- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
”واوین“
====
واؤ سے تو ہم سب کا واسطہ پڑتا ہی رہتا ہے۔ مثلاً یہ واؤ کرنسی والے نوٹ میں گو اکیلا ہوتا ہے مگر اسی کرنسی والے نوٹ کی برکت سے ووٹ میں دگنا ہوجاتا ہے، جس کی بدولت ایک زیر تعلیم بھی وزیر تعلیم بن جاتا ہے۔ یعنی ایک زیر تعلیم بھی اسی ووٹ کے واؤ کی بدولت وزیر تعلیم بن جاتا ہے اور اس کی باتوں کا ویٹ یعنی وزن اتنا بڑھ جاتا ہے کہ یہی زیر تعلیم، وزیر تعلیم بن کر پہلے گریجویٹ اور پھر ڈاکٹریٹ کی ڈگری کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ اصلی نہ سہی، جعلی ہی سہی جو صاحبان اقتدار کو بصورت اعزازی ملتی ہے ۔ ہماری زندگی میں واؤ کی اتنی اہمیت ہے کہ جدھر دیکھو، ادھر واؤ کی کارستانی نظر آتی ہے۔ اب تک کی اس چند سطری تحریر میں اتنے سارے واؤ دیکھ کر آپ بھی انگریزی میں چلا اٹھے ہوں گے واؤ، واؤ۔
لفظ واوین میں آپ کو دو واؤ نظر آتے ہیں، لہٰذا اسے واؤ کی جمع بھی کہا جاسکتا ہے۔ لیکن اصل واوین میں دو نہیں بلکہ چار واؤ ہوتے ہیں۔ دو سیدھے اور دو الٹے۔ یہ جس لفظ کے دائیں بائیں آجائیں، اس لفظ کے لغوی معنی چیختے چلاتے اور لغت لغت کی دہائی دینے لگتے ہیں۔ مگر مجال ہے کہ واوین کی حراست میں آیا لفظ اپنے لغوی معنی سے کوئی رابطہ قائم کرسکے۔ کسی فقرہ میں واوین کی حراست میں آیا لفظ پولس کے سپاہیوں کی حراست میں آئے ملزم کی طرح ہوتا ہے، جو بولتا تو فرفر ہے، لیکن وہی کچھ جو پولس والے کہلوانا چاہتے ہیں۔ نہ کہ وہ جو خود ملزم کہنا چاہتا ہے۔ واوین کی حراست میں آیا لفظ بھی اپنے اصل لغوی معنی بھول کر وہی معنی دینے لگتا ہے، جو واوین اس سے بلوانا چاہتے ہیں۔ واوین کی باگ ڈور ادیبوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ آپ کہیں گے کہ ادیب کے ہاتھ میں تو قلم ہوتا ہے، بلکہ ہوتا تھا۔ اب تو کمپیوٹر کا کی بورڈ ہوتا ہے۔ جی ہاں! ادیب اسی قلم یا کی بورڈ کی مدد سے واوین کی باگ ڈور تھامے رکھتے ہیں اور واوین کے زیر حراست الفاظ کے معنی کا رُخ اس طرح بدلتے رہتے ہیں کہ اردو زبان و ادب کے عام قارئین ع رند بخشے گئے قیامت میں؛ شیخ کہتا رہا حساب حساب ۔ کی طرح کتاب کتاب، لغت لغت کی گردان لگائے رکھتے ہیں اور ادیب واوین کی آڑ میں مناسب الفاظ سے نامناسب مفاہیم ادا کرتے چلے جاتے ہیں۔ نہ سنسر کی پکڑ میں آتے ہیں نہ قارئین کی گرفت میں۔
نہ جانے یہ میری خوش قسمتی ہے یا بد قسمتی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں ذخیرہ اندوزی کو بہت بُرا جانتا ہوں۔ آپ تو جانتے ہی ہوں گے کہ موجودہ معاشرے میں ذخیرہ اندوزی کے بغیر گزر بسر کرنا کتنا مشکل کام ہے ۔ چنانچہ ذخیرہ اندوز نہ ہونے کے سبب میرے پاس بوقت تحریر ذخیرہ الفاظ کی شدید قلت ہوا کرتی ہے۔ گو کہ میرے پاس اردو کے متعدد لغات موجود ہیں، جن میں ذخیرہ الفاظ کی کوئی کمی نہیں۔ لیکن لغت سے لفظ چن چن کر لکھنے سے وقت بھی ضائع ہوتا ہےاور عبارت کا مفہوم بھی۔ چنانچہ جہاں کہیں مجھے کسی مفہوم کو ادا کرنے کے سلسلہ مین کوئی موزوں لفظ نہیں ملتا، میں کسی بھی مناسب نامناسب لفظ کو واوین کے چمٹے سے پکڑ کر عبارت میں پیوست کردیتا ہوں، مفہوم از خود ادا ہونے لگتا ہے۔ بلکہ بسا اوقات تو یہ ادائیگی اتنی زیادہ ہونے لگتی ہے کہ میں بقلم خود اش اش کر اٹھتا ہوں۔
قائین کرام! آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ واوین کی اتنی ساری رام کہانی تو سنا دی، مگر ابھی تک اس کا کوئی تحریری نمونہ نہیں دکھلایا۔ حضرت اب آپ سے کیا پردہ، اپنی عبارتوں میں لکھے گئے واوین زدہ الفاظ کی وضاحت کرتے کرتے میں اتنا تھک چکا ہوں کہ واوین پر ہی انشائیہ لکھنے بیٹھ گیا۔ ابن انشاء ایک بڑے انشا پرداز تھے۔ ان کے سامنے الفاط ہاتھ جوڑے کھڑے رہتے تھے۔ ایک خط میں انہوں نے اردو دنیا میں مروج جملہ گالیاں لکھ ڈالیں، مگر مجال ہے کہ کسی برے اور گالی زدہ لفظ سے اپنے قلم کو آلودہ کیا ہو۔ سوشیل میڈیا پر آن لائن لکھتے وقت اکثر لکھنے والوں کی طرح مجھے بھی بہت غصہ آتا ہے۔ اب میں ابن انشا کی طرح الفاظ کی مار تو مار نہیں سکتا، چنانچہ الفاظ کو واوین میں لپیٹ لپیٹ کر مارتا ہوں۔ جسے نشانہ صحیح لگ جائے، وہ پانی بھی نہیں مانگتا۔ اور جہاں ادبی ذوق و فہم کی کمی کے سبب نشانہ درست نہ لگ سکے، صاحب نشانہ کا رد عمل دیگر قارئین کو بتلا دیتا ہے کہ موصوف کتنے پانی میں ہیں۔
====
واؤ سے تو ہم سب کا واسطہ پڑتا ہی رہتا ہے۔ مثلاً یہ واؤ کرنسی والے نوٹ میں گو اکیلا ہوتا ہے مگر اسی کرنسی والے نوٹ کی برکت سے ووٹ میں دگنا ہوجاتا ہے، جس کی بدولت ایک زیر تعلیم بھی وزیر تعلیم بن جاتا ہے۔ یعنی ایک زیر تعلیم بھی اسی ووٹ کے واؤ کی بدولت وزیر تعلیم بن جاتا ہے اور اس کی باتوں کا ویٹ یعنی وزن اتنا بڑھ جاتا ہے کہ یہی زیر تعلیم، وزیر تعلیم بن کر پہلے گریجویٹ اور پھر ڈاکٹریٹ کی ڈگری کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ اصلی نہ سہی، جعلی ہی سہی جو صاحبان اقتدار کو بصورت اعزازی ملتی ہے ۔ ہماری زندگی میں واؤ کی اتنی اہمیت ہے کہ جدھر دیکھو، ادھر واؤ کی کارستانی نظر آتی ہے۔ اب تک کی اس چند سطری تحریر میں اتنے سارے واؤ دیکھ کر آپ بھی انگریزی میں چلا اٹھے ہوں گے واؤ، واؤ۔
لفظ واوین میں آپ کو دو واؤ نظر آتے ہیں، لہٰذا اسے واؤ کی جمع بھی کہا جاسکتا ہے۔ لیکن اصل واوین میں دو نہیں بلکہ چار واؤ ہوتے ہیں۔ دو سیدھے اور دو الٹے۔ یہ جس لفظ کے دائیں بائیں آجائیں، اس لفظ کے لغوی معنی چیختے چلاتے اور لغت لغت کی دہائی دینے لگتے ہیں۔ مگر مجال ہے کہ واوین کی حراست میں آیا لفظ اپنے لغوی معنی سے کوئی رابطہ قائم کرسکے۔ کسی فقرہ میں واوین کی حراست میں آیا لفظ پولس کے سپاہیوں کی حراست میں آئے ملزم کی طرح ہوتا ہے، جو بولتا تو فرفر ہے، لیکن وہی کچھ جو پولس والے کہلوانا چاہتے ہیں۔ نہ کہ وہ جو خود ملزم کہنا چاہتا ہے۔ واوین کی حراست میں آیا لفظ بھی اپنے اصل لغوی معنی بھول کر وہی معنی دینے لگتا ہے، جو واوین اس سے بلوانا چاہتے ہیں۔ واوین کی باگ ڈور ادیبوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ آپ کہیں گے کہ ادیب کے ہاتھ میں تو قلم ہوتا ہے، بلکہ ہوتا تھا۔ اب تو کمپیوٹر کا کی بورڈ ہوتا ہے۔ جی ہاں! ادیب اسی قلم یا کی بورڈ کی مدد سے واوین کی باگ ڈور تھامے رکھتے ہیں اور واوین کے زیر حراست الفاظ کے معنی کا رُخ اس طرح بدلتے رہتے ہیں کہ اردو زبان و ادب کے عام قارئین ع رند بخشے گئے قیامت میں؛ شیخ کہتا رہا حساب حساب ۔ کی طرح کتاب کتاب، لغت لغت کی گردان لگائے رکھتے ہیں اور ادیب واوین کی آڑ میں مناسب الفاظ سے نامناسب مفاہیم ادا کرتے چلے جاتے ہیں۔ نہ سنسر کی پکڑ میں آتے ہیں نہ قارئین کی گرفت میں۔
نہ جانے یہ میری خوش قسمتی ہے یا بد قسمتی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں ذخیرہ اندوزی کو بہت بُرا جانتا ہوں۔ آپ تو جانتے ہی ہوں گے کہ موجودہ معاشرے میں ذخیرہ اندوزی کے بغیر گزر بسر کرنا کتنا مشکل کام ہے ۔ چنانچہ ذخیرہ اندوز نہ ہونے کے سبب میرے پاس بوقت تحریر ذخیرہ الفاظ کی شدید قلت ہوا کرتی ہے۔ گو کہ میرے پاس اردو کے متعدد لغات موجود ہیں، جن میں ذخیرہ الفاظ کی کوئی کمی نہیں۔ لیکن لغت سے لفظ چن چن کر لکھنے سے وقت بھی ضائع ہوتا ہےاور عبارت کا مفہوم بھی۔ چنانچہ جہاں کہیں مجھے کسی مفہوم کو ادا کرنے کے سلسلہ مین کوئی موزوں لفظ نہیں ملتا، میں کسی بھی مناسب نامناسب لفظ کو واوین کے چمٹے سے پکڑ کر عبارت میں پیوست کردیتا ہوں، مفہوم از خود ادا ہونے لگتا ہے۔ بلکہ بسا اوقات تو یہ ادائیگی اتنی زیادہ ہونے لگتی ہے کہ میں بقلم خود اش اش کر اٹھتا ہوں۔
قائین کرام! آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ واوین کی اتنی ساری رام کہانی تو سنا دی، مگر ابھی تک اس کا کوئی تحریری نمونہ نہیں دکھلایا۔ حضرت اب آپ سے کیا پردہ، اپنی عبارتوں میں لکھے گئے واوین زدہ الفاظ کی وضاحت کرتے کرتے میں اتنا تھک چکا ہوں کہ واوین پر ہی انشائیہ لکھنے بیٹھ گیا۔ ابن انشاء ایک بڑے انشا پرداز تھے۔ ان کے سامنے الفاط ہاتھ جوڑے کھڑے رہتے تھے۔ ایک خط میں انہوں نے اردو دنیا میں مروج جملہ گالیاں لکھ ڈالیں، مگر مجال ہے کہ کسی برے اور گالی زدہ لفظ سے اپنے قلم کو آلودہ کیا ہو۔ سوشیل میڈیا پر آن لائن لکھتے وقت اکثر لکھنے والوں کی طرح مجھے بھی بہت غصہ آتا ہے۔ اب میں ابن انشا کی طرح الفاظ کی مار تو مار نہیں سکتا، چنانچہ الفاظ کو واوین میں لپیٹ لپیٹ کر مارتا ہوں۔ جسے نشانہ صحیح لگ جائے، وہ پانی بھی نہیں مانگتا۔ اور جہاں ادبی ذوق و فہم کی کمی کے سبب نشانہ درست نہ لگ سکے، صاحب نشانہ کا رد عمل دیگر قارئین کو بتلا دیتا ہے کہ موصوف کتنے پانی میں ہیں۔