- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
تین سال تک کا محاصرہ، بھوک اور مسلسل بمباری تو شامی موسیقار اہم الاحمد کو نہیں مار سکے مگر ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے اس کا پیانو جلا ڈالا تو جیسے اس کے اندر بہت کچھ ٹوٹ پھوٹ گیا۔
جہادیوں نے اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے سب سے پسندیدہ پیانو کو جلا کر خاکستر کر دیا اور اس لمحے نے اس کے اندر جیسے کچھ توڑ کر رکھ دیا ہو۔
یرموک کی مہاجر بستی میں بسنے والے احمد کی موسیقی ان تباہ حال بے گھر افراد کے لیے کسی حد تک مسرت کا باعث ہوتی تھی، مگر پھر احمد نے بھی دیگر ہزاروں افراد کے ساتھ یورپ میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔
’’انہوں نے اسے (پیانو کو) میری سال گرہ کے دن جلایا تھا۔ یہ میرے پاس میری سب سے قیمتی چیز تھی۔‘
احمد اس وقت یورپ میں پناہ کے لیے سوشل میڈیا پر اپنے سفر کا حال روزانہ کی بنیاد پر بتا رہے ہیں۔ گزشتہ پیر کو سماجی ویب سائٹ پر اپنے ’سفر نامے‘ میں انہوں نے لکھا تھا، ’پیارے بحیرہء روم! میرا نام اہم ہے اور میں تمہاری لہروں پر سلامتی کے ساتھ سفر کرنا چاہتا ہوں۔‘
اس کے بعد ان کے صفحے سے معلوم ہوا کہ وہ جمعرات کو یونان پہنچنے تھے اور ہفتے کی شب وہ زغرب میں تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’یہ پیانو صرف ایک آلہ نہیں تھا۔ یہ بالکل ایسے ہے، جیسا میرا کوئی قریبی دوست ہلاک ہو گیا۔‘
27 سالہ احمد، جس کے امید افزا گانے شام میں سب سے بڑی فلسطینی مہاجر بستی سے نکل کر سوشل میڈیا کے ذریعے گزشتہ برس زباں زدِ عام ہو گئے، کہتے ہیں، ’میرے لیے یہ انتہائی اندوہ ناک لمحہ تھا۔‘
شامی خانہ جنگی نے سن 2013ء میں یرموک کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ تب اس مہاجر بستی میں ڈیڑھ لاکھ فلسطینی اور شامی مقیم تھے، تاہم اب یہ تعداد محض کوئی اٹھارہ ہزار رہ گئی ہے۔
یہ علاقہ حکومتی فورسز، باغیوں اور جہادیوں کے درمیان میدان جنگ بن گیا اور اسے شامی فوج کے شدید ترین محاصرے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس مہاجر بستی میں دو سو افراد بھوک اور بیماریوں سے ہلاک ہو چکے ہیں۔
یرموک کے لوگوں کے لیے امید کے حامل گیت بنا کر، احمد امید کی ایک علامت کے طور پر دیکھے جانے لگے تھے، خصوصاﹰ بچوں کے لیے ان کے ترتیب دیے ہوئے گیت اس تباہ کن جنگی صورت حال سے کسی حد تک نکال کر سکھ کی ایک لہر کی صورت اختیار کر لیتے تھے:’’میرے لیے سب سے زیادہ بے بسی کے دن وہ تھے، جب پیسے ہونے کے باوجود میں اپنے ایک سالہ بچے کے لیے دودھ نہیں خرید سکتا تھا اور اپنے بڑے بیٹے کی بسکٹوں کی فرمائش پوری نہیں کر سکتا تھا۔ یہ سب سے برا احساس تھا۔‘‘
اپریل میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جہادیوں نے اس کیمپ پر حملہ کیا اور اس دوران احمد نے اپنے پیانو کو قریبی علاقے میں منتقل کرنے کے لیے ایک پِک اپ گاڑی میں لاد لیا۔ تاہم راستے میں ایک جگہ جہادیوں نے ناکہ لگایا ہوا تھا، جہاں اس کی گاڑی کو روک لیا گیا:’’وہاں ایک مسلح شخص نے مجھے کہا، تم جانتے نہیں ہو کہ موسیقی اسلام میں حرام ہے، پھر ان لوگوں نے اس پیانو کو گاڑی سے اتارا اور اُسے آگ لگا دی۔‘‘
حوالہ
جہادیوں نے اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے سب سے پسندیدہ پیانو کو جلا کر خاکستر کر دیا اور اس لمحے نے اس کے اندر جیسے کچھ توڑ کر رکھ دیا ہو۔
یرموک کی مہاجر بستی میں بسنے والے احمد کی موسیقی ان تباہ حال بے گھر افراد کے لیے کسی حد تک مسرت کا باعث ہوتی تھی، مگر پھر احمد نے بھی دیگر ہزاروں افراد کے ساتھ یورپ میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔
’’انہوں نے اسے (پیانو کو) میری سال گرہ کے دن جلایا تھا۔ یہ میرے پاس میری سب سے قیمتی چیز تھی۔‘
احمد اس وقت یورپ میں پناہ کے لیے سوشل میڈیا پر اپنے سفر کا حال روزانہ کی بنیاد پر بتا رہے ہیں۔ گزشتہ پیر کو سماجی ویب سائٹ پر اپنے ’سفر نامے‘ میں انہوں نے لکھا تھا، ’پیارے بحیرہء روم! میرا نام اہم ہے اور میں تمہاری لہروں پر سلامتی کے ساتھ سفر کرنا چاہتا ہوں۔‘
اس کے بعد ان کے صفحے سے معلوم ہوا کہ وہ جمعرات کو یونان پہنچنے تھے اور ہفتے کی شب وہ زغرب میں تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’یہ پیانو صرف ایک آلہ نہیں تھا۔ یہ بالکل ایسے ہے، جیسا میرا کوئی قریبی دوست ہلاک ہو گیا۔‘
27 سالہ احمد، جس کے امید افزا گانے شام میں سب سے بڑی فلسطینی مہاجر بستی سے نکل کر سوشل میڈیا کے ذریعے گزشتہ برس زباں زدِ عام ہو گئے، کہتے ہیں، ’میرے لیے یہ انتہائی اندوہ ناک لمحہ تھا۔‘
شامی خانہ جنگی نے سن 2013ء میں یرموک کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ تب اس مہاجر بستی میں ڈیڑھ لاکھ فلسطینی اور شامی مقیم تھے، تاہم اب یہ تعداد محض کوئی اٹھارہ ہزار رہ گئی ہے۔
یہ علاقہ حکومتی فورسز، باغیوں اور جہادیوں کے درمیان میدان جنگ بن گیا اور اسے شامی فوج کے شدید ترین محاصرے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس مہاجر بستی میں دو سو افراد بھوک اور بیماریوں سے ہلاک ہو چکے ہیں۔
یرموک کے لوگوں کے لیے امید کے حامل گیت بنا کر، احمد امید کی ایک علامت کے طور پر دیکھے جانے لگے تھے، خصوصاﹰ بچوں کے لیے ان کے ترتیب دیے ہوئے گیت اس تباہ کن جنگی صورت حال سے کسی حد تک نکال کر سکھ کی ایک لہر کی صورت اختیار کر لیتے تھے:’’میرے لیے سب سے زیادہ بے بسی کے دن وہ تھے، جب پیسے ہونے کے باوجود میں اپنے ایک سالہ بچے کے لیے دودھ نہیں خرید سکتا تھا اور اپنے بڑے بیٹے کی بسکٹوں کی فرمائش پوری نہیں کر سکتا تھا۔ یہ سب سے برا احساس تھا۔‘‘
اپریل میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جہادیوں نے اس کیمپ پر حملہ کیا اور اس دوران احمد نے اپنے پیانو کو قریبی علاقے میں منتقل کرنے کے لیے ایک پِک اپ گاڑی میں لاد لیا۔ تاہم راستے میں ایک جگہ جہادیوں نے ناکہ لگایا ہوا تھا، جہاں اس کی گاڑی کو روک لیا گیا:’’وہاں ایک مسلح شخص نے مجھے کہا، تم جانتے نہیں ہو کہ موسیقی اسلام میں حرام ہے، پھر ان لوگوں نے اس پیانو کو گاڑی سے اتارا اور اُسے آگ لگا دی۔‘‘
حوالہ