- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
’ التمييز للإمام مسلم‘ کا تعارف
امام ابو الحسین مسلم بن حجاج قُشَیری نیساپوری (ت:261ھ) تیسری صدی ہجری یعنی اس مبارک دور سے ہیں، جب احادیث کی جمع و تدوین کے ساتھ تحقیق و تفتیش بھی زوروں پر تھی، امام صاحب کی مشہور ِ زمانہ کتاب ’الصحیح‘ تو ہر عام وخاص کے علم میں ہے، لیکن امام صاحب چونکہ علمِ علل کا بھی خاص دِرک اور ذورق رکھتے تھے، لہذا آپ نے اس سلسلے میں بھی بعض کتب تصنیف فرمائیں، جن میں سے ایک کتاب "التمييز" ہے، آج کی تحریر میں اسی کتاب کا تعارف پیش نظر ہے۔کتاب کا ابتدائی تعارف:
اس جلیل القدر کتاب کا ابن عبد البر، ابن رجب، ذہبی، عراقی، ابن حجر وغیرہ ائمہ کی تصنیفات میں ذکر ملتا ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے زمانے میں اس کا کوئی کامل نسخہ ابھی تک دریافت نہیں ہوسکا، مکتبہ ظاہریہ ، دمشق میں ایک نسخہ دریافت ہوا، جس کے بارے میں شیخ البانی نے لکھا ہے کہ یہ ’تمییز‘ کا ’جزء اول‘ ہے، اسی کو سامنے رکھتے ہوئے ڈاکٹر مصطفی اعظمی مرحوم نے اپنی کتاب ’منہج النقد‘ کے آخر میں اسے چھاپا، پھر اسی سے شیخ صبحی حسن حلاق نے طبع کیا، اور اسی نسخے کی بنیاد پر جامعہ اسلامیہ، بغداد عراق کے پروفیسر ڈاکٹر عبد القادر محمدی حفظہ اللہ نے تحقیق و تخریج اور دراسہ کے ساتھ کتاب کی طباعت کی۔[1]
کتاب کے ناسخ کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں، شروع میں اتنا لکھا ہوا ہے کہ یہ کتاب امام مسلم کے مشہور شاگرد مکی بن عبدان رحمہ اللہ نے امام سے روایت کی ہے، ڈاکٹر مصطفی اعظمی کے بقول کتاب میں امام مسلم کا اسلوب و طرز تو واضح ہے، لیکن مطبوعہ کتاب کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اصل کتاب طویل تھی، لیکن مخطوط کے ناسخ نے اس کو کافی مختصر کردیا ہے، کتاب میں جابجا ایسی عبارتیں ملیں گی، مثلا: "وذكر مسلم رواية... " "ثم فصل زيادة الزهري...." "وذكر قصة" " وذكر رواية فلان وتركته" ، اس اسلوب سے واضح ہوتا ہے کہ کسی نے اس کتاب کو مختصر اور اس میں تصرف کیا ہوا ہے، پھر کئی ایک جگہ پر بعض چیزوں کے گزر جانے کی بات ہے، اور کئی ایک کے آنے کا کا تذکرہ ہے، لیکن وہ موجودہ نسخہ میں کہیں موجود ہی نہیں، اسی طرح کئی ایک محدثین نے اس کتاب کے حوالہ سے کئی ایک باتیں ذکر کی ہیں، لیکن وہ موجود نسخہ میں ہیں ہی نہیں، یہ سب باتیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ موجودہ اکلوتا نسخہ کتاب کی اصلی شکل نہیں ہے ۔ کتاب کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی مقامات پر عبارت میں کافی غموض اور خلل ہے، گویا ناسخ ’ اختصارِ مُخِل‘ کا شکار ہوگئے ہیں۔
پھر موجودہ نسخہ کس سن کا ہوگا؟ اس بارے میں بھی تین آراء ہیں، شیخ البانی کے مطابق امام مسلم کے زمانے کا ہی ہوگا، اس کی بنیاد غالبا اس بات پر ہے کہ نسخہ کی سند وغیرہ موجود نہیں، بلکہ سیدھا آپ کے تلمیذ مکی بن عبدان کا ذکر ہے، لیکن یہ دلیل حتمی نہیں، کیونکہ جب نسخہ ہی نامکمل ہے، تو متعلقہ حصہ اس میں ساقط ہونے کا بھی قوی احتمال ہے، ڈاکٹر مصطفی اعظمی کے نزدیک یہ چوتھی صدی ہجری کا معلوم ہوتا ہے، کیونکہ مکی بن عبدان چوتھی صدی ہجری (325ھ) میں فوت ہوئے، معروف ماہرِ مخطوطات فواد سزکین نے خط وغیرہ کی بنیاد پر اس نسخے کو ساتویں آٹھویں صدی ہجری کا بتایا ہے۔
کتاب کی غرض و غایت، علمِ علل کی مشروعیت ونوعیت اور بعض تمہیدی باتیں:
کتاب کی ابتدا میں اس کی غرض و غایت کے اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے امام مسلم کو شکایت کی کہ کچھ لوگ ائمہ علل پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ احادیث پر ایسے حکم لگاتے ہیں، جیسے انہیں علمِ غیب ہوتا ہو، کسی کو صحیح کہہ دیا، کسی کو غلط، کسی کو وہم کوئی خطا، حالانکہ یہ سارا اٹکل پچو اور تَخَرُّص ہے۔ سائل نے عرض کی کہ تعلیلِ حدیث کی اس اندا ز سے وضاحت کردی جائے تاکہ کم ازکم سمجھنے والے لوگوں کے قلوب واذہان سے شکوک و شبہات ختم ہوجائیں۔
امام صاحب نے اس اعتراض کے جواب میں اس کتاب کی تصنیف کی ابتدا کی، اور مقدمہ میں سائل کو یہ تسلی دی کہ معترضین کے اعتراض سے پریشان نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ علم اور جہل کی جنگ ایک طبعی امر ہے، کیونکہ جاہل علم کا دشمن ہے، اس کی فطرت ہے کہ وہ علم سے دشمنی کرے، علم اہل علم کے مابین پھیلتا رہتا ہے، جبکہ جہل اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ اور پھر اس کے بعد کتاب کے اصل موضوع عللِ حدیث کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے فرماتے ہیں:
کچھ حافظ و ضابط اور متقن راوی ہوتے ہیں، جو روایتِ حدیث میں حد درجہ احتیاط کرتے ہیں، لیکن کچھ لوگ بڑھاپے کی وجہ سے ، یا کمزور حافظے کی بنا پر، یا عدمِ اہتمام اور غفلت کی بنا پر روایتِ حدیث میں غلطیوں کا شکار ہوجاتے ہیں، امام صاحب فرماتے ہیں، غلطی تو بڑے سے بڑے امام کو بھی لگ جاتی ہے، کجا کہ کمزور درجے کے راوی ہوں، ان سے تو بالاولی خطا ہوسکتی ، اور انہیں وہم لاحق ہوسکتا ہے ۔
امام صاحب کے اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ معترضین راویوں کی غلطیاں بیان کرنا ہی درست نہیں سمجھتے تھے، لہذا امام صاحب کو یہ باتیں سمجھانا پڑیں۔ ہمارے زمانے میں کام الٹ ہے، ان کے نزدیک ہر راوی ہوتا ہی غلط ہے، بہرصورت غلط رویہ ہمیشہ غلط ہی رہتا ہے، نہ امام کے زمانے کے غلط لوگ اور ان کی فکر رہی، اور نہ ہماری زمانے میں رائج جاہلانہ فکریں، باقی رہیں گی، ان شاءاللہ۔
پھر آگے امام صاحب نے غلطیوں کی نوعیت کے اعتبار سے انہیں دو حصوں میں تقسیم کیا ہے:
اول: بعض ایسی غلطیاں ہوتی ہیں، جو بالکل واضح ہوتی ہیں، گویا کسی ایک آدھ آدمی کو تو غلطی لگ جاتی ہے، لیکن دیگر لوگ فورا سنتے ہی اس غلطی کو بھانپ لیتے ہیں، مثلا سند میں کسی راوی کے نام ونسب میں غلطی کرجانا، یا متن میں تصحیف و تحریف ہوجانا وغیرہ۔
دوم: لیکن بعض دفعہ سند اور متن میں ایسی غلطیاں ہوتی ہیں، کہ ان کو پہچاننے کے لیے رواۃ اور ان کی روایات کا مقارنہ ضروری ہوتا ہے، ایسی صورت حال میں جماعت کی روایت کو ایک آدھ کی روایت پر فوقیت ہوتی ہے، جیساکہ شعبہ، سفیان بن عیینہ، یحیی القطان، ابن مہدی وغیرہ ائمہ کا موقف ہے ۔
اس کے بعد حدیث کے تحمل و ادا کی فضیلت، اس میں احتیاط کے متعلق، کئی ایک احادیث نبویہ، آثار صحابہ، اور ائمہ کے اقوال نقل کیے ہیں، جو ان کی احتیاط اور حفظ وضبط کی صلاحتیوں پر دلالت کرتے ہیں، مطبوعہ نسخے کی ترقیم کے مطابق یہ سب احادیث و آثار اور اقوال کی تعداد تقریبا 35 بنتی ہے۔ گویا امام صاحب نے احادیث و روایات کی تحقیق و تفتیش کی مشروعیت و ضرورت اور علمِ علل کی اہمیت واضح کرنے کے لیے تمہید باندھی ہے، بعض لوگ اسے کتاب ’التمییز‘ کا مقدمہ بھی سمجھتے ہیں۔
احادیث کی تعلیل کا مفصل بیان
یہاں امام صاحب نے تفصیلا تعلیلِ احادیث کاسلسلہ شروع کیا ہے، اور مطبوعہ نسخے کے مطابق تقریبا (70) احادیث بنتی ہیں، جن میں ایک دوسرے سے مقارنہ کرکے، صحیح اور غلط کی نشاندہی کی ہے۔اس میں امام صاحب کے منہج کو در ج ذیل نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:
(1) امام صاحب نے تقریبا سب احادیث وہی ذکر کی ہیں، جو فقہی ابواب میں مشہور ہیں، مثلا آمین بالجہر ، غسلِ جنابت، سجدہ سہو سے متعلق ذو الیدین والی حدیث، ابن عباس کی حدیث امام کے ساتھ کھڑے ہونے والی، اسی طرح، حج، قیام اللیل، وراثت، عتق، دیت و قسامہ وغیرہ سے متعلقہ احادیث۔ چند ایک فضائل وغیرہ سے متعلق بھی ہیں، جیسا کہ "قل هو الله أحد" کی فضیلت میں ایک حدیث ( دیکھیں ص نمبر (141)۔ "ماشرائع الإسلام؟" والی حدیث کے متعلق فرماتے ہیں یہ مرجئہ کا اضافہ ہے، اصل حدیث " ما الإسلام؟" کے الفاظ کے ساتھ ہے۔
(2) تعلیلِ احادیث کا اصل میدان تو ثقات کی روایات ہی ہوتی ہیں، اس لیے عموما روایات شعبہ، زہری ،مالک، معمر، عبد الرزاق جیسے کبار یا کم ازکم ثقات و مکثریین رواۃ کی ہیں، لیکن بعض احادیث ابن لہیعہ جیسے ضعیف اور سلمۃ بن وردان جیسے متروک قسم کے راویوں کی بھی ہیں۔
(3) حدیث کی مختلف روایات میں عمومی طریقہ یہی ہے کہ پہلے شاذ یا منکر وجہ ذکر کرتے ہیں، پھر صحیح روایات ذکرکرکے غلط وجہ کو واضح کرتے ہیں، لیکن بعض دفعہ برعکس ہے کہ پہلے صحیح و محفوظ روایت بیان کی ہے، اور پھر اس کے مخالف شاذ و منکر روایات کو ذکر کیا ہے، دیکھیں ص نمبر (166)۔
(4) علت سند اور متن دونوں میں ہوسکتی ہے، لہذا امام صاحب نے دونوں قسم کی مثالیں بیان کی ہیں، لیکن مطبوعہ نسخہ میں زیادہ آخری قسم کی احادیث ہی ہیں۔ بعض ایسی مثالیں بھی ہیں کہ ایک ہی حدیث میں سند و متن دونوں میں علت ہے۔
(5) جیساکہ اوپر ذکر کیا کہ سندو متن کی کچھ غلطیاں بدیہی ہوتی ہیں، جیسا کہ تصحیف و تحریف وغیرہ، جو فورا پہچان لی جاتی ہیں، لیکن بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے لیے روایات کا مقارنہ ضروری ہوتا ہے، امام صاحب نے دونوں قسم کی احادیث ذکر کی ہیں۔
(6) تعلیل میں مقارنۃ الروایات کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ایک ہی استاد کے تلامیذ کے مابین اختلاف کو حل کیا جائے، پھر اس استاد کے ہمعصروں کو دیکھا جائے، پھر اوپر تک دیگر متابعات، اور پھر صحابی تک پہنچنے کے بعد دیگر صحابہ کی روایات، اس طریقہ کو امام صاحب نے تمییز میں خوب خوب واضح کیا ہے۔ بطور مثال درج ذیل نمبروں پر مشتمل احادیث دیکھیں: (36 تا 41، 49 تا 51، 61 تا 66، 80 تا 83، 95 تا97)
(7) تعلیل بالمعارضۃ یا بالمخالفۃ کا اصول یہ ہے کہ اس کے لیے اتحادِ صحابی ہونا ضروری ہے، لیکن اس اصول کے کچھ مستثنیات ہیں، مثلا جب روایات ایک ایسے واقعہ کے متعلق ہوں کہ اس میں تعدد کا احتمال نہ ہو، تو پھر مختلف روایات میں تعلیل درست ہے، چاہے صحابی مختلف ہوجائیں،اس کی مثال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج سے متعلق ایک روایت کی تعلیل ہے، دیکھیں احادیث نمبر (52 تا 54)
(8) زیادۃ الثقہ کے متعلق قبول یا رد کوئی مسلمہ اصول نہیں، بلکہ یہ حسب القرائن ہے، اسی لیے امام صاحب نے یہاں بعض کے ’اضافہ‘ کو قبول کیا، اور بعض کو رد کردیا، دیکھیں ایک ہی حدیث (نمبر77) میں دونوں کی مثال۔
پیشِ نظر مطبوعہ نسخہ کے متعلق کچھ گذارشات:
جیسا کہ اوپرکتاب کے تین مطبوعہ نسخوں کے متعلق گزرا ، جن میں سب سے آخر ی دار ابن الجوزی کا ہے، جو ڈاکٹر عبد القادرمحمدی کی تحقیق سے مطبوع ہے، میرے پیشِ نظر یہی نسخہ ہے، دورانِ مطالعہ اس میں کئی ایک خوبیاں، خامیاں محسوس ہوئیں، جو کہ درج ذیل ہیں:
· محققِ کتاب نے مصنف اور کتاب کا تعارف بہت عقیدتمندی سے پیش کیا ہے، اور اسلوبِ تحقیق بھی کافی حد تک عاجزی و انکساری پر مبنی ہے ، مثلا پہلی طبعات کی خامیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ ہمارے کام میں بھی یقینا غلطیاں ہوں گی، جس پر بعد والے متنبہ کریں گے۔
· حاشیہ میں تحقیق و تخریج کا مفصل اہتمام ہے، جس سے کافی حد تک متن سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ مختلف روایات کا تتمہ، اور رواۃ کی تعیین میں کافی حد تک رہنمائی مل جاتی ہے، جبکہ شیخ اعظمی والا نسخہ اس خوبی سے خالی ہے ۔
· مشکل مقامات پر تشکیل و اعراب کے ذریعے عبارت ضبط کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس سےعبارت کی قراءت اور فہم میں آسانی ہوتی ہے۔ لیکن بعض جگہ پر تشکیل و اعراف بالکل بے محل ہیں، ہوسکتا ہے یہ ٹائپنگ یا طباعت وغیرہ کسی مرحلے میں خرابی در آئی ہو۔
· کئی ایک مقامات ابھی بھی قابل حل ہیں، محقق نے انہیں ویسے ہی چھوڑ دیا ہے، حالانکہ اگر انہیں ویسے ہی سمجھا جائے تو عبارت مستقیم محسوس نہیں ہوتی، مثلا ’ عن ‘ اور’غیر ‘ میں کئی ایک مقامات پر تحریف ہے۔
· کئی مقامات پر محقق نے ڈاکٹر اعظمی والے نسخے اور اصل سے اختلاف کرکے عبارت میں تصرف کیا ہے، حالانکہ حق ان کے ساتھ محسوس ہوتا ہے، یعنی عبارت تصحیح سے قبل درست تھی، لیکن تصحیح کرکے اسے خراب کردیا گیا۔ کئی ایک مقامات جہاں ڈاکٹر محمدی کے نسخہ میں عبارت میں ابہام ہو وہاں اعظمی صاحب کا نسخہ دیکھ لیں، تو مسئلہ حل ہوجاتا ہے ۔
· محققِ کتاب ’متقدمین و متاخرین میں تفریق‘ والی فکر میں مبتلا ہیں، اس لیے بعض مقامات پر حاشیہ آرائی کرکے، انہوں نے اپنے موقف کو بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، بہرصورت یہ ان کا حق ہے، لیکن قاری کو متنبہ رہنا چاہیے۔
· مطبوعہ نسخہ کے شروع میں ریاض، سعودی عرب کے مشہور محدث عبد اللہ بن عبد الرحمن السعد کا طویل اور علمی وتحقیقی مقدمہ بھی، کتاب کے افہام و تفہیم میں کافی مفید ہے[2]، گو شیخ سعد بھی ’منہجِ تفریق‘ والے اصحاب میں شمار ہوتے ہیں۔
کتاب کا ایک اور نسخہ ہے، جو محمد الأزہری کی تحقیق سے دار الفاروق، قاہرہ سے چھپا ہے، اس کے آخر میں ملحق کے عنوان سے امام مسلم کی 24 تعلیلات کو مختلف کتابوں سے جمع کردیا گیا ہے، جو اصل نسخہ میں نہیں آسکیں۔ میں نے یہ نسخہ مکتبہ شاملہ ( الذہبیہ) میں دیکھا ہے، جسے شامل کرنے والے نے محنت کرکے دیگر چار نسخوں کے ساتھ مقارنہ بھی شامل کردیا ہے، یوں یہ ایک بہترین نسخہ بن جاتا ہے۔
حرفِ اخیر:
کتاب کو پڑھ کر اس کی عبارت میں کئی ایک مقامات پر الجھن اور غموض کی وجہ سے بعض دفعہ محقق، ناشر، یا ناسخ وغیرہ کے متعلق مزاج برہم ہوتا ہے، جیسا کہ خود محقق بعض مقامات پر ناسخ کے متعلق برہم ہوئے ہیں، لیکن سوچنا یہ چاہیے کہ ہمیں یہ تیار شدہ چیزیں مل جاتی ہیں، اس لیے ہمیں ان کاموں کی نزاکت اور ان میں آنے والی صعوبتوں کا اندازہ نہیں ہوتا، ورنہ اگر ہم خود یہ کام کریں تو شاید جو ہوا، اس کا عشر عشیر بھی نہ کرسکیں، اس لیے مجموعی طور پر یہ سب اہل علم و فضل ہمارے شکریہ اور دعا کے مستحق ہیں، اللہ تعالی یہ علمی کام ان کے میزان ِ حسنات میں شامل فرمائے، اور آخر میں ہم وہی دعا کرتے ہیں جو ڈاکٹر مصطفی اعظمی نے اپنے نسخے کے آخر میں کی ہے کہ:
’اے اللہ اس عظیم الشان کتاب کا مکمل نسخہ ہمارے لیے میسر فرمادے۔‘
یاد رہے: امام صاحب کی ’صحیح‘ کے شروع میں ایک ’مقدمہ‘ ہے، جو (التمییز) سے الگ ہے، صحیح کے مشہور مطبوعہ نسخہ میں اس کے صفحات کی تعداد تقریبا (35) کے قریب ہے۔اس مقدمہ میں ’صحیح‘ کی تصنیف کی غرض و غایت، رواۃ کی اقسام، سنت میں احتیاط کی فضیلت، غفلت کرنے والوں کی مذمت، اور معنعن روایت میں سماع کی شرط کے متعلق مشہورِ زمانہ گفتگو ہے ۔ ’التمییز‘ اور ’المقدمہ‘ کے مطالعہ سے شیخ اعظمی کی بات درست معلوم ہوتی ہے کہ دونوں میں اسلوبِ کلام اور طرزِ گفتگو ایک جیسا ہی ہے۔
وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين.
حافظ خضر حیات، جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہیوم السبت، 1 محرم،1441ھ
[1] ڈاکٹر اعظمی مرحوم اور ڈاکٹر عبد القادر محمدی اور اس کے علاوہ کئی ایک محققین کی تحقیق سے یہ کتاب انٹرنیٹ پر پی ڈی ایف اور شاملہ وغیرہ میں بآسانی دستیاب ہے ۔[2] شيخ سعد اس كتاب كو سبقا سبقا پڑھا بھی چکے ہیں، یہ دروس ’تفریغ‘ کے بعد شاملہ میں موجود ہیں، ہمارے شیخ حافظ حکمی نے بھی اس کتاب کو کئی ایک مرتبہ پڑھایا ہے، لیکن غالبا اس کی ریکارڈنگ وغیرہ موجود نہیں ہے ۔