- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
تحقیق حدیث سیکشن میں محترم بھائی @محمد کاشف نے سوال کیا ہے کہ :
مسند احمد کی ایک حدیث میں قرآن میں غلو نہ کرنے اور اسے ذریعہ معاش نہ بنانے کا ذکر ہے پلیز اس حدیث کی تحقیق بتا دیں اور اسکا صحیح مفہوم کیا ہے اگر یہ حدیث صحیح ہے تو۔
ـــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :
یہ حدیث مسند احمد میں درج ذیل الفاظ سے منقول ہے :
قال الامام احمد
حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن هشام يعني الدستوائي، قال: حدثني يحيى بن أبي كثير (2) ، عن أبي راشد الحبراني، قال: قال عبد الرحمن بن شبل: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " اقرءوا القرآن، ولا تغلوا فيه، ولا تجفوا عنه، ولا تأكلوا به، ولا تستكثروا به "
ترجمہ :قرآن پڑھا کرو ،اور اس میں غلو نہ کرو ،اور نہ ہی اس سے سنگدل کا رویہ رکھو ،نہ ہی کھانے کا ذریعہ بناؤ ، اور نہ اسے مال اکٹھا کرنے کا ذریعہ بناؤ ۔
(مسند احمد حدیث نمبر :15529 ) اور امام ابن ابی عاصم نے ’’ الآحاد و المثانی ‘‘ میں ۔اورعلامہ طحاوی نے مشکل الآثار میں اور امام بیہقی نے (شعب الإيمان :2383 ۔۔اور السنن الکبری :2270 ) اور امام ابو یعلی نے (مسند ) میں نقل فرمائی ہے ،
مسند ابی یعلی کی تحقیق میں علامہ حسين سليم أسد لکھتے ہیں : إسناده صحيح یعنی اسکی سند صحیح ہے ،
مسند امام احمد کی تحقیق میں علامہ شعیب ارناوط لکھتے ہیں : حديث صحيح، وهذا إسناد قوي، رجاله ثقات ‘‘
کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اسکی سند قوی ہے ،اس کے راوی ثقہ ہیں ‘‘ انتہی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
اس میں غلو نہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ :
اسکی قراءت و مخارج اور معانی و مفاہیم کے تعین میں حد سے تجاوز نہ کرو۔اس کی باطل تاویلیں نہ کرو ۔اس کی قراءت میں
اس درجہ مبالغہ نہ کرو جس سے دیگر فرائض میں حرج ہو ۔
اس سے جفا نہ کرنے کا مطلب ہے کہ اس دور نہ ہوجاؤ ۔غافل نہ ہوجاؤ ۔۔علامہ سندھی حنفی کہتے ہیں :
’’ من جفا عنه، إذا بعد، أي: لا تبعدوا عن تلاوته، ولا تغلوا، بل توسَّطوا، وفيه نهي عن كل الإفراط والتفريط، وأمر بالتزام التوسط."ولا تأكلوا به" أي بالقرآن ‘‘
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور جہاں تک اس حدیث شریف میں ( ولا تأكلوا به ) یعنی اس قرآن کو کھانے کا ذریعہ نہ بناؤ ‘‘
تو اس کی مراد سمجھنے کیلئے آپ شیخ مکرم حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی درج ذیل تحریر بغور پڑھیں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ان احق ما اخذتم علیه اجرا کتاب الله» تم جس پر اجرت لیتے ہو ان میں سب سے زیادہ مستحق کتاب اللہ ہے۔ (صحیح بخاری: ۵۷۳۷)
اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ کتاب الاجارہ، باب مایعطی فی الرقیۃ علی احیاء العرب بفاتحۃ الکتاب، قبل ح۲۲۷۶ میں بھی لائے ہیں۔ اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں، ’’واستدل به للجمهور فی جواز اخذ الاجرة علی تعلیم القرآن‘‘ اور اس سے جمہور کے لئے دلیل لی گئی ہے کہ تعلیم القرآن پر اجرت لینا جائز ہے۔ (فتح الباری ج۴ ص۴۵۳)
اب چند آثار پیش خدمت ہیں:
۱: حکم بن عتیبہ (تابعی صغیر) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ما سمعت فقیها یکرهه‘‘ میں نے کسی فقیہ کو بھی اسے (اجرت معلم کو) مکروہ قرار دیتے ہوئے نہیں سنا۔ (مسند علی بن الجعد: ۱۱۰۵ و سندہ صحیح)
۲، معاویہ بن قرہ (تابعی) رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’انی لارجو ان یکون له فی ذلک خیر‘‘ مجھے یہ امید ہے کہ اس کے لئے اس میں اجر ہوگا۔ (مسند علی بن الجعد: ۱۱۰۴ و سندہ صحیح)
۳: ابو قلابہ (تابعی) رحمہ اللہ تعلیم دینے والے معلم کو اجرت (تنخواہ) میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ (دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ ج۶ ص۲۲۰ ح۲۰۸۲۴ و سندہ صحیح)
۴: طاؤس (تابعی) رحمہ اللہ بھی اسے جائز سمجھتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ ایضاً، ح:۲۰۸۲۵ وسندہ صحیح)
۵: محمد بن سیرین (تابعی) رحمہ اللہ کے قول سے بھی اس کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۲۲۳/۶ ح۲۰۸۳۵ و سندہ صحیح)
۶: ابراہیم نخعی (تابعی صغیر) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کانوا یکرهون اجر المعلم‘‘ وہ (اگلے لوگ، سلف صالحین) معلم کی اجرت کو مکروہ سمجھتے تھے۔ (مسند علی بن الجعد: ۱۱۰۶ و سندہ قوی)
اس پر استدراک کر تے ہوئے امام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ، امام ابو الشعثاء جابر بن زید (تابعی) رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں: بہتر و افضل یہی ہے کہ تعلیم و تدریس کی اجرت نہ لی جائے تاہم اگر کوئی شخص اجرت لے لیتا ہے تو جائز ہے۔
تنبیہ (۱):
تمام آثار کو مدنظر رکھتے ہوئے، ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے قول ’’یکرهون‘‘ میں کراہت سے کراہت تنز یہی مراد ہے اور حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ کے قول ’’یکرهه‘‘ میں کراہت تحریمی مراد ہے۔ واللہ اعلم
تنبیہ (۲):
بعض آثار صحیح بخاری (قبل ح۲۲۷۶) مں بعض اختلاف کے ساتھ مذکور ہیں۔ اجرت تعلیم القرآن کا انکار کرنے والے بعض الناس جن آیات و روایات سے استدلال کرتے ہیں ان کا تعلق دو امور سے ہے:
۱: اجرت تبلیغ (یعنی جو تبلیغ فرض ہے اس پر اجرت لینا)
﴿لا أَسـَٔلُكُم عَلَيهِ أَجرًا﴾ اور ﴿ وَلا تَشتَروا بِـٔايـٰتى ثَمَنًا قَليلًا﴾ وغیرہ آیات کا یہی مفہوم ہے۔ نیز دیکھئے ’’دینی امور پر اجرت کا جواز‘‘ ص۷۶
۲: قراءت قرآن پر اجرت (یعنی نماز تراویح میں قرآن سنا کر اس کی اجرت لینا) حدیث: «اقرؤا القرآن ولاتاکلوابه» وغیرہ کا یہی مطلب و مفہوم ہے۔ دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (ج۲ ص۴۰۰ باب فی الرجل یقوم بالناس فی رمضان فیعطی، ح۷۷۴۲)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)
ج2ص496
مسند احمد کی ایک حدیث میں قرآن میں غلو نہ کرنے اور اسے ذریعہ معاش نہ بنانے کا ذکر ہے پلیز اس حدیث کی تحقیق بتا دیں اور اسکا صحیح مفہوم کیا ہے اگر یہ حدیث صحیح ہے تو۔
ـــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :
یہ حدیث مسند احمد میں درج ذیل الفاظ سے منقول ہے :
قال الامام احمد
حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن هشام يعني الدستوائي، قال: حدثني يحيى بن أبي كثير (2) ، عن أبي راشد الحبراني، قال: قال عبد الرحمن بن شبل: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " اقرءوا القرآن، ولا تغلوا فيه، ولا تجفوا عنه، ولا تأكلوا به، ولا تستكثروا به "
ترجمہ :قرآن پڑھا کرو ،اور اس میں غلو نہ کرو ،اور نہ ہی اس سے سنگدل کا رویہ رکھو ،نہ ہی کھانے کا ذریعہ بناؤ ، اور نہ اسے مال اکٹھا کرنے کا ذریعہ بناؤ ۔
(مسند احمد حدیث نمبر :15529 ) اور امام ابن ابی عاصم نے ’’ الآحاد و المثانی ‘‘ میں ۔اورعلامہ طحاوی نے مشکل الآثار میں اور امام بیہقی نے (شعب الإيمان :2383 ۔۔اور السنن الکبری :2270 ) اور امام ابو یعلی نے (مسند ) میں نقل فرمائی ہے ،
مسند ابی یعلی کی تحقیق میں علامہ حسين سليم أسد لکھتے ہیں : إسناده صحيح یعنی اسکی سند صحیح ہے ،
مسند امام احمد کی تحقیق میں علامہ شعیب ارناوط لکھتے ہیں : حديث صحيح، وهذا إسناد قوي، رجاله ثقات ‘‘
کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اسکی سند قوی ہے ،اس کے راوی ثقہ ہیں ‘‘ انتہی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
اس میں غلو نہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ :
اسکی قراءت و مخارج اور معانی و مفاہیم کے تعین میں حد سے تجاوز نہ کرو۔اس کی باطل تاویلیں نہ کرو ۔اس کی قراءت میں
اس درجہ مبالغہ نہ کرو جس سے دیگر فرائض میں حرج ہو ۔
اس سے جفا نہ کرنے کا مطلب ہے کہ اس دور نہ ہوجاؤ ۔غافل نہ ہوجاؤ ۔۔علامہ سندھی حنفی کہتے ہیں :
’’ من جفا عنه، إذا بعد، أي: لا تبعدوا عن تلاوته، ولا تغلوا، بل توسَّطوا، وفيه نهي عن كل الإفراط والتفريط، وأمر بالتزام التوسط."ولا تأكلوا به" أي بالقرآن ‘‘
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور جہاں تک اس حدیث شریف میں ( ولا تأكلوا به ) یعنی اس قرآن کو کھانے کا ذریعہ نہ بناؤ ‘‘
تو اس کی مراد سمجھنے کیلئے آپ شیخ مکرم حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی درج ذیل تحریر بغور پڑھیں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ان احق ما اخذتم علیه اجرا کتاب الله» تم جس پر اجرت لیتے ہو ان میں سب سے زیادہ مستحق کتاب اللہ ہے۔ (صحیح بخاری: ۵۷۳۷)
اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ کتاب الاجارہ، باب مایعطی فی الرقیۃ علی احیاء العرب بفاتحۃ الکتاب، قبل ح۲۲۷۶ میں بھی لائے ہیں۔ اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں، ’’واستدل به للجمهور فی جواز اخذ الاجرة علی تعلیم القرآن‘‘ اور اس سے جمہور کے لئے دلیل لی گئی ہے کہ تعلیم القرآن پر اجرت لینا جائز ہے۔ (فتح الباری ج۴ ص۴۵۳)
اب چند آثار پیش خدمت ہیں:
۱: حکم بن عتیبہ (تابعی صغیر) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ما سمعت فقیها یکرهه‘‘ میں نے کسی فقیہ کو بھی اسے (اجرت معلم کو) مکروہ قرار دیتے ہوئے نہیں سنا۔ (مسند علی بن الجعد: ۱۱۰۵ و سندہ صحیح)
۲، معاویہ بن قرہ (تابعی) رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’انی لارجو ان یکون له فی ذلک خیر‘‘ مجھے یہ امید ہے کہ اس کے لئے اس میں اجر ہوگا۔ (مسند علی بن الجعد: ۱۱۰۴ و سندہ صحیح)
۳: ابو قلابہ (تابعی) رحمہ اللہ تعلیم دینے والے معلم کو اجرت (تنخواہ) میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ (دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ ج۶ ص۲۲۰ ح۲۰۸۲۴ و سندہ صحیح)
۴: طاؤس (تابعی) رحمہ اللہ بھی اسے جائز سمجھتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ ایضاً، ح:۲۰۸۲۵ وسندہ صحیح)
۵: محمد بن سیرین (تابعی) رحمہ اللہ کے قول سے بھی اس کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۲۲۳/۶ ح۲۰۸۳۵ و سندہ صحیح)
۶: ابراہیم نخعی (تابعی صغیر) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کانوا یکرهون اجر المعلم‘‘ وہ (اگلے لوگ، سلف صالحین) معلم کی اجرت کو مکروہ سمجھتے تھے۔ (مسند علی بن الجعد: ۱۱۰۶ و سندہ قوی)
اس پر استدراک کر تے ہوئے امام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ، امام ابو الشعثاء جابر بن زید (تابعی) رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں: بہتر و افضل یہی ہے کہ تعلیم و تدریس کی اجرت نہ لی جائے تاہم اگر کوئی شخص اجرت لے لیتا ہے تو جائز ہے۔
تنبیہ (۱):
تمام آثار کو مدنظر رکھتے ہوئے، ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے قول ’’یکرهون‘‘ میں کراہت سے کراہت تنز یہی مراد ہے اور حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ کے قول ’’یکرهه‘‘ میں کراہت تحریمی مراد ہے۔ واللہ اعلم
تنبیہ (۲):
بعض آثار صحیح بخاری (قبل ح۲۲۷۶) مں بعض اختلاف کے ساتھ مذکور ہیں۔ اجرت تعلیم القرآن کا انکار کرنے والے بعض الناس جن آیات و روایات سے استدلال کرتے ہیں ان کا تعلق دو امور سے ہے:
۱: اجرت تبلیغ (یعنی جو تبلیغ فرض ہے اس پر اجرت لینا)
﴿لا أَسـَٔلُكُم عَلَيهِ أَجرًا﴾ اور ﴿ وَلا تَشتَروا بِـٔايـٰتى ثَمَنًا قَليلًا﴾ وغیرہ آیات کا یہی مفہوم ہے۔ نیز دیکھئے ’’دینی امور پر اجرت کا جواز‘‘ ص۷۶
۲: قراءت قرآن پر اجرت (یعنی نماز تراویح میں قرآن سنا کر اس کی اجرت لینا) حدیث: «اقرؤا القرآن ولاتاکلوابه» وغیرہ کا یہی مطلب و مفہوم ہے۔ دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (ج۲ ص۴۰۰ باب فی الرجل یقوم بالناس فی رمضان فیعطی، ح۷۷۴۲)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)
ج2ص496