(١٣) کسی مشکل لفظ کی تفسیر بیان کرنا
مثلاً فرمان الٰہی ہے:
’’کَالْعِھْنِ الْمَنْفُوْشِ‘‘(القارعۃ:۵)اس میں ایک آحاد قراء ت کے الفاظ ہیں
کالصوف المنفوش تو اس میں وضاحت ہے العھن سے مراد صوف (رووی) ہے۔ (النشر:۱؍۱۲۹، غایۃ النھایۃ :۲؍۵۵)
(١٤) سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ قراء ات قیامت کے دن حفاظ و قراء کے درجات کی بلندی میں کردار ادا کریں گی۔ وہ اس طرح کہ قیامت کے دن صاحب ِقرآن سے کہاجائے گاپڑھیے اور درجات کے زینوں پر چڑھتے جائیے۔ جیسا کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے آپﷺ سے نقل کیاہے:
’’یقال لصاحب القرآن اقراء وارتق ورتل کما کنت ترتل فی الدنیا فإن منزلتک عند اٰخر اٰیۃ تقراء ھا (سنن ابوداؤد :۱۴۶۴،سنن ترمذی: ۲۹۱۴، سنن نسائی:۸۱،صحیح ابن حبان :۱۷۹۰، مستدرک حاکم :۱؍۵۵۲)
صاحب قرآن سے قیامت کے دن کہا جائے گاکہ جیسے دنیا میں ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے ویسے پڑھو آپ کی آخری منزل وہ ہوگی جہاں آخری آیت ختم ہوگی۔ جو آدمی صرف روایت روایت حفص پڑھے گا وہ ۶۶۶۶درجات حاصل کرے سکے گا اور جو قراء ات عشرہ میں پڑھے گا جن کے رواۃ کی تعداد تیس تک جاپہنچی ہے تو وہ بحمداللہ ایک لاکھ ننانوے ہزار نو سو اسی (۱۹۹۹۸۰) درجات کامالک بنے گا، کیونکہ کہاجائے گا جیسے دنیا میں پڑھتے تھے آج بھی ویسے ہی پڑھو۔ ہم قراء ات عشرہ میں پڑھتے ہیں (قیامت کو بھی اسی طرح پڑھیں گے) اے اللہ! ہمیں بھی ایسے لوگوں میں شامل کردے اورجو وعدہ تو نے اپنی نبیﷺ کی زبان سے کیا اس کو پورا فرما ہمیں قیامت کے دن رسوائی سے بچا یقینا تو اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ ( یہ فائدہ صحیح بخاری کی حدیث:۷۸۷ ، اور مسلم کی حدیث : ۱۳۱۱ سے اخذ کیا گیاہے)
تعدد قرا ء ات کے تمام فوائد میں سے چند کا ہم نے ذکر کیاہے۔ تمام فوائد کونقل کرنا ایک مشکل کام ہے جو مندرجہ ذیل بحث سے سمجھا جاسکتا ہے ہم اللہ سے آسانی ،مدد اور توفیق کے دعاگو ہیں کیونکہ وہ سننے والا اور قبول کرنے والا ہے۔
چند مزید فوائد جناب قاری نجم الصبیح حفظہ اللہ کی تصنیف ’تاریخ تجوید وقراء ات‘ سے نقلکیے جارہے ہیں: