محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بیوی ملازمت کرنے والی ہوتی ہے یا اس کا گھر پڑا ہوتا ہے یا وہ اکثر بیمار رہتی ہے۔ اور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے اسے کسی خادمہ یا کام کرنے والی کی ضرورت ہوتی ہے ۔۴۲۔ گھر کی خادمہ /نوکرانی کام کرنے والیوں سے بچیں
چنانچہ گھر کی دیکھ بھال کے لئے وہ خادمہ لے کر آتی ہے جو گھر کے کاموں میں اس کا ہاتھ بٹا سکے۔ لیکن بعض لاپرواہی برتنے کے نتیجے میں گھر کی یہ نوکرانی ہنستا بستا گھر اجاڑ کر رکھ دیتی ہے۔ اس کی نقل و حرکت پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاتی۔ وہ جس سے چاہے بات چیت کر سکتی ہے نتیجہ یہ ہے کہ اس شوہر نے نوکرانی سے ہی شادی کرلی۔ اور یہ بیٹا اس کے ساتھ گناہ کر بیٹھا اور اس گھر والی پر اس کی نوکرانی نے جادو کرلیا۔ الخ
اس لیے ایسی خادمائوں کے ساتھ بڑی عقلمندی اور پیار کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور ان کوکھلی چھٹی نہیں دینی چاہیے کہ میاں بیوی کے بیڈ روم میں آتی جاتی رہیں۔ اور ہوسکتا ہے کہ بعض دفعہ وہ بیڈروم میں جاتی اور شوہر اکیلا سو رہا ہو اسی طرح کے وہ کھانا تیار کرکے لائے جبکہ شوہر اور بیٹے اسے دیکھ رہے ہوں اور وہ شوہر کے بیٹوں کو دیکھ رہی ہو۔ یہ تمام امور شرعاً حرام ہیں۔ خادمہ یا نوکرانی کو مردوں کی نظروں سے دور کھنا چاہیے۔ نہ وہ اسے دیکھ سکیں اور نہ ہی وہ انھیں دیکھ سکے۔
ایک اور مصیبت جو نوکرانی کے ہونے کی وجہ سے نازل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ گھر کا سربراہ یعنی کہ شوہر اس کا ضرورت سے زیادہ خیال رکھنے لگتا ہے کبھی اس کیے لئے تحفے تحائف خریدتا ہے اور کبھی بیوی کو کہتا ہے اور بعض اوقات اس کے ہر کہے ہوئے کو بخوبی پورا کرتا ہے جس سے بیوی کے دل کو ٹھیس پہنچتی ہے اور اسے غیرت آتی ہے۔ شوہر یہ بھول جاتا ہے کہ اس کی بیوی بھی ہے پانی کھانا، کپڑے وغیرہ وہ سب خادمہ / نوکرانی سے مانگتا ہے یہ ایک بہت ہی سنگین غلطی ہے شوہر کو چاہیے کہ اسے چیز کی بھی حاجت ہو وہ اپنی بیوی سے مانگے اور بیوی کو چاہیے کہ وہ نوکرانی کو اپنی جگہ نہ لینے دے۔ اسی طرح سے بیوی کو چاہیے کہ وہ ڈرائیور کے ساتھ اکیلی نہ نکلے بلکہ بیٹے بھائی وغیرہ کے ساتھ جائے۔ اور نہ ہی شوہر کے سامنے اس کے حسنِ خلق،یا خوبصورتی کی تعریف کرے۔ اور کھانا وغیرہ دینے کے لئے اس کی بیرونی کمرے میں جائے اور نہ صفائی وغیرہ یا سامان وغیرہ اٹھانے کی غرض سے اس کو گھر کے اندر بلائے جبکہ گھر میں کوئی محرم موجود نہ ہو۔ اور اگر بیوی یہ کام خلوصِ نیت سے کر بھی رہی ہو تب بھی اس کے جواز کے لیے کافی نہیں ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس کی نیت میںکھوٹ ہو اور وہ اسے (حقیقت لک۔ ادھر آئو میری طرف) کی قبیل سے سمجھے۔