محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
یہودی سازش کے خدوخال
اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ ہمارے دشمن نمبر ۱ ’’یہود‘‘نے جہاں ’’شیعیت ‘‘کے روپ میں ملت اسلامیہ کے اندربغض وعداوت اور نفاق وتفریق کے بیج بوئے ہیں ،وہاں یہودی آئیڈیالوجی کو بالواسطہ طور پر بھی عامۃ المسلمین کے مختلف طبقات وعناصر میں پوری قوت کے ساتھ پیوست کرنے کی اپنی شیطانی کوشش میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ۔
تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے شدید ترین دشمن یہودی دور رساسلت سے لے کر آج تک ایک دن کے لیے بھی چین سے نہیں بیٹھے اور چودہ سو سال سے مسلمانوں کو زک پہنچانے اور صفحہ ہستی سے مٹانے کی مسلسل کوششیں کرتے رہے ہیں ،عسکری اعتبار سے وہ اتنے طاقتور کبھی نہیں رہے کہ مسلمانوں سے ٹکر لے سکتے یا انہیں زیر کرنے کی کوشش کرتے ۔مگر ذہنی لڑائی میں انہوں نے امت مسلمہ کو ضرورشہ مات دے دی ہے ۔مسلمانوں کی تاریخ کا کوئی دور اور ان کی دینی اور دنیاوی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جس پر ان دشمنان اسلام ’’یہود‘‘کا سایہ نہ پڑا ہو ،تہذیب ،تمدن ،معیشت ،سیاست ،معاشرت ،عبادات،تفسیر ،احادیث ،اسلامی علوم و فنون غرض ہر شعبۂ زندگی میں انہوںنے اپنا اثر ڈالا ہے اورمسلمانوں کے دین اور دنیا کو تباہ کرنے کی کوششیں کی ہیں ۔
علامہ ابن جوزی رحمہ اﷲکا بیان ہے کہ یہودیوںنے اسلام کا تاروپور بکھیرنے کے لئے پہلی صدی ہجری میں ہی یہ سازش کی تھی کہ ایران کے مجوسیوں ،مزدکیہ ،ثنویہ اورملاحدہ فلاسفہ سے مل بیٹھے اور انہیں یہ مشورہ دیا کہ وہ ایسی کوئی تدبیر نکالیں جو ان کو اس پریشانی سے نجات دلا سکے جو کہ اہل اسلام کے غلبہ واستیلاء سے ان لوگوں پر طاری ہوگئی ہے ۔مجوسی چونکہ اسلام کے ہاتھوں زک اُٹھانے اور اپنی ہزاروں سالہ پرانی ساسانی سلطنت وتہذیب اور روایات سے محروم ہوجانے کی وجہ سے دل گرفتہ تھے ۔بہت سے ان میں سے ہوا کا رخ دیکھ کر بظاہر اسلام بھی قبول کرچکے تھے ،مگر دل ہی دل میں اسلام کے عروج وترقی سے کڑھتے اور حسد کرتے تھے ۔یہ لوگ بڑی آسانی سے یہود کے دام فریب میں آگئے انہوں نے دشمنانِ اسلام یہود کی اس تجویزسے اتفاق کرلیا کہ اسلام کے نام لیوا فرقوں میں سے کسی ایسے گمراہ کن فرقے کو منتخب کیا جائے جو عقل سے کورا ،رائے میں بودا ،اور محال باتوں پر آنکھ بند کرکے یقین کرنے والا ہو ،ساتھ ہی بغیر سند کے جھوٹی باتوں کو قبول کرنے میں مشہور ہو ۔چنانچہ ایسا فرقہ انہیں ’’روافض‘‘کی شکل میں مل گیا جو حقیقت میں یہود ہی کا پروردہ اور ان کا دوسرا روپ تھا ،مجوسیوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی یہودیوں کی طرح شیعیت کی نقاب اوڑ ھ کر اسلام کے قلعے میںشامل ہوجائیں تاکہ اپنے تخریبی اعمال کی پاداش میں اسلامی حکومتوں کے عتاب اور قتال عام سے محفوظ رہ سکیں ۔انہوں نے روافض کے عقیدے اختیار کرنے کے بعد ان میں اپنا اثر ورسوخ بڑھانا شروع کیا اور رفتہ رفتہ ان میں اہم دینی مناصب حاصل کرلیے ۔اس طرح انہوں نے سانحہ کربلا کو بنیاد بنا کر غم وگریہ اور ماتم حسین کو شیعیت کا معیار بنا دیا۔حالانکہ اس سے قبل یہ مذہب صرف حضرت علی رضی اﷲعنہ اور ان کے استحقاق خلافت کے گرد ہی گھومتا تھا۔
علامہ ابن جوزی رحمہ اﷲاپنی کتاب ’’تلبیس ابلیس ‘‘میں لکھتے ہیں کہ ایران کے مجوسیوں نے یہود کے مشورہ پر اسلام کی عمارت کو منہدم کرنے کے اور اپنی حسد کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے یہ تدبیر نکالی کہ ظاہر میں روافض یعنی شیعوں کے عقیدے میں شامل ہوں اور اس فرقے سے دوستی وچاپلوسی ظاہرکرکے ان کا اعتماد حاصل کریں اور پھر غم وگریہ اور ماتم ان واقعات مصیبت پر ظاہر کریں جو آل محمد پر ظالموں کے ہاتھوں پیش آئے ،اس حیلہ سے ہمیں اسلام کے مشاہیر اور مقتدر ہستیوں ،خصوصاً صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم خلفاء راشدین ،تابعین اور بزرگان سلف کو لعن طعن کرنے کا پورا موقع ہاتھ آئے گا جن سے شریعت نقل ہوکر بعد کے مسلمانوں تک پہنچتی ہے ۔اس طرح جب ان روافض کے دلوں میں جماعت صحابہ رضی اﷲ عنہم ،تابعین اور عام مسلمانوں کی طرف سے نفرت وعداوت بیٹھ جائے گی ،تو جو کچھ امر شریعت و قرآن ان بزرگوں سے منقول ہے اس کی قدروقیمت بھی اس احمق فرقے کے دل سے ختم ہوجائے گی ۔تب بہت آسانی سے یہ موقوقع ملے گا کہ انہیں اسلام کے دائرے سے نکال باہر کیا جائے ،اگر اس کے باوجود بھی کوئی شخص قرآن کی اتباع پر مصر ہو تو اس پر یہ جال ڈال کر بہکایا جائے کہ ان کے ظواہر کے کچھ اسرار ورموز اور ’’باطنی ‘‘امور بھی ہیں ۔اس لئے فقط ظاہر پر فریفتہ ہونا حماقت ہے ،اور دانائی یہ ہے کہ حکمت وفلسفہ کے مطابق ان کے اسرار پر اعتقاد ہو ،جب یہ لوگ ظاہر وباطن کے فلسفے کو مان لیں گے تو رفتہ رفتہ اپنے مخصوص عقائد ان میں داخل کردیں گے اور انہیں سمجھائیں گے کہ باطن سے مراد یہی اسرار ہیں اور اس طریقے سے باقی قرآن سے منحرف کردینا انہیں آسان ہوگا ،اس طرح سے فرقہ ’’باطنیہ اسماعیلیہ ‘‘کا وجود ہوا جو مجوسیوں کے مسلمانوں کے جذبۂ انتقام سے عبارت تھا۔
اس باطنیہ اسماعیلیہ فرقے نے کچھ عرصے کے بعد ملت اسلامیہ کی سیاسی اتھل پتھل سے فائدہ اٹھاکر حسن بن صباح کی سربراہی میں قلعہ الموت میں اپنی الگ حکومت قائم کرلی تھی اور پھر اپنے ’’فدائین ‘‘کے ذریعہ مسلم ممالک کے رہنماؤں اور عام مسلمانوں کے خلاف انتقام اور قتل وگارت گری کا بازار گرم کردیا ،اور ایک دور ایسا بھی آیا جب یہ ظالم طاہر قرمطی کی قیادت میں مکہ معظمہ پر چڑھ دوڑے اور حج کے دوران کعبۃ اﷲمیں گھس کر حاجیوں کا قتل عام کیا اور ان کی لاشوں سے چاہ زمزم کوپاٹ دیا ،اس کے بعد کعبہ کی دیوار سے ’’حجر اسود‘‘اکھاڑ کر توڑ ڈالا اور پھر اسے اپنے ساتھ لے گئے جو تقریبا بیس سال تک ان ظالموں کے قبضہ میں رہا ،طاہر قرمطی نے حجر اسود کو لے جاکر اپنے گھر کی دہلیز پر دفن کردیا تھا تاکہ لوگ اس پر پاؤں رکھ کر گذرتے رہیں اور اس کی بے حرمتی ہو !
بالآخر عباسی خلیفہ مطیع لِلّٰہ کی کوششوں سے یہ پتھر ان سے حاصل کرکے دوبارہ کعبہ کی دیوار میں نصب کیا گیا ،غرض اس دورمیں ان ظالموں نے مسلمانوں پر ظلم وستم کے وہ پہاڑ توڑے تھے جس کی مثال نہیں ملتی ،انجام کار تاتاریوں کے ہاتھوں یہ ظالم اپنے کیفر کردار کو پہنچے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ شیعیت کوایران میں جو عروج وترقی حاصل ہوئی کسی دوسرے ملک میں نہیں مل سکی ،اس کی وجہ یہی ہے کہ ایران کے مجوسی النسل باشندے اپنی ہزاروں سالہ حکومت کے چھن جانے اور اسلام ومسلمانوں کے سیاسی غلبہ واستیلاء سے حسد وانتقام کی آگ میں جل رہے تھے ۔شیعیت کے پلیٹ فارم سے انہیں اسلام کے خلاف کاروائی کرنے اور مسلمانوں سے انتقام لینے کے بہترین مواقع ہاتھ آئے ۔اس لئے انہوں نے تیزی کے ساتھ شیعہ مذہب کو قبول کرنا شروع کردیا اور آج حالت یہ ہے کہ ایران جو صحابی رسول حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ کا وطن ہے جس کی تحسین آپ ﷺ نے ان الفاظ میں کی تھی ’’اگر ایمان ثریا ستارے پر بھی ہوگا تو سلمان رضی اﷲ عنہ کے اہل وطن اسے حاصل کرلیں گے ‘‘ (بخاری ومسلم)آج اسی ایران کی آبادی کا بیشتر حصہ شیعہ مذہب پر عامل ہے اور جو سنی مسلمان ہیں ان پر ان لوگوں نے عرصہ حیات تنگ کررکھا ہے۔
سیاسی میدان میں ان یہودیوں کا کردار دیکھئے ،انہوںنے کبھی تو براہ راست اور زیادہ تر ’’شیعوں ‘‘کے بھیس میں ،مسلمانوں کو ہر دور میں زک پہنچانے اور فنا کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کی ہے ۔بطور ثبوت چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
بغداد کی ساڑھے پانچ سو سالہ عباسی خلافت ۶۵۶ھ میں آخری خلیفہ معتصم باﷲکے شیعہ وزیر اعظم بن علقمی کی غداری اور ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں ختم ہوئی اور چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے دارالخلافہ بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی تین چار دن میں کئی لاکھ مسلمان قتل ہوئے جن کے خون سے دریائے دجلہ کا پانی سرخ ہوگیا خلیفہ معتصم باﷲاپنے تین سو ساتھیوں کے ہمراہ غیر مشروط طور پر بغداد چھوڑنے کے لیے نکلا مگر ہلاکو نے اس کو پکڑ کر قتل کرڈالا اس طرح ان شیعوں کے طفیل عباسی خلافت کا وجود مٹ گیا !
سسلی جسے ۲۱۲ ھ میں اسدبن فرات کی سرکردگی میں مسلمانوں نے فتح کیا تھا اور تقریباًٍ دوصدیوں تک بڑے رعب ودبدبہ سے وہاں حکومت کی تھی ۔بالآخر ’’قصریانہ ‘‘کے شیعہ حاکم ابن ِ حمود کی غداری کے نتیجہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہمیشہ کے لئے نکل گیا ۔سسلی کے سقوط کے بعد مصر کے فاطمی خلیفہ نے نصرانیوں کے فاتح جرنیل ’’روجر‘‘کے پاس مبارک بادی کا مکتوب بھیجا تھا ،جس میں روجر کے اس اقدام کی تعریف کرتے ہوئے جزیرہ سسلی کے مسلمانوں کو شکست کا مستحق قرار دیا تھا !
فاطمی حکومت جو ۲۹۸ ھ میں مراکش کے اندر قائم ہوئی تھی اور ۳۶۲ ھ میں اس کی قیادت منتقل ہوکر مصر آگئی تھی۔اس شیعہ حکومت کو کھلے طور پر یہود ونصاریٰ پر اعتماد تھا ،انہیں میں سے زیادہ تر وزراء ،ٹیکس اور زکوۃ کے محصلین ،سیاسی ،اقتصادی اور علمی امور کے مشیر ،اطباء اور حکام کے معتمدین ہوتے تھے ۔اور بڑے بڑے کام انہیں کے سپرد کئے جاتے تھے ،ان لوگوں کے ظلم وستم سے لوگ پناہ مانگتے تھے ۔ان کی کہیں بھی داد رسی نہ ہوتی تھی ،عزیز فاطمی نے اپنے وزیر یعقوب بن کلس یہودی کی محبت میں فاطمی مذہب کے لیے دعوت کا کام اس کے حوالہ کردیا تھا ۔یہ وزیر خود بیٹھ کر اسمٰعیلی فقہ کا درس دیتا تھا ،اس طرح اس شیعہ حکومت کے طفیل یہودیوں کے ہاتھوں مصر کے عوام کو ناقابل تلافی دینی اور دنیاوی نقصانات پہنچتے رہے ،بالآخر ۵۶۷ھ میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اﷲکے ہاتھوں یہ شیعہ حکومت ختم ہوئی اور مسلمانوں نے اطمینان کا سانس لیا!
ہندوستا ن میں مغلیہ حکومت جو اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں کابل سے لے کر رنگون تک وسیع ہوگئی تھی ان کی وفات کے بعد شیعی عناصر کی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں زوال پذیر ہوگئی ۔تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں سے ’’سادات بارہہ‘‘کے نام سے دومشہور بھائیوں ،عبداﷲاور علی بن حسین کے کردار وحرکات مخفی نہیں ۔یہ دونوں مذہب شیعہ کے پیروکار اور ’’بادشاہ گر‘‘کے نام سے مشہور ہوگئے تھے ان کا عروج مغلوں کے زوال کا سبب بن گیا اور پچاس سے سال کے مختصر سے عرصے میں صدیوں سے قائم مغل سلطنت انحطاط وخاتمہ کے نزدیک پہنچ گئی ،بالآخر ۱۸۵۷ھ میں انگریزوں نے جو شیعوں کے طفیل ہی ہندوستان کی سرزمین میں قدم جمانے میں کامیاب ہوئے تھے ،آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کرکے رنگون میں قید کردیا وہاں ا س کی موت ہوگئی ،اس طرح ہندوستان میں بھی مسلم حکومت کا خاتم ہوگیا تھا!
پلاسی کی جنگ میں جب سراج الدولہ بنگال میں انگریزوں کے دانت کھٹے کررہا تھا تو عین وقت پر اس کے شیعہ وزیر ’’میر جعفر‘‘کی غداری سے پانسہ پلٹ گیا ،اور سراج الدولہ کو شکست ہوگئی اس طرح ان شیعوں کے طفیل مشرقی ہندوستا ن میں انگریزوں کو پیر جمانے اور سیاسی طور پر مستحکم ہونے کا موقع ملا ۔
سلطان ٹیپو شہید جنوبی ہند میں انگریزوں کے لئے بلائے بے درماں بنے ہوئے تھے ۔مگر یہود صفت شیعوں نے ان سے غداری کی حیدرآباد کا حکمراں نظام جو کہ خود شیعہ تھا انگریزوں کے شانہ بشانہ ٹیپو کے خلاف لڑ رہا تھا اور سرنگا پٹم کے محاصرے کے دوران ٹیپو سلطان کے وزیر میر صادق نے جوشیعہ تھا عین لڑائی کے دوران غداری کی اور فتح شکست میں تبدیل ہوگئی ۔
آخری اسلامی خلافت یعنی ترکوں کی حکومت کے زوال کے اسباب اگرچہ اور بھی تھے جیسے بعض ترکی سلاطین کی کمزوری وعیش کوشی ،سیاسی امور میں حاشیہ نشینوں کی مداخلت ،حکومتی شعبوں کا بگاڑ اور رشوت کی گرم بازاری ،سیاسی اعتقادی اور فکر زندگی کے بگاڑ کے دوسرے بہت سے محرکات ،مگر صلیبی اور صہیونی طاقتوںکی ریشہ دوانیاں اور دشمنانِ اسلام یہود کی سازشیں ، عثمانی خلافت کے خاتمہ کے لئے سرفہرست اور بنیادی اہمیت رکھتی ہیں !
۱۸۹۷ء میں جب سلطان عبدالحمید برسراقتدار تھے ،سوئزر لینڈ کے شہر پالؔ میں ہرتزل یہودی کی سربراہی میں صہیونی کانفرنس منعقد ہوئی ،جو پالؔ کانفرس کے نام سے مشہور ہے۔اسی کانفرنس میں فلسطین کے اندر یہودی حکومت قائم کرنے کا منصوبہ تیار ہوا ،صہیونیوں نے عرب قوم پرستوں کے دشمن سلطان عبدالحمید کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کی کہ یہودیوں کو فلسطین ہجرت کرنے کی اجازت دی جائے ،سلطان نے اس تجویز کو قطعیت کے ساتھ صرف رد ہی نہیں کیا بلکہ فوراً یہ قانون نافذ کردیا کہ یہودی ہجرت سختی سے روک دی جائے اور فلسطین میں یہودی نو آبادی کسی قیمت پر قائم نہ ہونے دی جائیں !
اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ ہمارے دشمن نمبر ۱ ’’یہود‘‘نے جہاں ’’شیعیت ‘‘کے روپ میں ملت اسلامیہ کے اندربغض وعداوت اور نفاق وتفریق کے بیج بوئے ہیں ،وہاں یہودی آئیڈیالوجی کو بالواسطہ طور پر بھی عامۃ المسلمین کے مختلف طبقات وعناصر میں پوری قوت کے ساتھ پیوست کرنے کی اپنی شیطانی کوشش میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ۔
تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے شدید ترین دشمن یہودی دور رساسلت سے لے کر آج تک ایک دن کے لیے بھی چین سے نہیں بیٹھے اور چودہ سو سال سے مسلمانوں کو زک پہنچانے اور صفحہ ہستی سے مٹانے کی مسلسل کوششیں کرتے رہے ہیں ،عسکری اعتبار سے وہ اتنے طاقتور کبھی نہیں رہے کہ مسلمانوں سے ٹکر لے سکتے یا انہیں زیر کرنے کی کوشش کرتے ۔مگر ذہنی لڑائی میں انہوں نے امت مسلمہ کو ضرورشہ مات دے دی ہے ۔مسلمانوں کی تاریخ کا کوئی دور اور ان کی دینی اور دنیاوی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جس پر ان دشمنان اسلام ’’یہود‘‘کا سایہ نہ پڑا ہو ،تہذیب ،تمدن ،معیشت ،سیاست ،معاشرت ،عبادات،تفسیر ،احادیث ،اسلامی علوم و فنون غرض ہر شعبۂ زندگی میں انہوںنے اپنا اثر ڈالا ہے اورمسلمانوں کے دین اور دنیا کو تباہ کرنے کی کوششیں کی ہیں ۔
علامہ ابن جوزی رحمہ اﷲکا بیان ہے کہ یہودیوںنے اسلام کا تاروپور بکھیرنے کے لئے پہلی صدی ہجری میں ہی یہ سازش کی تھی کہ ایران کے مجوسیوں ،مزدکیہ ،ثنویہ اورملاحدہ فلاسفہ سے مل بیٹھے اور انہیں یہ مشورہ دیا کہ وہ ایسی کوئی تدبیر نکالیں جو ان کو اس پریشانی سے نجات دلا سکے جو کہ اہل اسلام کے غلبہ واستیلاء سے ان لوگوں پر طاری ہوگئی ہے ۔مجوسی چونکہ اسلام کے ہاتھوں زک اُٹھانے اور اپنی ہزاروں سالہ پرانی ساسانی سلطنت وتہذیب اور روایات سے محروم ہوجانے کی وجہ سے دل گرفتہ تھے ۔بہت سے ان میں سے ہوا کا رخ دیکھ کر بظاہر اسلام بھی قبول کرچکے تھے ،مگر دل ہی دل میں اسلام کے عروج وترقی سے کڑھتے اور حسد کرتے تھے ۔یہ لوگ بڑی آسانی سے یہود کے دام فریب میں آگئے انہوں نے دشمنانِ اسلام یہود کی اس تجویزسے اتفاق کرلیا کہ اسلام کے نام لیوا فرقوں میں سے کسی ایسے گمراہ کن فرقے کو منتخب کیا جائے جو عقل سے کورا ،رائے میں بودا ،اور محال باتوں پر آنکھ بند کرکے یقین کرنے والا ہو ،ساتھ ہی بغیر سند کے جھوٹی باتوں کو قبول کرنے میں مشہور ہو ۔چنانچہ ایسا فرقہ انہیں ’’روافض‘‘کی شکل میں مل گیا جو حقیقت میں یہود ہی کا پروردہ اور ان کا دوسرا روپ تھا ،مجوسیوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی یہودیوں کی طرح شیعیت کی نقاب اوڑ ھ کر اسلام کے قلعے میںشامل ہوجائیں تاکہ اپنے تخریبی اعمال کی پاداش میں اسلامی حکومتوں کے عتاب اور قتال عام سے محفوظ رہ سکیں ۔انہوں نے روافض کے عقیدے اختیار کرنے کے بعد ان میں اپنا اثر ورسوخ بڑھانا شروع کیا اور رفتہ رفتہ ان میں اہم دینی مناصب حاصل کرلیے ۔اس طرح انہوں نے سانحہ کربلا کو بنیاد بنا کر غم وگریہ اور ماتم حسین کو شیعیت کا معیار بنا دیا۔حالانکہ اس سے قبل یہ مذہب صرف حضرت علی رضی اﷲعنہ اور ان کے استحقاق خلافت کے گرد ہی گھومتا تھا۔
علامہ ابن جوزی رحمہ اﷲاپنی کتاب ’’تلبیس ابلیس ‘‘میں لکھتے ہیں کہ ایران کے مجوسیوں نے یہود کے مشورہ پر اسلام کی عمارت کو منہدم کرنے کے اور اپنی حسد کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے یہ تدبیر نکالی کہ ظاہر میں روافض یعنی شیعوں کے عقیدے میں شامل ہوں اور اس فرقے سے دوستی وچاپلوسی ظاہرکرکے ان کا اعتماد حاصل کریں اور پھر غم وگریہ اور ماتم ان واقعات مصیبت پر ظاہر کریں جو آل محمد پر ظالموں کے ہاتھوں پیش آئے ،اس حیلہ سے ہمیں اسلام کے مشاہیر اور مقتدر ہستیوں ،خصوصاً صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم خلفاء راشدین ،تابعین اور بزرگان سلف کو لعن طعن کرنے کا پورا موقع ہاتھ آئے گا جن سے شریعت نقل ہوکر بعد کے مسلمانوں تک پہنچتی ہے ۔اس طرح جب ان روافض کے دلوں میں جماعت صحابہ رضی اﷲ عنہم ،تابعین اور عام مسلمانوں کی طرف سے نفرت وعداوت بیٹھ جائے گی ،تو جو کچھ امر شریعت و قرآن ان بزرگوں سے منقول ہے اس کی قدروقیمت بھی اس احمق فرقے کے دل سے ختم ہوجائے گی ۔تب بہت آسانی سے یہ موقوقع ملے گا کہ انہیں اسلام کے دائرے سے نکال باہر کیا جائے ،اگر اس کے باوجود بھی کوئی شخص قرآن کی اتباع پر مصر ہو تو اس پر یہ جال ڈال کر بہکایا جائے کہ ان کے ظواہر کے کچھ اسرار ورموز اور ’’باطنی ‘‘امور بھی ہیں ۔اس لئے فقط ظاہر پر فریفتہ ہونا حماقت ہے ،اور دانائی یہ ہے کہ حکمت وفلسفہ کے مطابق ان کے اسرار پر اعتقاد ہو ،جب یہ لوگ ظاہر وباطن کے فلسفے کو مان لیں گے تو رفتہ رفتہ اپنے مخصوص عقائد ان میں داخل کردیں گے اور انہیں سمجھائیں گے کہ باطن سے مراد یہی اسرار ہیں اور اس طریقے سے باقی قرآن سے منحرف کردینا انہیں آسان ہوگا ،اس طرح سے فرقہ ’’باطنیہ اسماعیلیہ ‘‘کا وجود ہوا جو مجوسیوں کے مسلمانوں کے جذبۂ انتقام سے عبارت تھا۔
اس باطنیہ اسماعیلیہ فرقے نے کچھ عرصے کے بعد ملت اسلامیہ کی سیاسی اتھل پتھل سے فائدہ اٹھاکر حسن بن صباح کی سربراہی میں قلعہ الموت میں اپنی الگ حکومت قائم کرلی تھی اور پھر اپنے ’’فدائین ‘‘کے ذریعہ مسلم ممالک کے رہنماؤں اور عام مسلمانوں کے خلاف انتقام اور قتل وگارت گری کا بازار گرم کردیا ،اور ایک دور ایسا بھی آیا جب یہ ظالم طاہر قرمطی کی قیادت میں مکہ معظمہ پر چڑھ دوڑے اور حج کے دوران کعبۃ اﷲمیں گھس کر حاجیوں کا قتل عام کیا اور ان کی لاشوں سے چاہ زمزم کوپاٹ دیا ،اس کے بعد کعبہ کی دیوار سے ’’حجر اسود‘‘اکھاڑ کر توڑ ڈالا اور پھر اسے اپنے ساتھ لے گئے جو تقریبا بیس سال تک ان ظالموں کے قبضہ میں رہا ،طاہر قرمطی نے حجر اسود کو لے جاکر اپنے گھر کی دہلیز پر دفن کردیا تھا تاکہ لوگ اس پر پاؤں رکھ کر گذرتے رہیں اور اس کی بے حرمتی ہو !
بالآخر عباسی خلیفہ مطیع لِلّٰہ کی کوششوں سے یہ پتھر ان سے حاصل کرکے دوبارہ کعبہ کی دیوار میں نصب کیا گیا ،غرض اس دورمیں ان ظالموں نے مسلمانوں پر ظلم وستم کے وہ پہاڑ توڑے تھے جس کی مثال نہیں ملتی ،انجام کار تاتاریوں کے ہاتھوں یہ ظالم اپنے کیفر کردار کو پہنچے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ شیعیت کوایران میں جو عروج وترقی حاصل ہوئی کسی دوسرے ملک میں نہیں مل سکی ،اس کی وجہ یہی ہے کہ ایران کے مجوسی النسل باشندے اپنی ہزاروں سالہ حکومت کے چھن جانے اور اسلام ومسلمانوں کے سیاسی غلبہ واستیلاء سے حسد وانتقام کی آگ میں جل رہے تھے ۔شیعیت کے پلیٹ فارم سے انہیں اسلام کے خلاف کاروائی کرنے اور مسلمانوں سے انتقام لینے کے بہترین مواقع ہاتھ آئے ۔اس لئے انہوں نے تیزی کے ساتھ شیعہ مذہب کو قبول کرنا شروع کردیا اور آج حالت یہ ہے کہ ایران جو صحابی رسول حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ کا وطن ہے جس کی تحسین آپ ﷺ نے ان الفاظ میں کی تھی ’’اگر ایمان ثریا ستارے پر بھی ہوگا تو سلمان رضی اﷲ عنہ کے اہل وطن اسے حاصل کرلیں گے ‘‘ (بخاری ومسلم)آج اسی ایران کی آبادی کا بیشتر حصہ شیعہ مذہب پر عامل ہے اور جو سنی مسلمان ہیں ان پر ان لوگوں نے عرصہ حیات تنگ کررکھا ہے۔
سیاسی میدان میں ان یہودیوں کا کردار دیکھئے ،انہوںنے کبھی تو براہ راست اور زیادہ تر ’’شیعوں ‘‘کے بھیس میں ،مسلمانوں کو ہر دور میں زک پہنچانے اور فنا کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کی ہے ۔بطور ثبوت چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
بغداد کی ساڑھے پانچ سو سالہ عباسی خلافت ۶۵۶ھ میں آخری خلیفہ معتصم باﷲکے شیعہ وزیر اعظم بن علقمی کی غداری اور ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں ختم ہوئی اور چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے دارالخلافہ بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی تین چار دن میں کئی لاکھ مسلمان قتل ہوئے جن کے خون سے دریائے دجلہ کا پانی سرخ ہوگیا خلیفہ معتصم باﷲاپنے تین سو ساتھیوں کے ہمراہ غیر مشروط طور پر بغداد چھوڑنے کے لیے نکلا مگر ہلاکو نے اس کو پکڑ کر قتل کرڈالا اس طرح ان شیعوں کے طفیل عباسی خلافت کا وجود مٹ گیا !
سسلی جسے ۲۱۲ ھ میں اسدبن فرات کی سرکردگی میں مسلمانوں نے فتح کیا تھا اور تقریباًٍ دوصدیوں تک بڑے رعب ودبدبہ سے وہاں حکومت کی تھی ۔بالآخر ’’قصریانہ ‘‘کے شیعہ حاکم ابن ِ حمود کی غداری کے نتیجہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہمیشہ کے لئے نکل گیا ۔سسلی کے سقوط کے بعد مصر کے فاطمی خلیفہ نے نصرانیوں کے فاتح جرنیل ’’روجر‘‘کے پاس مبارک بادی کا مکتوب بھیجا تھا ،جس میں روجر کے اس اقدام کی تعریف کرتے ہوئے جزیرہ سسلی کے مسلمانوں کو شکست کا مستحق قرار دیا تھا !
فاطمی حکومت جو ۲۹۸ ھ میں مراکش کے اندر قائم ہوئی تھی اور ۳۶۲ ھ میں اس کی قیادت منتقل ہوکر مصر آگئی تھی۔اس شیعہ حکومت کو کھلے طور پر یہود ونصاریٰ پر اعتماد تھا ،انہیں میں سے زیادہ تر وزراء ،ٹیکس اور زکوۃ کے محصلین ،سیاسی ،اقتصادی اور علمی امور کے مشیر ،اطباء اور حکام کے معتمدین ہوتے تھے ۔اور بڑے بڑے کام انہیں کے سپرد کئے جاتے تھے ،ان لوگوں کے ظلم وستم سے لوگ پناہ مانگتے تھے ۔ان کی کہیں بھی داد رسی نہ ہوتی تھی ،عزیز فاطمی نے اپنے وزیر یعقوب بن کلس یہودی کی محبت میں فاطمی مذہب کے لیے دعوت کا کام اس کے حوالہ کردیا تھا ۔یہ وزیر خود بیٹھ کر اسمٰعیلی فقہ کا درس دیتا تھا ،اس طرح اس شیعہ حکومت کے طفیل یہودیوں کے ہاتھوں مصر کے عوام کو ناقابل تلافی دینی اور دنیاوی نقصانات پہنچتے رہے ،بالآخر ۵۶۷ھ میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اﷲکے ہاتھوں یہ شیعہ حکومت ختم ہوئی اور مسلمانوں نے اطمینان کا سانس لیا!
ہندوستا ن میں مغلیہ حکومت جو اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں کابل سے لے کر رنگون تک وسیع ہوگئی تھی ان کی وفات کے بعد شیعی عناصر کی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں زوال پذیر ہوگئی ۔تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں سے ’’سادات بارہہ‘‘کے نام سے دومشہور بھائیوں ،عبداﷲاور علی بن حسین کے کردار وحرکات مخفی نہیں ۔یہ دونوں مذہب شیعہ کے پیروکار اور ’’بادشاہ گر‘‘کے نام سے مشہور ہوگئے تھے ان کا عروج مغلوں کے زوال کا سبب بن گیا اور پچاس سے سال کے مختصر سے عرصے میں صدیوں سے قائم مغل سلطنت انحطاط وخاتمہ کے نزدیک پہنچ گئی ،بالآخر ۱۸۵۷ھ میں انگریزوں نے جو شیعوں کے طفیل ہی ہندوستان کی سرزمین میں قدم جمانے میں کامیاب ہوئے تھے ،آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کرکے رنگون میں قید کردیا وہاں ا س کی موت ہوگئی ،اس طرح ہندوستان میں بھی مسلم حکومت کا خاتم ہوگیا تھا!
پلاسی کی جنگ میں جب سراج الدولہ بنگال میں انگریزوں کے دانت کھٹے کررہا تھا تو عین وقت پر اس کے شیعہ وزیر ’’میر جعفر‘‘کی غداری سے پانسہ پلٹ گیا ،اور سراج الدولہ کو شکست ہوگئی اس طرح ان شیعوں کے طفیل مشرقی ہندوستا ن میں انگریزوں کو پیر جمانے اور سیاسی طور پر مستحکم ہونے کا موقع ملا ۔
سلطان ٹیپو شہید جنوبی ہند میں انگریزوں کے لئے بلائے بے درماں بنے ہوئے تھے ۔مگر یہود صفت شیعوں نے ان سے غداری کی حیدرآباد کا حکمراں نظام جو کہ خود شیعہ تھا انگریزوں کے شانہ بشانہ ٹیپو کے خلاف لڑ رہا تھا اور سرنگا پٹم کے محاصرے کے دوران ٹیپو سلطان کے وزیر میر صادق نے جوشیعہ تھا عین لڑائی کے دوران غداری کی اور فتح شکست میں تبدیل ہوگئی ۔
آخری اسلامی خلافت یعنی ترکوں کی حکومت کے زوال کے اسباب اگرچہ اور بھی تھے جیسے بعض ترکی سلاطین کی کمزوری وعیش کوشی ،سیاسی امور میں حاشیہ نشینوں کی مداخلت ،حکومتی شعبوں کا بگاڑ اور رشوت کی گرم بازاری ،سیاسی اعتقادی اور فکر زندگی کے بگاڑ کے دوسرے بہت سے محرکات ،مگر صلیبی اور صہیونی طاقتوںکی ریشہ دوانیاں اور دشمنانِ اسلام یہود کی سازشیں ، عثمانی خلافت کے خاتمہ کے لئے سرفہرست اور بنیادی اہمیت رکھتی ہیں !
۱۸۹۷ء میں جب سلطان عبدالحمید برسراقتدار تھے ،سوئزر لینڈ کے شہر پالؔ میں ہرتزل یہودی کی سربراہی میں صہیونی کانفرنس منعقد ہوئی ،جو پالؔ کانفرس کے نام سے مشہور ہے۔اسی کانفرنس میں فلسطین کے اندر یہودی حکومت قائم کرنے کا منصوبہ تیار ہوا ،صہیونیوں نے عرب قوم پرستوں کے دشمن سلطان عبدالحمید کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کی کہ یہودیوں کو فلسطین ہجرت کرنے کی اجازت دی جائے ،سلطان نے اس تجویز کو قطعیت کے ساتھ صرف رد ہی نہیں کیا بلکہ فوراً یہ قانون نافذ کردیا کہ یہودی ہجرت سختی سے روک دی جائے اور فلسطین میں یہودی نو آبادی کسی قیمت پر قائم نہ ہونے دی جائیں !