عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
بسم اللہ الرحمن الرحیم
’تحفظ ِحقوقِ نسواں ایکٹ2006ء‘ کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ اور نوٹس
ڈاکٹر حافظ حسن مدنی
اسلام کے نام سے دنیا کے نقشے پر اُبھرنے والا ملک’پاکستان‘ان دنوں امریکہ کی سنگین مداخلت اور عالمی دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے۔ پاکستان کو اس مقام تک پہنچانے میں جہاں ہماری حالیہ کوتاہیوں کا عمل دخل ہے، وہاں ماضی میں بھی اسلام سے ہونے والی زیادتیوں اور اللہ سے عہدشکنی نے آج ہمیں اس مقامِ عبرت تک پہنچایا ہے۔ماضی قریب میں اس ملک میں مرد و زن کے آزادانہ اختلاط اور بے حیائی و فحاشی کو راہ دینے کے لئے کئی خلافِ اسلام قانون سازیاں ہوتی رہی ہیں، بالخصوص 2006ء کاسال اس لحاظ سے بدترین رہا کہ اس سال نومبر کے مہینے میں پاکستانی پارلیمنٹ نے قرآن وسنت سے صریح متصادم ’ویمن پروٹیکشن بل‘ کو منظور کرکے ملک بھر میں نافذ کردیا جس کے خلاف ِاسلام ہونے پر پاکستان بھر کے تمام دینی حلقے یک آواز تھے۔ یہ ظالمانہ قانون اس اسمبلی سے پاس ہوا جس کی عمارت پر نمایاں الفاظ میں کلمہ طیبہ درج ہے، اس کے اراکین اور جملہ عہدیداران اسلام کے تحفظ کا حلف بھی اُٹھاتے ہیں بلکہ اس کے آئین میں خلاف ِاسلام قانون سازی کو ناجائز قرار دیا گیاہے۔اس ایکٹ کی منظوری سے قبل میڈیا پر اس معاملے کی اس طرح پرزور تشہیر کی گئی اور گلی کوچوں میں اس کو یوں زیر بحث لایا گیا جیسے یہ پاکستان کا اہم ترین مسئلہ ہو۔
خواتین کے تحفظ کے نام پر بنائے گئے اس ایکٹ میں سب سے پہلے جرم کا اندراج کرانے والے شخص کو عدالتی کاروائی کا سامنا کرتے ہوئے اپنے دعویٰ کو ثابت کرنا پڑتا ہے۔ اس ایکٹ میں حیلہ بازی کرتے ہوئے سنگین جرائم کو پولیس کی دسترس سے نکال کرعوام کے جذبۂ خیروصلاح کے سپرد کردیا گیاہے۔ صنفی امتیاز کے خاتمے کے دعویٰ سے لایا جانے والا یہ قانون وطن ِعزیز میں صنفی امتیازکی بہت بڑی بنیاد ثابت ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس ظالمانہ ایکٹ کی منظوری کے دنوں میں لاکھوں پاکستانیوں نے ا س کے خلاف رائے شماری میں حصہ لے کر اس قانون سے اظہارِ برا ت بھی کیا تھا، دکانوں اور عام چوراہوں پر اس قانون کی تردید پر مبنی پوسٹرز اور ہینگرز عام نظر آتے رہے۔اس قانون کو غلط قرار دینے والوں میں خواتین کی اکثریت کے علاوہ اہم عہدوں پر فائز شخصیات بھی شامل رہیں حتیٰ کہ اس ایکٹ کے خلاف دستخط کرنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے بھی تجاوز کرگئی جن میں غیرمسلم بھی شامل تھے۔یہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا عوامی احتجاج تھا جس کا سامنا اس غیراسلامی قانون کو کرنا پڑا۔
قانون کی منظوری اور بحث مباحثہ کے دنوں میں ہی ملک کی نمائندہ علمی شخصیات نے حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کردیا تھا۔ہرمکتب ِفکر سے وابستہ علماے کرام نے بعض سینئر سیاستدانوں اور حکومتی ذمہ داروں سے ملاقاتوں میں کہا تھا کہ اگر حکومت اکرام ِخواتین کے سلسلے میں اقدامات کرنے میں سنجیدہ ہے تو اختلاطِ مرد وزَن کے بے باکانہ رویوں کو کنٹرول کرے،کیونکہ منظور شدہ ایکٹ میں تو صرف ’زناکاروں کے حقوق‘ کاتحفظ کیا گیا ہے جب کہ پاکستانی خواتین کے لئے اس میں کوئی ریلیف نہیں ہے ۔پاکستانی خواتین جن سنگین معاشرتی مسائل کا شکار ہیں،ان کے لئے بہت سے دیگرقانونی اقدامات کئے جاسکتے ہیں جن سے اُن کے مسائل کے خاتمے میں حقیقی مدد مل سکتی ہے،لیکن ایسی تمام آوازوں کو اَن سنی کر کے حقیقی مسائل سے صرف ِنظر کیا جاتا رہا۔
یہاں یہ واضح رہنا چاہئےکہ حدود آرڈیننس بھی کوئی بڑا معیاری قانون نہیں تھا جو کتاب وسنت کے عین مطابق ہو، تاہم شرعی ماحول پیداہونے کی بنا پر اس کی تائید کی جاتی رہی۔ ہمارا زیر نظر تبصرہ بھی اسی نقطہ نظر سے پیش خدمت ہے: