• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’جہادیوں نے پیانو جلا دیا اور موسیقار اندر سے ٹوٹ گیا‘

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تین سال تک کا محاصرہ، بھوک اور مسلسل بمباری تو شامی موسیقار اہم الاحمد کو نہیں مار سکے مگر ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے اس کا پیانو جلا ڈالا تو جیسے اس کے اندر بہت کچھ ٹوٹ پھوٹ گیا۔
جہادیوں نے اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے سب سے پسندیدہ پیانو کو جلا کر خاکستر کر دیا اور اس لمحے نے اس کے اندر جیسے کچھ توڑ کر رکھ دیا ہو۔

یرموک کی مہاجر بستی میں بسنے والے احمد کی موسیقی ان تباہ حال بے گھر افراد کے لیے کسی حد تک مسرت کا باعث ہوتی تھی، مگر پھر احمد نے بھی دیگر ہزاروں افراد کے ساتھ یورپ میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔

’’انہوں نے اسے (پیانو کو) میری سال گرہ کے دن جلایا تھا۔ یہ میرے پاس میری سب سے قیمتی چیز تھی۔‘

احمد اس وقت یورپ میں پناہ کے لیے سوشل میڈیا پر اپنے سفر کا حال روزانہ کی بنیاد پر بتا رہے ہیں۔ گزشتہ پیر کو سماجی ویب سائٹ پر اپنے ’سفر نامے‘ میں انہوں نے لکھا تھا، ’پیارے بحیرہء روم! میرا نام اہم ہے اور میں تمہاری لہروں پر سلامتی کے ساتھ سفر کرنا چاہتا ہوں۔‘

اس کے بعد ان کے صفحے سے معلوم ہوا کہ وہ جمعرات کو یونان پہنچنے تھے اور ہفتے کی شب وہ زغرب میں تھے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’یہ پیانو صرف ایک آلہ نہیں تھا۔ یہ بالکل ایسے ہے، جیسا میرا کوئی قریبی دوست ہلاک ہو گیا۔‘

27 سالہ احمد، جس کے امید افزا گانے شام میں سب سے بڑی فلسطینی مہاجر بستی سے نکل کر سوشل میڈیا کے ذریعے گزشتہ برس زباں زدِ عام ہو گئے، کہتے ہیں، ’میرے لیے یہ انتہائی اندوہ ناک لمحہ تھا۔‘

شامی خانہ جنگی نے سن 2013ء میں یرموک کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ تب اس مہاجر بستی میں ڈیڑھ لاکھ فلسطینی اور شامی مقیم تھے، تاہم اب یہ تعداد محض کوئی اٹھارہ ہزار رہ گئی ہے۔

یہ علاقہ حکومتی فورسز، باغیوں اور جہادیوں کے درمیان میدان جنگ بن گیا اور اسے شامی فوج کے شدید ترین محاصرے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس مہاجر بستی میں دو سو افراد بھوک اور بیماریوں سے ہلاک ہو چکے ہیں۔

یرموک کے لوگوں کے لیے امید کے حامل گیت بنا کر، احمد امید کی ایک علامت کے طور پر دیکھے جانے لگے تھے، خصوصاﹰ بچوں کے لیے ان کے ترتیب دیے ہوئے گیت اس تباہ کن جنگی صورت حال سے کسی حد تک نکال کر سکھ کی ایک لہر کی صورت اختیار کر لیتے تھے:’’میرے لیے سب سے زیادہ بے بسی کے دن وہ تھے، جب پیسے ہونے کے باوجود میں اپنے ایک سالہ بچے کے لیے دودھ نہیں خرید سکتا تھا اور اپنے بڑے بیٹے کی بسکٹوں کی فرمائش پوری نہیں کر سکتا تھا۔ یہ سب سے برا احساس تھا۔‘‘

اپریل میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جہادیوں نے اس کیمپ پر حملہ کیا اور اس دوران احمد نے اپنے پیانو کو قریبی علاقے میں منتقل کرنے کے لیے ایک پِک اپ گاڑی میں لاد لیا۔ تاہم راستے میں ایک جگہ جہادیوں نے ناکہ لگایا ہوا تھا، جہاں اس کی گاڑی کو روک لیا گیا:’’وہاں ایک مسلح شخص نے مجھے کہا، تم جانتے نہیں ہو کہ موسیقی اسلام میں حرام ہے، پھر ان لوگوں نے اس پیانو کو گاڑی سے اتارا اور اُسے آگ لگا دی۔‘‘
حوالہ
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
تین سال تک کا محاصرہ، بھوک اور مسلسل بمباری تو شامی موسیقار اہم الاحمد کو نہیں مار سکے مگر ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے اس کا پیانو جلا ڈالا تو جیسے اس کے اندر بہت کچھ ٹوٹ پھوٹ گیا۔
جہادیوں نے اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے سب سے پسندیدہ پیانو کو جلا کر خاکستر کر دیا اور اس لمحے نے اس کے اندر جیسے کچھ توڑ کر رکھ دیا ہو۔

یرموک کی مہاجر بستی میں بسنے والے احمد کی موسیقی ان تباہ حال بے گھر افراد کے لیے کسی حد تک مسرت کا باعث ہوتی تھی، مگر پھر احمد نے بھی دیگر ہزاروں افراد کے ساتھ یورپ میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔

’’انہوں نے اسے (پیانو کو) میری سال گرہ کے دن جلایا تھا۔ یہ میرے پاس میری سب سے قیمتی چیز تھی۔‘

احمد اس وقت یورپ میں پناہ کے لیے سوشل میڈیا پر اپنے سفر کا حال روزانہ کی بنیاد پر بتا رہے ہیں۔ گزشتہ پیر کو سماجی ویب سائٹ پر اپنے ’سفر نامے‘ میں انہوں نے لکھا تھا، ’پیارے بحیرہء روم! میرا نام اہم ہے اور میں تمہاری لہروں پر سلامتی کے ساتھ سفر کرنا چاہتا ہوں۔‘

اس کے بعد ان کے صفحے سے معلوم ہوا کہ وہ جمعرات کو یونان پہنچنے تھے اور ہفتے کی شب وہ زغرب میں تھے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’یہ پیانو صرف ایک آلہ نہیں تھا۔ یہ بالکل ایسے ہے، جیسا میرا کوئی قریبی دوست ہلاک ہو گیا۔‘

27 سالہ احمد، جس کے امید افزا گانے شام میں سب سے بڑی فلسطینی مہاجر بستی سے نکل کر سوشل میڈیا کے ذریعے گزشتہ برس زباں زدِ عام ہو گئے، کہتے ہیں، ’میرے لیے یہ انتہائی اندوہ ناک لمحہ تھا۔‘

شامی خانہ جنگی نے سن 2013ء میں یرموک کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ تب اس مہاجر بستی میں ڈیڑھ لاکھ فلسطینی اور شامی مقیم تھے، تاہم اب یہ تعداد محض کوئی اٹھارہ ہزار رہ گئی ہے۔

یہ علاقہ حکومتی فورسز، باغیوں اور جہادیوں کے درمیان میدان جنگ بن گیا اور اسے شامی فوج کے شدید ترین محاصرے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس مہاجر بستی میں دو سو افراد بھوک اور بیماریوں سے ہلاک ہو چکے ہیں۔

یرموک کے لوگوں کے لیے امید کے حامل گیت بنا کر، احمد امید کی ایک علامت کے طور پر دیکھے جانے لگے تھے، خصوصاﹰ بچوں کے لیے ان کے ترتیب دیے ہوئے گیت اس تباہ کن جنگی صورت حال سے کسی حد تک نکال کر سکھ کی ایک لہر کی صورت اختیار کر لیتے تھے:’’میرے لیے سب سے زیادہ بے بسی کے دن وہ تھے، جب پیسے ہونے کے باوجود میں اپنے ایک سالہ بچے کے لیے دودھ نہیں خرید سکتا تھا اور اپنے بڑے بیٹے کی بسکٹوں کی فرمائش پوری نہیں کر سکتا تھا۔ یہ سب سے برا احساس تھا۔‘‘

اپریل میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جہادیوں نے اس کیمپ پر حملہ کیا اور اس دوران احمد نے اپنے پیانو کو قریبی علاقے میں منتقل کرنے کے لیے ایک پِک اپ گاڑی میں لاد لیا۔ تاہم راستے میں ایک جگہ جہادیوں نے ناکہ لگایا ہوا تھا، جہاں اس کی گاڑی کو روک لیا گیا:’’وہاں ایک مسلح شخص نے مجھے کہا، تم جانتے نہیں ہو کہ موسیقی اسلام میں حرام ہے، پھر ان لوگوں نے اس پیانو کو گاڑی سے اتارا اور اُسے آگ لگا دی۔‘‘
حوالہ
إنا لله وإنا إليه راجعون
الہ اس کو اتنا ہی اور دے،
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

( جس نے بھی اپنے کسی بھائ پر ظلم وزیادتی کی ہے اسے آج ہی اس کا کفارہ ادا کردے قبل اس کے کہ اس کے پاس درھم ودینا نہ ہوں ( یعنی قیامت کے دن ) اگر اس کی نیکیاں ہوں گی تووہ مظلوم کو دی جائيں گي اوراگرنیکیاں نہ ہوئيں تو مظلوم کے گناہ لے کے اس کے پر ڈال دیۓ جائيں گے اورپھر اسے جہنم میں ڈال دیا جاۓ گا ) او کما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
سوال : ہمار ے کالج میں اسلامیات کے پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ موسیقی کے آلات کے ساتھ اچھے گیت ،گانے اور قوالیاں سننا شرعاًجائز ہے ، اسے ناجائز اور حرام بتلانا مولویوں کی باتیں ہیں، دلیل یہ دیتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دف بجایا گیا ، بچیاں گاتی رہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہ فرمایا ،موسیقی کے جدید آلات بھی دف کی ترقی یافتہ شکل ہیں ، موسیقی سننے میں کوئی مضایقہ نہیں کہ یہ روح کی غذا ہے اور صو فیۂ کرام سماع کا مستقل شعل رکھتے تھے -
قرآن وسنت کی روشنی میں اس مسئلہ پر روشنی ڈالئے اور پروفیسر صاحب کے دلائل کا بھی جائزہ لیجئے-

الجواب باسم ملھم الصّواب
ماتم کا مقام ہے کہ جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے راگ باجوں کا مٹانا اپنی بعثت کا مقصد بتایا اسی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نہاد اُمتی آج اس گناہ پر دل و جان سے فدا ہیں - بلکہ اس بے حیائی کو سند جواز مہیا کرنے کے لئے سردھڑ کی بازی لگارہے ہیں ، ان ظلمت جدیدہ کے متوالوں کو یہ موٹی سی حقیقت کون سمجھائے کہ اللہ تعالی کی شریعت چودہ سو سال سے مکمل ہے،اس کا ہر مسئلہ اٹل ،لازوال اور قیامت تک کے لئے محفوظ ہے - تمہاری موا فقت یا مخالفت سے کسی مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتاجو شرعاًحلال ہے وہ قیامت تک حلال رہے گی اور جو چیز ازروئے شرع حرام ہے وہ بھی رہتی دنیا تک حرام ہی رہے گی گو کہ دنیا بھر کے ووٹ اس کے خلاف پڑجائیں-

شریعتِ مطہر ہ میں موسیقی کی حرمت کا مسئلہ بھی ایک ایسا ہی مسئلہ ہے جس پر دلیل پیش کرنے کی چنداں حاجت نہیں اس قسم کے قطعی حرام کو مباح وجائز قرار دینے کی جسارت بالکل ایسی ہی ہے جیسے کو ئی سرپھرا یہ کہنے لگے کہ شریعت کی رو سے زنا ،شراب نوشی ،سودخوری اور رشوت جائز ہے- ظاہر ہے اس قسم کی یا وہ گوئی کسی درجہ میں بھی لائق اعتناء نہیں نہ ہی اس قابل ہے کہ اسکی تردید میں وقت ضائع کیا جائے، مگر کیا کیاجائے ؟ اس دورِ ہوا پرستی میں علم و تحقیق کے عنواں سے جو خس و خاشاک بھی پیش کیا جائے اسے مبادیا ت دین سے نا آشنا جدید طبقے میںِ'' جدید تحقیق ''کے عنواں سے جلد پزیر ائی حاصل ہوجاتی ہے ، اس طرح کفر والحاد اس بد قسمت معاشرہ میں باسانی کھپ جاتاہے-
اکبر نے مر حوم نے کیا خوب کہا ہے --

اُنھوں نے دین کب سیکھا ہے رہ کر شیخ کے گھر میں
پلے کا لج کے چکر میں مرے صا حب کے دفتر میں

ان تمہیدی سطو ر کے بعد ہم موسیقی کی حرُ مت کے دلائل پیش کرتے ہیں

دلائل حرم
آیاتِ قرانیہ

(۱) وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِی لَھُوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللہِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَھا ھُزُ وًا أولٰئِكَ لَھمْ عَذَابٌ مُھينٌ(سورہ لقمان آیات نمبر ۶)
اور بعض آدمی ایسا ہے جو ان باتوں کا خریدار بنتا ہے جو غافل کرنے والی ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے بے سمجھے بوجھے گمراہ کرے اور اسکی ہنسی اڑا دے، ایسے لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے

امام ابنِ کثیر رحمہ اللہ تعالی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
عن ابی الصھباء البکری انہ سمع عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی و ھوا یسال عن ھذہ الایۃ (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِی لَھُوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللہِ) فقال عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ الغناء واللہ الذی لاالہ الا ھویرددھاثلاث مرات۔وکذا قال ابن عباس و جابر رضی اللہ تعالی عنہم و عکرمۃ و سعیدبن جبیر و مجاھد و مکحول و عمرو بن شعیب و علی بن بذیمہ رحمہم اللہ تعالی:
وقال الحسن البصری رحمہ اللہ تعالی نزلت ھذہ الایۃ(وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِی لَھُوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللہِ) فی الغناء والمزامیر۔ (تفسیر ابن کثیر صفحہ ۴۵۷ جلد ۳)
""حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے تین بار قسم اٹھا کر فرمایا کہ لھوالحدیث سے مراد گانا بجانا ہے
حضرت ابنِ عباس و جابر رضی اللہ تعالی عنہما اور حضرت عکرمہ ، سعید بنِ جبیر ،مجاہد مکحول ، عمر بن شعیب اور علی بن ہذیمہ رحمہم اللہ تعالی سے بھی اس آیت کی یہی تفسیر منقول ہے-اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں یہ آیت گانے اور راگ باجوں کے متعلق اتری ہے""
یہی تفسیر قرطبی ص ۵۱ج ۱۴ ، بغوی ص ۴۰۸ج ۴ ، خازن ص ۴۶۸ج ۳ ، مظہری ص ۲۴۶ج ۷ میں مفصل مذکور ہے

(۲) واستفزز من استطعت منہم بصوتک الایہ (سورہ ۱۷ آیات نمبر ۶۴)
""اور پھسلالے ان میں سے جس کو تو پھسلا سکے اپنی آواز سے""
امام ابنِ کثیر رحمہ اللہ تعالی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وقولہ تعالی( واستفزز من استطعت منہم بصوتک ) قیل ھو الغناء قال مجاھد رحمہ اللہ تعالی بالھو والغناء ای استخفھم بذٰلک و قال ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فی قولہ( واستفزز من استطعت منہم بصوتک) قال کل داع دعا الی معصیۃ اللہ عزہ وجل و قالہ ، قتادہ رحمہ اللہ تعالی واختارہ ابن جریر رحمہ اللہ تعالی (تفسیر ابن کثیر صفحہ ۵۰ جلد ۳)
اس آیت میں شیطانی آواز سے گانا بجانا مراد ہے امام مجاہد رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے(اے ابلیس) تو اُنھیں کھیل تماشوں اور گانے بجانے کے ساتھ مغلوب کر۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں-اس آیت میں ہر وہ آواز مراد ہے جو اللہ تعالی کی نافرمانی کی طرف دعوت دے،یہی حضرت قتادہ رحمہ اللہ تعالی کا ہے اور اسی کو ابن جریر رحمہ اللہ تعالی نے اختیار فرمایا ہے-

احادیث مبارکہ
لیکون من امتی اقوام یستحلّون الحرّ والحریر والخمر والمعازف ۔ (بخاری)
"میری اُمت میں کچھ لوگ پید ا ہونگے جو زنا ،ریشم ، شراب اور راگ باجو ں کو حلال قرار دیں گے"

لیشربن ناس من امتی الخمر یسمونھا بغیراسمھا یعزف علٰی رؤسھم بالمعازف والمغنیات یخسف اللہ بھم الارض ویجعل منھم القردۃ والخنازیر ۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ، ابن حبان)
"میری اُ مت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے مگر اس کا نام بدل کر ، انکی مجلسیں راگ باجوں اور گانے والی عورتوں سے گرم ہونگی ، اللہ اُنھیں زمین میں دھنسا دیگا اور ان میں سے بعض کو بندر خنزیر بنادیگا"

راگ باجوں ، ساز و موسیقی اور مروّج قسم کی قوالیوں کا سننا شریعت کی رو سے حرام ہے، ان منکرات کو جائز کہنا الحاد و بے دینی کے سوا کچھ نہیں ، انھیں جائز ثابت کرنے کی نامبارک کوششیں درحقیقت وہی الحاد ہے جس کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشنگوئی ہے کہ اس اُمت کے کچھ لوگ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کریں گے مگر جائز و حلال سمجھ کر- واللہ العاصم من جمیع الفتن وھوالھادی الی سبیل لرشاد ۔

محمد ابراھیم
نائب مفتی دارالافتاء والارشاد
۲۹ جمادی الآخرہ ۱۴۱۱ ہجری۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
سوال : ہمار ے کالج میں اسلامیات کے پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ موسیقی کے آلات کے ساتھ اچھے گیت ،گانے اور قوالیاں سننا شرعاًجائز ہے ، اسے ناجائز اور حرام بتلانا مولویوں کی باتیں ہیں، دلیل یہ دیتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دف بجایا گیا ، بچیاں گاتی رہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہ فرمایا ،موسیقی کے جدید آلات بھی دف کی ترقی یافتہ شکل ہیں ، موسیقی سننے میں کوئی مضایقہ نہیں کہ یہ روح کی غذا ہے اور صو فیۂ کرام سماع کا مستقل شعل رکھتے تھے -
قرآن وسنت کی روشنی میں اس مسئلہ پر روشنی ڈالئے اور پروفیسر صاحب کے دلائل کا بھی جائزہ لیجئے-

الجواب باسم ملھم الصّواب
ماتم کا مقام ہے کہ جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے راگ باجوں کا مٹانا اپنی بعثت کا مقصد بتایا اسی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نہاد اُمتی آج اس گناہ پر دل و جان سے فدا ہیں - بلکہ اس بے حیائی کو سند جواز مہیا کرنے کے لئے سردھڑ کی بازی لگارہے ہیں ، ان ظلمت جدیدہ کے متوالوں کو یہ موٹی سی حقیقت کون سمجھائے کہ اللہ تعالی کی شریعت چودہ سو سال سے مکمل ہے،اس کا ہر مسئلہ اٹل ،لازوال اور قیامت تک کے لئے محفوظ ہے - تمہاری موا فقت یا مخالفت سے کسی مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتاجو شرعاًحلال ہے وہ قیامت تک حلال رہے گی اور جو چیز ازروئے شرع حرام ہے وہ بھی رہتی دنیا تک حرام ہی رہے گی گو کہ دنیا بھر کے ووٹ اس کے خلاف پڑجائیں-

شریعتِ مطہر ہ میں موسیقی کی حرمت کا مسئلہ بھی ایک ایسا ہی مسئلہ ہے جس پر دلیل پیش کرنے کی چنداں حاجت نہیں اس قسم کے قطعی حرام کو مباح وجائز قرار دینے کی جسارت بالکل ایسی ہی ہے جیسے کو ئی سرپھرا یہ کہنے لگے کہ شریعت کی رو سے زنا ،شراب نوشی ،سودخوری اور رشوت جائز ہے- ظاہر ہے اس قسم کی یا وہ گوئی کسی درجہ میں بھی لائق اعتناء نہیں نہ ہی اس قابل ہے کہ اسکی تردید میں وقت ضائع کیا جائے، مگر کیا کیاجائے ؟ اس دورِ ہوا پرستی میں علم و تحقیق کے عنواں سے جو خس و خاشاک بھی پیش کیا جائے اسے مبادیا ت دین سے نا آشنا جدید طبقے میںِ'' جدید تحقیق ''کے عنواں سے جلد پزیر ائی حاصل ہوجاتی ہے ، اس طرح کفر والحاد اس بد قسمت معاشرہ میں باسانی کھپ جاتاہے-
اکبر نے مر حوم نے کیا خوب کہا ہے --

اُنھوں نے دین کب سیکھا ہے رہ کر شیخ کے گھر میں
پلے کا لج کے چکر میں مرے صا حب کے دفتر میں

ان تمہیدی سطو ر کے بعد ہم موسیقی کی حرُ مت کے دلائل پیش کرتے ہیں

دلائل حرم
آیاتِ قرانیہ

(۱) وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِی لَھُوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللہِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَھا ھُزُ وًا أولٰئِكَ لَھمْ عَذَابٌ مُھينٌ(سورہ لقمان آیات نمبر ۶)
اور بعض آدمی ایسا ہے جو ان باتوں کا خریدار بنتا ہے جو غافل کرنے والی ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے بے سمجھے بوجھے گمراہ کرے اور اسکی ہنسی اڑا دے، ایسے لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے

امام ابنِ کثیر رحمہ اللہ تعالی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
عن ابی الصھباء البکری انہ سمع عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی و ھوا یسال عن ھذہ الایۃ (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِی لَھُوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللہِ) فقال عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ الغناء واللہ الذی لاالہ الا ھویرددھاثلاث مرات۔وکذا قال ابن عباس و جابر رضی اللہ تعالی عنہم و عکرمۃ و سعیدبن جبیر و مجاھد و مکحول و عمرو بن شعیب و علی بن بذیمہ رحمہم اللہ تعالی:
وقال الحسن البصری رحمہ اللہ تعالی نزلت ھذہ الایۃ(وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِی لَھُوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللہِ) فی الغناء والمزامیر۔ (تفسیر ابن کثیر صفحہ ۴۵۷ جلد ۳)
""حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے تین بار قسم اٹھا کر فرمایا کہ لھوالحدیث سے مراد گانا بجانا ہے
حضرت ابنِ عباس و جابر رضی اللہ تعالی عنہما اور حضرت عکرمہ ، سعید بنِ جبیر ،مجاہد مکحول ، عمر بن شعیب اور علی بن ہذیمہ رحمہم اللہ تعالی سے بھی اس آیت کی یہی تفسیر منقول ہے-اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں یہ آیت گانے اور راگ باجوں کے متعلق اتری ہے""
یہی تفسیر قرطبی ص ۵۱ج ۱۴ ، بغوی ص ۴۰۸ج ۴ ، خازن ص ۴۶۸ج ۳ ، مظہری ص ۲۴۶ج ۷ میں مفصل مذکور ہے

(۲) واستفزز من استطعت منہم بصوتک الایہ (سورہ ۱۷ آیات نمبر ۶۴)
""اور پھسلالے ان میں سے جس کو تو پھسلا سکے اپنی آواز سے""
امام ابنِ کثیر رحمہ اللہ تعالی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وقولہ تعالی( واستفزز من استطعت منہم بصوتک ) قیل ھو الغناء قال مجاھد رحمہ اللہ تعالی بالھو والغناء ای استخفھم بذٰلک و قال ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فی قولہ( واستفزز من استطعت منہم بصوتک) قال کل داع دعا الی معصیۃ اللہ عزہ وجل و قالہ ، قتادہ رحمہ اللہ تعالی واختارہ ابن جریر رحمہ اللہ تعالی (تفسیر ابن کثیر صفحہ ۵۰ جلد ۳)
اس آیت میں شیطانی آواز سے گانا بجانا مراد ہے امام مجاہد رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے(اے ابلیس) تو اُنھیں کھیل تماشوں اور گانے بجانے کے ساتھ مغلوب کر۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں-اس آیت میں ہر وہ آواز مراد ہے جو اللہ تعالی کی نافرمانی کی طرف دعوت دے،یہی حضرت قتادہ رحمہ اللہ تعالی کا ہے اور اسی کو ابن جریر رحمہ اللہ تعالی نے اختیار فرمایا ہے-

احادیث مبارکہ
لیکون من امتی اقوام یستحلّون الحرّ والحریر والخمر والمعازف ۔ (بخاری)
"میری اُمت میں کچھ لوگ پید ا ہونگے جو زنا ،ریشم ، شراب اور راگ باجو ں کو حلال قرار دیں گے"

لیشربن ناس من امتی الخمر یسمونھا بغیراسمھا یعزف علٰی رؤسھم بالمعازف والمغنیات یخسف اللہ بھم الارض ویجعل منھم القردۃ والخنازیر ۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ، ابن حبان)
"میری اُ مت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے مگر اس کا نام بدل کر ، انکی مجلسیں راگ باجوں اور گانے والی عورتوں سے گرم ہونگی ، اللہ اُنھیں زمین میں دھنسا دیگا اور ان میں سے بعض کو بندر خنزیر بنادیگا"

راگ باجوں ، ساز و موسیقی اور مروّج قسم کی قوالیوں کا سننا شریعت کی رو سے حرام ہے، ان منکرات کو جائز کہنا الحاد و بے دینی کے سوا کچھ نہیں ، انھیں جائز ثابت کرنے کی نامبارک کوششیں درحقیقت وہی الحاد ہے جس کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشنگوئی ہے کہ اس اُمت کے کچھ لوگ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کریں گے مگر جائز و حلال سمجھ کر- واللہ العاصم من جمیع الفتن وھوالھادی الی سبیل لرشاد ۔

محمد ابراھیم
نائب مفتی دارالافتاء والارشاد
۲۹ جمادی الآخرہ ۱۴۱۱ ہجری۔
محمد علی جواد آپ تو ویسے بھی حدیث کو اہمیت نہیں دہتے اس لے قران کی آیت پیش کررہا ہوں
ایک دوسرے کا مال ناحق و باطل طریقے سے نہ کھایا کرو البقرۃ ( 188
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
محمد علی جواد آپ تو ویسے بھی حدیث کو اہمیت نہیں دہتے اس لے قران کی آیت پیش کررہا ہوں
ایک دوسرے کا مال ناحق و باطل طریقے سے نہ کھایا کرو البقرۃ ( 188
السلام و علیکم و رحمت الله -

محترم -
یہ آپ کو کس نے کہا یا آپ نے کیسے اخذ کرلیا کہ میں احادیث نبوی کو اہمیت نہیں دیتا ؟؟ اوپر میرے پوسٹ کردہ مذکورہ مضمون میں (جو اگرچہ میں نے نہیں لکھا) قرآن کی آیات کے ساتھ ساتھ احادیث نبوی بھی پیش کیں گئی ہیں-

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ سوره الحجرات ١٢
اے ایمان والوں ! بہت سی بدگمانیوں سے بچتے رہو کیوں کہ بعض گمان گناہ ہیں-

پھر یہ کہ کسی کہ آلات موسیقی جلانا کوئی ایسا گناہ بھی نہیں کہ جس پر آپ مال غصب پر احادیث نبوی پیش کردیں -اور یہ بھی کہیں کہ "الہ اس کو اتنا ہی اور دے" - یعنی یہ کہ الله اس گلوکار کو اس سے بہتر آلات موسیقی عطا کرے تاکہ وہ مزید گناہ پر گناہ کرتا چلا جائے؟؟ - (فاعتبروا يا أولي الأبصار)

نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے اپنے اصحاب کو تو تمام تصاویر کو مٹانے کا حکم دیا تھا- اب چاہے وہ کسی کی بھی ملکیت ہوں- اگر برائی کو ہاتھ سے روکنا ممکن ہو تو ایسا کرنا مسلمان کے لئے واجب ہے-

الله ہم سب کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
"الہ اس کو اتنا ہی اور دے" - یعنی یہ کہ الله اس گلوکار کو اس سے بہتر آلات موسیقی عطا کرے تاکہ وہ مزید گناہ پر گناہ کرتا چلا جائے؟؟ - (فاعتبروا يا أولي الأبصار)
کسی مسلمان کا مالی نقصان ہونے پر تعزیت کی جاسکتی ہے؟

سوال: کچھ لوگوں کا کاروبار میں یا چوری ،ڈاکا کی صورت میں مالی نقصان ہو جاتا ہے، تو کیا ایسی حالت میں انکے ساتھ تعزیت جائز ہے؟

الحمد للہ:

"تعزیت" اصل میں ثواب کی امید دلاتے ہوئے صبر کی تلقین و ترغیب، اور شکوہ شکایت سے دور رہنے کا نام ہے، جس میں فوتیدگی کی صورت میں میت کیلئے دعائے مغفرت ، اور مصیبت زدہ کیلئے مشکل کشائی کی دعا کی جاتی ہے۔انتہی

" الموسوعة الفقهية" (12/287)

تعزیت کے سلسلے علمائے کرام کی بیان کردہ تعریفات سے ہر مصیبت زدہ شخص کی تعزیت کرنے کی اجازت آشکار ہوتی ہے، چاہے مصیبت کسی عزیز، مال،اور ملازمت وغیرہ کسی بھی چیز میں نقصان ہونے کی صورت میں ہو، چنانچہ شرعی تعزیت صرف وفات کیساتھ مختص نہیں ہے۔

جیسے کہ "منهج الطلاب" کے حاشیہ "بيجرمی" (1/500) میں ہے کہ:

"مالی نقصان کی صورت میں بھی تعزیت کرنا شرعی طریقہ ہے۔۔۔ اس کیلئے مناسب دعا کی جاسکتی ہے"انتہی

اور "حاشیہ جمل" (2/214) میں ہے کہ:

"اگر کسی کا ایسا مالی یا جانی نقصان ہو جسکا تدارک ممکن ہے تو اسکے لئے دعا کرتے ہوئے کہا جائے گا: " أَخْلَفَ اللَّهُ عَلَيْكَ "یعنی: اللہ تعالی تمہیں اتنا ہی اور دے، اور اگر ایسا جانی نقصان ہو جنکی تلافی ممکن نہیں ہے، مثلا: والد یا والدہ فوت ہوجائے، تو ایسی صورت میں کہا جائے گا: " خَلَّفَ اللَّهُ عَلَيْكَ "یعنی: اللہ تعالی تمہارے لئے انکا قائم مقام بن جائے"انتہی

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:

"آپ نے ذکر کیا ہے کہ فوتیدگی کے علاوہ بھی تعزیت ہوسکتی ہے، تو کیا فوتیدگی کے علاوہ تعزیت کرنا مسنون ہے؟ اور اسکا طریقہ کار کیا ہوگا؟

تو انہوں نے جواب دیا:

"تعزیت" مصیبت زدہ شخص کو ثواب کی امید دلا کر دلاسہ، اور صبر کی تلقین کا نام ہے، چاہے فوتیدگی پر یہ تلقین کی جائے ، یا کسی اور نقصان پر، مثلا: بہت زیادہ مالی نقصان ہونے کی صورت میں آپ مصیبت زدہ شخص کے پاس آئیں اور اسکادکھ بانٹیں، اور صبر کرنے کی تلقین کریں کہ کہیں تکلیف سے نقصان دہ حد تک متاثر نہ ہو" انتہی

"مجموع الفتاوى" (17/384)

واللہ اعلم
http://islamqa.info/ur/157920
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اگر کسی مسلمان کی شراب چوری ہوجائے تو اس سے افسوس کا اظہار کیا جائے گا؟
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
احادیث نبوی پیش کردیں


مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام نے ايسے شخص كے بارہ ميں كہا ہے جس نے كسى بندے كا مال چور كيا ہو:

اگر تو اسے اس آدمى كا علم ہو يا پھر وہ اسے جاننے والے شخص كو جانتا ہو، تو اس شخص پر متعين ہے كہ وہ اسے نقدى يا چاندى يا اس كے برابر قيمت يا جس پر اس كے ساتھ اتفاق ہو جائے اسے ادا كرے.

اور اگر وہ اس شخص كو نہيں جانتا، اور اسے كے حصول سے بھى نااميد ہو چكا ہے تو پھر اس كى جانب سے وہ نقدى وغيرہ يا چاندى صدقہ كردے، اور اگر اسے صدقہ كرنے كے بعد مالك كا علم ہو جائے تو اسے صدقہ كرنے كى خبر دے، اگر تو وہ اس كى اجازت دے تو ٹھيك، ليكن اگر وہ اس كے تصرف ميں اعتراض كرتا ہوا اپنى رقم اور حق كا مطالبہ كرے تو وہ اسے واپس كرنے كا ضامن ہے، اور كيا ہوا صدقہ اس كى اپنى جانب سے ہو گا، اور اسے چاہيے كہ وہ اللہ تعالى سے استغفار اور توبہ كرے، اور مالك كے ليے دعا كرے"

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 165 ).

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" صحيح حديث ميں ہے كہ:

" جس كسى كے پاس بھى اپنے كسى بھائى كا خون ميں يا مال ميں عزت ميں حق ہے تو وہ اس حق سے وہ دن آنے سے قبل ہى برى ہو جائے اور اسے ادا كردے، جس دن ميں نہ كوئى درہم ہو گا اور نہ دينار، صرف نيكياں اور برائياں ہونگى، اگر اس كے پاس نيكياں ہونگى تو صحيح وگرنہ صاحب حق كى برائياں لے كر ظالم پر ڈال دى جائيں گى اور پھر اسے جہنم ميں ڈال ديا جائے گا" او كما قال.

اور يہ تو اس كے متعلق ہے جس كا مظلوم كو علم ہو چكا ہو، ليكن اگر اس نے كسى كى غيبت كى ہو، يا اس پر بہتان لگايا ہو اور مظلوم كو اس كا علم نہ ہو تو اس سے توبہ كى شرط ميں ايك قول يہ ہے كہ اس كے علم ميں لايا جائے، اور يہ بھى كہا گيا ہے كہ: يہ شرط نہيں.

يہ اكثر كا قول ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ تعالى سے دو روايتيں ہيں، ليكن اس كا قول اس طرح كے مسئلہ ميں يہ ہے كہ اس مظلوم كے ساتھ نيكى كرے مثلا اس كے ليے دعا اور استغفار اور اعمال صالحہ صدقہ كركے اس كا ثواب اسے ہديہ كرے، جو اس كى غيبت اور بہتان كے قائم مقام ہونگے.

حسن بصرى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

غيبت كا كفارہ يہ ہے كہ جس كى غيبت كى ہے اس كے ليے آپ استغفار كى دعا كريں. انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 18 / 189 ).
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
اگر کسی مسلمان کی شراب چوری ہوجائے تو اس سے افسوس کا اظہار کیا جائے گا؟
جن لوگوں نے یہ کام کیا ہے ۔ان کی مخالف ہی کرنی چاہیے ۔اس لیے کہ یہ لوگ شراب چوری کرہیں ۔شراب کی چوری پینے کے لیے ہی کی جاتی ہے۔
کیا جہاد میں شرب چوری کر کے پینا جائز ہے؟
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
جن لوگوں نے یہ کام کیا ہے ۔ان کی مخالف ہی کرنی چاہیے ۔اس لیے کہ یہ لوگ شراب چوری کرہیں ۔شراب کی چوری پینے کے لیے ہی کی جاتی ہے۔
کیا جہاد میں شرب چوری کر کے پینا جائز ہے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم ابن قدامہ بھائی!
آپ میرا سوال نہیں سمجھے شائد!
سوال کو دوسرے طریقے سے لکھ دیتا ہوں
کیا زید کی شراب چوری ہوجائے تو بکر کو زید سے اظہار تعزیت (افسوس) کرنا چاہیے کہ اُس کی شراب چوری ہونے پر اُسے بہت افسوس ہوا ہے۔
 
Top