• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’مساوات‘ یا ’عدل‘ ؛ شرعی نقطہ نظر

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,400
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
ایمان و عقائد​
محمد عمران صدیقی​
’مساوات‘ یا ’عدل‘ ؛ شرعی نقطہ نظر

اس مضمون کو کتاب وسنت ڈاٹ کام سے پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
ہرتہذیب و نظریہ جہاں مختلف اَہداف ومقاصدکا حامل ہوتا ہے، وہاں ان مقاصد کے لئے اپنے نعروں اور لائحۂ عمل کو خوشنما اور دیدہ زیب نام بھی دیتا ہے۔ ان اصطلاحات اور نعروں میں ظاہری اشتراک کے باوجود دونوں کے مفہوم ومدعا اور معنویت میں وہ فرق پوری تاثیر سے موجود ہوتا ہے جو ہر دو نظریات میں درحقیقت پایا جاتا ہے۔ ظاہربین حضرات اصطلاحات کے ظاہری اشتراک سے دھوکہ کر، دو مختلف علمیت اورپس منظر کی حامل اصطلاحات کو ایک دوسرے کی جگہ بولنے کی غلطی کربیٹھتے ہیں، اس سے نتائج میں بھی شدید اختلاف پیدا ہوجاتا ہے۔ انہی اصطلاحات میں ایک مساوات بھی ہے جو ’عدل‘ کے بجائے استعمال کی جاتی ہے۔ مساوات کے مغرب سے درآمدہ تصورات تو غلط ہیں جس کی نشاندہی زیر نظر مضمون میں کی گئی ہے لیکن اسلام کا اپنا تصورِ مساوات بھی ہے جیسا کہ تمام مسلمانوں میں انسان ہونے کے ناطے مساوات پائی جاتی ہے، کالے گورے اور عربی وعجمی میں کوئی امتیاز موجود نہیں ہے۔ شریعت کے مخاطب ہونے اور اللہ کی بندگی بجا لانے کے لحا ظ سے بھی مساوات ہے، بقولِ شاعر: ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز، نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز۔ زیر نظر مضمون میں مساوات کی ان مقامات پر نفی کی گئی ہے جہاں شرعی احکام کے بالمقابل ’مساوات‘ کا لفظ بول کر من چاہے مقاصد پورے کئے جاتے ہیں۔اس لحاظ سے مساوات اسلام کی کوئی مستند تعبیر نہیں، بلکہ احکام شریعت ہی دائمی اور حقیقی برتری رکھتے ہیں جس کے لئے ’عدل‘ کی اصطلاح مناسب اور شرعی ہے۔ ح م
’جاہلیت ِجدیدہ ‘ کی بنیادی اقدار میں ’آزادی‘ کے بعد ’مساوات‘ کا نام لیا جاتا ہے۔ سننے کی حد تک یہ ایک خوبصورت لفظ اور دل لگتی اصطلاح ہے۔ یعنی ’برابری‘ اور ’ تسویہ‘ لیکن اپنی اصلیت اور حقیقت میں اسلام کی بنیادی قدر ’عدل‘ کی نفی ہے اور فرقِ مراتب کی ضد ہے ۔ مسلمانوں کے بعض مفکرین اور دانشور جو ’جاہلیت‘ ہی کے خوشہ چیں بن کر رہ گئے ہیں، اس مغربی قدر کو مغربی جانتے ہوئے بھی مسلمانوں کے سر تھوپنا چاہتے ہیں؛ مگر کئی سادہ لوح ’مساوات‘ کو’ اسلامی قدر‘ کے طور پر جانتے ہیں اور اسی حیثیت سے منوانا چاہتے ہیں۔
’مساوات‘ (Equility) تمام انسانوں کی برابری کا تصور دیتی ہے۔ انسانوں کو معاشی ، سیاسی، سماجی، مذہبی، فکری اور صنفی ہر اعتبار سے برابری کا تصور اور اس کا انسان کے بنیادی حق ہونے کی حیثیت میں متبرک ہونا؛ ’مذہبی ‘ اعتبار سے کوئی کافر ہے یا مسلمان، مشرک ہے یا موحد، اہل کتاب ہے یا اہل الحاد، ’مساوات‘ ان افراد کو برابری کا درجہ دے گی اور مذہب کے فرق کی بنا پر ان کے مابین کسی قسم کا امتیاز نہ برتا جائے گا۔ جبکہ اسلام ’عدل‘ کا دین ہے، عدل کے مقابل ’ظلم‘ کا لفظ آتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ مذہبی اعتبار سے تمام انسانوں کو برابر کا درجہ دے دینا ایک’ظلم ‘ہے جسے آج کی جاہلیت ’مساوات‘ کا نام دیتی ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,400
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
قرآنِ مجید نے کہیں بھی مسلمانوں کو مساوات کا درس نہیں دیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے’ عدل‘ کا حکم دیا ہے:
{إِنَّ اللّٰہَ یَأمُرُ بِالْعَدْلِ} (النحل:۹۰)
’’اللہ تم کو انصاف کا حکم دیتا ہے۔ ‘‘
{ وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْْنَ النَّاسِ اَن تَحْکُمُواْ بِالْعَدْلِ} ( النسائ:۵۸)
’’اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو۔‘‘
شیخ محمد بن صالح عثیمین شرح العقیدۃ الواسطیۃ میں لکھتے ہیں:
وَھُنَا یَجِبُ أَنْ نُنَبِّہَ عَلیٰ أَنَّ مِنَ الْنَاسِ مَنْ یَسْتَعْمِلُ بَدْلَ الْعَدْلِ: المُسَاوَاۃُ،وَہٰذَا خَطَأٌ، لَا یُقَالُ مُسَاوَاۃٌ لِأَنَّ المُسَاوَاۃَ قَدْ تَقْتَضِيْ الْتَّسْوِیَۃَ بَیْنَ شَیْئَینِ وَ الْحِکْمَۃُ تَقْتَضِيْ التَفْرِیْقَ بَیْنَہُما
’’یہاں یہ نشاندہی کر نا ضروری ہے کہ بعض لوگ ’عدل ‘ کے بدلے ’مساوات ‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں جبکہ یہ غلطی ہے۔ پس ’مساوات ‘کی اصطلاح ’عدل ‘کی جگہ پر استعمال نہیں کی جاسکتی۔کیونکہ کبھی’مساوات ‘ دو چیزوں کے درمیان برابری کا تقاضا کرتی ہے جبکہ ’حکمت ‘ اِنہی دو چیزوں کے درمیان جداجدا حیثیت کا تقاضا کرتی ہے ۔‘‘
شیخ دوسری جگہ لکھتے ہیں:
وَلھٰذَاکَانَ أَکْثَرُ مَاجَائَ فِيْ الْقُرْآنِ نَفْيَ الْمُسَاوَاۃِ
’’اس لیے قرآنِ کریم میں اکثر وبیشتر مساوات کی نفی کا ہی تذکرہ آیا ہے،مثلاً: ‘‘
{ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُون} (الزمر:۹)
’’جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے، دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟‘‘
{قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الاَعْمَی وَالْبَصِیْرُ اَمْ ہَلْ تَسْتَوِیْ الظُّلُمٰتُ وَالنُّورُ} (الرعد:۱۶)
’’پوچھو! کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہیں؟ یا اندھیرا اور اُجالا برابر ہوسکتا ہے؟‘‘
{لَا یَسْتَوِیْ مِنکُم مَّنْ اَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُوْلَئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا} (الحدید:۱۰)
’’جس شخص نے تم میں سے فتح (مکہ)سے پہلے خرچ کیا اور لڑائی کی وہ (اور جس نے یہ کام پیچھے کئے وہ)برابر نہیں۔ ان کا درجہ ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر ہے جنہوں نے بعد میں خرچ (اموال)اور (کفار سے)جہاد وقتال کیا۔‘‘
{لاَّ یَسْتَوِیْ الْقٰعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْْرُ اُوْلِیْ الضَّرَرِ وَالْمُجٰہِدُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنفُسِہِم} (النسائ:۹۵)
’’تکلیف والوں کے علاوہ جو مسلمان (گھروں میں)بیٹھ رہتے (اور لڑنے سے جی چراتے) ہیں، اور جو خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے لڑتے ہیں، وہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,400
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
شیخ محمدبن صالح عثیمین مزید لکھتے ہیں:
أَخْطَأَ عَلیٰ الْاِسْلَامِ مَنْ قَالَ: اِنَّ دِینَ الْاِسْلَامِ دِیْنُ الْمُسَاوَاۃِ بَلْ دِیْنُ الْاِسْلَامِ دِیْنُ الْعَدْلِ۔ وَہُوَ الْجَمْعُ بَیْنَ الْمُتَسَاوِیَیْنِ، وَالْتَفْرِیْقُ بَیْنَ الْمُفْتَرَقَیْنِ، اِلَّا أَنْ یُرِیْدَ بِالْمُسَاوَاۃِ:الْعَدْلَ فَیکُوْنَ أَصَابَ فِيْ الْمَعْنٰی وَأَخْطَأَ فِيْ الْلَّفْظِ
’’جو شخص دین اسلام کو ’مساواتی دین‘ کہتاہے، اس نے اسلام کی بابت غلطی کھائی ہے۔ اسلام تو دینِ عدل ہے ۔اور عدل دوبرابر چیزوں کو اکٹھاکرنے اور دو مختلف چیزوں کو جداجدا کرنے کا نام ہے ۔ ہاں اگر وہ مساوات بول کر عدل مراد لے رہا ہے تو اس نے درست مفہوم کے لئے غلط لفظ کا انتخاب کیا ہے۔‘‘
اہل کفر اور اہل اسلام کے مابین مساوات
مساوات کا سبق پڑھانے والے توحید اور شرک، حق اور باطل، خیر اور شر میں کسی تفریق کے قائل نہیں ان کی نظر میں ہر عقیدہ اور نظریہ جسے کوئی انسان قبول کرلے، برابر اہمیت اور حیثیت رکھتا ہے۔ اور کسی بھی عقیدہ کی بنا پر انسانوں کے مابین کوئی تفریق کرنا، بنیادی حقوق کے خلاف اور جرم ہے۔ جبکہ اسلام عقیدہ و ایمان کی بنیاد پر انسانیت کو دو واضح گروہوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک اہل ایمان، اہل توحید، انبیاء ؑ کے سچے پیروکار جنہیں عباداللہ، عبادالرحمن، مؤمنین، مسلمین اور حزب اللہ وغیرہ کے الفاظ سے پکارا جاتا ہے۔ اور دوسرے خواہشاتِ نفس کے بندے، کفار، مشرکین، منافقین، درہم و دینار کے بندے اور ’حزبِ شیطان‘ کہے جاتے ہیں۔ اوّل الذکراہل حق ہیں، دنیا میں ہدایت اور آخرت میں نجات پانے والے۔ اور ثانی الذکر ’اہل باطل‘گمراہ اور آخرت میں عذاب ِالٰہی کے حق دار یہ دونوں فریق ’مساوی‘ کیسے ہوسکتے ہیں؟
قرآنِ مجید میں ارشاد باری تعالیٰ :
{اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ} (القلم:۳۵)
’’کیا ہم فرمانبرداروں کا حال مجرموں کا سا کردیں ؟‘‘
اوّل الذکر’ گروہ‘ مسلمانوںکی محبت دوستی اور وَلا کا حق دار ہے جبکہ ثانی الذکر مسلمان کی برات، دشمنی اور غیریت کا مستحق!
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,400
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
مرد وزَن میں مساوات
پھر جاہلیت کے علم برداراسی ’مساوات‘ کو ’صنفی‘ تفریق مٹانے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مرد اور عورت مساوی ہیں،اُنہیں برابر حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ عورت کو مرد کے شانہ بشانہ کارگاہ ِعمل میں اُترنا چاہئے۔ زندگی کے ہر شعبے میں عورت کا کردار ہونا چاہئے اور مرد وعورت کو مخلوط ہونا چاہئے۔ چادرا ور چاردیواری پرانے دور کی باتیں ہیں۔ شرم و حیا رجعت پسندی کی یادگاریں ہیں، اگر مرد کو چارشادیوں کی اجازت ہے تو عورت کو بھی برابر ہونی چاہئے ورنہ مرد کے لئے بھی ایک۔ مرد نبی ہوسکتا ہے تو عورت کیوں نہیں؟ مرد سربراہ مملکت بن سکتا ہے تو عورت کیوں نہیں؟
اس ’صنفی‘ مساوات کی دلیل نہ تو کسی نبی کے صحیفے میں ہے نہ عقل سلیم کے وظیفے سے بلکہ سراسر اَہوا اور ظنون ہیں، شہوات و شبہات ہیں، خواہشاتِ نفس اور توہماتِ عقل ہیں، شیطانی وسوسے ہیں، علمِ وحی سے بغاوت ہے، تعلیماتِ انبیا سے سرکشی ہے اور عبدیت و بندگی سے اِعراض ہے۔
اسلام ہر دو اَصناف (مرد اور عورت) کے مابین انسان ہونے کے ناطہ سے کوئی فرق اور امتیازروا نہیں رکھتا بلکہ دونوں کو ایک ہی نفس کا جوڑا قراردیتا ہے:
{یَا اَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَنِسَائً} (النسائ:۱)
’’اے انسانو! اپنے ربّ سے ڈرو، جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا ایک جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے پھیلائے بہت سے مرد اور عورتیں۔‘‘
{وَمِنْ آیٰتِہِ اَنْ خَلَقَ لَکُم مّنْ اَنفُسِکُمْ اَزْوَاجاً لِّتَسْکُنُوا إِلَیْْہَا وَجَعَلَ بَیْْنَکُم مَّوَدَّۃً وَرَحْمَۃً } (الروم:۲۱)
’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے پیدا کیں تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے بیویاں تاکہ تم سکون حاصل کرو ان کے پاس۔ اوراس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔‘‘
یوں بھی جس طرح کوئی مرد اللہ کی مخلوق ہے اسی طرح عورت بھی، جس طرح مرد پر کچھ ذمہ داریاں اپنے خالق کی طرف سے عائد کی گئی ہیں، اسی طرح عورت پر بھی۔ جس طرح مرد کے کچھ حقوق ہیں، اسی طرح عورت کے لئے بھی اور جس طرح مرد قیامت کے دن اپنے ربّ کے سامنے جواب دہ ہے، اسی طرح عورت بھی اپنے عقیدہ و عمل میں اپنے ربّ کے سامنے جواب دہ ہوگی۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤمِنٌ فَلَنُحْیِـیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ} (النحل:۹۶)
’’ جو شخص مردوں سے یا عورتوں سے ہو اچھا کام کرے وہی ایمان والا ہے۔ہم اس کو پاکیزہ زندگی بخشیں گے اور جو وہ عمل کرتے تھے اس کا بہتر اجر عطا کریں گے۔‘‘
مگر جس طرح عورت اور مرد کی خلقت میں فرق ہے، ایسے ہی ان کی ذمہ داریوں اور حقوق میں بھی فرق ہے۔ یہی عدل کا تقاضا اور اسلام کی تعلیم ہے۔’صنفی‘ حیثیت میں برابری کے اُصول کو ثابت کرنے کے لئے اوّلاً تو کوئی دلیل نہیں دی جاسکتی کہ ’مساوات‘ کی قدر تثلیث پر ایمان کی طرح بلا دلیل قبول کی جاتی ہے اور اسے ناقابل بحث قرار دیا جاتا ہے۔ ثانیاً دلیل دی بھی جاتی ہے تو انتہائی بودی کہ جس طرح گاڑی چلنے کے لئے پہیوں کا کردار مساوی ہے، اسی طرح انسانی زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لئے مرداور عورت دوپہیوں کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ مثال اپنی بنیاد میں ہی غلط ہے،کیونکہ گاڑی کے دونوں پہیے اپنی خلقت میں ایک جیسے ہوتے ہیں جبکہ مرد اور عورت اپنی تخلیق میں ہی مختلف پیدا کئے گئے ہیں۔ اس کے لئے صحیح تمثیل یہ ہوگی کہ مرداور عورت کو گاڑی کے دو اہم پرزے قرار دیا جائے جو اپنی خلقت میں مختلف ہونے کے باوجود زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لئے اپنی اپنی اہمیت رکھتے ہیں لیکن اپنا اپنا مختلف کردار بھی۔ یقینا دونوں میںسے کسی ایک صنف کی غیر موجودگی میں زندگی کی گاڑی نہیں چل سکتی۔ مگر دونوں ایک ہی کردار ادا کرنے پر بضد ہوں تو بھی گاڑی تباہ ہی ہوگی۔ اگر ایک کو ماں بن کر پیٹ میں بچے کو پالنا، پھر سینے سے چمٹا کر دودھ پلانا اور پھر گود میں تربیت کرنا ہے تو دوسرے کو باپ بن کر اس کے نان و نفقہ کی ذمہ داری اور نگہبانی کا فرض ادا کرنا ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,400
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
معاشی سرگرمیوں میں مساوات
معاشی سرگرمیوں میں ہر قسم کے لوگوں کے لئے ہر قسم کے پیشے سے مال کمانا ’مساوات‘ کی قدر کا ہی جادو ہے۔ کوئی شراب بیچے یا چاول ، سود اور جوئے کو آمدنی کا ذریعہ بنائے یا تجارت و صنعت کو۔ کوئی عورت جسم فروشی کا دھندہ اپنائے تو اسے Sex workerکا نام دیا جائے اور کوئی معلمۂ ایمان و اخلاق بن جائے تودونوں مساوی حقوق اور احترام کی حق دار قرار پائیں۔
اسلام ہر طرح کی معاشی سرگرمیوں کو ’مساوی‘ درجہ پر نہیں لاتا بلکہ حلال و حرام اور جائز وناجائز کے خانوں میں تقسیم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کا خالق و مالک ہے، تمام کائنات کا بھی خالق و مالک ہے، حلال و حرام قرار دینا اس کا حق ہے۔ اور اس کے حکم کی اطاعت کرنا انسانوں کا فرضِ اوّلین بلکہ عبادت و بندگی ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر جس کسی کے حکم و قانون کی پیروی کی جائے وہ کوئی فردِ واحد آمر و ڈکٹیٹر ہو، یاپیرو پنڈت یا اَحبار و رہبان ہوں یا عوام کی نمائندہ اسمبلی، یہ اسی کی بندگی کہلاتی ہے۔ اسلام نے شراب پینے اور بیچنے کو حرام قراد دیا اور دودھ اور مشروبات کو حلال، سود، جوئے اور دھوکہ کو حرام قراردیا اور تجارت و صنعت اور زراعت کو حلال،زنااور قحبہ گری،غیر اللہ کے نام پر ذبیحہ، قربانی، نذر ونیاز کو حرام کیا جبکہ نکاح،اللہ کے نام پر ذبیحہ، قربانی اور نذرونیاز کو حلال۔ پس حرام اور حلال برابر کیسے ہوسکتے ہیں؟حرام ذرائع سے رزق کمانے والا، حلال ذرائع سے رزق کمانے والے کے برابر کیسے ہوسکتا ہے۔ سود کھانے اور کھلانے والا، اللہ اور اس کے رسول سے اعلانِ جنگ کا مرتکب، دنیا میں سزا اور آخرت میں عذاب کا حق دار جبکہ دیانت دار تاجر دنیا میں برکت والا اور آخرت میں نبی کریمﷺ کا ساتھی۔
ہر طرح کی معاشی سرگرمیوںکو برابر قراردینا کفر و ظلم اور عدل کے منافی ہے۔ایسی برابری، ایسا تسویہ، ایسی مساوات اسلام کی نظر میں زیادتی اورحرام ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,400
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
سماجی مساوات
’ مساوات‘کی قدر سماجی اور سیاسی سطح پر بھی اپنے گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ سماجی سطح پر ہر طرح کا فرقِ مراتب مٹا دیا جاتا ہے۔ بڑے اور چھوٹے، نیک اور بد، عالم اور جاہل، برابر کی حیثیت کے حامل قرار پاتے ہیں ۔ جبکہ اسلام سماج کی سطح پر فرقِ مراتب کاداعی ہے۔ جس کا معیار تقویٰ قرار پاتاہے:
{ إِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِندَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ}(الحجرات:۱۳)
’’تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگا ر ہے۔‘‘
نبی ﷺنے فرمایا کہ’’ امام وہ بنے جو قرآن زیادہ جانتا ہو، پھر سنت پر زیادہ عمل کرنے والا، پھر عمر میں بڑا ، پھر پہلے ہجرت کرنے والا۔‘‘ جیسا کہ ابو مسعود انصاری سے مروی ہے:
قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ :یَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُہُمْ لِکِتَابِ اﷲِ؛ فَإِنْ کَانُوا فِي الْقِرَاء َۃِ سَوَائً فَأَعْلَمُہُمْ بِالسُّنَّۃِ، فَإِنْ کَانُوا فِي السُّنَّۃِ سَوَائً فَأَقْدَمُہُمْ ہِجْرَۃً، فَإِنْ کَانُوا فِي الْہِجْرَۃِ سَوَائً فَأَقْدَمُہُمْ [سِنًّا]
(صحیح مسلم:۶۷۳)
’’فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: قوم کی امامت وہ کرے جو قرآن زیادہ جانتاہو۔ اگر قرآن میں برابر ہوں تو جوسنت زیادہ جانتاہو ۔ اگر سنت میں برابر ہوں تو جس نے پہلے ہجرت کی ہو ۔ اگر ہجرت میں برابر ہو تو جو عمر میں بڑ ا ہو ۔‘‘
سماجی حیثیت کے سلسلے میں نبی کریم 1کا ایک اور فرمان بھی قابل توجہ ہے:
عَنْ أَنَسٍ بْنِ مَالِکٍ یَقُوْلُ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَلَمْ یُوَقِّرْ کَبِیْرَنَا (سنن ترمذی:۱۹۱۹)
’’حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا :جو ہمارے چھوٹے پر شفقت نہ کرے اورہمارے بڑے کی عزت نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,400
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
سیاسی مساوات
سیاست میں ’مساوات‘ One Man, One Voteکو جنم دیتی ہے۔ کوئی Ph.D ہے یا انگوٹھا چھاپ، کوئی انتہائی نیک و پرہیزگار آدمی ہے، یا کمینہ و بدکردار؛ سب کی حیثیت ’مساوی‘ ہے اور ہر کسی کو ایک ووٹ کا حق حاصل ہے۔ کوئی کافر ہے یا مسلمان، مرد ہے یا عورت، پختہ عمر ہے یا نوجوان، ہماری جدید جاہلیت سب کو ایک آنکھ سے دیکھتی ہے، شاید دجال کی طرح اس کی بھی دوسری آنکھ ہے ہی نہیں۔
عبادات میں مساوات
’عبادت‘ میں بھی مساوات کی قدر کفر و اسلام اور شرک و توحید کو یکساں سطح پر لانے میں اپنا کردارخوب نبھاتی ہے۔ کوئی بتوں کا پجاری ہو یا قبروں کا مجاور، کوئی جاہلیت لٹکائے یا David Star، کوئی اللہ پروردگار عالم پر جان نچھاور کرے یا مٹی کی دھرتی پر مر مٹے، کوئی مرنے والے کے لئے دعا کرے، ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرے یا موم بتی روشن کرے یا پھولوں کا گلدستہ رکھے۔ عبادت بجا لانے کو مسجد بنائے، مندر بنائے، چرچ بنائے ، پگوڈہ بنائے ، ٹیمپل بنائے یا گوردوارہ بنائے، جاہلیت ِجدیدہ کی نظر میں سب حق ہے، سچ ہے، انسانی حقوق ہیں ، آزادی ہے اور مساوات ہے۔ کوئی باطل نہیں، کوئی جھوٹ نہیں، اسلام اور غیر اسلام کی کوئی تفریق نہیں، اللہ تعالیٰ کے حکم اور مخلوق کی روایات سب برابر ہیں۔
الغرض ’مساوات‘ اپنی حقیقت میں، حق و باطل، اور سچ و جھوٹ کو برابر کردینے کا نام ہے۔ حفظ ِمراتب اور فرقِ مراتب کو تباہ و بربادکردینے کا نام ہے۔ اور یہ ظلم ہے، عدل کے منافی ہے۔ عدل کی ضد ہے۔ اسلام ’عدل‘ کا دین ہے۔ ’انصاف ‘ کو پسند کرتا ہے۔ قسط کا حکم دیتا ہے۔ حق اور اہلِ حق کو صدق پر فوقیت دیتا ہے،اور اہلِ صدق کو خیر ،اور اہل ِ خیر کو باطل پر فوقیت دیتا ہے،اوراہل ِ باطل پر کذب، اور اہلِ کذب کو شر اور اہل ِ شرپرفوقیت دیتا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے سے جدا اور علیحدہ جانتا ہے ۔اوّل الذکر کے لئے جنت اور اللہ کی رضا اور آخر الذکر کے لئے عذابِ جہنم اور اللہ کی لعنت کی وعید سناتا ہے۔
اللہ تبارک تعالیٰ عدل و قسط کو پسند فرماتا ہے، عدل و قسط کا حکم دیتا ہے۔ عدل کے قیام کے لئے اپنے پیغمبروں کو مبعوث فرماتا ہے، ظلم و زیادتی کو ناپسند فرماتا ہے۔ ظلم و زیادتی کو مٹانے کا حکم دیتا ہے۔ اللہ کے پیغمبر ظلم کو مٹانے کی جدوجہد اور محنت کرتے رہے۔ سب سے بڑا ظلم شرک ہے:
{إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ} (لقمان:۱۳)
اور سب سے بڑا عدل ’توحید‘ ہے۔ شرک کرنے والا ہمیشہ جہنم کا ایندھن بنے گا:
{مَن یُّشْرِکْ بِاﷲِ فَقَدْ حَرَّمَ اﷲُ عَلَیہِ الْجَنَّۃَ} (المائدۃ: ۷۲)
اور ’توحید‘ کا حامل آخرکار لازماً جنت میں جائے گا:
من مات من أمتی لا یشرک باﷲ شیئا دخل الجنۃ (صحیح بخاری:۳۲۲۲)
ان قرآنی حقائق کا اعتقاد رکھ کر یہ کیسے مانا جاسکتاہے کہ شرک کرنے والا، توحید ماننے والے کے برابر ہوسکتا ہے۔ ’مساوات‘ کا اُصول یہاں ظلم عظیم کے مترادف ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,400
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
عدل کیا ہے؟
عدل کیا ہے ؟ عدل کی سادہ سی تعریف یہی ہے کہ ’’حق دار کا حق اَدا کرنا‘‘یعنی جس چیز کا جو حق ہے، وہ اسے دینا ’عدل‘ کہلاتاہے۔ عدل کا مفہوم علما بیان کرتے ہیں:
اَلْتَسْوِیَۃُ بَیْنَ الْمُتَمَاثِلَاتِ وَالتَّفْرِقَۃُ بَیْنَ الْمُخْتَلِفَاتِ
’’ہم مثل چیزوں میں برابری قائم کرنا اور مختلف چیزوں کے درمیان تفریق کا رویہ اپنانا۔‘‘
اس تعریف کے بعد اب یہ سوال پیداہوتاہے کہ کسی شے کا حق کیا ہے؟یہ کیسے معلوم ہوگا؟ اس کا جواب ہے: ’شریعت ِاسلامی ‘یعنی شریعت ِاسلامیہ ہی عدل و توازن اور اعتدال کا نام ہے اور کفر اپنی تمام تر تشریحات میں ظلم،بے انصافی اور عدمِ اعتدال ہے ۔اس اعتبار سے ظلم و بے انصافی اور عدمِ اعتدال پر مبنی وہ فیصلہ و حکم ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم و فیصلہ اور شریعت سے ہٹا ہوا ہو، قرآنِ مجید میں اِرشاد ربانی ہے :
{وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا اَنزَلَ اللّہُ فَاُوْلَـئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُونَ} (المائدۃ :۴۵)
’’ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہی ظالم ہیں۔ ‘‘
{وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْنَ النَّاسِ اَن تَحْکُمُواْ بِالْعَدْلِ} (النسائ:۵۸)
’’اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔‘‘
عدل کے ساتھ فیصلہ کرنے سے کیا مراد ہے ؟ اس کی وضاحت نبی کریم ﷺ کے اس فرمان سے ہوتی ہے جسے سیّدنا علیؓ نے روایت کیا ہے :
کِتَابُ اﷲِ فِیہِ نَبَأُ مَا کَانَ قَبْلَکُمْ، وَخَبَرُ مَا بَعْدَکُمْ، وَحُکْمُ مَا بَیْنَکُمْ،وَہُوَ الْفَصْلُ لَیْسَ بِالْہَزْلِ… مَنْ قَالَ بِہِ صَدَقَ، وَمَنْ عَمِلَ بِہِ أُجِرَ، وَمَنْ حَکَمَ بِہِ عَدَلَ (سنن ترمذی:۲۶۰۹)
’’یہ اللہ کی کتاب ہے جس میں گذشتہ قوموں کے حالات ہیں اور آنے والے واقعات کی خبر ہے ۔یہ کتاب تمہارے درمیان پیش آنے والے مسائل کے لیے فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ یہ فیصلہ کرنے والی کتاب ہے، کوئی مذاق نہیں… جس نے اس کی بنا پر کوئی بات کہی تو سچ بولا،جس نے اس کی بنا پر عمل کیا تو وہ اَجر کا مستحق ہوگیا اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا تو اس نے عدل کیا۔‘‘
اسلام ’دینِ عدل‘ ہے۔ بندہ ہونے کے ناطے مرد اور عورت برابرہیں تو نماز کی ادائیگی اور روزہ رکھنا دونوں پر فرض ہے۔ صنفی اعتبار سے مختلف ہیں تو عورت کے لئے حیض کے دنوں میں نماز معاف اور روزہ قضا کردیا گیا۔ وراثت کا حق دار تو دونوں کو قرار دیا گیا، لیکن ذمہ داریوں میں فرق کی وجہ سے حق میں تفریق کردی گئی۔ معاشی سرگرمیوں کی اجازت دونوں کے لئے ہے لیکن فریضہ یہ مردوں کا قرار پایا۔ جہاد میں شرکت کی اجازت دونوں کے لئے ہے، لیکن فرض مردوں پر ہے۔
انسان کو اللہ تعالیٰ نے گورا اور کالا، عربی و عجمی، اَمیرو غریب پیدا کیا، اس بنیاد پر تفریق کو حرام قرار دیا۔ مگر انسان کی روحوں سے ’عہد ِاَلست‘لے کر توحید کی تعلیم دی۔ پھر اُنہیں فطرتِ سلیم پر پیدا کیا۔ پھر آسمانوں سے وحی کا نور نازل کیا۔ اب کچھ لوگوں نے وحی کے نور اور نورِ فطرت پر لبیک کہا اور اللہ کا فرماں بردار یعنی’ مسلم‘ بن گئے اور دوسرے لوگوں نے نہ صرف نورِ وحی کا کفر کیا بلکہ نورِ فطرت کو بھی مسخ کرنے پر تلے رہے۔ اللہ کے باغی وسرکش بن کر زندگی بسر کی، ایسے لوگ کافر کہلائے۔
دونوں کے حقوق و فرائض برابر کیسے ہوسکتے ہیں؟ دونوں مساوی کیسے ہوسکتے ہیں؟ ایک اَشرف المخلوقات کے درجے پر فائز اور دوسرا اَسفل السافلین میں جاگرا۔ جانوروں سے بھی بدتر درجہ میں!یوں اسلام تمام ’اَدیانِ عالم ‘ یعنی زندگی گزانے کے مختلف طریقوں کو برابر حیثیت دینے کے لیے قطعاًتیار نہیں بلکہ اللہ کے دین کو ’الحق ‘ اور باقی تمام اَدیان کو باطل قرار دیتا ہے اور انبیاء و رسل کو ’حق ‘ کے غالب کرنے اور باطل کو مٹانے کے لیے مبعوث کرتاہے :
{ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہ} (الصف:۹)
’’وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین ِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسیسب اَدیان غالب کردے ۔‘‘
 
Top