اِختیارات اور اس کی حقیقت
ائمہ عشرہ میں سے ہر قاری نے قراء ات متعدد شیوخ سے پڑھیں اور اس کے لئے انہوں نے طویل سفر بھی کیے اور ہر استاد کی قراء ۃ کو الگ الگ محفوظ بھی کیا لیکن جب انہوں نے اپنے شاگردوں کو پڑھانا شروع کیا تو اپنی تمام مسموعیات نہیں پڑھائیں ،بلکہ ان میں سے بعض کوپڑھایا اور بعض کونہیں،یعنی اپنی تمام مسموعیات میں سے کچھ چیزیں اپنے لیے منتخب کر لیں اور وہ اپنے شاگردوں کو پڑھائیں ۔اس لئے جب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ فلاں قاری کا اختیار ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس قاری نے جو پڑھا ہے، انہی میں سے کچھ چیزیں اپنے لیے مختص کر لی ہیں نہ کہ اپنے قیاس اور رائے سے عربیت کے موافق وجہ کو اختیار کیا ہے، کیونکہ اس پر تمام قراء کا اتفاق ہے کہ قراء ۃ میں قیاس اور رائے سے کوئی وجہ داخل کرنا حرام ہے، چنانچہ ابوعمر وبن العلاء مازنی بصری رحمہ اللہ، جوکہ قراء ۃ اور لغت میں ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں، ان سے الاصمعی رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ
’’ میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ اگر ایسا نہ ہوتا کہ جیسے میں نے اپنے استاد سے پڑھا ہے، ویسے پڑھنا ضروری ہے تو میں فلاں فلاں لفظ کو ایسے ایسے پڑھتا ۔‘‘ (کتاب السبعہ لابن مجاہد:۸۳)
اور اگر ہم بنظر غائر قراء ات کا مطالعہ کریں تو مذکورہ بات کی تصدیق ہو جاتی ہے، مثلاً اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی قاری ایک وجہ کو اپنی لیے اصل قرار دے دیتا ہے اورپھر چند مقامات میں ان کی مخالفت بھی کرتا ہے۔ یہ صرف اسی وقت ہو سکتاہے جب روایت کی اتباع کی جائے، وگرنہ قیاس کے مطابق پڑھا جائے تواپنی اصل کی مخالفت کی کوئی وجہ ہی نہیں بنتی ۔ مثلاً
امام ابوجعفررحمہ اللہ پورے قرآن مجید میں
’یَحْزُنُ‘ لیکن سورۃ انبیاء میں
’ یُحْزِنْکَ‘ پڑھتا ہے جبکہ سیدنا نافع رحمہ اللہ اس کے برعکس قرا ء ت کرتے ہیں۔ اس طرح امام حفص رحمہ اللہ سورۃ ہود کے لفظ
’مجرٰیہا‘کے علاوہ پورے قرآن میں کسی جگہ بھی امالہ نہیں کرتے اور امام ابن عامررحمہ اللہ پورے قرآن میں
’ابراہیم‘پڑھتے ہیں اوربعض جگہ میں
’ابراہام‘ پڑھتے ہیں۔
مذکورہ مثالوں میں ہمیں پتہ چلتا ہے کہ قراء کا اپنے اصول کی بعض جگہ مخالفت کرنا صرف اورصرف روایت کی بناپر ہے، ورنہ قیاس کا تقاضا تو یہ ہے کہ پورے قرآن میں اپنے اُصول کے مطابق پڑھا جائے اورکسی جگہ بھی اس کی مخالفت نہ کی جائے۔ اوراگر قیاس کا قراء ات میں کوئی دخل ہوتا تو امام ابوعمرورحمہ اللہ، جوکہ لغوی بھی ہیں، وہ
’’بار ئِکم‘‘ کوہمزہ ساکنہ سے نہ پڑھتے اور نہ ہی
’یأمرُکُمْ‘ ’یأمرُہُمْ‘ ’تأمرُہُمْ‘ ’یَنْصُرُکُمْ‘ ’یُشْعِرُکُمْ‘ وغیرہ کو را ئے ساکنہ سے پڑھتے، کیونکہ لغویوں کے ہاں ان مثالوں میں ہمزہ اور راء کا سکون پڑھنا غلط ہے۔ اسی لیے ہی مبرد اور سیبویہ وغیرہ نے اس قراء ت کا رد کیا ہے ۔ اسی طرح امام ابن عامر شامی رحمہ اللہ کی قراء ۃ
’’زُیِّنَ لِکَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ قَتْلُ أولادَہم شرکا ء ہِم‘‘ بھی نہ پڑھتے، کیونکہ یہ بھی نحوی وجہ کے خلاف ہے اورابوجعفررحمہ اللہ
’’لِیُجْزٰی قَوْمًا بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ‘‘اورامام حمزہ رحمہ اللہ
’’الَّذِی تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَالأرْحَامِ ‘‘کبھی نہ پڑھتے، کیونکہ ان تمام قراء ات میں اہل لغت کوئی نہ کوئی تاویل کرتے ہیں یا غلط قرار دیتے ہیں، لیکن قراء کرام کا معمول یہ ہے کہ جب نقل اور روایت کے ذریعے کوئی قراء ۃ ثابت ہوجاتی ہے، تو اس کو قیاس یا لغت سے رد نہیں کرتے ، کیونکہ قراء ۃ سنت
متبعہ ہے اور ان کو قبول کرنا اوران کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔
چنانچہ ابوعمروالدانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب جامع البیان میں اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ قراء کرام کیوں اپنے لیے خاص اختیار مقرر کرتے ہیں اور اپنے شیخ سے ہر پڑھی ہوئی قراء ۃ کو کیوں نہیں پڑھاتے؟
اس کی دو وجہیں ہیں:
اوّل:ترجیح یعنی جس قراء ۃ کے رواۃ زیادہ اور مشہور ہوں اور ان کی پیروی کرنے والے بھی زیادہ ہوں، تو ان کو اختیار کر لیتے ہیں اورجس قر اء ۃ میں بعض راوی منفرد یاشاذ ہوں اس کو چھوڑ دیتے ہیں، مثلاً
امام نافع رحمہ اللہ نے تقریباً ستر(۷۰) تابعین سے پڑھا ہے، جن میں سے ابو جعفر ، شیبہ بن نصاح، عبد الرحمن بن ہرمز، مسلم بن جندب الہذلی، یزید بن رومان ، عبد الرحمن بن القاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق، محمد بن شہاب زہری ، الاصبغ بن عبد العزیز نحوی رحمہم اللہ وغیرہ، لیکن جو آپ نے ان تمام سے پڑھا ہے وہ سارا نہیں پڑھایا اس کی وجہ آپ یہ بتاتے ہیں کہ
’’میں نے ستر تابعین سے پڑھا ان میں سے جس حرف پر دو راوی متفق ہیں اس کو میں نے لے لیا اورجس میں ایک راوی منفرد ہے اس کومیں نے چھوڑ دیا ہے، حتی کہ میں نے ان موجودہ حروف میں قراء ۃ کوجمع کر لیا۔‘‘ (کتاب السبعۃ لابن مجاہد:۶۲،الابانۃ لمکی بن أبی طالب:۱۶)
یہی وجہ ہے کہ امام نافع رحمہ اللہ اور ابوجعفررحمہ اللہ کی قراء ۃ میں تقریباً پانچ سو سے زائد مقامات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اسی طرح امام کسائی رحمہ اللہ نے امام حمزہ رحمہ اللہ سے پڑھا ہے اور امام حمزہ رحمہ اللہ اورکسائی رحمہ اللہ کے درمیان تقریباً تین ہزار مقامات میں اختلاف پایا جاتا ہے، کیونکہ آپ نے امام حمزہ رحمہ اللہ کے علاوہ اوربھی بہت سارے قراء سے پڑھا ہے اور امام ابوعمرو بصری رحمہ اللہ نے ابن کثیرمکی رحمہ اللہ اور دیگر قراء سے پڑھا ہے لیکن مکی رحمہ اللہ او ربصری رحمہ اللہ کی قراء ۃ میں تقریباً تین مقامات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ (الإبانۃ :۱۷)
ثانی: شاگردوں پر آسانی، یعنی شاگرد کے شہر او رعلاقے کی جولغت ہوتی اس کے موافق قراء اس کوپڑھا دیتے پس ایک شاگرد کو ایک قراء ۃ اور دوسرے کو دوسری قراء ۃ پڑھاتے یا شاگرد کو جو قراء ۃ پڑھنے میں آسانی ہوتی اسے وہی پڑھاتے۔ مثلاً
امام عاصم بن ابی النجود رحمہ اللہ نے سیدنا حفص بن سلیمان رحمہ اللہ اور ابوبکر بن عیاش شعبہ رحمہ اللہ کو مختلف قرا ء ات پڑھائی ہیں، چنانچہ ان کے درمیان تقریباً پانچ سو سے زائد مقامات میں اختلاف ہے۔
امام حفص رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’ میں نے امام عاصم رحمہ اللہ سے پوچھا کہ جو قراء ت میں پڑھتا ہوں، ابوبکررحمہ اللہ وہ قراء ت نہیں پڑھتا،حالانکہ ہم دونوں نے آپ سے پڑھا ہے، تو آپ نے فرمایا کہ جو قراءۃ میں نے آپ کو پڑھائی ہے، وہ میں نے ابوعبد الرحمن سلمی عن علی بن ابی طالب سے اور جو قراء ت ابوبکرa کو پڑھائی ہے وہ زربن حبش عن عبد اللہ بن مسعود سے پڑھی ہے ۔‘‘(غایۃ النہایۃ للجزري:۱؍۲۵۴)
امام نافع رحمہ اللہ کے شاگرد سیدنا قالون رحمہ اللہ اور سیدنا ورش رحمہ اللہ کے مابین تقریباً تین ہزار مقامات میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ (الابانۃ لمکی بن ابی طالب:۱۶،۱۷)
چنانچہ سیدنا نافع رحمہ اللہ کے راویوں میں سے کسی ایک کی روایت بھی اس کے راوی سیدنا ورش رحمہ اللہ سے نہیں ملتی، کیونکہ امام ورشa نے سیدنا نافع رحمہ اللہ پر وہ قراء ۃ پڑھی، جو اس کے علاقے میں پڑھائی جاتی تھی اور وہ قراء ۃ امام نافع رحمہ اللہ نے اپنے بعض اساتذہ سے بھی پڑھی ہوئی تھی، تو آپ نے امام ورش رحمہ اللہ کو اسی قراء ۃ کی اجازت دے دی۔ اسی لیے آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ جب بھی آپ کے پاس کوئی پڑھنے کے لئے آتا تو آپ اس سے اس کی وہ قراء ۃ سنتے، جو اس نے پہلے پڑھی ہوتی۔ جب وہ آپ کی پڑھی ہوئی قراء ۃ کے موافق ہوتی تو اس کی اس کواجازت دے دیتے، لیکن جب کوئی آپ سے وہ قراء ۃ پڑھنا چاہتا، جو آپ نے اپنے لیے اختیار کی ہوتی تھی تو اس کو وہ پڑھا دیتے تھے۔