مغربی طباعت اور استنبول کا نسخہ
عرض ہے کہ استنبول والا نسخہ یہ وہی کوبریلی ، استبول والا نسخہ ہی ہے جو اس کتاب کا سب سے بہترین نسخہ ہے ، جیساکہ ہم گزشتہ صفحات (۲۰تا۲۳) میں واضح کرچکے ہیں ۔ مغربی طباعت کے مقدمہ میں بھی اس کی صراحت موجود ہے۔ دیکھیں :[ التمہید لابن عبدالبر ، الطبعۃ المغربیۃ ، ج :۱، مقدمہ ص’’ ھ‘‘]
انوار البدر لکھتے وقت اس مخطوطہ کو ہم نہیں دیکھ سکے تھے ، لیکن اسی کتاب کے دوسرے محقق دکتور عبداللہ الترکی نے چونکہ ”الثندوة“ (ثاء تین نقطے کے ساتھ) لکھا تھا نیز خطیب بغدادی کی کتاب میں اثرم کی روایت میں بھی ”الثندوة“ کا لفظ تھا ، اس لئے ہم نے کہا کہ مغربی طباعت کے محقق سے مخطوطہ پڑھنے میں غلطی ہوئی ۔
بعد میں ہم نے یہ مخطوطہ دیکھا تو یہ بات بالکل سچ نکلی کیونکہ مخطوطہ میں صاف طور سے”الثندوة“ موجود ہے اور ثاء پر تین نقطے بھی موجود ہیں۔مغربی طباعت کے محقق کے پاس اس مخطوطہ کی تصویر تھی جیساکہ انہوں نے خود و ضاحت کی ہے ۔دیکھئے :[ التمہید لابن عبدالبر ، الطبعۃ المغربیۃ ، ج:۱۱، مقدمہ ص :۴ ]
اور اس لفظ کی تصویر ان کے پاس صاف نہیں آئی ہوگی اسی لئے انہوں نے دو نقطہ پڑھ لیا یا ان کی نظر کو دھوکہ لگا ہوگا ۔لیکن الحمد للہ ہمارے پاس اس مخطوطہ کے اس صفحہ کا بالکل صاف اسکین موجود ہے جس میں ”الثندوة“ کے ثاء پر تین نقطے صاف طور پر موجود ہیں ۔
اور مغربی طباعت کے محقق نے جو یہ لکھا ہے کہ اس مخطوطہ میں کئی جگہ حروف کے نشانات مٹے ہوئے ہیں اور پڑھے جانے کے قابل نہیں ہیں ، تو یہ ان کے پاس موجود تصویر کا نقص ہے یا صرف بعض حصوں کایہ معاملہ ہے ورنہ مخطوطہ دیکھنے کے بعد حقیقت یہ سامنے آئی کہ یہ مخطوطہ بہت صاف لکھا ہے اور صاف پڑھا جارہا ہے ۔ بلکہ دیگر محققین مثلاً دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی ، شیخ اسامہ بن ابراہیم اور دکتور بشار عواد وغیرہم نے بھی اپنے محقق نسخہ کے مقدمہ میں اس مخطوطہ کے بارے میں کہا ہے کہ یہ صاف پڑھا جارہاہے ۔
بلکہ خود مغربی طباعت کے محقق نے بھی عمومی طور پر اس مخطوطہ کے بارے میں یہی کہا ہے کہ یہ بہت صاف پڑھا جاتا ہے۔ مثلاً :
پہلی جلد کے مقدمہ میں ہے:
’’هي نسخة مكتبوبة بخط مغربي واضح‘‘
’’یہ نسخہ واضح مغربی رسم الخط میں لکھا ہوا ہے‘‘ [ التمہید لابن عبدالبر ، الطبعۃ المغربیۃ ، ج:۱، مقدمہ ص: د ]
اورگیارہویں جلد کے مقدمہ میں ہے :
’’وقد اعتمدنا علي هاته النسخة لأنها سالمة ومكتوبة بخط واضح‘‘
’’میں نے اسی نسخہ پر اعتماد کیا ہے کیونکہ یہ سالم اور واضح خط میں لکھا ہواہے‘‘ [ التمہید لابن عبدالبر ، الطبعۃ المغربیۃ ، ج:۱۱، مقدمہ ص ’’و‘‘]
اور اس بات پر تمام محققین کا اتفاق ہے کہ یہ سب سے مستند اور صحیح ترین نسخہ ہے ، بلکہ مغربی طباعت کے محقق نے بھی اس مخطوطہ کو ”اصح النسخ“ ’’سب سے زیادہ صحیح اور مستند قراردیا ہے‘‘ دیکھیں :[ التمہید لابن عبدالبر ، الطبعۃ المغربیۃ ، ج :۱، مقدمہ ص ’’ھ‘‘]
لیکن اجماع والوں نے نہ جانے کس عقل ومنطق سے مغربی طباعت کے محقق کے قول ”أصح النسخ“ کا مطلب بریکٹ میں یہ بتایا کہ یہ لکھت کے اعتبار سے ہے،چنانچہ محقق کی عبارت یہ تھی :
’’انحمت بعض معالم حروفه و في بعض الأجزاء لا يكاد يقرا وهي أصح النسخ قليلة التصحيف والتحريف‘‘[ التمہید لابن عبدالبر ، الطبعۃ المغربیۃ ، ج :۴،مقدمہ ص ’’د‘‘ ]
اجماع والوں نے بریکٹ میں خود ساختہ اضافہ کے ساتھ اس کا ترجمہ اس طرح کیا:
’’اس مخطوطہ میں حروف کے بعض نشانات مٹ گئے ہیں ، اور بعض اجزاء میں یہ پورے طور پر پڑھے جانے کے قابل بھی نہیں ہیں ، اور یہ (لکھت کے اعتبارسے ) سب سے صحیح نسخہ ہےاس میں تصحیف اور تحریف کم ہے‘‘ [ الاجماع شمارہ:۸، ص:۴ ]
قارئین غور کریں کہ محقق نے پہلے یہ کہا کہ اس نسخہ میں کئی مقامات پڑھے جانے کے قابل نہیں اس کے فوراً بعد محقق کہہ رہے ہیں کہ یہ ”أصح النسخ“ ہے ، یہ ماقبل کا سیاق واضح دلیل ہے کہ یہاں ”أصح النسخ“ سے مراد استناد کے لحاظ سے یہ سب سے صحیح ترین نسخہ ہے ۔
بلکہ ”أصح النسخ“ کے فوراً بعدمحقق نے یہ بھی کہا ہے کہ اس میں تصحیف اور تحریف کم ہے ، یہ بعد والا سیاق بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ محقق ”أصح النسخ“ کہہ کراستناد ہی کے لحاظ سے اس نسخہ کو سب سے صحیح بتلارہے ہیں ۔
بلکہ خود ”الاجماع“ والوںنے بھی یہ حوالہ یہ بتانے کے لئے دیا ہے کہ یہ نسخہ کئی جگہ سے پڑھے جانے کے قابل نہیں ہے ،اب کوئی ہمیں سمجھائے کہ یہ کس مٹی کے بنے لوگ ہیں جو ”اصح النسخ“ کا ترجمہ لکھت کے اعتبار سے سب صحیح کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہی عبارت لیکر یہ شوربھی مچاتے ہیں کہ یہ نسخہ پڑھنے کے قابل نہیں ہے ، سبحان اللہ !
بہرحال دیگر محققین کی طرح مغربی طباعت کے محقق نے بھی اس نسخہ کوسب سے صحیح ترین نسخہ، یعنی استناد کے لحاظ سے سب سے صحیح ترین نسخہ کہاہے ۔
بلکہ مغربی طباعت کے محقق نے ایک دوسری جگہ اور واضح انداز میں اس نسخہ کو استناد کے لحاظ سے ہی سب سے صحیح نسخہ بتلایا ہے چنانچہ ، اس نسخہ کی ایک جلد کے کئی مقامات کو محقق نہیں پڑھ پارہے تھے تو انہوں نے یہاں الگ نسخے سے مدد لی لیکن اس الگ نسخہ کو بکثرت تصحیف اور نقص والا قراردیا اس کے بعد استنبول والے نسخے کے بارے میں کہا:
’’فهي صحيحة نسبيا ولكنها في معظمها لا تقرأ‘‘
’’یہ (استنبول والا نسخہ ) پہلے نسخہ سے زیادہ صحیح ہے لیکن اس کا اکثر حصہ پڑھے جانے کے قابل نہیں‘‘ [ التمہید لابن عبدالبر ، الطبعۃ المغربیۃ ، ج:۸،مقدمہ ص:۳ ]
ایک اور مقام پر اسی محقق نے لکھا:
’’وهي أحسن النسخ و أوفاها‘‘
’’اور یہ (استنبول والا نسخہ) سب سے بہترین اور مکمل نسخہ ہے‘‘[ التمہید لابن عبدالبر ، الطبعۃ المغربیۃ ، ج: ۹،مقدمہ ص:۳]
معلوم ہوا کہ یہ نسخہ سب سے بہترین نسخہ ہے۔
مغربی طباعت کے محقق نے اس نسخہ کے بارے میں جو یہ کہا کہ اس میں تصحیف اور تحریف کم ہے اس کو لیکر اجماع والوں کی یہ بے تکی ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں:
’’اسی استنبول کے نسخہ میں کچھ تحریف اور تصحیف بھی واقع ہوئی ہے جس کو کفایت اللہ صاحب نے چھپا لیا ہے اور صرف اپنے مطلب کی عبارت نقل کی‘‘ [ الاجماع شمارہ:۸، ص:۴ ]
عرض ہے کہ یہ اس نسخہ کے صحیح ترین اور سب سے بہتر ہونے کی دلیل ہے کہ اس میں تصحیف اور تحریف بہت کم ہے ، کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مخطوطہ ایسا نہیں ہوتا جس میں ناسخ سے نادانستہ طور پر تصحیف اور تحریف نہ ہوتی ہو، اور یہی وجہ ہے کہ نسخہ نقل کرنے کے بعد اس کا اصل سے مقابلہ کیا جاتا ہے اور تصحیف اور تحریف کو درست کیا جاتا ہے ۔لیکن ناسخ اور مقابلہ کرنے والے انسان ہی ہوتے ہیں اس لئے ہزار کوشش کے بعد بھی بتقاضائے بشریت ہر نسخہ میں کچھ تصحیف و تحریف رہ جاتی ہے ۔
بنابریں کوئی بھی نسخہ تصحیف و تحریف سے مکمل پاک نہیں ہوتا البتہ جس نسخہ میں تصحیف و تحریف سب سے کم ہو وہی نسخہ سب سے زیادہ معتبرہوتا ہے ، اور محقق بھی یہ بات کہہ کر یہی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یہ نسخہ سب سے بہترین ہے۔
رہی بات یہ کہ ہم نے یہ بات نقل نہیں کی تو عرض ہے کہ ہم نے اس سے پہلے موجود ’’اصح النسخ‘‘ والی بات بھی تو نقل نہیں کی تھی ، ہم تو صرف یہ دکھا رہے تھے کہ محقق کے بقول اس نسخہ کے بعض حروف پڑھنے کے قابل نہیں ہیں ، اس لئے صرف اتنے الفاظ نقل کئے جن میں یہ بات تھی ، باقی اگلے جملے کا اس سے تعلق نہیں تھا اس لئے اسے نقل نہ کیا ۔اور یہ اگلا جملہ ہمارےخلاف بھی تو نہیں ہے کہ یہ شک کیا جائے کہ اسے جان بوجھ کر چھوڑ دیاگیا بلکہ یہ تو الحمدللہ ہمارے حق میں ہی ہے ۔لیکن متعلقہ مقام پر اسے نقل کرنے کی ضرورت نہ تھی ۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مغربی طباعت کے محقق سعید اعراب زیربحث روایت میں موجود لفظ ”الثندوة“ ٹھیک سے پڑھ نہیں سکے جس کو انہوں نے اندازے سے ”السرۃ“ بنادیا جو کہ غلط ہے۔