بوالعزم کلیمی
مبتدی
- شمولیت
- دسمبر 10، 2011
- پیغامات
- 12
- ری ایکشن اسکور
- 52
- پوائنٹ
- 23
جب باتیں زیادہ ہوتی ہیں تو ضروری اور غیر ضروری کا حساب لگانا مشکل ہوجاتا ہے۔ جس طرح ضرورت پر نہ بول پانا ایک کمزوری ہے اسی طرح ضرورت سے زیادہ بولنا بھی ایک بیماری ہے۔ لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ لوگ بہت بولتے ہیں پھر بھی کام کی باتیں ختم نہیں ہوتیں، انہی میں سے ایک ماہنامہ الاحسان کے ایڈیٹر بھی ہیں مدنی صاحب۔
ہمہ جہتی شخصیت اور علم بار رسالے کے مدیر جناب عبد المعید مدنی صاحب کا ایک کتابچہ منظر عام پر آیا ہے ”دانشوری“… پیش لفظ کے مطابق ”یہ کتاب آپ کی دانشوری سیریز کی ۹/۱۰/۱۱نمبر قسطوں کا مجموعہ ہے۔ان تین قسطوں میں آپ نے ڈاکٹر ذاکر نائک کی تحریک کا تجزیہ کیا ہے۔“
ہمارے عنوان کا تیور، تعارفی تمہید اور فری لانسر کی تاریخ، یہ ساری باتیں مل کر قارئین کو یہ اندازہ لگانے پر مجبور کررہی ہوں گی کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اور اس سے پہلے کہ ہم ۴۳صفحات پر مشتمل اس کتابچے کے مشمولات(ملزومات کے علاوہ) پر بات کریں، اکبر الہ آبادی کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:
سید اٹھے جو گزٹ لے کے تو لاکھوں لائے
شیخ قرآن سناتے پھرے پیسا نہ ملا
دنیا کی قیادت کا دعوے داربرصغیر کا علماء طبقہ کب سے مسلکی جھگڑوں میں پڑا ہے مگر آج تک نہیں نپٹ پایا البتہ موقع بہ موقع کراوٴڈ پُلرس (Crowd Pullers) کی ٹانگ کھینچنے میں اپنی انرجی ضرور صرف کرتا رہا ہے۔ سرسید، ابوالاعلیٰ مودودی، اسرار احمد، وحید الدین خان اور اب ڈاکٹر ذاکر نائک…اس طرح کے جتنے تاریخی نام ہیں جنھوں نے عوام کی ایک بڑی تعداد کو اپنے اپنے زمانے میں متاثر کیا ہے ، ان سب میں خاص طرح کی ایک عام بات یہ ہے کہ کچھ مولویوں نے ہمیشہ ان کی طرف خار کھائی نظروں سے دیکھا ہے۔
اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ نظریاتی اعتبار سے ہم مذکورہ بالا شخصیتوں کی حمایت کررہے ہیں اور تاریخ اسلام میں مجددین کی حیثیت سے ان کا شمار کرنے کی صلاح دے رہے ہیں۔ البتہ ان کے عصری شعور نے ہمیشہ عوام وخواص کو اپیل ہی نہیں کیا بلکہ قائل کرواکے چھوڑا۔ یہاں تک کہ سیاسی سطح پر محمد علی جناح جیسے کردار نے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنا ہمنوا بنالیا اور بیچارے مولانا ابو الکلام آزاد پاکستان بننے کا تماشا دیکھتے رہ گئے۔
دین میں لیڈرشپ کی اتنی اہمیت ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں بھی امیر منتخب کرنے کی تعلیم دی ہے۔ سچ یہی ہے، عوام ہمیشہ لیڈرشپ چاہتی ہے اور جو قوم اس سے محروم ہوتی ہے وہ ہر اس آواز کے پیچھے دوڑ پڑتی ہے جس میں ذرا سا بھی دم خم نظر آتا ہے۔
ممبئی کے جو مسلمان ڈاکٹر ذاکر نائک کے دس روزہ فیسٹول نما جلسوں میں دھول اڑاتے پھرتے ہیں ان میں کئی طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان میں وہ بھی ہوتے ہیں جو ان کے نام پر دی جانے والی ہر آواز پر لبیک کہتے ہیں، وہ بھی جو ان کی دعوت سے پوری طرح متفق نہیں ہیں اور وہ بھی جو ان کی آئیڈیالوجی سے کلی طور پر اختلاف رکھتے ہیں۔ ایسا اس لیے کہ ان کی دعوت کا طریقہ عصر حاضر سے کچھ زیادہ ہی Appropriateہے۔ سرسید گزٹ لے کر اٹھے تھے تو انھیں لاکھوں کیوں ملا تھا؟ کیوں کہ انھوں نے وقت سے آنکھیں ملانے کی کوشش کی تھی۔مولویوں نے جس انگریزی اور سائنس کے خلاف فتوی دے کر اپنی کٹیا میں پناہ لے رکھا تھا اس کے ساتھ میدان میں اترآئے تھے۔ کتنا ہارے یاکیا جیتے، یہ الگ موضوع ہے۔ مودودی کو Followers اس لیے مل گئے تھے کہ انھوں نے زمانے کے چیلنجوں کا سامنا کیا تھا۔ اس وقت دنیا کے پاس جتنے سوال تھے مودودی صاحب سب کے جواب دینے کے لیے کمر کسے ہوئے تھے۔ اب یہ الگ بات ہے، ان میں کتنے جواب درست اور کتنے غیر درست تھے۔
بعینہ یہی کام آج کسی نہ کسی سطح پر ڈاکٹر ذاکر نائک کررہے ہیں۔ آج دنیا کا سب سے بڑا دھرم ہے بے دھرمی(سیکولرزم) اور میڈیا اس کے نفاذ میں ایسا سرگرداں ہے کہ اس کے سارے وار نشانے پر لگتے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائک کے لیے عوام اس لیے امڈپڑتی ہے کہ وہ حالات کے چیلنج کا کسی نہ کسی لیول پر سامنا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مین اسٹریم پرنٹ میڈیا اور پیس ٹی وی وغیرہ کے ذریعے آج کے ”علم کلام“(میڈیا) میں اسلام کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اب یہ الگ موضوع ہے کہ احتیاط اور تیاری کے باوجود کہاں کہاں غلطیاں کرجاتے ہیں۔
ص نمبر ۷پر مدنی صاحب نے لکھا ہے کہ :
”برصغیر میں ذاکر نائک اہل حدیثوں کے ساتھ نتھی ہوچکے ہیں۔ ان کے پاس جو بھی ہے سب اہل حدیث کا ہے: علم اہل حدیث کا، سرمایہ اہل حدیث کا، سامع اہل حدیث، واہل حدیث۔ مگر ہندوستان بھی عجیب سرزمین ہے اہل حدیث بیچارہ ہر اس شخص یا جماعت کے پیچھے بھاگنے لگتا ہے جس نے کتاب وسنت کی آواز لگائی اور اس کے پیچھے دیوانہ ہوجاتا ہے۔جماعت اسلامی سے لے کر وقت کے ”مغل اعظم“ خان وحید الدین، خان اسرار احمد حقانی حتی کہ دعوت کے نام پر تبلیغی جماعت کے پیچھے بھاگنے لگتا ہے۔ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا، اس کے دینی فہم اور دینی جذبے کی کیا گت بنے گی۔“
”ان کے پاس جو بھی ہے سب اہل حدیث کا ہے یا نہیں؟ اس سے اختلاف کی پوری گنجائش ہے۔البتہ اس اقتباس سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں: ایک یہ کہ ذاکر نائک دراصل اہل حدیث نہیں ہیں، صرف نتھی ہوئے ہیں اور دوسری یہ کہ اہل حدیث عوام میں علم اور تجربے کی اتنی کمی ہے کہ انھیں کتاب وسنت کے نام پر کوئی بھی مسلسل بے وقوف بناسکتا ہے۔
مطلب یہ کہ اہل حدیث علماء اپنی عوام کو علم دین کے نام پر جو بھی اور جتنا بھی Feed کررہے ہیں وہ ناکافی ہے۔ یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جلسوں سے سمعی اور بصری تفریح اور رسالوں کتابوں سے صرف نظری وذہنی تسکین حاصل ہوتی ہو۔ کچھ حد تک یہ بھی ممکن ہے کہ اہل حدیث علماء ابھی تک میڈیا کا مطلوبہ استعمال درست نہ سمجھ سکتے ہوں۔ خیر مسئلہ جو بھی ہو، یہ بات کلیئر ہے کہ اہل حدیث عوام کو کتاب وسنت کے نام پر کوئی بھی بے وقوف بناسکتا ہے۔
ص۸ سے لے کر ۱۳ تک ذاکر نائک صاحب اور ان کے ادارے یا اسکول کو جس اصولی معیار پر مدنی صاحب نے پرکھا ہے اور مقدمات قائم کیے ہیں وہ سارے خود اہل حدیثوں، ان کے اداروں اور مدارس کے خلاف بھی قائم کیے جاسکتے ہیں۔ ضروری اور غیر ضروری حوالوں کی مدد سے موصوف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ذاکر صاحب کے ادارے کی بنیاد غیر شورائی ہے۔ دیگر اہل حدیث اداروں کو نظر انداز کرکے صرف مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی بات کریں جسے سارے اہل حدیث آج بھی سب سے بڑا ادارہ سمجھتے ہیں، تو پچھلے ایک سال سے جاری تحریری اٹھاپٹخ کی روشنی میں یہ بات صاف ہے کہ وہاں شورائیت نہیں ہے اور اتفاق سے اس ادارے کے خلاف بھی مدنی صاحب ہی تحریک چلارہے ہیں۔ موصوف نے لکھا بھی ہے:
”اس وقت ملت اسلامیہ ہند کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ 99فیصد ادارے مالی غبن، خیانت، نجی جائداد، استبداد اور ذاتی شان وشوکت کا قضیہ بنے ہوئے ہیں۔عموماً اداروں کے ذمہ دار خیراتی اموال میں ایسا احمقانہ تصرف کرتے ہیں کہ لوگ ششدر رہ جاتے ہیں۔“(ص9)
ادارتی شرعیت کی تفصیلی توضیح وتشریح کرنے کے بعد مدنی صاحب نے بظاہر دو سوال کیے ہیں:
”ذاکر نائک کاادارہ اور اس کے جتنے تعلیمی نشریاتی فروغ ہیں انھیں مذکورہ معیار اور پیمانے پر ناپئے اور بتلائیے کیا ان اداروں کو شرعیت حاصل ہے؟ پھر دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ان کا ادارہ ملی ادارہ کی حیثیت رکھتا ہے انڈین سوسائٹی/ وقف/یا فاؤنڈیشن رجسٹریشن قانون کے مطابق ان کی جو بھی دنیاوی قانونی حیثیت ہو لیکن ان کے ادارے کو شرعیت حاصل نہیں ہے۔ ادارہ بس گھریلو ادارہ ہے اور ان کی ذاتی ملکیت بناہوا ہے۔“
میرا خیال ہے اس سوال کی زد میں صرف ذاکر نائک ہی نہیں بلکہ سارے مدارس، ساری جمعیتیں اور سارے ادارے آتے ہیں۔ کیونکہ مدارس عموماً مقامی افراد کی ملکیت ہوتے ہیں یا پھر کسی فرد واحد کی نجی پراپرٹی۔ نام لینے کی ضرورت نہیں ہے کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک ایک نظر ماریے پورا کچا چٹھا سامنے آجائے گا۔ جمعیتوں کا حال یہ ہے کہ جو ایک بار کرسی سے چپک جاتا ہے وہ Fevicol کا جوڑ ثابت ہوتا ہے۔ وہ کرسی تب تک چھوڑنے کے لیے راضی نہیں ہوتا جب تک رسوا نہ کردیا جائے۔ (اور اب تو رسوائی بھی کارگر ثابت نہیں ہورہی ہے)اگر جمعیت کی بکری ”دودھ“ نہیں دیتی ہے تو کون سی ایسی دوسری وجہ ہوسکتی ہے کہ اسلامی شورائیت اور ادارتی شرعیت دونوں نظر انداز کردیے جاتے ہیں اور دودھ دوہنے کے سارے جتن کیے جاتے ہیں۔ آس پاس ”جی ہاں، جی ہاں“ کرنے والے افراد پالے جاتے ہیں، حرکت کرنے سے زیادہ کرسیوں پر بیٹھ کر پاوٴں ہلانے اور اونگھنے والے لوگوں کو عہدے اور ملازمتیں دی جاتی ہیں۔ ذاکر نائک کا ادارہ تو خیر پھر بھی غنیمت ہے، کم سے کم قابل اور صلاحیت مند افراد کو کام کرنے کے مواقع تو دیتا ہے۔ خود ہمارے شہر ممبئی میں اس ادارے کے کتنے مقررین یہاں وہاں دوڑ دوڑ کر خطبے اور دروس دیتے ہیں۔
تعلیم دین ہی ایک ایسی غریب جنس ہے جس کو مسلمان مفت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جو خوراکی فیس دے سکتے ہیں وہ بھی پوری کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح معاف ہوجائے اور جب مولوی چندہ کرنے کے لیے ابن بطوطہ بنتا ہے تو اس پر طعنہ زنی مزید۔ البتہ اگر میڈیکل یا انجینئرنگ کی تعلیم دلانا ہو تو مولوی بھی اپنی اولاد کے لیے لاکھوں خرچ کردیتے ہیں۔
مدنی صاحب کا کہنا ہے کہ ذاکر نائک اپنی اسکول کے لیے ملی وسائل کو ذاتی طریقے سے صرف کرنے کے مجرم ہیں۔ کیا وہ یہ بھی بتانے کی زحمت کریں گے کہ کون سا ایسا مدرسہ ہے جو اس جرم کا ارتکاب نہیں کرتا؟ کیا کوئی مسلمان چندہ دینے کے باوجود کسی مدرسے والے سے حساب کتاب مانگتا ہے؟
دانشوری(9) کا آخری پیراگراف ہے:
”خیرات کی رقموں پر اتنی قبیح دعوے داریاں کبھی اسلامی اداروں کو صحت مند رہنے ہی نہ دیں گی۔ اس حساس نقطے کی طرف دھیان اہم فریضہ ہے۔“
یہ خاتمہ بالخیر ہے مگر اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو ذاکر نائک سے خاص ہو۔ قبیح دعوے داریوں میں ایک آدھ کو چھوڑ کر سارے اسلامی ادارے مبتلا ہیں اور چونکہ اس حساس نقطے کی طرف دھیان دینے کو مدارس اور علماء کی توہین سمجھا جاتا ہے اس لیے ساری امت خاموشی جیسے خوبصورت جرم کا ارتکاب کررہی ہے۔
صدقات وخیرات کے نام پر امت کا مال کھانا، اس کے باوجود تعلیمی فیس کے نام پر ہزاروں وصول کرنا پھر بھی عوام کی قدر وقیمت نہ سمجھنا اورعوام کی مدد سے تعمیرکردہ ادارے کو اپنے طریقے سے پرسنل پراپرٹی کی طرح استعمال کرنااور شرعی شورائیت اور ادارتی شرعیت کو خاطر میں نہ لانا… یہ دفعات کیا صرف ذاکر نائک پر لگتے ہیں؟
فرق صرف اتنا ہے کہ ذاکرنائک نے علماء سے زیادہ میڈیا کے دم پر اپنا اسٹیٹ بنایا ہے اور مولوی دین، قرآن اور کتاب وسنت وغیرہ جیسے ناموں کا سہارا لیتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو اسی شمارے میں ص۱۶ پر مدرسے کے ایک مہتمم صاحب کا مضمون پڑھ لیجیے۔ کسٹمرز کو اتنا گھیر گھیر کر خیر وشر کی باتیں بتائی ہیں، لگتا ہے مدارس اور اہل مدارس سے سوال کرنے والے ہر شخص کو اسلام سے خارج کردیں گے چاہے وہ خوددار اساتذہ ہوں یا ذہین طلباء یا پھر وہ عوام جن کے رحم وکرم پر اہل مدارس کی روزی روٹی چلتی ہے۔ جب کہ تعلیم دین کو عام کرنے کے ھم(غم) میں مبتلا مہتمم حضرات کفایت شعار نہیں بلکہ ایم ایل اے اور ایم پی جیسی شاندار لائف جیتے ہیں۔ اللہ خیر کرے، ”فضائل اعمال“ میں جنھوں نے بزرگوں کو ایک ہی وضو سے چالیس سال تک نمازیں پڑھوائی ہیں اور نہ جانے کیسی کیسی ریاضتیں کروائی ہیں وہ مدرسہ چلانے پہ آتے ہیں تو ایم ایل اے اور ایم پی کو آئیڈیل تسلیم کرلیتے ہیں۔ ایسی مولویت(علمیت نہیں) سے اللہ ہی نپٹے گا۔
دانشوری(10) اور (11) جو ص14 سے 43تک ہے، دونوں کی ابتدا ایک ہی قضیے سے ہوتی ہے۔ دانشوری (10) کا پہلا پیراگراف یہ ہے:
”ذاکر نائک صاحب کی کوئی علمی شناخت نہیں ہے۔عام خطباء کی طرح مختلف موضوعات پر انھوں نے کچھ تقریریں تیار کروالی ہیں اور انھیں رٹ لی ہیں اور موضوع سے متعلق کچھ سوالات وجوابات تیار کرواکے رٹ لیے ہیں اور کچھ انگلش میں کچھ اردو میں دھڑلے سے بولتے ہیں۔ ٹی وی ان کی طاقت ہے۔ اور ان کا ٹروپ ان کا علمی سہارا ہے۔“(ص14)
میرا خیال ہے یہ بات ساری دنیا جانتی ہے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ جن کی کوئی علمی شناخت نہیں ہے اور رٹ کر تقریریں کرتے ہیں وہی کیوں بڑے خطیب بنتے ہیں۔ انھیں ہی سننے کے لیے کیوں ساری بھیڑ امڈی پڑتی ہے۔ اہل حدیثوں میں بھی ایک خطیب ہیں جنھیں سننے کے لیے لوگ بیتاب ہوتے ہیں، کہاجاتا ہے انھیں بھی دوچار تقریریں ہی یاد ہیں۔ بلکہ وہ تو دوسروں کے واقعات بھی اپنا تجربہ بناکر پیش کردیتے ہیں ۔ وید کے اشلوک پڑھتے ہیں، ان کا ترجمہ کرتے ہیں اور پھر اسے کتاب وسنت کے حقائق سے Appropriateکرتے ہیں۔
اور دانشوری (11) کا پہلا پیراگراف کچھ یوں ہے :
”ذاکر نائک صاحب عالم نہیں ہیں۔انھیں کیا پتہ عالم کی اہمیت کیا ہے اور علماء کون ہیں؟ علماء وہ ہیں جن کو فتوی، دعوت، خطاب اور تزکیہ وتربیت کا حق حاصل ہوتا ہے۔“(29)
اگر ذاکر نائک کو پتہ نہیں ہوتا کہ عالم کی اہمیت کیا ہے تو مدنی صاحب نے یہ کیسے لکھ دیا کہ ”ان کا ٹروپ ان کا علمی سہارا ہے“… وہ جانتے ہیں تبھی تو انھوں نے علماء کی ایک اچھی ٹیم ہائر کی ہے…ذاکر نائک خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ”علماء وہ ہیں جن کو فتوی، دعوت، خطاب اور تزکیہ وتربیت کا حق حاصل ہوتا ہے۔“اسی لیے وہ اپنے فیسٹویلز میں اسلام کا پرزنٹیشن دینے کے لیے ہر مسلک سے علماء بلاتے ہیں۔ شاید اسی لیے ہر مسلک کی عوام بھی کچھ سننے اور کچھ دیکھنے چلی آتی ہے۔
یہ تو ہوئیں باتوں پر باتیں، اصلی بات یہ ہے کہ مولویوں کو باتیں کرنے کے علاوہ بھی کچھ کرنا چاہیے۔ جن وسائل کا استعمال غیر مولوی غلط ڈھنگ سے کررہے ہیں اور کامیاب ہورہے ہیں انہی وسائل کو شرعی ڈھنگ سے استعمال کرکے دنیا کو دکھاناچاہیے۔ دانشوری کرنے والے اپنا کاروبار نہیں چھوڑیں گے مگر اس کی مخالفت محض ”ملائیت“ نہ کہلائے اس لیے گمراہیوں سے آگاہ کرنے کے ساتھ بھلائیوں کی اشاعت کے لیے آج کا علم کلام سیکھنا اور بولنا بہت ضروری ہے!
تحریر : ابوالمیزان
Welcome to Freelancer.co.in Mumbai
ہمہ جہتی شخصیت اور علم بار رسالے کے مدیر جناب عبد المعید مدنی صاحب کا ایک کتابچہ منظر عام پر آیا ہے ”دانشوری“… پیش لفظ کے مطابق ”یہ کتاب آپ کی دانشوری سیریز کی ۹/۱۰/۱۱نمبر قسطوں کا مجموعہ ہے۔ان تین قسطوں میں آپ نے ڈاکٹر ذاکر نائک کی تحریک کا تجزیہ کیا ہے۔“
ہمارے عنوان کا تیور، تعارفی تمہید اور فری لانسر کی تاریخ، یہ ساری باتیں مل کر قارئین کو یہ اندازہ لگانے پر مجبور کررہی ہوں گی کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اور اس سے پہلے کہ ہم ۴۳صفحات پر مشتمل اس کتابچے کے مشمولات(ملزومات کے علاوہ) پر بات کریں، اکبر الہ آبادی کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:
سید اٹھے جو گزٹ لے کے تو لاکھوں لائے
شیخ قرآن سناتے پھرے پیسا نہ ملا
دنیا کی قیادت کا دعوے داربرصغیر کا علماء طبقہ کب سے مسلکی جھگڑوں میں پڑا ہے مگر آج تک نہیں نپٹ پایا البتہ موقع بہ موقع کراوٴڈ پُلرس (Crowd Pullers) کی ٹانگ کھینچنے میں اپنی انرجی ضرور صرف کرتا رہا ہے۔ سرسید، ابوالاعلیٰ مودودی، اسرار احمد، وحید الدین خان اور اب ڈاکٹر ذاکر نائک…اس طرح کے جتنے تاریخی نام ہیں جنھوں نے عوام کی ایک بڑی تعداد کو اپنے اپنے زمانے میں متاثر کیا ہے ، ان سب میں خاص طرح کی ایک عام بات یہ ہے کہ کچھ مولویوں نے ہمیشہ ان کی طرف خار کھائی نظروں سے دیکھا ہے۔
اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ نظریاتی اعتبار سے ہم مذکورہ بالا شخصیتوں کی حمایت کررہے ہیں اور تاریخ اسلام میں مجددین کی حیثیت سے ان کا شمار کرنے کی صلاح دے رہے ہیں۔ البتہ ان کے عصری شعور نے ہمیشہ عوام وخواص کو اپیل ہی نہیں کیا بلکہ قائل کرواکے چھوڑا۔ یہاں تک کہ سیاسی سطح پر محمد علی جناح جیسے کردار نے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنا ہمنوا بنالیا اور بیچارے مولانا ابو الکلام آزاد پاکستان بننے کا تماشا دیکھتے رہ گئے۔
دین میں لیڈرشپ کی اتنی اہمیت ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں بھی امیر منتخب کرنے کی تعلیم دی ہے۔ سچ یہی ہے، عوام ہمیشہ لیڈرشپ چاہتی ہے اور جو قوم اس سے محروم ہوتی ہے وہ ہر اس آواز کے پیچھے دوڑ پڑتی ہے جس میں ذرا سا بھی دم خم نظر آتا ہے۔
ممبئی کے جو مسلمان ڈاکٹر ذاکر نائک کے دس روزہ فیسٹول نما جلسوں میں دھول اڑاتے پھرتے ہیں ان میں کئی طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان میں وہ بھی ہوتے ہیں جو ان کے نام پر دی جانے والی ہر آواز پر لبیک کہتے ہیں، وہ بھی جو ان کی دعوت سے پوری طرح متفق نہیں ہیں اور وہ بھی جو ان کی آئیڈیالوجی سے کلی طور پر اختلاف رکھتے ہیں۔ ایسا اس لیے کہ ان کی دعوت کا طریقہ عصر حاضر سے کچھ زیادہ ہی Appropriateہے۔ سرسید گزٹ لے کر اٹھے تھے تو انھیں لاکھوں کیوں ملا تھا؟ کیوں کہ انھوں نے وقت سے آنکھیں ملانے کی کوشش کی تھی۔مولویوں نے جس انگریزی اور سائنس کے خلاف فتوی دے کر اپنی کٹیا میں پناہ لے رکھا تھا اس کے ساتھ میدان میں اترآئے تھے۔ کتنا ہارے یاکیا جیتے، یہ الگ موضوع ہے۔ مودودی کو Followers اس لیے مل گئے تھے کہ انھوں نے زمانے کے چیلنجوں کا سامنا کیا تھا۔ اس وقت دنیا کے پاس جتنے سوال تھے مودودی صاحب سب کے جواب دینے کے لیے کمر کسے ہوئے تھے۔ اب یہ الگ بات ہے، ان میں کتنے جواب درست اور کتنے غیر درست تھے۔
بعینہ یہی کام آج کسی نہ کسی سطح پر ڈاکٹر ذاکر نائک کررہے ہیں۔ آج دنیا کا سب سے بڑا دھرم ہے بے دھرمی(سیکولرزم) اور میڈیا اس کے نفاذ میں ایسا سرگرداں ہے کہ اس کے سارے وار نشانے پر لگتے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائک کے لیے عوام اس لیے امڈپڑتی ہے کہ وہ حالات کے چیلنج کا کسی نہ کسی لیول پر سامنا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مین اسٹریم پرنٹ میڈیا اور پیس ٹی وی وغیرہ کے ذریعے آج کے ”علم کلام“(میڈیا) میں اسلام کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اب یہ الگ موضوع ہے کہ احتیاط اور تیاری کے باوجود کہاں کہاں غلطیاں کرجاتے ہیں۔
ص نمبر ۷پر مدنی صاحب نے لکھا ہے کہ :
”برصغیر میں ذاکر نائک اہل حدیثوں کے ساتھ نتھی ہوچکے ہیں۔ ان کے پاس جو بھی ہے سب اہل حدیث کا ہے: علم اہل حدیث کا، سرمایہ اہل حدیث کا، سامع اہل حدیث، واہل حدیث۔ مگر ہندوستان بھی عجیب سرزمین ہے اہل حدیث بیچارہ ہر اس شخص یا جماعت کے پیچھے بھاگنے لگتا ہے جس نے کتاب وسنت کی آواز لگائی اور اس کے پیچھے دیوانہ ہوجاتا ہے۔جماعت اسلامی سے لے کر وقت کے ”مغل اعظم“ خان وحید الدین، خان اسرار احمد حقانی حتی کہ دعوت کے نام پر تبلیغی جماعت کے پیچھے بھاگنے لگتا ہے۔ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا، اس کے دینی فہم اور دینی جذبے کی کیا گت بنے گی۔“
”ان کے پاس جو بھی ہے سب اہل حدیث کا ہے یا نہیں؟ اس سے اختلاف کی پوری گنجائش ہے۔البتہ اس اقتباس سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں: ایک یہ کہ ذاکر نائک دراصل اہل حدیث نہیں ہیں، صرف نتھی ہوئے ہیں اور دوسری یہ کہ اہل حدیث عوام میں علم اور تجربے کی اتنی کمی ہے کہ انھیں کتاب وسنت کے نام پر کوئی بھی مسلسل بے وقوف بناسکتا ہے۔
مطلب یہ کہ اہل حدیث علماء اپنی عوام کو علم دین کے نام پر جو بھی اور جتنا بھی Feed کررہے ہیں وہ ناکافی ہے۔ یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جلسوں سے سمعی اور بصری تفریح اور رسالوں کتابوں سے صرف نظری وذہنی تسکین حاصل ہوتی ہو۔ کچھ حد تک یہ بھی ممکن ہے کہ اہل حدیث علماء ابھی تک میڈیا کا مطلوبہ استعمال درست نہ سمجھ سکتے ہوں۔ خیر مسئلہ جو بھی ہو، یہ بات کلیئر ہے کہ اہل حدیث عوام کو کتاب وسنت کے نام پر کوئی بھی بے وقوف بناسکتا ہے۔
ص۸ سے لے کر ۱۳ تک ذاکر نائک صاحب اور ان کے ادارے یا اسکول کو جس اصولی معیار پر مدنی صاحب نے پرکھا ہے اور مقدمات قائم کیے ہیں وہ سارے خود اہل حدیثوں، ان کے اداروں اور مدارس کے خلاف بھی قائم کیے جاسکتے ہیں۔ ضروری اور غیر ضروری حوالوں کی مدد سے موصوف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ذاکر صاحب کے ادارے کی بنیاد غیر شورائی ہے۔ دیگر اہل حدیث اداروں کو نظر انداز کرکے صرف مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی بات کریں جسے سارے اہل حدیث آج بھی سب سے بڑا ادارہ سمجھتے ہیں، تو پچھلے ایک سال سے جاری تحریری اٹھاپٹخ کی روشنی میں یہ بات صاف ہے کہ وہاں شورائیت نہیں ہے اور اتفاق سے اس ادارے کے خلاف بھی مدنی صاحب ہی تحریک چلارہے ہیں۔ موصوف نے لکھا بھی ہے:
”اس وقت ملت اسلامیہ ہند کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ 99فیصد ادارے مالی غبن، خیانت، نجی جائداد، استبداد اور ذاتی شان وشوکت کا قضیہ بنے ہوئے ہیں۔عموماً اداروں کے ذمہ دار خیراتی اموال میں ایسا احمقانہ تصرف کرتے ہیں کہ لوگ ششدر رہ جاتے ہیں۔“(ص9)
ادارتی شرعیت کی تفصیلی توضیح وتشریح کرنے کے بعد مدنی صاحب نے بظاہر دو سوال کیے ہیں:
”ذاکر نائک کاادارہ اور اس کے جتنے تعلیمی نشریاتی فروغ ہیں انھیں مذکورہ معیار اور پیمانے پر ناپئے اور بتلائیے کیا ان اداروں کو شرعیت حاصل ہے؟ پھر دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ان کا ادارہ ملی ادارہ کی حیثیت رکھتا ہے انڈین سوسائٹی/ وقف/یا فاؤنڈیشن رجسٹریشن قانون کے مطابق ان کی جو بھی دنیاوی قانونی حیثیت ہو لیکن ان کے ادارے کو شرعیت حاصل نہیں ہے۔ ادارہ بس گھریلو ادارہ ہے اور ان کی ذاتی ملکیت بناہوا ہے۔“
میرا خیال ہے اس سوال کی زد میں صرف ذاکر نائک ہی نہیں بلکہ سارے مدارس، ساری جمعیتیں اور سارے ادارے آتے ہیں۔ کیونکہ مدارس عموماً مقامی افراد کی ملکیت ہوتے ہیں یا پھر کسی فرد واحد کی نجی پراپرٹی۔ نام لینے کی ضرورت نہیں ہے کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک ایک نظر ماریے پورا کچا چٹھا سامنے آجائے گا۔ جمعیتوں کا حال یہ ہے کہ جو ایک بار کرسی سے چپک جاتا ہے وہ Fevicol کا جوڑ ثابت ہوتا ہے۔ وہ کرسی تب تک چھوڑنے کے لیے راضی نہیں ہوتا جب تک رسوا نہ کردیا جائے۔ (اور اب تو رسوائی بھی کارگر ثابت نہیں ہورہی ہے)اگر جمعیت کی بکری ”دودھ“ نہیں دیتی ہے تو کون سی ایسی دوسری وجہ ہوسکتی ہے کہ اسلامی شورائیت اور ادارتی شرعیت دونوں نظر انداز کردیے جاتے ہیں اور دودھ دوہنے کے سارے جتن کیے جاتے ہیں۔ آس پاس ”جی ہاں، جی ہاں“ کرنے والے افراد پالے جاتے ہیں، حرکت کرنے سے زیادہ کرسیوں پر بیٹھ کر پاوٴں ہلانے اور اونگھنے والے لوگوں کو عہدے اور ملازمتیں دی جاتی ہیں۔ ذاکر نائک کا ادارہ تو خیر پھر بھی غنیمت ہے، کم سے کم قابل اور صلاحیت مند افراد کو کام کرنے کے مواقع تو دیتا ہے۔ خود ہمارے شہر ممبئی میں اس ادارے کے کتنے مقررین یہاں وہاں دوڑ دوڑ کر خطبے اور دروس دیتے ہیں۔
تعلیم دین ہی ایک ایسی غریب جنس ہے جس کو مسلمان مفت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جو خوراکی فیس دے سکتے ہیں وہ بھی پوری کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح معاف ہوجائے اور جب مولوی چندہ کرنے کے لیے ابن بطوطہ بنتا ہے تو اس پر طعنہ زنی مزید۔ البتہ اگر میڈیکل یا انجینئرنگ کی تعلیم دلانا ہو تو مولوی بھی اپنی اولاد کے لیے لاکھوں خرچ کردیتے ہیں۔
مدنی صاحب کا کہنا ہے کہ ذاکر نائک اپنی اسکول کے لیے ملی وسائل کو ذاتی طریقے سے صرف کرنے کے مجرم ہیں۔ کیا وہ یہ بھی بتانے کی زحمت کریں گے کہ کون سا ایسا مدرسہ ہے جو اس جرم کا ارتکاب نہیں کرتا؟ کیا کوئی مسلمان چندہ دینے کے باوجود کسی مدرسے والے سے حساب کتاب مانگتا ہے؟
دانشوری(9) کا آخری پیراگراف ہے:
”خیرات کی رقموں پر اتنی قبیح دعوے داریاں کبھی اسلامی اداروں کو صحت مند رہنے ہی نہ دیں گی۔ اس حساس نقطے کی طرف دھیان اہم فریضہ ہے۔“
یہ خاتمہ بالخیر ہے مگر اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو ذاکر نائک سے خاص ہو۔ قبیح دعوے داریوں میں ایک آدھ کو چھوڑ کر سارے اسلامی ادارے مبتلا ہیں اور چونکہ اس حساس نقطے کی طرف دھیان دینے کو مدارس اور علماء کی توہین سمجھا جاتا ہے اس لیے ساری امت خاموشی جیسے خوبصورت جرم کا ارتکاب کررہی ہے۔
صدقات وخیرات کے نام پر امت کا مال کھانا، اس کے باوجود تعلیمی فیس کے نام پر ہزاروں وصول کرنا پھر بھی عوام کی قدر وقیمت نہ سمجھنا اورعوام کی مدد سے تعمیرکردہ ادارے کو اپنے طریقے سے پرسنل پراپرٹی کی طرح استعمال کرنااور شرعی شورائیت اور ادارتی شرعیت کو خاطر میں نہ لانا… یہ دفعات کیا صرف ذاکر نائک پر لگتے ہیں؟
فرق صرف اتنا ہے کہ ذاکرنائک نے علماء سے زیادہ میڈیا کے دم پر اپنا اسٹیٹ بنایا ہے اور مولوی دین، قرآن اور کتاب وسنت وغیرہ جیسے ناموں کا سہارا لیتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو اسی شمارے میں ص۱۶ پر مدرسے کے ایک مہتمم صاحب کا مضمون پڑھ لیجیے۔ کسٹمرز کو اتنا گھیر گھیر کر خیر وشر کی باتیں بتائی ہیں، لگتا ہے مدارس اور اہل مدارس سے سوال کرنے والے ہر شخص کو اسلام سے خارج کردیں گے چاہے وہ خوددار اساتذہ ہوں یا ذہین طلباء یا پھر وہ عوام جن کے رحم وکرم پر اہل مدارس کی روزی روٹی چلتی ہے۔ جب کہ تعلیم دین کو عام کرنے کے ھم(غم) میں مبتلا مہتمم حضرات کفایت شعار نہیں بلکہ ایم ایل اے اور ایم پی جیسی شاندار لائف جیتے ہیں۔ اللہ خیر کرے، ”فضائل اعمال“ میں جنھوں نے بزرگوں کو ایک ہی وضو سے چالیس سال تک نمازیں پڑھوائی ہیں اور نہ جانے کیسی کیسی ریاضتیں کروائی ہیں وہ مدرسہ چلانے پہ آتے ہیں تو ایم ایل اے اور ایم پی کو آئیڈیل تسلیم کرلیتے ہیں۔ ایسی مولویت(علمیت نہیں) سے اللہ ہی نپٹے گا۔
دانشوری(10) اور (11) جو ص14 سے 43تک ہے، دونوں کی ابتدا ایک ہی قضیے سے ہوتی ہے۔ دانشوری (10) کا پہلا پیراگراف یہ ہے:
”ذاکر نائک صاحب کی کوئی علمی شناخت نہیں ہے۔عام خطباء کی طرح مختلف موضوعات پر انھوں نے کچھ تقریریں تیار کروالی ہیں اور انھیں رٹ لی ہیں اور موضوع سے متعلق کچھ سوالات وجوابات تیار کرواکے رٹ لیے ہیں اور کچھ انگلش میں کچھ اردو میں دھڑلے سے بولتے ہیں۔ ٹی وی ان کی طاقت ہے۔ اور ان کا ٹروپ ان کا علمی سہارا ہے۔“(ص14)
میرا خیال ہے یہ بات ساری دنیا جانتی ہے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ جن کی کوئی علمی شناخت نہیں ہے اور رٹ کر تقریریں کرتے ہیں وہی کیوں بڑے خطیب بنتے ہیں۔ انھیں ہی سننے کے لیے کیوں ساری بھیڑ امڈی پڑتی ہے۔ اہل حدیثوں میں بھی ایک خطیب ہیں جنھیں سننے کے لیے لوگ بیتاب ہوتے ہیں، کہاجاتا ہے انھیں بھی دوچار تقریریں ہی یاد ہیں۔ بلکہ وہ تو دوسروں کے واقعات بھی اپنا تجربہ بناکر پیش کردیتے ہیں ۔ وید کے اشلوک پڑھتے ہیں، ان کا ترجمہ کرتے ہیں اور پھر اسے کتاب وسنت کے حقائق سے Appropriateکرتے ہیں۔
اور دانشوری (11) کا پہلا پیراگراف کچھ یوں ہے :
”ذاکر نائک صاحب عالم نہیں ہیں۔انھیں کیا پتہ عالم کی اہمیت کیا ہے اور علماء کون ہیں؟ علماء وہ ہیں جن کو فتوی، دعوت، خطاب اور تزکیہ وتربیت کا حق حاصل ہوتا ہے۔“(29)
اگر ذاکر نائک کو پتہ نہیں ہوتا کہ عالم کی اہمیت کیا ہے تو مدنی صاحب نے یہ کیسے لکھ دیا کہ ”ان کا ٹروپ ان کا علمی سہارا ہے“… وہ جانتے ہیں تبھی تو انھوں نے علماء کی ایک اچھی ٹیم ہائر کی ہے…ذاکر نائک خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ”علماء وہ ہیں جن کو فتوی، دعوت، خطاب اور تزکیہ وتربیت کا حق حاصل ہوتا ہے۔“اسی لیے وہ اپنے فیسٹویلز میں اسلام کا پرزنٹیشن دینے کے لیے ہر مسلک سے علماء بلاتے ہیں۔ شاید اسی لیے ہر مسلک کی عوام بھی کچھ سننے اور کچھ دیکھنے چلی آتی ہے۔
یہ تو ہوئیں باتوں پر باتیں، اصلی بات یہ ہے کہ مولویوں کو باتیں کرنے کے علاوہ بھی کچھ کرنا چاہیے۔ جن وسائل کا استعمال غیر مولوی غلط ڈھنگ سے کررہے ہیں اور کامیاب ہورہے ہیں انہی وسائل کو شرعی ڈھنگ سے استعمال کرکے دنیا کو دکھاناچاہیے۔ دانشوری کرنے والے اپنا کاروبار نہیں چھوڑیں گے مگر اس کی مخالفت محض ”ملائیت“ نہ کہلائے اس لیے گمراہیوں سے آگاہ کرنے کے ساتھ بھلائیوں کی اشاعت کے لیے آج کا علم کلام سیکھنا اور بولنا بہت ضروری ہے!
تحریر : ابوالمیزان
Welcome to Freelancer.co.in Mumbai