محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
"حیض مظاہرہ "
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !
’روشنی گھر ‘میں حیض مظاہرہ ، شکریہ ہماری بچیو !
حافظ یوسف سراج
مس پیٹریشیا فاسٹر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ عیسائی خاتون تھیں۔ وہ نائیجیریا کی وفاقی وزارت میں ایک اہم عہدے پر فائز تھیں ۔ شادی نہ کی تھی سو بوڑھی ہوکر بھی مس کہلاتی تھیں ۔مس پیٹریشا کی اسی وزارت میں ایک پاکستانی پروفیسر بھی کام کرتے تھے ۔ پروفیسریحیٰ صاحب، جوپنجاب یونیورسٹی میں شعبہ ٔ اسلامیات کے جید سکالر تھے اور ان دنوں ایک معاہدے کے تحت نائجیرین حکومت کے مہمان تھے۔ بعد ازاں آپ نائجیرین یونیورسٹی میں اسلامی شعبہ کے چئیرمین بھی رہے۔ بہرحال وزارت کے انھی دنوں کی بات ہے۔ ایک دن مس پیڑیشیا پروفیسرصاحب سے کہنے لگیں ، مسٹر پروفیسر! کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اسلام ایک متشدد اور خواتین کے بارے میں سخت رویہ رکھنے والا مذہب ہے؟ دراصل مس پیٹریشیا کی اسلام کے بارے میں معلومات ویسی ہی تھیں، جیسی مستشرقین کی بدولت غیر مسلموں کی ہوا کرتی ہیں۔ سو آج موقع پاکر مس پیٹریشیا اپنے ایک ساتھی مسلمان پروفیسر سے اس کی وضاحت چاہ رہی تھیں۔ پروفیسر صاحب نے مس پیٹریشیا کا الزام تحمل سے سنا اور بات کو دلائل سے واضح کرنے کا فیصلہ کیا۔
کہنے لگے،مس!میں جواب ضرور دوں گا مگرکیا میں آپ سے بھی کچھ پوچھ سکتاہوں ؟ کیوں نہیں ؟ پیٹریشیا فاسٹر نے دلچسپی سے ہمہ تن گوش ہوتے ہوئے کہا۔ پروفیسر صاحب نے کہنا شروع کیا۔جیسا کہ سبھی جانتے ہیں ،خواتین پر مہینے میں طبعی اعتبار سے کچھ خاص ایام آتے ہیں۔آپ یہ بتائیے کہ ان ایام میں خواتین طبی اور سائنسی اعتبار سے کیسا محسوس کرتی ہیں؟خاتون نے فی الفور جواب دیا Uneasyness!(بے آرامی اوراذیت) ۔ درست !پروفیسر صاحب نے مزید کہا۔
اب آپ صرف اتنا بتا دیجئے کہ عیسائیت نے عورت کی ا س اذیت کو محسوس کرتے ہوئے اس مشکل وقت میں صنفِ نازک کیلئے کیا ریلیف پیکج آفر کیا ہے ؟
اس سوال پر وہ محترمہ سوچنے لگیں ۔ سوچتی رہیں اور بالآخر سر جھکاتے ہوئے مضمحل لہجے میں بولیں ’’کچھ نہیں !‘‘
اس پر پروفیسر صاحب گویا ہوئے ۔اب آپ اس سلسلے میں اسلام کی سنئے ، پہلی بات تو یہ کہ اسلام نے عورت کے اس درد کو محسوس کرتے ہوئے اس کا اعتراف قرآن مجید میں کیا۔ پھر عین وہی لفظ بولے جو آج کی اس صدی میں ایک غیرمسلم عورت خود اپنے لئے پسند کر رہی ہے ، قرآن مجید نے مرد کو بتایا کہ اس حالت میں عورت کو’اذیٰ‘ یعنی ایک اذیت و تکلیف اور uneasyness کی کیفیت درپیش ہوتی ہے سو ایسے میں یہ عورت عمومی نہیں تمھارے خصوصی سلوک کی مستحق ہوجاتی ہے ۔یہی نہیں، خود شریعت بھی عورت کی اس تکلیف کے لئے ایک قدم پیچھے ہٹ گئی ۔ وہی نماز کہ جس کا ترک شریعت میں کفر تھا، وہ اس عورت کی اذیت کے احترام میں ان دنوں اسے معاف کردی گئی ۔ روزے بعد میں کسی وقت رکھنے کی اجازت دے دی گئی۔ پھریہ بھی خیال فرمایا کہ اس معاملے کی بنا پر کوئی اسے ہرٹ بھی نہ کرے ۔چنانچہ جب پتا چلا کہ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ رضی اللہ عنہ نے ان ایام میں اپنی بیوی کا بستر کمرے سے باہر لگادیا ہے تورسولِ رحمتؐ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بلا کے سمجھایا کہ بیوی سے یہ بے رخی کیوں ؟ ایسے میں تو یہ قدرے اور محبت و سلوک کی مستحق ہونی چاہئے ۔ اس سلسلے میں مزید فرمایا، ان حالات میں سوائے خصوصی تعلقات کی استواری کے عورت سے کسی قسم کی دوری اختیار نہ کی جائے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب سن کر اس خاتون کی آنکھیں کھل گئیں۔ اب مس پیٹریشیا فاسٹر ششدر تھی اور ایک مسلم سکالر کے سامنے عیسائیت کی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون گنگ تھی۔ گویا اسلام کے سامنے آج پوری عیسائیت چپ تھی۔
کیاکوئی ہے جو ہماری ان بچیوں کو مخاطب کرکے کہے کہ اے گل ِبرگ کے روشنی گھرمفہوم کے تعلیمی ادارے میں ایک خاص قسم کے مظاہرے کرتی ہماری بچیو! تم نے یہ کہانی نہیں سنی ہوگی۔ تم نے اس باب میں اسلام کی روشنی بھی نہیں جانی ہوگی۔ عین انھی ایام میں اپنی پیاری بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی دلجوئی کے لئے روارکھے گئے رسولِ رحمت ؐکے تعلیمی مظاہر بھی تم نے ہر گز نہ جانے ہوں گے۔
مثلاًسیدہ نے بتایا۔ عین انھی ایام میں ،میں مشروب پی کے برتن رسول اللہ ؐ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیتی ۔ آپ اسی مشروب کو،اس برتن کی ٹھیک اسی جگہ سے نوش فرماتے جہاں سے میرے لبوں نے چھوا ہوتا۔ اور بھی بہت سی باتیں سیدہ بتاتی ہیں ۔ ساری باتیں کالم میں بھلا کہاں سما سکتی ہیں۔ تم نے بہرحال نادانی میں یہ مظاہرہ کیا ۔ جو تمھیں بتایا یا سمجھایا گیا اسی کے تناظر میں تم نے جو کیا سو کیا۔ تمھیں اعتراض ہوا کہ دکاندار تمھارے خاص ایام کاسامان خاکی لفافے میں ڈال کے کیوں دیتا ہے۔ تم نے کپڑوں پ خون ملاکہا کہ تمھیں اس حالت کے کھلے بیان کی چھٹی کیوں نہیں ملتی؟ یا جو بھی تم نے اس جگہ لکھا، جہاں لکھنے کی تربیت تمھیں کوئی دوسرا تعلیمی ادارہ نہ دیتا۔ دراصل مجھے قصور تمھاراکم لگتا ہے۔ میں نے تمھارے پیارے نام دیکھے ہیں۔ یہ سارے اسلام سے محبت کے عکاس ہیں ۔تمھیں تو یہ بھی نہیں بتایا گیا ہو گا کہ جس وقت اسلام تمھاری نزاکتوں کے لئے سہولت و محبت کے ایسے پھول چن رہا تھا،ا س لمحے ساری دنیا کس طرح تمھیں چھوت سمجھتی تھی۔جیساکہ ایک لکھنے والی نے ’ہم سب ‘کے استفادے کے لئے کسی میڈیکل کی معتبر کتاب سے ایسی ساری تاریخی روداد لکھ دی ہے۔ اس لکھے میں سب لکھا گیا مگر افسوس اسلام کی مہربانی نہیں لکھی گئی۔ بھلا ایسی بھی کیا تاریخ دشمنی اورایسی بھی حقائق سے کیا بے اعتنائی۔ خلاصہ اس ساری روداد کا یہ کہ دنیا تب تمھیں بس یوں سمجھو کوڑھی سمجھتی تھی ۔ وہ سمجھتے تھے ،اس حال میں جس چیز کوتم چھولو وہ برباد اور جسے تم نظر بھرکے دیکھ لو وہ زہرناک ہو جائے گی۔ ایسی حالت میں تمھارا سایہ ذائقے کو تلخ اور زمیں کو بنجر کر دے گا۔ارسطو جیساعقلمند بھی کہتا تھا اگر اسی حالت میں تم آئینہ دیکھ لو تو آئینہ شکنوں سے بھر جائے اور جو کوئی دوسرا تمھارا دیکھا آئینہ دیکھ لے تو اس پر جادو ہو جائے ۔ یہودی ایسی حالت میں تمھیں کوڑھی کی طرح فالتو چیزوں میں پھینک مارتے تھے ۔ پھر تم ایسی قسمت کی ماری کی قسمت کو کس نے سنوار؟ اسلام نے! اس نے تمھیں زمیں سے اٹھایا انسان سمجھا اور سینے سے لگایا ۔تو احسان کا بدلہ یوں تو نہیں دیا جاتا نا!
دیکھو کچھ چیزیں خاص ہوتی ہیں ۔ اس کا یہ مطلب بھلاکیسے کہ وہ باعثِ اذیت یا کمتر بھی ہوتی ہیں؟ وہ بس عام نہیں ہوتیں ۔ہم اپنا جسم ڈھانپ کے رکھتے ہیں تو کیااس لئے کہ یہ ہمارے نزدیک اہمیت نہیں رکھتایا منفی مقام رکھتا ہے۔ کیا آپ کو علم نہیں چیز جتنی قیمتی ہوتی ہے ،اتنی ہی وہ پردوںمیں اور packed ہوتی ہے ۔ہماری کتنی ہی فطری ضرورتیں ہیں ۔ جو عین فطرت ہیں مگرہم ان کے لیے بازار کے بیچ نہیں بیٹھ جاتے ،واش روم جاتے ہیں۔ ہم ان کی سیلفیاں بھی نہیں بناتے۔ یہ چیزیں اہم شخصیات کو بھی لاحق ہوتی ہیں ۔ مگر وہ بھی ان کی بریکنگ نیوز جاری نہیں کرواتے ۔ دیکھو! کچھ چیزیں بہت خاص ہوتی ہیں ۔ ہم انھیں ذاتیات کہتے ہیں ۔ یہ بری نہیں ہوتیں بس ہماری ذاتی ہوتی ہیں۔ ایک بات آپ کو بتاؤں آج کی کوئی بھی عورت عرب عورت جتنی بے باک اور خودی کی پیکر نہیں ہو سکتی ۔ اس نے اپنی ضرورت کی ہر چیز کو بیان بھی کیا اورسنا اور سمجھا بھی اور پھر آگے ہمارے فائدے کے لئے بھی بیان کر دیا۔ مگر دیکھئے ایک چیز ہوتی ہے، جسے خواجہ آصف نے کہا۔ کچھ شرم ہوتی ہے اورکچھ حیاہوتی ہے۔ شاید آپ کو علم نہ ہو کہ ایک بھارتی وزیرِ اعظم مرار جی ڈیسائی ہوتے تھے ۔یہ کوئی انسانی فریش جوس پیا کرتے تھے ۔کسی سے پوچھنا وہ کیا تھا۔ آپ کو گھن آئے گی ۔ بات یہ ہے کہ شرم کا دامن جب ہاتھ سے چھوٹ جائے تو انسان کی پستی کاکوئی ٹھکانا نہیں رہتا۔ اور دیکھو زندگی ساری نظم کی طرح عیاں نہیں ہوتی ۔یہ کبھی غزل ہوتی ہیں۔ تب یہ تلمیح اور استعارے میں لطف دیتی ہیں۔ وہاں یہ ننگی ہو جائے تو حسن کھو دیتی ہیں۔یہ جو لفافے کی آپ نے بات کی ۔یہ تو آپ کو تکریم دی جاتی ہے ۔ورنہ انسان ہونے کے ناتے کیا خیال ہے دکاندار میں شیطان نہیں آ سکتا ؟ مغرب میں اب کسی خاتون کو بس میں سیٹ بھی پیش نہیں کی جاتی ۔ وہاں عورت دل کی رانی اور گھرکی مہارانی نہیں رہی ۔ سوچو،وہ مرد بننے نکلی تھی تو کیا بن سکی؟ کتنے بوجھ اس نے خود پر لاد لیے تو کیا وہاں بچے اب مرد جنتا ہے؟
بہرحال تمھارا شکریہ تم نے ہمیں بتایا کہ ہمارے تعلیمی ادارے ، ہمارے نصاب یا ہماری تربیت میں کہیں نہ کہیں کچھ ایسا ضرور ہے جو تمھیں کاغذ پر لکھنے کی باتیں کہیں اور لکھنا سکھا رہا ہے۔ یاد آیا ساتویں کی ایک طالبہ نے ایک دن سکول سے گھر آکے اپنی ماں سے پوچھا : مما ابارشن کیا ہوتا ہے؟ اور ماں نے اگلے دن بیٹی کا سکول بدل دیا۔ شکریہ کہ تم نے ہمیں بتایا کہ جہاں ہمارے پچھتر سالہ پروفیسر یحی ٰصاحبان مس پیٹریشیا فاسٹر کو اسلام کی روشنی سے نہلا رہے ہیں وہیں کچھ لوگ ہماری مریم و جمیلہ کو اسلام سے بہکا بھی رہے ہیں۔