد محمد کنعان)