• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’’التمھید لابن عبدالبر‘‘ کی ایک روایت میں احناف کی تازہ ترین تحریف

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
”الاجماع“ والوں کے پیش کردہ مطبوعہ نسخوں کا جائزہ

ہم نے اپنی کتاب ’’انوار البدر‘‘ میں پوری تفصیل سے وضاحت کردی ہے اور اس مضمون کے شروع میں بھی بتاچکے ہیں کہ ’’التمہید‘‘ جب پہلی بار طبع ہوئی تو اس کے محقق نے زیربحث روایت میں موجود لفظ ”الثندوة“کو ”السرة“ بنادیا کیونکہ وہ اس لفظ کو صحیح طرح سے پڑھ ہی نہیں سکے، دراصل محقق نے ”الثندوة“ (ثاء) کے ساتھ کو ”التندوة“ (تاء کے ساتھ ) پڑھا اورچونکہ تاء کے ساتھ اس لفظ کا کوئی معنی نہیں ہوتا ہے اس لئےمحقق نے اندازے سے اسے ”السرة“ بناديا اور یہ تبدیلی کرنے کے بعد بھی محقق نے کوئی قطعیت کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ شک کے ساتھ کہا کہ شاید یہی صحیح ہوگا۔مزید تفصیل کے لئے قارئین ’’انوار البدر ‘‘دیکھیں۔
’’التمہید ‘‘کا سب سے پہلا مطبوعہ نسخہ( مغربی نسخہ)
آگے بڑھنے سے پہلے چند وضاحتیں ضروری ہیں ، ہم نے ’’انوار البدر‘‘ میں بتایا تھا کہ مغربی طباعت کے محقق یعنی سعید اعراب صاحب سے مخطوطہ پڑھنے میں چوک ہوئی ہے انہوں نے استنبول والے مخطوطہ میں ”الثندوة“ (ثاء تین نقطوں کے ساتھ) کو ”التندوة“ (تاءدو نقطوں کے ساتھ ) پڑھ لیا ہے ۔لیکن ”الاجماع“ والے اب بھی یہی رٹ لگارہے ہیں کہ استنبول والے مخطوطہ میں”التندوة“( دونقطے والی تاء کے ساتھ ) ہے۔ دیکھیں : [ الاجماع شمارہ:۸، ص:۵ ]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
مغربی طباعت اور استنبول کا نسخہ

عرض ہے کہ استنبول والا نسخہ یہ وہی کوبریلی ، استبول والا نسخہ ہی ہے جو اس کتاب کا سب سے بہترین نسخہ ہے ، جیساکہ ہم گزشتہ صفحات (۲۰تا۲۳) میں واضح کرچکے ہیں ۔ مغربی طباعت کے مقدمہ میں بھی اس کی صراحت موجود ہے۔ دیکھیں :[ التمہید لابن عبدالبر ، الطبعۃ المغربیۃ ، ج :۱، مقدمہ ص’’ ھ‘‘]
انوار البدر لکھتے وقت اس مخطوطہ کو ہم نہیں دیکھ سکے تھے ، لیکن اسی کتاب کے دوسرے محقق دکتور عبداللہ الترکی نے چونکہ ”الثندوة“ (ثاء تین نقطے کے ساتھ) لکھا تھا نیز خطیب بغدادی کی کتاب میں اثرم کی روایت میں بھی ”الثندوة“ کا لفظ تھا ، اس لئے ہم نے کہا کہ مغربی طباعت کے محقق سے مخطوطہ پڑھنے میں غلطی ہوئی ۔
بعد میں ہم نے یہ مخطوطہ دیکھا تو یہ بات بالکل سچ نکلی کیونکہ مخطوطہ میں صاف طور سے”الثندوة“ موجود ہے اور ثاء پر تین نقطے بھی موجود ہیں۔مغربی طباعت کے محقق کے پاس اس مخطوطہ کی تصویر تھی جیساکہ انہوں نے خود و ضاحت کی ہے ۔دیکھئے :[ التمہید لابن عبدالبر ، الطبعۃ المغربیۃ ، ج:۱۱، مقدمہ ص :۴ ]
اور اس لفظ کی تصویر ان کے پاس صاف نہیں آئی ہوگی اسی لئے انہوں نے دو نقطہ پڑھ لیا یا ان کی نظر کو دھوکہ لگا ہوگا ۔لیکن الحمد للہ ہمارے پاس اس مخطوطہ کے اس صفحہ کا بالکل صاف اسکین موجود ہے جس میں ”الثندوة“ کے ثاء پر تین نقطے صاف طور پر موجود ہیں ۔
اور مغربی طباعت کے محقق نے جو یہ لکھا ہے کہ اس مخطوطہ میں کئی جگہ حروف کے نشانات مٹے ہوئے ہیں اور پڑھے جانے کے قابل نہیں ہیں ، تو یہ ان کے پاس موجود تصویر کا نقص ہے یا صرف بعض حصوں کایہ معاملہ ہے ورنہ مخطوطہ دیکھنے کے بعد حقیقت یہ سامنے آئی کہ یہ مخطوطہ بہت صاف لکھا ہے اور صاف پڑھا جارہا ہے ۔ بلکہ دیگر محققین مثلاً دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی ، شیخ اسامہ بن ابراہیم اور دکتور بشار عواد وغیرہم نے بھی اپنے محقق نسخہ کے مقدمہ میں اس مخطوطہ کے بارے میں کہا ہے کہ یہ صاف پڑھا جارہاہے ۔
بلکہ خود مغربی طباعت کے محقق نے بھی عمومی طور پر اس مخطوطہ کے بارے میں یہی کہا ہے کہ یہ بہت صاف پڑھا جاتا ہے۔ مثلاً :
پہلی جلد کے مقدمہ میں ہے:
’’هي نسخة مكتبوبة بخط مغربي واضح‘‘
’’یہ نسخہ واضح مغربی رسم الخط میں لکھا ہوا ہے‘‘ [ التمہید لابن عبدالبر ، الطبعۃ المغربیۃ ، ج:۱، مقدمہ ص: د ]
اورگیارہویں جلد کے مقدمہ میں ہے :
’’وقد اعتمدنا علي هاته النسخة لأنها سالمة ومكتوبة بخط واضح‘‘
’’میں نے اسی نسخہ پر اعتماد کیا ہے کیونکہ یہ سالم اور واضح خط میں لکھا ہواہے‘‘ [ التمہید لابن عبدالبر ، الطبعۃ المغربیۃ ، ج:۱۱، مقدمہ ص ’’و‘‘]
اور اس بات پر تمام محققین کا اتفاق ہے کہ یہ سب سے مستند اور صحیح ترین نسخہ ہے ، بلکہ مغربی طباعت کے محقق نے بھی اس مخطوطہ کو ”اصح النسخ“ ’’سب سے زیادہ صحیح اور مستند قراردیا ہے‘‘ دیکھیں :[ التمہید لابن عبدالبر ، الطبعۃ المغربیۃ ، ج :۱، مقدمہ ص ’’ھ‘‘]
لیکن اجماع والوں نے نہ جانے کس عقل ومنطق سے مغربی طباعت کے محقق کے قول ”أصح النسخ“ کا مطلب بریکٹ میں یہ بتایا کہ یہ لکھت کے اعتبار سے ہے،چنانچہ محقق کی عبارت یہ تھی :
’’انحمت بعض معالم حروفه و في بعض الأجزاء لا يكاد يقرا وهي أصح النسخ قليلة التصحيف والتحريف‘‘[ التمہید لابن عبدالبر ، الطبعۃ المغربیۃ ، ج :۴،مقدمہ ص ’’د‘‘ ]
اجماع والوں نے بریکٹ میں خود ساختہ اضافہ کے ساتھ اس کا ترجمہ اس طرح کیا:
’’اس مخطوطہ میں حروف کے بعض نشانات مٹ گئے ہیں ، اور بعض اجزاء میں یہ پورے طور پر پڑھے جانے کے قابل بھی نہیں ہیں ، اور یہ (لکھت کے اعتبارسے ) سب سے صحیح نسخہ ہےاس میں تصحیف اور تحریف کم ہے‘‘ [ الاجماع شمارہ:۸، ص:۴ ]
قارئین غور کریں کہ محقق نے پہلے یہ کہا کہ اس نسخہ میں کئی مقامات پڑھے جانے کے قابل نہیں اس کے فوراً بعد محقق کہہ رہے ہیں کہ یہ ”أصح النسخ“ ہے ، یہ ماقبل کا سیاق واضح دلیل ہے کہ یہاں ”أصح النسخ“ سے مراد استناد کے لحاظ سے یہ سب سے صحیح ترین نسخہ ہے ۔
بلکہ ”أصح النسخ“ کے فوراً بعدمحقق نے یہ بھی کہا ہے کہ اس میں تصحیف اور تحریف کم ہے ، یہ بعد والا سیاق بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ محقق ”أصح النسخ“ کہہ کراستناد ہی کے لحاظ سے اس نسخہ کو سب سے صحیح بتلارہے ہیں ۔
بلکہ خود ”الاجماع“ والوںنے بھی یہ حوالہ یہ بتانے کے لئے دیا ہے کہ یہ نسخہ کئی جگہ سے پڑھے جانے کے قابل نہیں ہے ،اب کوئی ہمیں سمجھائے کہ یہ کس مٹی کے بنے لوگ ہیں جو ”اصح النسخ“ کا ترجمہ لکھت کے اعتبار سے سب صحیح کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہی عبارت لیکر یہ شوربھی مچاتے ہیں کہ یہ نسخہ پڑھنے کے قابل نہیں ہے ، سبحان اللہ !
بہرحال دیگر محققین کی طرح مغربی طباعت کے محقق نے بھی اس نسخہ کوسب سے صحیح ترین نسخہ، یعنی استناد کے لحاظ سے سب سے صحیح ترین نسخہ کہاہے ۔
بلکہ مغربی طباعت کے محقق نے ایک دوسری جگہ اور واضح انداز میں اس نسخہ کو استناد کے لحاظ سے ہی سب سے صحیح نسخہ بتلایا ہے چنانچہ ، اس نسخہ کی ایک جلد کے کئی مقامات کو محقق نہیں پڑھ پارہے تھے تو انہوں نے یہاں الگ نسخے سے مدد لی لیکن اس الگ نسخہ کو بکثرت تصحیف اور نقص والا قراردیا اس کے بعد استنبول والے نسخے کے بارے میں کہا:
’’فهي صحيحة نسبيا ولكنها في معظمها لا تقرأ‘‘
’’یہ (استنبول والا نسخہ ) پہلے نسخہ سے زیادہ صحیح ہے لیکن اس کا اکثر حصہ پڑھے جانے کے قابل نہیں‘‘ [ التمہید لابن عبدالبر ، الطبعۃ المغربیۃ ، ج:۸،مقدمہ ص:۳ ]
ایک اور مقام پر اسی محقق نے لکھا:
’’وهي أحسن النسخ و أوفاها‘‘
’’اور یہ (استنبول والا نسخہ) سب سے بہترین اور مکمل نسخہ ہے‘‘[ التمہید لابن عبدالبر ، الطبعۃ المغربیۃ ، ج: ۹،مقدمہ ص:۳]
معلوم ہوا کہ یہ نسخہ سب سے بہترین نسخہ ہے۔
مغربی طباعت کے محقق نے اس نسخہ کے بارے میں جو یہ کہا کہ اس میں تصحیف اور تحریف کم ہے اس کو لیکر اجماع والوں کی یہ بے تکی ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں:
’’اسی استنبول کے نسخہ میں کچھ تحریف اور تصحیف بھی واقع ہوئی ہے جس کو کفایت اللہ صاحب نے چھپا لیا ہے اور صرف اپنے مطلب کی عبارت نقل کی‘‘ [ الاجماع شمارہ:۸، ص:۴ ]
عرض ہے کہ یہ اس نسخہ کے صحیح ترین اور سب سے بہتر ہونے کی دلیل ہے کہ اس میں تصحیف اور تحریف بہت کم ہے ، کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مخطوطہ ایسا نہیں ہوتا جس میں ناسخ سے نادانستہ طور پر تصحیف اور تحریف نہ ہوتی ہو، اور یہی وجہ ہے کہ نسخہ نقل کرنے کے بعد اس کا اصل سے مقابلہ کیا جاتا ہے اور تصحیف اور تحریف کو درست کیا جاتا ہے ۔لیکن ناسخ اور مقابلہ کرنے والے انسان ہی ہوتے ہیں اس لئے ہزار کوشش کے بعد بھی بتقاضائے بشریت ہر نسخہ میں کچھ تصحیف و تحریف رہ جاتی ہے ۔
بنابریں کوئی بھی نسخہ تصحیف و تحریف سے مکمل پاک نہیں ہوتا البتہ جس نسخہ میں تصحیف و تحریف سب سے کم ہو وہی نسخہ سب سے زیادہ معتبرہوتا ہے ، اور محقق بھی یہ بات کہہ کر یہی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یہ نسخہ سب سے بہترین ہے۔
رہی بات یہ کہ ہم نے یہ بات نقل نہیں کی تو عرض ہے کہ ہم نے اس سے پہلے موجود ’’اصح النسخ‘‘ والی بات بھی تو نقل نہیں کی تھی ، ہم تو صرف یہ دکھا رہے تھے کہ محقق کے بقول اس نسخہ کے بعض حروف پڑھنے کے قابل نہیں ہیں ، اس لئے صرف اتنے الفاظ نقل کئے جن میں یہ بات تھی ، باقی اگلے جملے کا اس سے تعلق نہیں تھا اس لئے اسے نقل نہ کیا ۔اور یہ اگلا جملہ ہمارےخلاف بھی تو نہیں ہے کہ یہ شک کیا جائے کہ اسے جان بوجھ کر چھوڑ دیاگیا بلکہ یہ تو الحمدللہ ہمارے حق میں ہی ہے ۔لیکن متعلقہ مقام پر اسے نقل کرنے کی ضرورت نہ تھی ۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مغربی طباعت کے محقق سعید اعراب زیربحث روایت میں موجود لفظ ”الثندوة“ ٹھیک سے پڑھ نہیں سکے جس کو انہوں نے اندازے سے ”السرۃ“ بنادیا جو کہ غلط ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
مغربی طباعت اور اوقاف کا نسخہ

واضح رہے کہ اس روایت کی تحقیق میں ان کے سامنے صرف یہی ایک مخطوطہ تھا ، اور اس جلد کی تحقیق میں ان کے سامنے جو دوسرا مخطوطہ تھا اس میں یہ حصہ تھا ہی نہیں جیساکہ خود محقق نے شہادت دے دی ہے جس کی تفصیل ہم’’ انوار البدر ‘‘میں پیش کرچکے ہیں ۔
لیکن اجماع والوں کی ہٹ دھرمی اور ضد دیکھئے کہ مدعی سست گواہ چست کے اصول پر عمل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ اوقاف کے نسخہ میں ’’التندوۃ‘‘ نہیں ہے ، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اوقاف کے نسخہ میں ’’السرۃ ‘‘موجود نہ ہو کیونکہ یہ بات محال ہے کہ ایک لفظ مخطوطات میں نہ ہو مگر ایک محقق اس کو اپنی طرف سے بڑھا دے ، لہٰذا اہمارے نزدیک ’’التمہید‘‘کے محقق شیخ سعید اعراب صاحب کو اوقاف کے نسخہ سے کچھ نہ کچھ اشارہ ضرور ملا ہوگا کہ یہاں پر ’’السرۃ‘‘ ہونا چاہے نہ کہ ’’التندوۃ‘‘ ‘‘[ الاجماع شمارہ:۸، ص:۵ ]
عرض ہے کہ:
یہاں محقق نے اپنی طرف سے کوئی لفظ بڑھا یا نہیں ہے بلکہ استنبول والے مخطوطہ میں موجود ایک لفظ کو غلط پڑھ کر اسی کو تبدیل کیا ہے ،اور محقق نے یہ ہرگز نہیں کہا ہے کہ اوقاف کے نسخہ میں ’’التندوۃ‘‘ نہیں ہے ، بلکہ محقق نے یہ کہا ہے کہ ’’التندوۃ‘‘ استنبول کے نسخہ میں ہے اور اوقاف کے نسخہ کے بارے میں محقق نے یہ کہا کہ اوقاف کے نسخہ میں یہ لفظ اور یہ حصہ موجود ہی نہیں ہے ۔
اس لئے ”الاجماع“ والے اجماع کے نام پر زور زبردستی قیاس آرائی نہ کریں ، جب محقق نے پوری صراحت کے ساتھ کہہ دیا کہ اوقاف والے نسخہ میں یہ لفظ موجود ہی نہیں تو زور زبردستی اس میں اس کے وجود کا گمان کرنا اور یہ کہنا کہ محقق کو اس سے اشارہ ملا ہوگا ، انتہائی لایعنی اور بالکل خلاف حقیقت بات ہے ، اگر ایسا ہی تھا تو محقق اس لفظ کے لئے استنبول کے بجائے اوقاف والے نسخہ ہی کا حوالہ دیتے ، اور یہ کہتے کہ اوقاف والے نسخہ میں ’’السرۃ‘‘ ہے اور استنبول والے نسخہ میں ’’التندوۃ‘‘ ہے ، لیکن محقق نے ایسا بالکل نہیں کہا ہے بلکہ انہوں نے اس لفظ کے لئے صرف اور صرف استنبول والے نسخہ کا حوالہ دیا ہے اور اوقاف والے نسخہ میں اس کے وجود ہی سے انکار کیا ہے۔
واضح رہے کہ’’ اوقاف‘‘، یہ نسخہ کہ اصل نسبت نہیں ہے ، ’’التہمید‘‘ کے کسی بھی محقق نے ’’التہمید‘‘ کے کسی بھی مخطوطہ کو اوقاف کی طرف منسوب نہیں کیا ہے ، دراصل ’’التہمید‘‘ کو سب سے پہلے اوقاف والوں نے چھپوایا اور انہیںحضرات نے شروع میں مختلف لائبریوں سے جو مخطوطات فراہم کئے تھے ان مخطوطات کو محقق نے اوقاف کی طرف منسوب کیا ہے، اور اس ضمن میں ہر نسخہ کا واضح تعارف نہیں کرایا ہے ، لیکن جب ہم دیگر محققین کے مطبوعہ نسخوں اور ان کے مقدمہ میں نسخوں کا تعارف دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ نقص والا نسخہ مکتبہ تیموریہ کا ہے ، اوراس میں اس روایت سے پہلے اور بعد کا حصہ موجود ہے، مگر یہ روایت موجود ہی نہیں ہے ۔
ملاحظہ ہو آگے اس نسخہ کا اسکین جس میں یہ پوری روایت ہی ساقط ہے :

17.jpg

اجماع والوں نے میڈیکل ڈاکٹر دکتور عبدالمعطی قلعجی کے مطبوعہ نسخہ کا اسکین پیش کیا ہے ، انہوں نے بھی اپنے نسخہ میں لکھا ہے کہ تیمویہ کے نسخہ سے یہ روایت ساقط ہے ۔ دیکھئے:[ التمہید لابن عبدالبر ، تحقیق عبدالمعطی قلعجی : ج:۲۴، ص:۱۱۰، حاشیہ:۱]
الغرض کہ مغربی طباعت کے محقق کے سامنے زیر بحث روایت کے لئے صرف اور صرف ایک ہی مخطوطہ تھا،اوراس میں لفظ ”الثندوة“ کو ٹھیک طرح سے وہ پڑھ نہیں سکے اس لئے اندازے سے اسے ”السرة“ بنادیا ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
’’الاجماع‘‘ والو ں کے پیش کردہ مطبوعہ نسخوں کی حیثیت

بہرحال جب پہلی بار ’’التمہید‘‘ چھپی اور اس میں اس روایت کے اندر محقق نے غلطی سے ”الثندوة“ کو ”السرة“ بنا دیا تو اس کے بعد کئی ایک لوگوں نے اسی پہلے ایڈیشن ہی کو دوبارہ چھاپا کیونکہ پہلا ایڈیشن آج کی طرح خوبصورت کمپوزنگ کے ساتھ نہیں چھپا تھا ، اس لئے بعض نے اسے دوبارہ کمپوز کرکے چھاپا ، اور بعض نے عربی عبارات پر تشکیل کے لئے بھی اسے دوبارہ چھاپا ، اور بعض نے روایات کی تخریج کے لئے اسے دوبارہ چھاپا اور بعض نے فقہی اعتبار سے اسے الگ سے مرتب کرتے ہوئے اسے دوبارہ چھاپا ، ان حضرات نے اس کتاب کی نئے سرے سے تحقیق نہیں کی ہے جیساکہ ”الاجماع“ والوں نے قارئین کو مغالطہ دیا ہے ، بلکہ انہوں نے محض پہلے ایڈیشن ہی سے نقل کرکے دوسرا نسخہ تیار کیا ہے ، ”الاجماع“ والوں کی طرف سے پیش کردہ درج ذیل نسخوں کا یہی حال ہے :
  • ۱۔ نسخہ محمد عبدالقادر عطاء
  • ۲۔ نسخہ محمدبن ریاض الاحمد
  • ۳۔ نسخہ عبدالرزاق المہدی
  • ۴۔ نسخہ شہاب الدین ابو عمر
  • ۵۔ ھدایۃ المستفید من کتاب التمہید
  • ۶۔ فتح البر فی الترتیب الفقہی لتمہید ابن عبدالبر
مذکورہ بالا سبھی مطبوعہ نسخوں میں سے کوئی بھی نسخہ قلمی مخطوطات کو سامنے رکھ کر تیار نہیں کیا گیاہے ، بلکہ پہلے سے طبع شدہ مغربی نسخے ہی سے تیار کیا گیا ہے ، قارئین ان نسخوں کو اٹھا اٹھا کر دیکھ لیں ان میں سے کسی بھی نسخہ کے مرتب یا محقق نے یہ دعویٰ کیا ہی نہیں ہے کہ اس نے قلمی مخطوطات کو سامنے رکھ کر اسے تیار کیا ہے اور نہ ہی ان میں سے کسی بھی نسخہ میں کسی قلمی نسخہ کا کوئی تعارف ہے ۔
جبکہ یہ معروف بات ہے کہ جب کسی کتاب کی حقیقی تحقیق کی جاتی ہے تو محقق شروع میں ان قلمی نسخوں کا تعارف پیش کرتا ہے بلکہ بعض صفحات کے اسکین بھی دیتا ہے جن کو سامنے رکھ کر وہ کتاب کی تحقیق کرتا ہے ، لیکن قارئین آپ یہ سارے نسخے اٹھا کر دیکھ لیں ان میں سے کسی بھی نسخہ میں یہ بات قطعاً نہیں ہے ۔
دراصل یہ سارے نسخے حقیقی معنوں میں الگ الگ تحقیق شدہ نسخے نہیں ہیں بلکہ سب ایک ہی نسخے یعنی ’’التمہید‘‘ کی پہلی طباعت سے تیار کیے گیے ہیں، اس کی زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ ان تمام نسخوں کا مواد پوری طرح سے مغربی طباعت والے نسخے کے مواد سے میچ ہوتا ہے ، کوئی بھی موازنہ کرکے دیکھ لے۔
لہٰذا جب حقیقت حال یہ ہے کہ یہ سارے نسخے اصلی معنوں میںتحقیقی نسخے ہیں ہی نہیں ، بلکہ ایک ہی نسخوں سے نقل کئے گئے ہیں تو ظاہر ہے کہ جب پہلے نسخہ میں جو غلطی ہوگی وہ ان سارے نسخوں میں بھی نقل ہوگی ، اس طرح ان سارے نسخوں کی حیثیت دراصل ایک ہی نسخے کی ہے ۔
اس وضاحت سے ”الاجماع“ والوں کی یہ بے چینی دور ہوجانی چاہئے کہ ہم نے ’’انوار البدر‘‘ میں ان مطبوعہ نسخوں کے حوالے کیوں نہیں دئے ۔
محترم !ہم نے ’’انوار البدر‘‘ میں مغربی طباعت کا حوالہ اور اسکین دیا ہے ، وہ ایک حوالہ ہی مذکورہ تمام نسخوں کے حوالےکے برابر ہے کیونکہ یہ سارے نسخے اسی مغربی مطبوعہ نسخے ہی سے تیار کئے گئے ہیں ۔
نوٹ:
ہم یہ وضاحت کرچکے ہیں کہ ”الاجماع“ والوں کی طرف سے پیش کردہ مذکورہ نسخوں میں سےکسی بھی مطبوعہ نسخے میں قلمی نسخے لیکر تحقیق کا دعویٰ بھی نہیں ہے ،لیکن ان میں شہاب الدین ابو عمر کا جو نسخہ ہے اس کے ٹائٹل پیج پر لکھا ہے:
’’طبعة محققة ومقابلة علٰي أصول خطية‘‘
اور نیچے لکھا ہے :
’’حققہ وضبطہ ، شھاب الدین ابوعمر‘‘
یہاں نیچے کی سطر میں تحقیق و ضبط کا جو کام ہے ، محض یہ کام اس نسخے میں شہاب الدین ابوعمر صاحب کا ہے، وہ بھی اس معنی میں کہ انہوں نے مغربی طباعت والے نسخے سے اسے نقل کرکے اس کی پروف ریڈنگ کی ہے ، لیکن اوپر کا جو جملہ ہے جس میں اصل تحقیق اور خطی نسخوں سے تقابل کی بات ہے اس سے مراد شہاب الدین ابوعمر کا کام نہیں ہے بلکہ اس سے مراد مغربی طباعت والوں ہی کا کام ہے ۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ اس نسخہ میں شہاب الدین ابوعمر صاحب نے کسی بھی قلمی نسخے سے تحقیق یا مقابلہ کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے اور نہ ہی کسی قلمی نسخے کا اسکین پیش کیا ہے ، جیساکہ اصل تحقیق کا دستور ہے ، مزید یہ کہ اس نسخہ کا مواد پوری طرح مغربی طباعت والے نسخہ سے میچ کرتا ہے۔
دراصل یہ ایک طرح کی تدلیس ہے ، صرف کتاب کی مارکیٹنگ کے لئے یہ جملہ اس طرح لکھ دیا گیا ہے کہ محض ٹائٹل دیکھنے والے کو لگے کہ یہ کوئی نئی تحقیق ہے ، لیکن کتاب کھولتے ہی اس کی پول کھل جاتی ہے ۔
الغرض یہ کہ ”الاجماع“ والوں کی طرف سے پیش کردہ مذکورہ چھ (۶) نسخوں کی کوئی علیحدہ حیثیت نہیں بلکہ یہ سب ایک ہی نسخے سے یعنی مغربی طباعت والے نسخے سے نقل کئے گئے ہیں اور ہم ماقبل میں واضح کرچکے ہیں کہ اس مغربی طباعت کے اس محقق نے کس طرح غلطی کی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
باقی دو نسخوں کی حقیقت

البتہ ”الاجماع“ والوں نے مذکورہ نسخوں کے علاوہ دو اور نسخہ پیش کیا ہے ان دونوں نسخوں کے محقق نے بے شک اصل تحقیق کادعویٰ کیا ہے ،اور مقدمہ میں قلمی نسخوں کا تعارف بھی کرایا ہے ، لیکن اس کے باوجود بھی یہ دونوں نسخے ناقابل اعتبار ہیں تفصیل ملاحظہ ہو:

میڈیکل ڈاکٹر عبدالمعطی قلعجی کا نسخہ
جس طرح ہندوستان میں بہت سارے بردرز عصری علوم حاصل کرتے ہیں پھر اپنا میدان چھوڑ کر اسلامی اسکالر بنتے جاتے ہیں ایسے ہی عالم عرب میں بھی بہت سارے بردرز ہیں ، انہیں میں سے ایک عبدالمعطی قلعجی ہیں جو میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور تدلیس سے کام لیتے ہوئے خود کو دکتور لکھتے ہیں جس سے بعض لوگوں کو مغالطہ ہوتا ہے کہ یہ شاید شرعی علوم میں دکتور ہیں ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسی لئے ان صاحب کو خبیث تدلیس والا کہا ہے۔ دیکھئے :[ سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة:۱۲؍۴۸۱]
بہرحال یہ میڈیکل ڈاکٹر ہیں لیکن موصوف نے علوم حدیث وغیرہ سے متعلق کتابوں کی تحقیق کا شوق پال رکھاہے اور اپنی ہر تحقیق میں عجیب گل کھلاتے ہیں ، اسی لئے باذوق باحثین کے یہاں سب سے بد ترین تحقیق انہیں کی ہوتی ہے ۔
اس کتاب یعنی ’’التمہید‘‘ میں بھی انہوں نے عجیب وغریب گل کھلائے ہیں ، مثلاً سب سے بڑا لطیفہ یہی دیکھئے کہ حضرت نے یہ دعویٰ کردیا کہ انہوں نے بیس سے زائد قلمی نسخوں سے تحقیق کی ہے ، حالانکہ موصوف نے صرف سات(۷) ہی مخطوطات سے تحقیق کی ہے جیساکہ مقدمہ میں انہوں نے سات (۷)مخطوطات کا ذکر کیا ہے ۔دیکھئے :[ التمہید لابن عبدالبر ، تحقیق عبدالمعطی قلعجی: ص:۷۳۹ تا۷۴۶]
لیکن چونکہ انہوں نے ’’التمہید‘‘ کی پہلی مغربی طباعت کو بھی سامنے رکھا ہے اس لئے مغربی طباعت والوں نے جن مخطوطات سے تحقیق کی تھی ان مخطوطات کو بھی اپنے کھاتے میں ڈال دیا اور یوں لکھا :
’’ومعلوم أن الإبرازة المغربية اعتمدت علي حوالي (۱۵) نسخة خطية متفرقة اعمدتها كلها وقابلت عليها مدققا ومصححا إلي الصواب من كلام أبي عمر ابن عبدالبر فصار المجموع (۲۲) نسخة خطية‘‘
’’یہ بات معلوم ہے کہ مغربی طباعت نے تقریباً (۱۵) متفرق مخطوطات پر اعتماد کیا ہے ، میں نے بھی ان سب پر (یعنی مطبوعہ نسخہ کے ذریعہ ) اعتماد کیا ہے ، اور اس کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے ابن عبدالبر کی عبارات کی اصلاح کی ہے تو اس طرح کل (۲۲) مخطوطات ہوگئے‘‘دیکھئے :[ التمہید لابن عبدالبر ، تحقیق عبدالمعطی قلعجی : ص :۷۳۹]
قارئین دیکھئے اس میڈیکل ڈاکٹر کی دھاندھلی بازی !
کس طرح زور زبردستی موصوف نے محض مغربی طباعت کے مطبوعہ نسخہ کو سامنے رکھ کر مغربی طباعت والوں کے مخطوطات کو بھی اپنے کھاتے میں ڈال دیا اور مجموعی تعداد (۲۲) تک پہنچادی ، سبحان اللہ !
حالانکہ انہوں نے جن سات(۷) مخطوطات کو سامنے رکھا ہے ان میں سے بھی بعض مخطوطات مغربی طباعت والوں کے مخطوطات میں شامل ہیں ۔ پھر بھی یہ صاحب پتہ نہیں کس طرح حساب لگا کر مخطوطات کی مجموعی تعداد (۲۲) بتلارہےہیں ۔ اس اعتبار سے تو یہ میڈیکل ڈاکٹر بھی کہلانے کے لائق نہیں چہ جائے کہ علمی طور پر انہیں دکتور کہا جائے ۔
قارئین کرام !
یہیں سے آپ یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ عبدالمعطی صاحب کے نسخہ میں ”الثندوة“ کی جگہ ”السرة“ کیوں ہے ؟
دراصل موصوف کی کل کائنات ’’التمہید‘‘ کا پہلا مطبوعہ نسخہ ہی ہے ، یہ صاحب نہ صرف یہ کہ اس مطبوعہ نسخہ پر اعتماد کررہے ہیں بلکہ اس کے سہارے دوسرے قلمی نسخوں میں موجود ابن عبدالبر کی عبارات بھی درست کرنے کا دعویٰ کررہے ہیں ، اب ظاہر ہے کہ جب اس مطبوعہ نسخہ میں بھی ”السرة“ ہی ہے تو ان کے نسخے میں بھی یہی لفظ رہے گا۔
مزید تسلی کے لئے ہم یہ بھی واضح کردیتے ہیں کہ ان کے پیش نظر سات (۷) مخطوطات میں سے صر ف اور صرف دو مخطوطات ہی میں زیر بحث روایت والا حصہ ہے ۔
➊ ایک مخطوطہ دارا الکتب المصریہ رقم (۷۱۶) کا ہے ۔ دیکھئے :( التمہید لابن عبدالبر ، تحقیق عبدالمعطی قلعجی : ص:۷۳۹ )
➋ اور دوسرا مخطوطہ دار الکتب المصریہ رقم (۳۱۵) کا ہے۔دیکھئے :( التمہید لابن عبدالبر ، تحقیق عبدالمعطی قلعجی : ص :۷۴۶)
ان دونوں مخطوطات میں ”الثندوة“ ہی کا لفظ ہے جیساکہ ہم ان دونوں کا اسکین پیش کرچکے ہیں دیکھئے یہی مجلہ صفحہ (۱۱) اور صفحہ (۱۸)
ان دونوں کے علاوہ ایک مخطوطہ مکتبہ تیموریہ کا بھی ہے لیکن اس میں گرچہ اس روایت سے آگے پیچھے کا حصہ ہے لیکن عین یہ روایت جس مقام پر تھی اس مقام سے یہ روایت والا حصہ غائب ہے۔اس کا اسکین دیا جا چکا ہے دیکھیں: ص:(۳۶)
خود عبدالمعطی صاحب نے بھی اپنے نسخہ میں اس مقام پر زیر بحث روایت اور اس سے ماقبل کی سطرکو بریکٹ [ ] میں رکھ کر حاشیہ میں لکھا ہے کہ :
’’ما بين الحاصرتين سقط في (ت)‘‘
’’یعنی بریکٹ کی عبارت ت (یعنی نسخہ تیموریہ ) سے ساقط ہے‘‘دیکھئے :[ التمہید لابن عبدالبر ، تحقیق عبدالمعطی قلعجی : ج:۲۴، ص:۱۱۰، حاشیہ :۱ ]
یعنی عبدالمعطی صاحب کے پاس صرف اور صرف دو ہی مخطوطات تھے جن میں یہ روایت تھی اور ان دونوں مخطوطات میں ”الثندوة“ ہی کا لفظ ہے ۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ عبدالمعطی صاحب نے مغرب کے مطبوعہ نسخہ ہی پر اعتماد کیا ہے اورجس طرح مغرب کے مطبوعہ نسخہ میں اس روایت میں ”السرة“ تھا ویسے انہوں نے بھی نقل کردیا ۔
اور یہ بھی معلوم ہوا کہ موصوف نے اپنی تحقیق میں ہر ہر لفظ کا دقت کے ساتھ مقابلہ کیا ہی نہیں ہے بلکہ سرسری نظر ڈال کر تحقیق کا دعویٰ کرلیا ، چنانچہ موصوف نے اس لفظ کا مقابلہ اپنے پاس موجود مخطوطات سے کیا ہی نہیں، بلکہ سرسری طور پر صرف پوری روایت دیکھ کر آگے بڑھ گئے ۔
کیونکہ ایک مخطوطہ میں پوری روایت موجود نہیں تھی تو اس کی وضاحت کردی ،مگر ایک لفظ دو نوں مخطوطات میں ”الثندوة“ تھا اور صرف مطبوعہ نسخہ میں ”السرة“ تھا اس کی کوئی بھی وضاحت نہیں کی ہے ۔
اس تفصیل سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ زیر بحث مسئلہ میں عبدالمعطی صاحب کے نسخہ کی بھی کوئی علیحدہ حیثیت نہیں ہے بلکہ انہوں نے مغرب کے مطبوعہ نسخہ ہی سے یہ روایت نقل کرکے اسی غلطی کو دہرا دیا ہے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
شیخ اسامہ بن ابراہیم کا نسخہ
رہی بات شیخ اسامہ بن ابراہیم کے نسخہ کی تو اس مسئلہ میں اس نسخہ کا حوالہ بھی بے سود ہے ، کیونکہ شیخ اسامہ بن ابراہیم بھی مغربی مطبوعہ نسخہ سے دھوکہ کھا گئے ہیں ، کیونکہ انہوں نے اپنی تحقیق میں اصل مغربی مطبوعہ نسخہ ہی کو بنایا ہے۔ چنانچہ موصوف خود لکھتے ہیں:
’’قمت بمقابلة الطبعة الأولي للكتاب التي طبعت بمعرفة وزارة الأوقاف المغربية علٰي عدد من النسخ الخطية التي ياتي الحديث عن وصفها بالتفصيل‘‘
’’ التمہید‘‘ کی جو پہلی طباعت ہے جسے وزارۃ الاوقاف المغربیہ نے چھاپا ہے ، میں نے اسی نسخے کو لیکر اس کا مقابلہ چند مخطوطات سے کیا ہے جن کاتعارف آگے تفصیل سے آرہا ہے‘‘[ التمهيد لابن عبدالبر ، تحقيق اسامه بن ابراهيم ، ج:۱، ص:۷۰]
شیخ اسامہ بن ابراہیم کے اس بیان سے یہ واضح ہوگیا کہ انہوں نے اس کتاب کی تحقیق میں مغربی طباعت ہی کو اصل بنایا ہے پھر ان کو اس کتاب کے جو مخطوطات ملے ان سے اس مطبوعہ نسخہ کا مقابلہ بھی کیا ہے ، اور اس کتاب کے جس حصہ سے متعلق ان کو کوئی مخطوطہ نہیں ملا اسے پہلی طباعت ہی پر اعتماد کرتے ہوئے درج کیا ہے۔جیساکہ موصوف لکھتے ہیں:
’’وهنالك مواضع لم أستطع فيها الوقوف علٰي أصول لمقابلتها علي المطبوع فاعتمدت فيها علي المطبوع‘‘
’’اور اس کتاب کے کچھ حصے ایسے ہیں جن کے اصل مخطوطات مجھے نہیں مل سکے ایسے مقامات پر میں نے مطبوعہ نسخہ (یعنی مغربی مطبوعہ نسخہ ) پر ہی اعتماد کیا ہے‘‘[ التمهيد لابن عبدالبر ، تحقيق اسامه بن ابراهيم ، ج:۱، ص:۸۳]
شیخ اسامہ بن ابراہیم کی ان توضیحات سے واضح ہے انہوں نے ’’التمہید‘‘ کے پہلے مغربی مطبوعہ نسخہ ہی کو اصل بنایاہے اور اس نسخہ کے جن جن حصوں کے مخطوطات ان کو ملے ان حصوں کا ان مخطوطات سے مقابلہ بھی کیا ہے۔
ایسے حالات میں اگر مقابلہ میں کہیں بھی چوک ہوگی تو ظاہر ہے کہ ان کے نسخہ میں بھی وہاں وہی الفاظ ہوں گے جو پہلے مطبوعہ نسخہ میں تھے ۔
اور زیر بحث مسئلہ میں ایسا ہی ہوا ہے ، چنانچہ زیر بحث روایت جس مقام پر ہے اس مقام سے متعلق شیخ اسامہ بن ابراہیم کو تین مخطوطات ملے ہیں ۔
➊ پہلا مخطوطہ مخطوطہ دارالکتب المصریہ رقم (۷۱۶) کا ہے ۔[ التمهيد لابن عبدالبر ، تحقيق اسامه بن ابراهيم، ج:۱، ص:۷۷]
➋ دوسرا مخطوطہ دار الکتب المصریہ رقم (۳۱۵) کا ہے۔[ التمهيد لابن عبدالبر ، تحقيق اسامه بن ابراهيم ، ج:۱، ص:۷۸]
➌تیسرا مخطوطہ کوبریلی ، الجزء التاسع رقم (۳۴۹) کا ہے ۔[ التمهيد لابن عبدالبر ، تحقيق اسامه بن ابراهيم، ج:۱، ص :۸۲]
ان تینوں مخطوطات میں ”الثندوة“ ہی کا لفظ ہے جیساکہ ہم ان تینوں کا اسکین پیش کرچکے ہیں دیکھئے یہی مجلہ صفحہ (۱۱) ،صفحہ (۱۸)اور صفحہ(۲۰)
ان تینوں کے علاوہ ایک مخطوطہ مکتبہ تیموریہ کا بھی ان کے پاس تھا لیکن اس میں گرچہ اس روایت سے آگے پیچھے کا حصہ ہے لیکن عین یہ روایت جس مقام پر تھی اس مقام سے یہ روایت والا حصہ غائب ہے اس کی وضاحت ماقبل میں ہم کرچکے ہیں دیکھئے یہی مجلہ ص (۳۵تا۳۶ )
قارئین کرام !
اب غور فرمائیں کہ شیخ اسامہ بن ابراہیم کے پاس موجود تینوں مخطوطات میں ”الثندوة“ ہی کا لفظ تھا تو پھر آخر انہوں نے ’’السرۃ ‘‘کا لفظ کیسے درج کردیا ؟
اس کی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ اس مقام پر موصوف اس مغربی مطبوعہ نسخہ ہی سے دھوکہ کھاگئے ہیں جس کو اصل بنا کر وہ اپنا نسخہ تیار کررہے تھے اور خاص اس لفظ کا مقابلہ نہیں کرسکے ورنہ جب تین کے تینوں مخطوطات میں ”الثندوة“ تھا تو انہیں کم ازکم نسخوں کا اختلاف تو بتلانا چاہئے تھا جیساکہ تحقیق کا اصول ہے ۔
لیکن شیخ اسامہ بن ابراہیم کا یہاں پر نسخوں کا اختلاف نہ بتلانا صاف دلیل ہے کہ آں جناب خاص اس لفظ کا مقابلہ اپنے پاس موجود مخطوطات کے الفاظ سے نہیں کرسکے ہیں ۔
میں نے بذات خود شیخ اسامہ بن ابراہیم سے اس سلسلے میں گفتگو کی اوران کے سامنے یہی بات رکھی کہ آپ نے جن مخطوطات کے سہارے کتاب کے اس حصہ کی تحقیق کی ہے ان تمام مخطوطات میں یہاں ”الثندوة“ ہی ہے پھر آپ نے اپنی تحقیق میں یہاں ”السرة“ کیسے درج کردیا تو موصوف نے جواب دینے کے لئے تین دن کا وقت مانگا لیکن پھر میں نے تقریبا ًایک ہفتہ بعد ان سے یہ سوال دہرایا تو آں جناب نے کہا کہ میں ابھی تک مراجعہ نہیں کرسکا ، پھر دس پندرہ دن کے بعد میں نے رابطہ کیا تو موصوف نے کہا کہ مجھے اور وقت دیں میرے پاس ابھی وہ مخطوطات نہیں ہیں جنہیں لیکر میں نے تحقیق کی تھی ۔
بہر حال شیخ اسامہ بن ابراہیم نے جواب دینے کے لئے مزید وقت مانگا ہے لیکن تاحال وہ ہماری بات کو غلط نہیں کہہ سکے ہیں اور ہماری پیش کردہ تفصیلات کی روشنی میں ہر شخص یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ بلا شبہ شیخ اسامہ بن ابراہیم صاحب سے بھی چوک ہوئی ہے اور چونکہ انہوں نے بھی اپنی تحقیق میں ’’التمہید‘‘ کی پہلی طباعت ہی کو اصل بنایا ہے اس لئے اس روایت کے معاملے میں ان کے نسخہ کا حوالہ بھی مفید نہیں ۔
قارئین کرام !
مذکورہ بالا تفصیلات سے آپ یہ جان چکے ہیں کہ”الاجماع“ والوں نے جتنے بھی مطبوعہ نسخوں کا حوالہ دیا جن میں ”السرة“ کا لفظ ہے ان سب کا ماخذ ایک ہی مطبوعہ نسخہ ہے جو سب سے پہلے چھپا تھا جس کے محقق نے غلط فہمی میں ”الثندوة“ کو ”السرة“ بنادیا تھا ۔اس اعتبار سے ان سارے نسخوں کی حیثیت ایک ہی نسخے کی ہے ۔
اب آئیے ہم آپ کے سامنے ’’التمہید‘‘ کے ان مطبوعہ نسخوں کا حوالہ دیتے ہیں جن کے محققین نے باقاعدہ قلمی نسخوں سے ’’التمہید‘‘ کی تحقیق کی ہے اور اپنے نسخہ میں صحیح لفظ ”الثندوة“ ہی درج کیا ہے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی کی تحقیق والا نسخہ

’’التمہید‘‘کی مغربی طباعت کے بعد دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی نے اسی کتاب کی تحقیق کی ہے اور ان کی تحقیق میں زیربحث روایت کو شامل جتنے بھی مخطوطات تھے سب میں ”الثندوة“ ہی کا لفظ ہے ۔
یہ کل تین مخطوطات تھے جن کی تفصیل یہ ہے:
➊ پہلا مخطوطہ :
دار الکتب المصریہ رقم (۷۱۶) سے مصور معہد المخطوطات کا مخطوطہ رقم (۱۶۴) دیکھئے :[ موسوعة شروح الموطأ ، تحقيق دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی ، ج:۱، ص:۱۷۴]
➋ دوسرا مخطوطہ:
دار الکتب المصریہ رقم (۳۱۵) سے مصور معہد المخطوطات کا مخطوطہ رقم (۱۶۶) ۔دیکھئے :[ موسوعة شروح الموطأ، تحقيق دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی ، ج:۱، ص:۱۷۵]
➌ تیسرا مخطوطہ:
ے نسخہ کوبریلی ، الجزء التاسع رقم (۳۴۹) کا مخطوطہ ۔دیکھئے : [موسوعة شروح الموطأ ، تحقيق دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی ، ج :۱، ص:۱۶۶،۱۶۵]
ان تینوں مخطوطات میں ”الثندوة“ ہی کا لفظ ہے ہم ان تینوں مخطوطات کے اسکین پیش کرچکے ہیں دیکھئے اسی مجلہ کے صفحات (۱۱،۱۸،۲۰)
اب آگے اس مطبوعہ نسخے کے اسکین ملاحظہ ہوں:
موسوعۃ شروح المؤطا ، تحقیق دکتور عبد اللہ بن عبد المحسن الترکی


18.jpg


19.jpg
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
قارئین کرام !
آپ نے دیکھ لیا دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی نے مخطوطات یعنی قلمی نسخوں سے ’’التمہید‘‘ کی تحقیق کی ہے اور اس روایت میں ”الثندوة“ کا لفظ ہی درج کیا، بلکہ ساتھ ہی حاشیہ میں انہوں نے میم (م) کا رمز دے کر یہ تنبیہ بھی کردی ہے کہ مغربی مطبوعہ نسخے میں یہاں ”السرة“ لکھا گیا ہے یعنی یہ قلمی نسخوں میں نہیں ہے لہٰذا غلط ہے ۔یادرہے کہ دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی اپنےنسخہ کے حواشی میں میم (م) کے رمز سے مغربی مطبوعہ نسخہ ہی کو مراد لیتے ہیں جیساکہ انہوں نے خود مقدمہ میں اس کی وضاحت کردی ہے ۔دیکھئے :[ موسوعة شروح الموطأ، تحقيق دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی ، ج:۱، ص:۱۹۹]

ہم نے اس مطبوعہ نسخہ کا اسکین اپنی کتاب ’’انوار البدر ‘‘میں بھی پیش کیا تھا ، جسے ”الاجماع“ والے غلط تو ثابت نہیں کرسکے البتہ سادہ لوح قارئین کو یہ پٹی پڑھائی ہے کہ یہ نسخہ ان کے پیش کردہ نسخوں کے خلاف ہے اس لئے مرجوح ہے ۔
عرض ہے کہ ہم نے گزشتہ صفحات میں ”الاجماع“ والوں کے پیش کردہ نسخوں کی پول کھول دی ہے کہ یہ سب مغربی طباعت ہی سے نقل کئے گئے ہیں ۔اس کے برعکس دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی نے بذات خود متعدد قلمی نسخوں سے اس کتاب کی تحقیق کی ہے اور یہ جانتے ہوئے کہ ان سے پہلے مطبوعہ نسخہ میں ”السرة“ کا لفظ لکھا گیا ہے ، اس کی قطعاً پیروی نہ کی بلکہ اس غلطی پر تنبیہ بھی کردی ، والحمدللہ ۔

”الاجماع“ والے دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی کی تحقیق کو غلط ثابت نہیں کرسکے تو ایک بے تکی بات یہ کہہ ڈالی کہ یہ سلفی اور غیر مقلد ہیں ، یہ منطق ان حضرات نے اپنے رضاعی بھائی بریلویوں سے مستعار لی ہے کہ جس کی بات کاجواب نہ بن پڑے اسے وہابی کہہ کر جان چھڑا لو اور اپنے عوام کو مطمئن کردو ۔
ہم عرض کرتے ہیں کہ اول تو کسی کے سلفی اورغیر مقلد ہونے سے اس کی بات کو ناقابل اعتماد بتلانا ہی مضحکہ خیز اور بریلوی علم کلام ہے ، ورنہ پھر احناف کو چاہئے کہ وہ اعلان کردیں کہ ان کی بات صرف احناف کے نزدیک ہی معتبرہوگی ، اور غیر حنفی ان کی بات پر بالکل اعتماد نہ کریں ۔
دوسرے یہ کہ احناف سے جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ آپ لوگ عقیدے میں امام ابوحنیفہ کی تقلید کیوں نہیں کرتے ؟ تو یہ حضرات کہتے ہیں کہ عقیدہ میں تقلید نہیں کی جاتی ، تو عرض ہے کہ دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی عقیدہ میں سلفی ہیں یعنی عقیدہ میں کسی کی تقلید نہیں کرتے ، جیساکہ خود احناف کا بھی یہی کہنا ہے ، لیکن فقہ میں دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی حنبلی ہیں یعنی احناف کے تقلیدی بھائی ہی ہیں، اس لئے ”الاجماع“ والوں کو ان پر ہم سے بھی زیادہ اعتماد کرنا چاہے۔
”الاجماع“ والوں نے ان کی کتاب اسباب اختلاف الفقہاء (۶۳،۶۴) سے یہ نتیجہ نکال لیا کہ یہ غیرمقلد ہیں حالانکہ ان دونوں صفحات میں کہیں بھی ان کی طرف سے تقلید کا انکار نہیں ہے ، بلکہ صفحہ (۶۴) کے اخیر میں تو ایک مسلک کے مقلد کو یہ ادب سکھلایا گیا ہے کہ وہ اپنے مسلک کے علاوہ دیگر مسالک کی باتیں بھی پڑھے ورنہ اس کے دل میں دوسرے مسلک کے خلاف اوران کے ائمہ کے خلاف نفرت پیدا ہوجائے گی ۔دیکھئے :[ اسباب اختلاف الفقہاء:ص:۶۴، آخری چارسطریں]
اس کے علاوہ دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی نے جو کتابیں لکھیں یا تحقیق کی ہیں ان میں چندکتابیں درج ذیل ہیں:
’’(۱)اصول مذهب الإمام أحمد بن حنبل ،(۲) مناقب الإمام أحمد بن حنبل لابن الجوزي ، (۳)محنة الإمام أحمد ،(۴) الجوهر المحصل في مناقب الإمام أحمد بن حنبل،(۵) المدخل إلى مذهب الإمام أحمد بن حنبل ،(۶) الكافي في فقه الإمام أحمد ،(۷)الإقناع لطالب الانتفاع في فقه الإمام أحمد،(۸) المقنع والشرح الكبير والانصاف ، (۹) المغني لابن قدامة ،(۱۰) الفروع لابن مفلح ،(۱۱) الواضح في أصول الفقه ،(۱۲) شرح مختصر الروضة ، (۱۳)منتهى الإرادات (۱۴)هداية الراغب ‘‘۔
یہ تمام کی تمام کتابیں یا تو امام احمد رحمہ اللہ کے مناقب میں ہیں یا فقہ حنبلی میں ہیں ، کیا اب بھی کسی کو شک ہوسکتاہے کہ یہ حنبلی نہیں ہیں ؟
امید ہے کہ اس وضاحت کے بعد ”الاجماع“ والے اپنے مذہبی عالم کی تحقیق پر ضرور اعتماد کریں گے ۔
اور اب بھی کچھ کسر رہ جائے تو آگے ہم ایک حنفی محقق کی تحقیق سےمطبوع ’’التمہید ‘‘کا نسخہ بھی پیش کرتے ہیں ، ملاحظہ ہو:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
دکتور بشار عواد حنفی محقق ہیں اور انہوں نے سب سے آخر میں ’’التمہید‘‘ کی تحقیق کی ہے ، ان کی تحقیق سب سے جدید (Latest) تحقیق ہے ، انہوں نے بھی زیر بحث روایت میں ”الثندوة“ کا لفظ ہی درج کیا ہے دکتور بشار عوادکے سامنے بھی زیربحث روایت کو شامل جتنے بھی مخطوطات تھے سب میں ”الثندوة“ ہی کا لفظ موجود ہے ۔یہ کل تین مخطوطات تھے جن کی تفصیل یہ ہے:
➊ پہلا مخطوطہ : دار الکتب المصریہ رقم (۷۱۶) دیکھئے :[ التمھید لابن عبدالبر ، تحقيق دکتور بشار عواد ، ج:۱، ص:۳۴]
➋ دوسرا مخطوطہ: دار الکتب المصریہ رقم (۳۱۵) دیکھئے :[ التمھید لابن عبدالبر ، تحقيق دکتور بشار عواد ، ج:۱، ص:۳۴]
➌ تیسرا مخطوطہ: نسخہ کوبریلی ، الجزء التاسع رقم (۳۴۹) کا مخطوطہ ۔دیکھئے :[ التمھید لابن عبدالبر ، تحقيق دکتور بشار عواد ، ج :۱، ص :۲۴]
ان تینوں مخطوطات میں ”الثندوة“ ہی کا لفظ ہے ہم ان تینوں مخطوطات کے اسکین پیش کرچکے ہیں دیکھئے اسی مجلہ کے صفحات (۱۱،۱۸،۲۰)
قارئین کرام! اب ایک حنفی عالم کا حوالہ بھی پیش کردیا گیا ہے امید ہے کہ احناف کم از کم اس حنفی محقق پر ضرور ایمان لائیں گے ۔
حیرت ہے کہ ”الاجماع“ والوں نے غیر متعلق نسخے تو کئی پیش کئے لیکن دکتور بشار عواد والے نسخے کا پورے مضمون میں کہیں نام تک نہیں لیا ہے، بہرحال ہم نے یہ نسخہ بھی ہدیۂ قارئین کردیاہے والحمدللہ۔
قارئین کرام ! اب تک کی تحقیق سے آپ بخوبی جان چکے ہیں کہ’’ التمہید‘‘ کی اس روایت میں’’ السرۃ‘‘ کا لفظ قطعاً نہیں ہے بلکہ اس میں تو ”الثندوة“ کا لفظ ہے جو نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے پر دلالت کرتا ہے۔
یہاں تک ہم اس روایت کے متن میں اس لفظ کی تحقیق پیش کرچکے ہیں اب ان شاء اللہ اگلے شمارہ میں اس لفظ کے مفہوم اور اس کی سند پر مکمل بحث ہوگی اور ان حقائق کو سامنے لایا جائے گا جو تقلید اور اہل تقلید کی کرشمہ سازیوں سے اوجھل ہوچکے ہیں ۔
البتہ سردست یہ وضاحت دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ ”الاجماع“ والوں نے اس روایت کی اسی سند کو صحیح قرار دیا ہے جو ’’ التمہید‘‘ میں درج ہے ، اور متن کے اعتبار سے ہم ثابت کرچکے ہیں کہ یہ روایت سینے پر ہاتھ باندھنے کی دلیل ہے ، لہٰذا خود احناف کے اصول سے ہی صحیح سند سے سینہ پر ہاتھ باندھنا ثابت ہوگیا ۔ والحمد للہ۔

(ختم شد)
 
Top