حافظ محمد عمر
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 427
- ری ایکشن اسکور
- 1,542
- پوائنٹ
- 109
از قلم : عبيد اللہ لطيف
کچھ عرصہ قبل فيصل آباد ريلوے روڈ سے گزر رہا تھا کہ کيا ديکھتا ہوں تين باريش نوجوان ايک روشن خيال ( تاريک خيال ) قسم کے نوجوان سے بحث ميں مصروف ہيں ان باريش نوجوانوں ميں ميرا ايک جاننے والا بھی تھا جو ايک دينی ادارے کا طالب علم بھی ہے ۔ ميں اس نوجوان سے ملاقات کے ليے رکا تو ان کے درميان زيربحث موضوع کی وجہ سے پتہ چلا کہ وہ نوجوان جو کلين شيو تھا اور انہيں روشن خيالی ( تاريک خيالی) کا درس دينے کے ساتھ ساتھ بڑھ چڑھ کر جہاد اور مجاہدين کي مخالفت کر رہا تھا ۔ جو مذہب کے لحاظ سے قاديانی تھا ۔ کيونکہ ان کی بحث کا رخ جہاد سے ہٹ کر ختم نبوت کی طرف آگيا تھا ختم نبوت کے حوالے سے ہونے والی گفتگو من و عن تحرير کےے ديتا ہوں تا کہ ديگر لوگوں کو بھی پتہ چل سکے کہ کس طرح يہ قاديانب ہماری سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے ميں مصروف ہيں ۔ اور ہمارے نوجوان اپنے ہی دين کے بارے ميں لاعلم ہونے کی وجہ سے کس طرح ان کی شر انگيزيوں ميں پھنس کر اپنا ايمان تباہ کر بيٹھتے ہيں ۔
قاديانی: جبرائيل عليہ السلام کی ذمہ داری کيا ہے ؟
مسلم : وحی لانا ۔
قاديانی: سورۃ القدر کی آخری آيت پڑھتے ہوئے کہنے لگا کہ اس آيت ميں ” تنزل “ آيا ہے جو فعل مضارع کا صيغہ ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ جبرائيل عليہ السلام قيامت تک نازل ہوتے رہيں گے کيونکہ اسي آيت ميں ” والروح “ کا لفظ خاص جبرائيل عليہ السلام کے ليے بولا گيا ہے ۔ جب کہ آپ کے بقول جبرائيل عليہ السلام کی ڈيوٹی ہی وحی لانا ہے تو آپ کو کيا اعتراض ؟ وہ جس پر چاہيں وحی لے آئيں ۔
يہ دليل سن کر وہ طالب علم لاجواب ہو گيا کيونکہ وہ نوجوان اس قاديانی سے بات کرتے ہوئے بنيادی غلطی کر گيا تھا کہ جبرائيل عليہ السلام کي ڈيوٹی وحی لانا ہے ۔ جبکہ جبرائيل عليہ السلام کی ڈيوٹی نہ صرف وحی لانا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جب چاہے جس وقت چاہے جو مرضی ڈيوٹی سونپ دے جس کی واضح دليل يہ ہے کہ جبرائيل عليہ السلام نے بدر اور احد کے ميدان ميں وحی سے ہٹ کر فرشتوں کي قيادت کرتے ہوئے کفار سے قتال کيا ۔ اسی طرح طائف کی وادی ميں نبی کريم عليہ السلام کی مدد کے ليے آئے اور اسی طرح جب جدالانبياءابراہيم عليہ السلام کو جب آگ کے الاؤ ميں پھينکا جانے لگا تو تب بھی مدد کے ليے آئے ۔
يہ ايک واقعہ تو ميرے سامنے ہوا پتہ نہيں روزانہ ايسے کتنے واقعات رونما ہوتے ہيں جبکہ موجودہ حکومت بھی مکمل طور پر قاديانی نواز ہے اور ہر معاملہ ميں قاديانيوں کو سہولتيں فراہم کر رہی ہے ۔ يہاں تک کہ پاسپورٹ سے مذہب کا خانہ ختم کر کے ان کو مکہ اور مدينہ ميں شر پسندی کا کھلا موقع فراہم کيا گيا ہے جب کہ ان کو 7 ستمبر 1974 کو اقليت قرار ديا گيا تھا ۔
اصل مسئلہ يہ ہے کہ آج کل کے مسلم نوجوانوں بزرگوں اور عورتوں کو اپنے دين کے متعلق ہی معلومات برائے نام ہيں ۔ يہی وجہ ہے کہ علمی ميدان ميں دلائل ديتے ہوئے ان سے مات کھا جاتے ہيں ۔ اب ميں مرزا قاديانی کی اصل کتابوں سے چند دلائل پيش کرنے لگا ہوں تا کہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ ان کو مرتد کيوں قرار ديا گيا ہے ويسے بھی سيد آخرالزماں محمد رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ ميرے بعد تيس 30 کذاب آئيں گے جو جھوٹی نبوت کا دعویٰ کريں گے اس حديث کی رو سے اور تاريخ اسلام سے پتہ چلتا ہے کہ نبی آخر الزماں کے دور ميں ہی مسيلمہ کذاب نے نبوت کا دعوی کر ديا تھا اور مرزا قاديانی بھي اسی کا پيروکار ہے اور اپنے آپ کو واضح طور پر نبی کہتا ہے ۔ اور ” کشتی نوح “ ميں يوں رقمطراز ہے ۔
” خدا ايک اور محمد ﷺ اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبياءہے اور سب سے بڑھ کر ہے اب بعد اس کے کوئی نبی نہيں مگر وہ ی جس پر بروزی طور پر محمديت کی چادر پہنائی گئی ہو کيونکہ خادم اپنے مخدوم سے جدا نہيں اور نہ شاخ اپنی بيخ سے جدا ہے پس جو کامل طور پر مخدوم ميں فنا ہو کر نبی کا لقب پاتا ہے وہ ختم نبوت کا خلل انداز نہيں جيسا کہ تم جب آئينہ ميں اپنی شکل ديکھو تو تم دو نہيں ہو سکتے بلکہ ايک ہی ہو صرف ظل اور اصل کا فرق ہے ۔ سو ايسا ہی اللہ نے مسيح موعود ميں چاہا ۔ يہی بھيد ہے کہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہيں مسيح موعود ميری قبر ميں دفن ہوگا ۔ يعنی وہ ميں ہی ہوں ۔ ( کشتي نوح صفحہ24 )
اس تحرير ميں پہلے تو مرزا صاحب واضح طور پر رسول اللہ ﷺ کے خاتم الانبياءہونے کا اقرار کرتے ہيں ليکن بعد ميں آئينہ کی مثال دے کر خود کو ہی محمد ﷺ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہيں اور برملا طور پر کہہ رہے ہيں کہ جس پر بروزی طور پر محمديت کی چادر پہنائی گئی ہو وہی نبی ہے ۔ جس بات سے مرزا صاحب کذب بيانی اور ہيرا پھيری سے کام لے رہے ہيں ان کے جھوٹ کا پول فقط اسي بات سے کھل جاتا ہے کہ اس تحرير کے آخر ميں فرمان نبی کا حوالہ دے کر کہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا مسيح موعود ميری قبر ميں دفن ہوگا اور پھر کہتا ہے کہ وہ مسيح موعود ميں ہی ہوں ۔ اگر اب مرزا صاحب اپنے دعوے ميں سچے تھے تو ان کی قبر مدينہ منورہ ميں ہونی چاہئيے تھی نہ کہ قاديان ميں اور ويسے بھی يہ دستور شروع سے چلا آ رہا ہے کہ نبی جہاں فوت ہوتا ہے اسے وہيں دفن کيا جاتا ہے کہ حقيقت ميں مرزا نبی تھا تو يہ ليٹرين ميں مرا اسے وہيں دفن کرنا چاہئيے تھا ۔ کشتی نوح کے صفحہ نمبر 22 پر مرزا کچھ يوں رقمطراز ہے کہ
” اب محمدی سلسلہ موسوی سلسلہ کے قائمقام ہے مگر شان ميں ہزار ہا درجہ بڑھ کر مثيل موسیٰ موسیٰ سے بڑھ کر اور مثيل ابن مريم ابن مريم سے بڑھ کر اور وہ مسيح موعود نہ صرف مدت کے لحاظ سے آنحضرت ﷺ کے بعد چودھويں صدی ميں ظاہر ہوا جيسا کہ مسيح ابن مريم موسيٰ کے بعد چودھويں صدی ميں ظاہر ہوا تھا بلکہ وہ ايسے وقت ميں آيا تھا جب کہ مسلمانوں کا حال وہی تھا جيسا کہ مسيح ابن مريم کے وقت يہوديوں کا حال تھا سو وہ ميں ہی ہوں ۔ “ ( کشتي نوح صفحہ 22 )
اس تحرير ميں مرزا صاحب اپنے آپ کو عيسیٰ عليہ السلام سے افضل ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہيں اور ساتھ ساتھ اپنے آپ کو مثيل ابن مريم ثابت کر رہے ہيں ايسا شخص جو کسی ايک نبی کی گستاخی کرے وہ تو واجب القتل ہے ۔ اور پاکستان کے اندر بھی گستاخ رسول کی سزا موت ہے ۔ يہی وجہ ہے کہ امريکہ و يورپ قاديانيوں کو اقليت قرار دينے اور شاتم رسول کو سزائے موت دينے والے قانون کو ختم کروانے کے درپے ہيں اور ہمارے قاديانی نواز حکمران بھی ايسے بيانات ديتے رہتے ہيں جن سے ان کی حوصلہ افزائی ہو ۔ پاکستان ميں شاتم رسول کو موت کی سزا والے قانون کی وجہ سے سب سے پہلے قاديانی اس کا شکار ہوتے ہيں کيونکہ مرزا صاحب نے نہ صرف جھوٹی نبوت کا دعویٰ کيا بلکہ جگہ جگہ پر انبياءکي توہين بھی کی ہے ۔ اگر مرزا کے دماغی توازن کا جائزہ لينا ہو تو اسی ايک تحرير سے ليا جا سکتا ہے جس ميں خود ہی مريم اور پھر خود ہی عيسیٰ بن جاتا ہے ۔ لہٰذا کشتی نوح ميں لکھتا ہے کہ :
” اس نے براہين احمديہ کے تيسرے حصہ ميں ميرا نام مريم رکھا پھر جيسا کہ براھين احمديہ سے ظاہر ہے دو برس تک صفت مريميت ميں ميں نے پرورش پائی اور پردے ميں نشوونما پاتا رہا ۔ پھر جب اس پر دو برس گزر گئے تو جيسا کہ براھين احمديہ کے حصہ چہارم صفحہ 496 ميں درج ہے مريم کی طرح عيسیٰ کی روح مجھ ميں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ ميں مجھے حاملہ ٹھہرايا گيا اور آخر کئی مہينہ کے بعد جو دس مہينہ سے زيادہ نہيں بذريعہ اس الہام کے جو سب سے آخر براھين احمديہ کے حصہ چہارم صفحہ 556 ميں درج ہے مجھے مريم سے عيسٰی بنايا گيا پس اس طور سے ميں ابن مريم ٹھہرا ۔ “ ( کشتی نوح صفحہ 69-68 )
کيا ايسا شخص جو پہلے اپنے آپ کو مثيل ابن مريم کہے پھر خود ہی مريم بن جائے اور حاملہ ہو کر خود ہی ابن مريم بن بيٹھے اور کبھی اپنے آپ کو مسيح موعود کہلائے تو کبھی اپنے آپ کو محمد ﷺ ثابت کرنے کی کوشش کرے تو کبھی اپنے آپ کو عيسیٰ سے افضل قرار دے ۔ مرزائی دوستوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ کيا ايسا مخبوط الحواس شخص نبی کہلانے کا حق دار ہے ۔ کيا ايسا شخص قابل اتباع ہو سکتا ہے ، يقينا نہيں ! تو پھر آئيے توبہ کيجےے اور کلمہ توحيد و رسالت کا اقرار کر کے دائرہ اسلام ميں داخل ہو جائيے اسی ميں فلاح اور کاميابي ہے ۔
مرزا قاديانی” کشتی نوح “ ميں ايک اور جگہ پر يوں رقمطراز ہے کہ :
” مجھے قسم ہے اس ذات کي جس کے ہاتھ ميں ميري جان ہے کہ اگر مسيح ابن مريم ميرے زمانہ ميں ہوتا تو وہ کام جو ميں کر سکتا ہوں وہ ہر گز نہ کر سکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہيں وہ ہر گز نہ دکھلا سکتا اور خدا کا فضل اپنے سے زيادہ مجھ پر پاتا جب کہ ميں ايسا ہوں تو اب سوچو کہ کيا مرتبہ ہے اس پاک رسول کا جس کی غلامی کی طرف ميں منسوب کيا گيا ۔
ذالك فضل الله يوتيه من يشاءاس جگہ کوئی حسد اور رشک پيش نہيں کيا جاتا خدا جو چاہے کرے جو اس کے ارادہ کی مخالفت کرتا ہے وہ صرف اپنے مقاصد ميں نامراد ہی نہيں بلکہ مرکز جہنم کی راہ ليتا ہے ۔ ہلاک ہو گئے وہ جنہوں نے عاجز مخلوق کو خدا بنايا ہلاک ہو گئے وہ جنہوں نے ايک برگزيدہ رسول کو قبول نہ کيا مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا ميں خدا کی سب راہوں ميں سے آخری راہ ہوں اور ميں اسکے سب نوروں ميں سے آخری نور ہوں بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کيونکہ ميرے بغير سب تاريکی ہے ۔ ( کشتی نوح ، صفحہ 81 )
اس تحرير ميں بھی سراسر عيسيٰ عليہ السلام کی توہين کی گئی اور اپنے آپ کو عيسیٰ عليہ السلام سے افضل قرار دے رہا ہے ۔ جہاں تک مرزا قادياني کے نشانوں والی بات ہے واقعی وہ اس کے علاوہ کوئی اور نہيں دکھا سکتا ۔ عيسیٰ عليہ السلام تو پھر بھی جليل القدر پيغمبر ہيں ۔ ايسے نشان انتہائی حقير اور معمولی سے عقل والا انسان بھی نہيں دکھا سکتا ۔ اور جہاں تک مرزا قاديانی کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ اس کے بغير تاريکی ہے تو يہ ايسی ہی بات ہے کہ نام ہو نور بھری اور رنگ ہو توے کی سياہی سے بھی کالا ۔
کچھ عرصہ قبل فيصل آباد ريلوے روڈ سے گزر رہا تھا کہ کيا ديکھتا ہوں تين باريش نوجوان ايک روشن خيال ( تاريک خيال ) قسم کے نوجوان سے بحث ميں مصروف ہيں ان باريش نوجوانوں ميں ميرا ايک جاننے والا بھی تھا جو ايک دينی ادارے کا طالب علم بھی ہے ۔ ميں اس نوجوان سے ملاقات کے ليے رکا تو ان کے درميان زيربحث موضوع کی وجہ سے پتہ چلا کہ وہ نوجوان جو کلين شيو تھا اور انہيں روشن خيالی ( تاريک خيالی) کا درس دينے کے ساتھ ساتھ بڑھ چڑھ کر جہاد اور مجاہدين کي مخالفت کر رہا تھا ۔ جو مذہب کے لحاظ سے قاديانی تھا ۔ کيونکہ ان کی بحث کا رخ جہاد سے ہٹ کر ختم نبوت کی طرف آگيا تھا ختم نبوت کے حوالے سے ہونے والی گفتگو من و عن تحرير کےے ديتا ہوں تا کہ ديگر لوگوں کو بھی پتہ چل سکے کہ کس طرح يہ قاديانب ہماری سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے ميں مصروف ہيں ۔ اور ہمارے نوجوان اپنے ہی دين کے بارے ميں لاعلم ہونے کی وجہ سے کس طرح ان کی شر انگيزيوں ميں پھنس کر اپنا ايمان تباہ کر بيٹھتے ہيں ۔
قاديانی: جبرائيل عليہ السلام کی ذمہ داری کيا ہے ؟
مسلم : وحی لانا ۔
قاديانی: سورۃ القدر کی آخری آيت پڑھتے ہوئے کہنے لگا کہ اس آيت ميں ” تنزل “ آيا ہے جو فعل مضارع کا صيغہ ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ جبرائيل عليہ السلام قيامت تک نازل ہوتے رہيں گے کيونکہ اسي آيت ميں ” والروح “ کا لفظ خاص جبرائيل عليہ السلام کے ليے بولا گيا ہے ۔ جب کہ آپ کے بقول جبرائيل عليہ السلام کی ڈيوٹی ہی وحی لانا ہے تو آپ کو کيا اعتراض ؟ وہ جس پر چاہيں وحی لے آئيں ۔
يہ دليل سن کر وہ طالب علم لاجواب ہو گيا کيونکہ وہ نوجوان اس قاديانی سے بات کرتے ہوئے بنيادی غلطی کر گيا تھا کہ جبرائيل عليہ السلام کي ڈيوٹی وحی لانا ہے ۔ جبکہ جبرائيل عليہ السلام کی ڈيوٹی نہ صرف وحی لانا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جب چاہے جس وقت چاہے جو مرضی ڈيوٹی سونپ دے جس کی واضح دليل يہ ہے کہ جبرائيل عليہ السلام نے بدر اور احد کے ميدان ميں وحی سے ہٹ کر فرشتوں کي قيادت کرتے ہوئے کفار سے قتال کيا ۔ اسی طرح طائف کی وادی ميں نبی کريم عليہ السلام کی مدد کے ليے آئے اور اسی طرح جب جدالانبياءابراہيم عليہ السلام کو جب آگ کے الاؤ ميں پھينکا جانے لگا تو تب بھی مدد کے ليے آئے ۔
يہ ايک واقعہ تو ميرے سامنے ہوا پتہ نہيں روزانہ ايسے کتنے واقعات رونما ہوتے ہيں جبکہ موجودہ حکومت بھی مکمل طور پر قاديانی نواز ہے اور ہر معاملہ ميں قاديانيوں کو سہولتيں فراہم کر رہی ہے ۔ يہاں تک کہ پاسپورٹ سے مذہب کا خانہ ختم کر کے ان کو مکہ اور مدينہ ميں شر پسندی کا کھلا موقع فراہم کيا گيا ہے جب کہ ان کو 7 ستمبر 1974 کو اقليت قرار ديا گيا تھا ۔
اصل مسئلہ يہ ہے کہ آج کل کے مسلم نوجوانوں بزرگوں اور عورتوں کو اپنے دين کے متعلق ہی معلومات برائے نام ہيں ۔ يہی وجہ ہے کہ علمی ميدان ميں دلائل ديتے ہوئے ان سے مات کھا جاتے ہيں ۔ اب ميں مرزا قاديانی کی اصل کتابوں سے چند دلائل پيش کرنے لگا ہوں تا کہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ ان کو مرتد کيوں قرار ديا گيا ہے ويسے بھی سيد آخرالزماں محمد رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ ميرے بعد تيس 30 کذاب آئيں گے جو جھوٹی نبوت کا دعویٰ کريں گے اس حديث کی رو سے اور تاريخ اسلام سے پتہ چلتا ہے کہ نبی آخر الزماں کے دور ميں ہی مسيلمہ کذاب نے نبوت کا دعوی کر ديا تھا اور مرزا قاديانی بھي اسی کا پيروکار ہے اور اپنے آپ کو واضح طور پر نبی کہتا ہے ۔ اور ” کشتی نوح “ ميں يوں رقمطراز ہے ۔
” خدا ايک اور محمد ﷺ اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبياءہے اور سب سے بڑھ کر ہے اب بعد اس کے کوئی نبی نہيں مگر وہ ی جس پر بروزی طور پر محمديت کی چادر پہنائی گئی ہو کيونکہ خادم اپنے مخدوم سے جدا نہيں اور نہ شاخ اپنی بيخ سے جدا ہے پس جو کامل طور پر مخدوم ميں فنا ہو کر نبی کا لقب پاتا ہے وہ ختم نبوت کا خلل انداز نہيں جيسا کہ تم جب آئينہ ميں اپنی شکل ديکھو تو تم دو نہيں ہو سکتے بلکہ ايک ہی ہو صرف ظل اور اصل کا فرق ہے ۔ سو ايسا ہی اللہ نے مسيح موعود ميں چاہا ۔ يہی بھيد ہے کہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہيں مسيح موعود ميری قبر ميں دفن ہوگا ۔ يعنی وہ ميں ہی ہوں ۔ ( کشتي نوح صفحہ24 )
اس تحرير ميں پہلے تو مرزا صاحب واضح طور پر رسول اللہ ﷺ کے خاتم الانبياءہونے کا اقرار کرتے ہيں ليکن بعد ميں آئينہ کی مثال دے کر خود کو ہی محمد ﷺ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہيں اور برملا طور پر کہہ رہے ہيں کہ جس پر بروزی طور پر محمديت کی چادر پہنائی گئی ہو وہی نبی ہے ۔ جس بات سے مرزا صاحب کذب بيانی اور ہيرا پھيری سے کام لے رہے ہيں ان کے جھوٹ کا پول فقط اسي بات سے کھل جاتا ہے کہ اس تحرير کے آخر ميں فرمان نبی کا حوالہ دے کر کہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا مسيح موعود ميری قبر ميں دفن ہوگا اور پھر کہتا ہے کہ وہ مسيح موعود ميں ہی ہوں ۔ اگر اب مرزا صاحب اپنے دعوے ميں سچے تھے تو ان کی قبر مدينہ منورہ ميں ہونی چاہئيے تھی نہ کہ قاديان ميں اور ويسے بھی يہ دستور شروع سے چلا آ رہا ہے کہ نبی جہاں فوت ہوتا ہے اسے وہيں دفن کيا جاتا ہے کہ حقيقت ميں مرزا نبی تھا تو يہ ليٹرين ميں مرا اسے وہيں دفن کرنا چاہئيے تھا ۔ کشتی نوح کے صفحہ نمبر 22 پر مرزا کچھ يوں رقمطراز ہے کہ
” اب محمدی سلسلہ موسوی سلسلہ کے قائمقام ہے مگر شان ميں ہزار ہا درجہ بڑھ کر مثيل موسیٰ موسیٰ سے بڑھ کر اور مثيل ابن مريم ابن مريم سے بڑھ کر اور وہ مسيح موعود نہ صرف مدت کے لحاظ سے آنحضرت ﷺ کے بعد چودھويں صدی ميں ظاہر ہوا جيسا کہ مسيح ابن مريم موسيٰ کے بعد چودھويں صدی ميں ظاہر ہوا تھا بلکہ وہ ايسے وقت ميں آيا تھا جب کہ مسلمانوں کا حال وہی تھا جيسا کہ مسيح ابن مريم کے وقت يہوديوں کا حال تھا سو وہ ميں ہی ہوں ۔ “ ( کشتي نوح صفحہ 22 )
اس تحرير ميں مرزا صاحب اپنے آپ کو عيسیٰ عليہ السلام سے افضل ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہيں اور ساتھ ساتھ اپنے آپ کو مثيل ابن مريم ثابت کر رہے ہيں ايسا شخص جو کسی ايک نبی کی گستاخی کرے وہ تو واجب القتل ہے ۔ اور پاکستان کے اندر بھی گستاخ رسول کی سزا موت ہے ۔ يہی وجہ ہے کہ امريکہ و يورپ قاديانيوں کو اقليت قرار دينے اور شاتم رسول کو سزائے موت دينے والے قانون کو ختم کروانے کے درپے ہيں اور ہمارے قاديانی نواز حکمران بھی ايسے بيانات ديتے رہتے ہيں جن سے ان کی حوصلہ افزائی ہو ۔ پاکستان ميں شاتم رسول کو موت کی سزا والے قانون کی وجہ سے سب سے پہلے قاديانی اس کا شکار ہوتے ہيں کيونکہ مرزا صاحب نے نہ صرف جھوٹی نبوت کا دعویٰ کيا بلکہ جگہ جگہ پر انبياءکي توہين بھی کی ہے ۔ اگر مرزا کے دماغی توازن کا جائزہ لينا ہو تو اسی ايک تحرير سے ليا جا سکتا ہے جس ميں خود ہی مريم اور پھر خود ہی عيسیٰ بن جاتا ہے ۔ لہٰذا کشتی نوح ميں لکھتا ہے کہ :
” اس نے براہين احمديہ کے تيسرے حصہ ميں ميرا نام مريم رکھا پھر جيسا کہ براھين احمديہ سے ظاہر ہے دو برس تک صفت مريميت ميں ميں نے پرورش پائی اور پردے ميں نشوونما پاتا رہا ۔ پھر جب اس پر دو برس گزر گئے تو جيسا کہ براھين احمديہ کے حصہ چہارم صفحہ 496 ميں درج ہے مريم کی طرح عيسیٰ کی روح مجھ ميں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ ميں مجھے حاملہ ٹھہرايا گيا اور آخر کئی مہينہ کے بعد جو دس مہينہ سے زيادہ نہيں بذريعہ اس الہام کے جو سب سے آخر براھين احمديہ کے حصہ چہارم صفحہ 556 ميں درج ہے مجھے مريم سے عيسٰی بنايا گيا پس اس طور سے ميں ابن مريم ٹھہرا ۔ “ ( کشتی نوح صفحہ 69-68 )
کيا ايسا شخص جو پہلے اپنے آپ کو مثيل ابن مريم کہے پھر خود ہی مريم بن جائے اور حاملہ ہو کر خود ہی ابن مريم بن بيٹھے اور کبھی اپنے آپ کو مسيح موعود کہلائے تو کبھی اپنے آپ کو محمد ﷺ ثابت کرنے کی کوشش کرے تو کبھی اپنے آپ کو عيسیٰ سے افضل قرار دے ۔ مرزائی دوستوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ کيا ايسا مخبوط الحواس شخص نبی کہلانے کا حق دار ہے ۔ کيا ايسا شخص قابل اتباع ہو سکتا ہے ، يقينا نہيں ! تو پھر آئيے توبہ کيجےے اور کلمہ توحيد و رسالت کا اقرار کر کے دائرہ اسلام ميں داخل ہو جائيے اسی ميں فلاح اور کاميابي ہے ۔
مرزا قاديانی” کشتی نوح “ ميں ايک اور جگہ پر يوں رقمطراز ہے کہ :
” مجھے قسم ہے اس ذات کي جس کے ہاتھ ميں ميري جان ہے کہ اگر مسيح ابن مريم ميرے زمانہ ميں ہوتا تو وہ کام جو ميں کر سکتا ہوں وہ ہر گز نہ کر سکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہيں وہ ہر گز نہ دکھلا سکتا اور خدا کا فضل اپنے سے زيادہ مجھ پر پاتا جب کہ ميں ايسا ہوں تو اب سوچو کہ کيا مرتبہ ہے اس پاک رسول کا جس کی غلامی کی طرف ميں منسوب کيا گيا ۔
ذالك فضل الله يوتيه من يشاءاس جگہ کوئی حسد اور رشک پيش نہيں کيا جاتا خدا جو چاہے کرے جو اس کے ارادہ کی مخالفت کرتا ہے وہ صرف اپنے مقاصد ميں نامراد ہی نہيں بلکہ مرکز جہنم کی راہ ليتا ہے ۔ ہلاک ہو گئے وہ جنہوں نے عاجز مخلوق کو خدا بنايا ہلاک ہو گئے وہ جنہوں نے ايک برگزيدہ رسول کو قبول نہ کيا مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا ميں خدا کی سب راہوں ميں سے آخری راہ ہوں اور ميں اسکے سب نوروں ميں سے آخری نور ہوں بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کيونکہ ميرے بغير سب تاريکی ہے ۔ ( کشتی نوح ، صفحہ 81 )
اس تحرير ميں بھی سراسر عيسيٰ عليہ السلام کی توہين کی گئی اور اپنے آپ کو عيسیٰ عليہ السلام سے افضل قرار دے رہا ہے ۔ جہاں تک مرزا قادياني کے نشانوں والی بات ہے واقعی وہ اس کے علاوہ کوئی اور نہيں دکھا سکتا ۔ عيسیٰ عليہ السلام تو پھر بھی جليل القدر پيغمبر ہيں ۔ ايسے نشان انتہائی حقير اور معمولی سے عقل والا انسان بھی نہيں دکھا سکتا ۔ اور جہاں تک مرزا قاديانی کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ اس کے بغير تاريکی ہے تو يہ ايسی ہی بات ہے کہ نام ہو نور بھری اور رنگ ہو توے کی سياہی سے بھی کالا ۔