عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
تعارف و تبصرہ
ڈاکٹر تاج الدین الازہری٭
’’مسئلہ تقدیر؛ کتاب و سنت کی روشنی میں‘‘
مصنف:محمد فتح اللہ گولن
مترجم: محمد خالد سیف صفحات :۱۶۲
شائع کردہ: ہارمونی پبلی کیشنز، اسلام آباد سالِ اشاعت : ۲۰۰۹ء
اس مضمون کو کتاب وسنت ڈاٹ کام سے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریںمترجم: محمد خالد سیف صفحات :۱۶۲
شائع کردہ: ہارمونی پبلی کیشنز، اسلام آباد سالِ اشاعت : ۲۰۰۹ء
تقدیر پر ایمان لانا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اسلام کے ارکانِ خمسہ کے طرح ایمانیات میں چھ چیزیں ہیں جن میں اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور مرنے کے بعد پھر زندہ ہونے پر ایمان لانا شامل ہے۔ اس چھٹی شے تقدیر پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ دیگر پانچ ارکان کے بغیر تقدیر پر ایمان کا پورا ہونا ممکن نہیں، ایسے ہی تقدیر کے بغیر باقی چیزوں پر ایمان کو بھی مکمل نہیں کہا جاسکتا۔
مسئلہ تقدیر کو اسلام کے ابتدائی ایام ہی سے بڑے مشکل مسائل میں شمار کیا جاتا ہے جن میں ہرلمحہ قدم پھسلنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اسی وجہ سے علماء نے اس کے بنیادی اُصولوں کو آیاتِ کریمہ اور احادیث ِشریفہ کی روشنی میں اجمالی طور پر بیان کیا ہے اور اس کے متفرق اور عمیق پہلوؤں سے بحث نہیں کی تاکہ عوام الناس کو اس مسئلہ کی دقیق تفاصیل کے بارے میں بحث کرتے ہوئے اس طرح گمراہ ہونے سے بچایا جاسکے جن سے وہ آشنا ہی نہیں۔ تقدیر کے مسائل کی اسی نزاکت کی وجہ سے امام ابوحنیفہؒ اپنے شاگردوں کو ان میں بحث و مباحثہ سے منع فرماتے تھے اور آپ سے جب پوچھا جاتا کہ آپ اس مسئلہ میںکیوں گفتگو فرماتے ہیں تو جواب دیتے کہ
امام صاحب کے قول کا مطلب یہ ہے کہ مسئلہ تقدیر میں ہر شخص کے لیے گفتگو جائز نہیں، اس مسئلہ میں گفتگو صرف اس حاذق اور ماہر شخص کو کرنی چاہئے، جو زَرگر کی طرح ماہر اور کیمیا گر کی طرح حاذق ہو۔موجودہ دور میں مادی فلسفہ پوری دنیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے اور وہ عقائد میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر تنقید کو پروان چڑھانے میں مصروفِ عمل ہے، تو ایسے میں مادّہ پرستوں نے محسوس کیا کہ تقدیر پر بحث کے ذریعے لوگوں کو آسانی سے گمراہ کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے اُنہوں نے پوری شدت کے ساتھ ان مسائل کو بیان کرنا شروع کردیا جبکہ مسلمان ان مسائل میں غوروخوض کرنے میں حرج محسوس کیاکرتے تھے۔’’میں اس مسئلہ میں اس طرح ڈرتے ہوئے گفتگو کرتا ہوں گویا میرے سر پر پرندہ بیٹھا ہو۔‘‘