زنا بالجبر میں عورت کی گواہی
شہادتِ نسواں کے حوالے سے ترمیم پر بحث کے خاتمے سے قبل ان اعتراضات کو بھی ایک نظر دیکھ لینا مفید ہوگا جو میڈیا پر زنا بالجبر کے سلسلے میں خواتین کی گواہی کے حوالے سے تسلسل سے دہرائے جاتے رہے ہیں ، مثلاً
1۔ حدود قوانین کا زنا بالجبر کی صورت میں چار گواہوں کا تقاضا عملاً ممکن نہیں ہے کیونکہ زنا بالجبر عموماً اکیلے ہوتا ہے، چند افراد کی موجودگی میں جبری زنا کا امکان ہی باقی نہیں رہتا۔
اوّل تو یہ دعویٰ حدود قوانین پر محض الزام ہے کیونکہ حدود قوانین نے زنا بالجبر کے لئے چار گواہ ضروری ہی قرار نہیں دیے، ان قوانین میں زنا (xii) بالرضا اور زنا بالجبر کی سزا تعزیری ہے جس میں عام گواہیاں ویسے ہی قابل قبول ہیں۔ چار گواہوں کی ضرورت تو زنا کی شرعی سزا میں ہے اور شرعی سزا میں زنا بالجبر کو بحث میں ہی نہیں لایا گیا۔یہی وجہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے کئی فیصلے موجود ہیں ، جن میں زنا بالجبر کیلئے چار گواہوں کی ضرورت کو اضافی قرار دیا گیا ہے، مثلاً
1۔ قانونِ شہادت 1984 کے آرٹیکل 17 کی ذیلی دفعہ' 2 بی' میں صراحت کی گئی ہے کہ
''حد زنا کے نفاذ سے قطع نظر، زنا کے مقدمے میں عدالت ایک مرد یا ایک عورت کی گواہی پر تعزیر کی سزا دے سکتی ہے۔ (یاد رہے کہ یہ سزا 10 سے 25 سال قید بامشقت اور جرمانہ ہے)''
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ 10 سال سزا زنا بالرضا کی ہے اور 25 سال زنا بالجبر کی ہے، تو گویا قانونِ شہادت کی یہ دفعہ دونوں کو شامل ہے۔
2۔ عدالت کو یہ بھی اختیارات حاصل ہیں کہ وہ اگر مناسب سمجھے تو جرمِ زنا کے اثبات کے لئے گواہوں کی تعداد اوراہلیت کے متعلق بھی فیصلہ کرے۔ عدالت ِعالیہ نے ایک مقدمہ میں اس اُصول کی حسب ِذیل الفاظ میں صراحت کی ہے :
''قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ مقدمہ کے حالات و واقعات کے پیش نظر گواہوں کی تعداد اور اہلیت کے تعین کا اختیار عدالت کو حاصل ہے۔'' (30)
واضح ہے کہ حدود قوانین کے تحت تعزیری سزائوں کیلئے ہی عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے۔
3۔ سپریم کورٹ، آزادکشمیر نے قصاص اور زنا کے مقدمات میں عورت کی گواہی کے حوالے سے مندرجہ ذیل اُصول بیان کیا :
''قصاص اور نفاذِ حدود کے مقدمات میں بھی چار مرد گواہوں کی شہادت کے بعد مزید شہادت کے لئے عورتوں کی گواہی میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔''(31)
اس فیصلے سے یہ واضح ہوتاہے کہ اگر خواتین یہ محسوس کریں کہ حد زنا کے کسی مقدمہ میں چار مرد گواہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں یا درست گواہی نہیں دے رہے ہیں تو واقعہ کی چشم دید گواہ عورتیں بھی عدالت کے روبرو گواہی دے سکتی ہیں ۔ اور اصل حقائق کو عدالت کے علم میں لانے کا حق رکھتی ہیں ۔
4۔ 1979ء میں زنا بالجبر کے ایک مقدمے کافیصلہ تحریر کرتے ہوئے کراچی ہائی کورٹ نے صرف ایک مظلومہ عورت کے بیان کو کافی گردانا اور قرار دیا کہ
''زنا بالجبر کے کیس میں مقدمہ کے حالات و واقعات کے پیش نظر زیادتی کا شکار ہونے والی عورت کے بیان پر ملزم کو سزا دی جاسکتی ہے۔'' ( 32)
چنانچہ جن لوگوں کو حدود اللہ ویسے ہی ظالمانہ نظر آتی ہیں ، وہ محض اعترا ض کرنے کے لئے چار مرد گواہ کی شق کو سامنے لے آتے ہیں ، وگرنہ یہ چار مرد گواہ زنا بالجبر کی سزا کے لئے سرے سے ضروری ہی نہیں بلکہ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ حدود قوانین میں تعزیرات پر عورت کو گواہی کے حق سے محروم نہیں کیاگیاہے بلکہ ان قوانین کے توسط سے ایک عورت کی گواہی پر مجرم کو سابقہ قانون کی نسبت دوگنا زیادہ سزا کے مواقع میسر آگئے ہیں ۔
جہاں تک اس دعویٰ کا تعلق ہے کہ زنا بالجبر میں ایک سے زیادہ گواہ ملتے نہیں تو یہ بھی محض خام خیالی ہے۔کیونکہ بعض اوقات زنا کے آخری مراحل میں بعض افراد کو علم ہوتا ہے اور فعل زنا واقع ہوچکا ہوتا ہے، ایسی صورت میں وہ لوگ جبری زنا کی گواہی تو دے سکتے ہیں لیکن اس کو روکنے پر قادر نہیں ہوتے کیونکہ وہ واقعہ ہوچکا۔یہ صورت اکثر تب پیش آتی ہے جب خاتون کو تلاش کرتے یا اس کی پکار سنتے ہوئے چند لوگ تاخیر سے پہنچیں ۔
کسی خاندان سے دیرینہ دشمنی کا بدلہ لینے یا اس کی عزت خاک میں ملانے کے لئے بعض اوقات کچھ شیطان صفت لوگ اسلحہ کے زور پر زنا کا ارتکاب کرتے ہیں اور لوگ اُنہیں روکنے پر قدرت نہیں رکھتے۔ بعض اوقات ڈاکوبھی ایسی وارداتیں کرتے ہیں کہ اہل خانہ کو زنا سے روکنے کی مجا ل نہیں ہوتی بلکہ پاکستان کے قبائلی نظام میں بعض جرگے بھی متاثرہ فریق کو زنا کی اجازت دے کر اپنے سامنے ایسے ظالمانہ فیصلے پرعمل کرواتے ہیں ۔ اس لئے یہ دعویٰ بھی درست نہیں کہ زنا بالجبر میں چار گواہوں کا ملنا ناممکن ہے۔
2۔ یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ کوئی عورت اپنے آپ پرزنا بالجبر کا مقدمہ لے کر جاتی ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ تم اپنی بریت پر چار گواہ پیش کرو، وگرنہ خود سزا بھگتو۔
حدود قوانین میں تو ایسی کوئی شق موجود نہیں ، اسی لئے شرعی عدالت کے فیصلے یا سزا سنانے کے مرحلے میں بھی کبھی اس کا اتفاق نہیں ہوا، جسٹس تقی عثمانی اپنے کتابچہ میں لکھتے ہیں کہ
''ایسے کیسوں کی سترہ سالہ سماعت کے دوران مجھے کوئی ایسا کیس یاد نہیں جس میں کوئی عورت زنا بالجبر کی شکایت لائی ہو اور مرد کو چھوڑ کر خود اسے زنا بالرضا کی سزا سنادی گئی ہو۔'' (33)
البتہ پولیس کی دھاندلی یا عدمِ تربیت کے نتیجہ میں اس کا امکان بعید از قیاس نہیں ۔ اس کے لئے حدود قوانین کی بجائے پولیس کی اصلاح اور تربیت ضروری ہے۔ وفاقی شرعی عدالتنے بھی اپنے ایک فیصلہ میں یہ قرار دیا کہ
''اگر کسی عورت کو زنا پر مجبور کیا جائے تو اس جرم کے سرزد ہونے کے بعد زیادتی کی شکار عورت کو کسی طرح کی سزا نہیں دی جاسکتی۔ چاہے وہ حد ہو یا تعزیر، البتہ دوسرا فریق جو زیادتی کا مرتکب ہوا ہے، وہ نفاذ یا تعزیری سزا کا مستحق ہے۔''(34)
جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اسلام نے تو عورت پر جبر کی صورت میں متاثرہ عورت کی بریت کے لئے محض اس کے بیان اور قرائن کی شرط لگائی ہے اور جبر ثابت ہونے کی صورت میں ظالم پر مہر مثل کی ادائیگی یا ایک تہائی دیت اور قاضی کو عورت کی دل جوئی کی ہدایت کی ہے جس کی تفصیل پیچھے صفحہ نمبر 8 کے حاشیہ میں گزر چکی ہے۔
3۔ یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر زنا بالجبرمیں متاثرہ عورت اپنی بریت سے بڑھ کر ظالم مرد کو سزا دلوانا چاہتی ہو تو اس کی گواہی کو حدود قوانین میں کوئی وقعت نہیں دی جاتی۔
دراصل عورت سے جبری زنا ایسی زیادتی ہے جس پر ہر غیرت مند مسلمان متاثرہ عورت سے شدید ہمدردی محسوس کرتا ہے۔ ہمدردی اور غمخواری اپنی جگہ لیکن عدل وانصاف کے فیصلے جذبات سے ہٹ کر واضح میزان پر ہی کئے جاتے ہیں ۔ جس طرح کسی بھی جرم میں محض ایک متاثرہ شخص کا ملزم پر محض دعویٰ کردینا کافی نہیں بلکہ اسے قانونی تقاضے بھی پورے کرنا ہوتے ہیں ، ایسے ہی یہاں بھی توازن کا دامن نہیں چھوٹنا چاہئے۔ یہ درست ہے کہ جبری زنا کی شکار عورت ہوتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ محض عورت کے بیان کو ہی میزانِ عدل قرار دے لیا جائے۔ متعدد واقعات ایسے ملتے ہیں جن میں عورت محض مرد کو بدنام کرنے کی غرض سے اس پر ایسا الزام لگا دیتی ہے۔ جیسا کہ ایسا ہی ایک واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمایا:
''بنی اسرائیل میں جُریج نامی ایک نیک آدمی نے ایک بار ماں کی بات نہ مانی تو اس کی ماں نے اسے بدنامی کی بددعادی۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک روزایک عورت نے اسے بدکاری کی دعوت دی، اس نے انکار کیا تو اس عورت نے ایک چرواہے سے بدکاری کرکے پیدا ہونے والے بچے کو جریج کے نام مڑھ دیا۔ لوگوں نے یہ صورتحال دیکھ کر اس کی عبادت گاہ توڑ دی اور اس کو خوب بدنام کیا۔ تب جریج نے نماز پڑھ کر اللہ سے اپنی صفائی کی دعا کی، تو اللہ نے اس پیدا ہونے والے بچے کو بولنے کی صلاحیت دے دی او راس نے کہا کہ ''میرا باپ تو فلاں چرواہا ہے۔'' یہ بچہ ان تین بچوں میں سے ایک تھا جنہوں نے گود میں بولنا شروع کردیا، دوسرے حضرت عیسیٰ ہیں ۔'' مختصراً (35)
مسلم فقیہ محمد فاسی مالکی لکھتے ہیں کہ کوئی عورت اگر یہ دعویٰ کرے کہ اس سے زنا بالجبر ہوا ہے ، اور اس کے پاس کوئی گواہ نہ ہو تو ا س صورت میں دیکھا جائے گا کہ
أن تدعي ذلک علی رجل صالح لا یلیق بہ ذلک وہي غیر متعلقة بہ فہذا لا خلاف أنہ لا شیء علی الرجل وإنہا تحد لہ حد القاذف وحد الزنا إن ظہر بہا حمل۔ (36)
''اگر تو جس پر الزام لگایا جارہا ہے ، وہ نیک شخص ہو اور ایسا فعل بد اس کے لائق نہ ہو اور اس عورت کا اس سے کوئی تعلق بھی نہ ہو تو سب کا اس امرپر اتفاق ہے کہ اس آدمی کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی، اور اس عورت پر حد تہمت لگے گی، اور اگر اسے حمل ہوجائے تو پھر اس عورت پر حد زنا بھی جاری ہوگی۔''
پتہ چلا کہ زنا بالجبر میں اکیلی عورت کا بیان کافی نہیں ہے۔
اگر اس مرحلہ پر کسی عورت کا اکیلا بیان ہی مرد کو زانی ثابت کرنے کے لئے کافی ہو تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ زنا کے تمام جرائم کا فیصلہ ہر وقت عورت کے ہاتھ میں رہے گا۔ اس بنا پر عورت کا زنا کے الزام میں سزا پانا بھی ناممکن ہوجائے گا باوجود اس کے کہ اس نے رضامندی سے بدکاری کا ارتکاب کیا ہو۔ عورت جب چاہے گی تو اس کو زنا بالجبر قرار دے کراپنے آپ کو تو بری کرا لے گی لیکن مرد کو زنا کی سنگین سزا سے دوچار کردے گی۔ زنابالجبر میں اس پہلو کے حوالے سے قانون سازی کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ زنا کی سزا عورت کے رحم وکرم پر ہوجائے گی۔ چنانچہ اسی حوالے سے قانون کے غلط استعما ل کی نشاندہی امریکی سکالر نے بھی کی ہے:
''جن عورتوں کو دفعہ 10 (2) کے تحت (زنا بالرضا کے جرم میں ) سزا یاب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے ، وہ اپنے مبینہ شریک ِجرم کے خلاف دفعہ 10(3) کے تحت (زنا بالجبر) کا الزام لے کر آجاتی ہیں ۔ فیڈرل شریعت کورٹ کو چونکہ ایسا کوئی قرینہ نہیں ملتا جو زنا بالجبر کے الزام کو ثابت کرسکے، اس لئے وہ مرد ملزم کو زنا بالرضا کی سزا دے دیتا ہے اور عورت شک کے فائدے کی بنا پر ہر غلط کاری کی سزا سے چھوٹ جاتی ہے۔'' (37)
ان واقعاتی حقائق کو نظر انداز کرکے صرف مرد کو صنف ِظالم سمجھ کر عورت کے حق میں قانون سازی بذاتِ خود صنفی امتیاز کا مظہر ہوگا۔تحریک ِنسواں کی پروردہ خواتین عورتوں کو یہ حق دلا کر زنا کے سارے واقعات کا تما م ملبہ ایک طرف تو صرف مردوں پر گرانا چاہتی ہیں اور دوسری طرف عورت کی سزا کو عملاً معطل کرکے مردوں کو ہر وقت اپنے رحم وکرم پر رکھنا چاہتی ہیں ۔
بعض لوگوں نے گذشتہ صفحات میں نماز کے لئے جانے والی عورت سے زنا بالجبر کے واقعے سے یہ استدلال کیا ہے کہ جبر کی صورت میں اکیلی عورت کا بیان کافی سمجھا جائے گا۔
1۔ بعض علما کے نزدیک یہ حدیث ہی مستند نہیں بلکہ اس کے راویوں میں ضعف اور متن میں اضطراب پایا جاتا ہے جیساکہ حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا دعویٰ ہے۔
2۔ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف یہ ہے کہ اس واقعہ میں رجم کا حکم دینا ثابت شدہ نہیں :
'حسن' دون قولہ ارجموہ والأرجح أنہ لم یُرجم۔ (38)
''یہ حدیث حسن(مقبول) ہے سوائے رجم کے حکم کے(جو ثابت شدہ نہیں ہے) راجح بات یہی ہے کہ اسے رجم نہیں کیا گیا ۔ ''(39)
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی رجم کے حکم کو راوی کا تصرف قرار دیا ہے۔ (40)
3۔ سنن ابو دائود کی شرح عون المعبود کے شارح اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں :
ولایخفی أنہ بظاہرہ مشکل إذ لایستقیم الأمر بالرجم من غیرإقرار ولا بینة وقول المرأة لا یصلح بینة بل ہي التي تستحق أن تُحد حد القذف فلعل المراد: فلما قارب أن یأمر بہ وذلک قالہ الراوي نظرًا إلی ظاہر الأمر ... والإمام اشتغل بالتفتیش عن حالہ۔ (41)
''ظاہر ہے کہ یہ ایک پیچیدہ حدیث ہے کیونکہ رجم تو اعتراف یا گواہیوں کے بغیر ثابت نہیں ہوتا۔ اور عورت کا محض کہہ دینا کافی گواہی نہیں ہے بلکہ چاہئے تو یہ تھا کہ اس بنا پر عورت کو حد قذف لگائی جاتی۔شاید اس سے مراد یہ ہو کہ ابھی آپؐ حکم سنانے ہی والے تھے اور راوی نے ظاہری حالات کے پیش نظر یہ بات از خود روایت کردی ہے، حالانکہ اس دوران حاکم ابھی تفتیشی مراحل میں ہی مشغول تھا۔''
بالفرض رجم کا حکم ثابت ہو بھی ہوجائے تو اس واقعہ کی مکمل تفصیلات جو مسند احمد اور سنن بیہقی وغیرہ میں ذکر ہوئی ہیں ، سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس واقعہ میں رجم کا حکم سنانا ایک تفتیشی مرحلہ ہی تھاکہ آپ نے ایک عورت کی شکایت پر الزامات کی تحقیق شروع کردی لیکن آخر کار اس واقعہ میں کسی شخص کو بھی رجم کی سزا دی نہیں دی گئی۔ (42)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رجم کایہ حکم اس واقعہ کے مشابہ ہے جب حضرت سلیمانؑ نے دو عورتوں کے درمیانبچے کا فیصلہ کرنے کے لئے بچے کو کاٹنے کا حکم سنایا تھا لیکن اس کو کاٹا نہیں تھا۔
4۔ بفرضِ محال اگر رجم کا حکم دینا مان بھی لیا جائے تواس کی وجہ محض ایک عورت کے الزام کی بجائے دراصل ملزم کی خاموشی یعنی اعتراف ہے، وگرنہ اس کے انکار کرنے کا احادیث میں تذکرہ ملنا چاہئے۔ حافظ ابن قیم اعلام الموقعین میں فرماتے ہیں :
فإن قیل: کیف أَمر برجم البريئ؟ قیل: لو أنکر لم یَرجمہ ولکن لما أُخذ وقالت ہو ہذا ولم یُنکر ولم یَحتج عن نفسہ فاتفق مجيء القوم بہ في صورة المریب وقول المرأة ہذا ہو وسکوتہ سکوت المریب۔ ( 43)
''اگریہ اعتراض کیا جائے کہ پھر ایک بری شخص کے رجم کا حکم کیوں دیا گیا؟ تو کہا جائے گا: اگر وہ انکار کرتا تو اسکے رجم کا حکم نہ دیا جاتا۔ لیکن جب اسے پکڑا گیا اور عورت نے بھی کہہ دیا کہ یہی ہے وہ اور اس نے انکار بھی نہیں کیااو راپنے بارے میں کوئی حیل وحجت بھی نہیں کی پھر تمام لوگوں کا اسے مشکوک حالت میں پکڑ کر لانا، اس کے بعد عورت کا اسے متعین کردینا اور اس پر اس کا خاموش رہنا۔ '' (یہ واقعاتی حقائق گویا اسکے اعترا ف کی طرف ہی اشارہ کررہے ہیں )
الغرض
1۔ اوّل تو اس مکمل واقعہ کی صحت ہی مشکوک ہے۔
2۔ پھراس واقعہ میں رجم کی سزا کا سنایا جاناثابت شدہ ہی نہیں ۔
3۔ بالفرض ثابت شدہ مان بھی لیا جائے تو یہ ایک تفتیشی مرحلہ کا بیان ہے کیونکہ زنا کاالزام چار گواہیوں کے بغیر ثابت نہیں ہوتا۔
4۔ اگر کسی کو پھر بھی حکم رجم پر اصرار ہو تو اس سزا کو سنانے کی وجہ اس شخص کی الزام پر خاموشی گویا اعتراف کرنا ہے، نہ کہ محض عورت کا الزام لگا دینا۔
5۔ اور آخرکار تمام احادیث میں یہ بات موجود ہے کہ اس کو رجم کی سزا دی نہیں گئی، بلکہ سب کو معاف کردیا گیا جس کی وجہ یہ ہے کہ زنا کی گواہیاں پوری نہ ہونے کی وجہ سے یہ کیس حدود اللہ سے نکل کر عام جرائم میں آگیا تھا، جہاں قاضی معافی دے سکتا ہے۔