کلِّیۃ القرآن الکریم والعلوم الإسلامیۃ
کلیۃ القرآن الکریم کا اِجرا ۱۹؍ مارچ ۱۹۹۱ء بمطابق ۲؍ رمضان ۱۴۱۱ھ میں، شیخ القراء قاری محمد ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ کی زیر نگرانی کیا گیا، جس کا مقصد دینی مدارس میں علومِ قرآن کی ترویج تھا۔ کلیہ ہذا میں وفاق المدارس السلفیہ کے نصاب میں کچھ ترامیم کر کے مدینہ یونیورسٹی کے نصابِ تجوید وقراء اتِ سبعہ وعشرہ کا اضافہ کیا گیا تاکہ اس کا فارغ التحصیل:
٭ علوم قرآن (قراء ات اور تفسیر وغیرہ) کا ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ مستند عالم دین بھی ہو اور قرآن کو علومِ اسلامیہ میں مرکزی حیثیت ملے، تاکہ قاری غیر عالم اور عالم غیر قاری جیسے تصور کا خاتمہ ہو۔
٭ اُمت پر عائد خدمت ِ ’قرآن وحدیث‘ کے فریضہ کو جامع شکل میں بجا لا سکے، کیونکہ اَلمیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تجوید وقراء ت سے متعلقہ عام درسگاہوں کا فارغ التحصیل عموماً دیگر علومِ شرعیہ اور عربی زبان کی تعلیم سے نا واقف رہتا ہے ، دوسری طرف دینی مدارس کے فضلا علومِ قرآن، تجوید وقراء ات وغیرہ سے محروم رہتے ہیں۔
٭ ایسے لوگوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے پیش خیمہ ثابت ہو جو مستشرقین کے غلط نظریات کے زیر اَثر اَحادیث سے بدظنی کے باعث متنوع قراء ات کے ’معجزۂ قرآنی‘ کے منکر ہیں۔
رئیس الجامعہ حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ اور شیخ القراء قاری محمد ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ کے صبر واستقامت اور جگر پاش کوششوں کی بدولت مقاصد میں توقعات سے بڑھ کر کامیابی حاصل ہوئی۔ قراء حضرات،جو شرعی علوم میں بھی مستند حیثیت رکھتے ہیں، کی ایک کھیپ تیار ہوئی جو پورے ملک کی بڑی مساجد اور مدارس میں عموماً اور لاہور میں خصوصاً اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور علومِ قرآن اور علومِ شریعت کو مزید آگے پھیلا رہے ہیں۔والحمد للہ علیٰ ذلک!
یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے اس سلسلہ کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا اور متعدد مقامات پرکلِّیۃ القرآن، جامعہ لاہور الاسلامیہ کی مثل بعض اور کلیات القرآن کا قیام عمل میں لایا گیا، جن میں سے کلِّیۃ القرآن الکریم والتربیۃ الإسلامیۃ (مرکز البدر،اِدارۃ الاصلاح بونگہ بلوچاں) ، کلِّیۃ القرآن الکریم (جامعہ محمدیہ لوکو ورکشاپ) اور کلِّیۃ القرآن الکریم (جامعہ سلفیہ، فیصل آباد)قابل ذکر ہیں۔