• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

⁠⁠⁠ایرانی دہشت گردی سے متعلق سعودی وزارت خارجہ کا پیغام عالمی برادری کے نام

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
⁠⁠⁠ایرانی دہشت گردی سے متعلق سعودی وزارت خارجہ کا پیغام عالمی برادری کے نام


وزارت خارجہ کے ذمہ دار ذریعے نے واشگاف الفاظ میں واضح کیا ہے کہ 1979 میں جب سے ایرانی انقلاب رونما ہوا ہے ایران کی تاریخ فتنہ پروری، ہنگامے بپا کرنے ، اور نت نئے بحران کھڑے کرنے سے بھری ہوئی ہے، مقصد یہ ہے کہ خطے میں امن و استحکام کو دگر گوں کیا جائے، انہوں نے اس کیلیے تمام تر اصولوں، معاہدوں ، اخلاقیات اور عالمی قوانین کو دیوار پر دے مارا ہے، اس پورے عرصے کے دوران مملکت سعودی عرب نے اپنے آپ پر مکمل کنٹرول رکھتے ہوئے صبر کا مظاہرہ کیا، حالانکہ مملکت سعودی عرب سمیت علاقائی ممالک اور پوری دنیا ایران کی جارحانہ پالیسیوں کا شکار رہی ہے۔
ذریعے کا یہ بھی کہنا ہے کہ: ایران کی یہ پالیسی بنیادی طور پر ایرانی دستور کے مقدمہ اور خمینی کی وصیت پر مبنی ہے، نیز ایران کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ایرانی انقلاب بر آمد کرنے کی فکر پر قائم ہے، جس کی وجہ سے دیگر ممالک کی خود مختاری ، اور اندرونی معاملات میں در اندازی کی جاتی ہے، ان [اقدامات] کو "کمزور اور مغلوب اقوام کی مدد" کا نام دیا جاتا ہے، تا کہ عراق، لبنان، شام، اور یمن میں ملیشیاؤں کو مسلح کر سکے، دہشت گردی کیلیے تعاون کرتے ہوئے اپنی زمین پر دہشت گردی کو محفوظ ٹھکانے مہیا کرے، عرب ممالک میں دہشت گرد عناصر پیدا کرے، بلکہ بہت سی معصوم جانوں کے قتل کا باعث بننے والے دہشت گردانہ دھماکوں میں ملوث بھی ہوسکے، اپنے مخالفین کو بیرون ملک قتل کروائے، سفارت خانوں کو نشانہ بنایا جائے، پوری دنیا میں غیر ملکی سفارت کاروں کا قتل یا اقدام قتل کے ذریعے تعاقب کیا جائے۔
وزارتِ خارجہ نے ایک حقائق نامہ تیار کیا ہے جس میں مکمل اعداد و شمار اور تاریخوں کیساتھ ایرانی 35 سالہ جارحانہ پالیسیوں کو عیاں کیا گیا ہے، یہ ایرانی وزیر خارجہ کے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے مضمون اور اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو بھیجے جانے والے خط سمیت تہران کے مسلسل جھوٹوں کو پاش پاش کرنے کیلیے کافی ہے۔
1- ایران پہلا ملک ہے جس نے پوری دنیا میں دہشت گردی کی پشت پناہی اور سربراہی کی، جس کیلیے ایران نے داخلی طور پر پاسداران انقلاب فورس وغیرہ تشکیل دیں، اور بیرون ملک لبنان میں حزب اللہ، عراق میں حزب اللہ الحجاز، اور اہل حق لیگ سمیت بہت سی مسلح تنظیمیں قائم کیں، اسی طرح یمن میں حوثیوں کی طرز پر متعدد فرقہ وارانہ ملیشیائیں کئی ممالک میں بنائیں۔
ایران کی اقوام متحدہ کی طرف سے مذمت بھی کی گئی ہے بلکہ عالمی پابندیاں بھی لگائی گئیں، ایران نے القاعدہ جیسی دیگر دہشت گرد تنظیموں کی مدد بھی کی، بلکہ ان میں سے متعدد دہشت گرد تنظیموں کی قیادت اب بھی ایران میں ہی ہے۔

2- 1982ء میں لبنان سے 96 غیر ملکی افراد کو اغوا کیا گیا جن میں سے 25 امریکی شہری تھے، دس سال جاری رہنے والے اس بحران کو یرغمالیوں کے بحران سے یاد کیا جاتا ہے، یرغمال بنانے کی تمام تر کاروائیاں حزب اللہ جیسی ایران کی حمایت یافتہ تنظیموں نے کیں۔

3- 1983ء میں ایران کی منصوبہ بندی کے تحت حزب اللہ نے بیروت میں امریکی سفارت خانہ دھماکے سے اڑا دیا جس کی وجہ سے سفارتخانے کے 63 افراد ہلاک ہوئے۔

4- 1983ء میں ایرانی شہریت کے حامل اور پاسداران انقلاب سے وابستہ "اسماعیل عسکری" نے بیروت میں قائم امریکی بحریہ کے ہیڈ کوارٹر پر خود کش حملہ کیا اس کی منصوبہ بندی ایران نے کی تھی، اس کے نتیجے میں 241 ہلاکتیں اور 100 سے زائد بحری فوجی سمیت عام امریکی شہری زخمی ہوئے، اس کے بارے میں امریکی میڈیا میں یہ کہا گیا تھا کہ اس سانحہ میں میدان جنگ سے باہر سب سے بڑا جانی نقصان ہوا ہے۔

5- اسی دن حزب اللہ کی جانب سے بیروت میں قائم فرانسیسی فوج کے ہیڈ کوارٹر کو دھماکے سے اڑایا گیا جس میں 64 فرانسیسی فوجی سمیت عام افراد ہلاک ہوئے۔

6- 1983ء میں حزب اللہ اور ایران کی حمایت یافتہ شیعہ حزب الدعوہ سے تعلق رکھنے والے عناصر نے متعدد حملے کیے جس میں کویت میں قائم امریکی اور فرانسیسی سفارت خانے ، آئل ریفائنری، اور رہائشی علاقوں میں کیے جانے والے حملے بھی شامل ہیں جس کے نتیجے میں 5 ہلاکتیں اور 8 افراد زخمی ہوئے۔

7- 1983ء میں کویت کے بحری آئل ٹینکروں پر بحر خلیج میں میزائل داغے گئے، جس کی وجہ سے آئل ٹینکروں کو مجبوراً امریکی پرچم بلند کرنا پڑا۔

8- 1984ء میں مشرقی بیروت میں قائم امریکی سفارت خانے کی ملحقہ عمارت پر حزب اللہ نے حملہ کیا جس کی وجہ سے دو امریکیوں سمیت 24 افراد ہلاک ہوئے۔

9- 1985ء میں کویت کے امیر مرحوم جابر احمد الصباح کے قافلے کو دھماکے سے اڑانے کی کوشش کی گئی، جس کے نتیجے میں متعدد خلیجی فوجی اور عام شہری ہلاک ہوئے۔

10- 1985ء میں ایرانی حکومت کی منصوبہ بندی سے TWA ائیر لائن کا طیارہ اغوا ہوا جس میں 39 امریکی مسافروں کو کئی ہفتوں کیلیے محصور رکھا گیا، اور امریکی بحری فوج سے تعلق رکھنے والا ایک شخص قتل بھی ہوا۔

11- 1986ء میں ایران نے اپنے حجاج کو موسم حج میں ہنگامہ آرائی کرنے کیلیے تیار کیا، جس کی وجہ سے حجاج میں بھگدڑ مچ گئی اور 300 افراد لقمہ اجل بن گئے۔

12- 1987ء کو سعودی عرب کے مشرقی علاقے رأس تنورہ میں ایران کی حمایت یافتہ تنظیم "حزب اللہ الحجاز" نے ایک آئل کمپلیکس کی ورکشاپ کو آگ لگائی، اور اسی سال اس تنظیم سے تعلق رکھنے والے عناصر نے جبیل کے صنعتی علاقے میں سعودی عرب کی کمپنی (SADAF) پر حملے کیے۔

13- 1987ء میں ایرانی حکومت سعودی سفارتکار مساعد الغامدی کے قتل میں ملوث ہوئی، یہ وہی سال ہے جس میں ایران کے حجاج کی دھماکہ خیز مواد سعودی عرب لے جانے کی کوشش ناکام بنائی گئی تھی۔

14- اسی سال 1987ء میں سعودی سفارت خانے پر دھاوا بول کر سعودی سفارت کار رضا عبد المحسن نزھہ کو پاسدارانِ انقلاب کی جانب سے گرفتار کر لیا گیا، اور پھر انہیں سعودی عرب و ایران کے مابین مذاکرات کے بعد ہی رہا کیا گیا۔

15- 80 کی دہائی میں لبنان سے امریکی سفارت کاروں کو اغوا اور قتل کیا گیا۔

16- ایران اپنے حزب مخالف لیڈروں کو بھی قتل کروانے میں ملوث رہا ہے، چنانچہ 1989ء میں ایرانی کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر عبدالرحمن قاسملو اور ان کے نائب عبد اللہ آزار کو ویانا میں قتل کروایا گیا۔

اسی طرح 1991ء میں پاسداران انقلاب نے عہدِ شاہِ ایران کے آخری وزیر اعظم شاپور بختیار کو پیرس میں قتل کیا ، جس کے نتیجے میں فرانسیسی پولیس کے ایک فرد سمیت ایک فرانسیسی خاتون بھی ہلاک ہوئی۔

ایسے ہی 1992ء میں ایران نے ایرانی کردستان کے ڈیموکریٹک پارٹی کے سیکریٹری جنرل صادق شرفکندی سمیت ان کے تین معاونین فتاح عبدلی، ہمایوں اردلان، اور نوری دھکردی کو بھی قتل کروایا۔

17- 1989 میں ایرانی حکومت نے لبنان میں متعدد امریکی سفارت کاروں کو اغوا اور قتل کرا دیا۔

18- 1989 سے 1990 کے دوران ایرانی حکومت تھائی لینڈ میں 4 سعودی سفارت کاروں عبد اللہ المالکی، عبد اللہ البصری، فہد الباہلی، اور احمد السیف کی ہلاکت میں ملوث رہی۔

19- 1992 میں ایرانی حکومت برلن کے میکونوس ریسٹورنٹ کو دھماکے سے اڑانے میں ملوث رہی، جس کے بعد جرمن وفاقی پراسیکیوٹر نے ایرانی خفیہ ادارے کے وزیر علی فلاحیان پر دھماکے کی کاروائی کی منصوبہ بندی اور نگرانی کا الزام لگاتے ہوئے گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے، اس کاروائی میں ریسٹورنٹ میں موجود اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے 4 کرد مارے گئے تھے۔

20- 1994 میں بیونس آئرس میں 85 سے زیادہ افراد کی ہلاکت اور تقریباً 300 کے زخمی ہونے کا سبب بننے والے دھماکوں کی کڑیاں بھی تہران حکومت سے جا کر ملیں، اسی طرح 2003 میں برطانوی پولیس نے ارجنٹائن میں سابق ایرانی سفیر ہادی پور کو حملے کی سازش تیار کرنے کے الزام میں گرفتار کیا۔

21- 1994 میں وینزویلا کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ اخباری بیان میں 4 ایرانی سفارت کاروں کو کراکس کے سائمن بولیور ایئرپورٹ پر ہونے والے خطرناک واقعات میں براہ راست ملوث قرار دیا، ان کا مقصد ایرانی پناہ گزینوں کو اپنے ملک واپس جانے پر مجبور کرنا تھا۔

22- 1996 میں ایرانی حکومت کی حمایت یافتہ حزب اللہ الحجاز نامی تنظیم نے سعودی عرب کے شہر الخبر میں رہائشی ٹاوروں کو دھماکے کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 19 امریکیوں سمیت 120 افراد ہلاک ہوئے، ایران نے اس کاروائی کے مرتکب افراد کو تحفظ فراہم کیا جن میں ایرانی پاسپورٹ کا حامل ایک سعودی شہری بھی شامل ہے، کاروائی کی نگرانی اس وقت بحرین میں ایرانی فوجی اتاشی نے کی جب کہ مجرمانہ کاروائی کرنے والوں کو تربیت لبنان اور ایران میں دی گئی، اسی طرح دھماکا خیز مواد کو حزب اللہ کے ذریعے لبنان سے سعودی عرب پہنچایا گیا، ان تمام امور پر شواہد سعودی حکومت سمیت دیگر دوست ممالک کے پاس بھی موجود ہیں۔

23- گیارہ ستمبر 2001 کے بعد سے اپنی سرزمین پر ایران نے القاعدہ کے کئی لیڈروں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی، ان قائدین میں سعد بن لادن، سیف العدل اور دیگر شامل ہیں، ان افراد کو مسلسل مطالبوں کے باوجود ان کے ملکوں کے حوالے نہیں کیا گیا۔

24- 2003 میں ایرانی حکومت ایران میں مقیم القاعدہ کی لیڈر شپ کے حکم سے ریاض میں ہونے والے دھماکوں میں ملوث ہوئی ، ان دھماکوں میں متعدد سعودی شہری اور امریکیوں سمیت کئی غیرملکی مقیم افراد بھی ہلاک ہوئے۔

25- 2003 میں بحرین میں دھماکے کرنے کے ایک دہشت گردانہ منصوبے کو ناکام بنا گیا، نیز ایک نئے دہشت گرد گروپ کو پکڑا گیا جسے ایرانی پاسداران انقلاب اور لبنانی حزب اللہ کی طرف سے مکمل پشت پناہی حاصل تھی، اسی طرح کی صورت حال مختلف وقتوں میں کویت اور امارات میں بھی سامنے آئی۔

26- 2003 میں ایرانی حکومت نے عراق میں شیعوں کا تعاون کیا جس کیلیے ایران نے اپنی ہمنوا تنظیمیں تشکیل دیں، پھر ان کے ذریعے 4400 امریکی فوجیوں اور لاکھوں شہریوں بالخصوص عرب سنیوں کو ہلاک کروایا گیا، جس کے بارے میں عراق میں تعینات سابق امریکی سفیر جیمز جیفری کا کہنا ہے کہ عراق میں امریکیوں کی ہلاکتیں ایران کے تعاون سے چلنے والی تنظیموں کے ہاتھوں ہوئی ہیں۔

27- 2006 میں واشنگٹن کا کہنا تھا کہ ایران نے افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف طالبان کو مسلح کیا، اس کیلیے ایران نے اپنے سرحدی علاقے میں ایسے لوگوں کو اسلحہ فراہم کیا جن کا ایران کیساتھ نسلی یا فرقہ وارانہ اختلاف تھا، نیز ایرانی حکومت نے افغانستان میں ہلاک کیے جانے والے ہر امریکی فوجی کے بدلے ایک ہزار ڈالر کی رقم بطور انعام بھی مختص کی۔

28- 2007 میں امریکی سینیٹ نے ایک قرار داد میں ایرانی پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیموں میں شامل کیا گیا ، یہ فیصلہ جارج بش اور کانگریس نے 9/11 2001 کے واقعات رونما ہونے کے بعد صادر ہونے والے اصولوں کی روشنی میں کیا ۔

29- 2001 میں ایرانی حکومت کراچی میں سعودی سفارت کار حسن قحطانی کی ہلاکت میں ملوث رہی۔

30- 2011 میں امریکہ نے سعودی سفیر کو ہلاک کرنے کی کوشش ناکام بنائی ، اس میں ایرانی حکومت کا ملوث ہونا ثابت بھی ہو گیا، اس سازش کے سلسلے میں نیویارک کی فیڈرل کورٹ نے دو ایرانی ایجنٹوں کے نام عیاں کرتے ہوئے منصور ارباب سیار کو 25 سال قید کی سزا سنائی جب کہ امریکی عدالت کو مطلوب دوسرا مجرم غلام شکوری پاسداران انقلاب کا افسر ہے اور وہ ابھی تک ایران میں موجود ہے۔

31- اکتوبر 2012 میں پاسداران انقلاب کے زیر انتظام ایرانی قزاقوں نے سعودی عرب اور خلیج میں تیل اور گیس کی کمپنیوں پر سائبر حملے کیے، امریکی وزیر دفاع لیون پینٹا نے ان سائبر حملوں کو پرائیویٹ سیکٹر میں سب سے زیادہ تباہ کن قرار دیا، نیز وائٹ ہاؤس انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہمارے علم میں ہے کہ یہ حملے ایرانی حکومت کا کام ہے۔

32- 2012 میں آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں امریکی سفارت کاروں اور اہل کاروں کو ہلاک کرنے کا منصوبہ فاش ہوا ، منصوبے کے پیچھے آذربائیجان میں پاسداران انقلاب کے احکامات پر عمل درآمد کرنے والی ایک ایران کی حامی شیعہ تنظیم کا ہاتھ تھا۔

33- 2016 میں کویت کی فوجداری عدالت نے العبدلی گروپ کے مشہور کیس میں دو افراد کو سزائے موت کا فیصلہ سنایا جن میں ایک ایرانی شہری تھا، ان افراد پر کویت کی سلامتی اور یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی کوششوں اور جارحانہ کاروائیوں کی غرض سے ایران اور حزب اللہ کے لیے جاسوسی کے الزامات تھے۔

34- جنوری 2016 میں ایران نے سرکاری طور پر پاسداران انقلاب کے سربراہ محمد علی جعفری کی زبانی بیرون ملک (یعنی: شام، عراق، افغانستان ،پاکستان اور یمن میں) 2 لاکھ ایرانی جنگجوؤں کی موجودگی کا اعتراف کیا۔

35- اس کے علاوہ ایرانی سفارتی مشنوں نے مختلف ملکوں میں جاسوسی کے نیٹ ورک قائم کیے، جن کے ذریعے دہشت گرد منصوبوں اور کاروائیوں پر عمل درآمد کیا جاتا تھا، جن ممالک میں ایران کا جاسوسی نیٹ ورک پکڑا گیا ان میں سعودی عرب (2013)، کویت (2010 اور 2015)، بحرین (2010 اور 2011)، کینیا (2015)، مصر (2005، 2008 اور 2011)، اردن (2015)، یمن (2012)، امارات (2013)، ترکی (2012) اور نائیجیریا (2015) شامل ہیں۔

36- لبنان میں موجود حزب اللہ -جسے سابق امریکی نائب وزیر خارجہ رچرڈ آرمٹیج نے دنیا کی سب سے پہلی دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا-کے علاوہ ایرانی حکومت نے عراق، یمن اور دیگر ملکوں میں متعدد دہشت گرد تنظیمیں اور مسلح گروپ تشکیل دیے جسے ایران ان ممالک کے امن و استحکام سبوتاژ کرنے کیلیے استعمال کرتا ہے۔

37- شیعہ ملیشیاؤں کی تربیت کے لیے پاسداران انقلاب کے عناصر عراق میں داخل کیے گئے، پھر انہیں سنیوں اور بین الاقوامی افواج کے ارکان کو ہلاک کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

38- ایرانی حکومت دنیا بھر میں IED دھماکا خیز مواد تقسیم کرنے والی سب سے بڑی ڈسٹری بیوٹر ہے، یہ مواد گاڑیوں اور بکتر بند گاڑیوں کو دھماکے سے اڑانے میں استعمال ہوتا ہے، جس کی وجہ سے عراق میں بین الاقوامی افواج کے سینکڑوں فوجی قتل ہو چکے ہیں۔

39- ایرانی حکومت سفارتی مشنوں کو تنگ کرنے سے بھرا ہوا ریکارڈ رکھنے میں سب سے پہلی حکومت ہے، جس کی تاریخ 1979 سے شروع ہوتی ہے اس واقعہ میں امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول کر وہاں کے ملازمین کو 444 روز تک یرغمال بنا کر رکھا گیا۔
اس کے بعد 1987 میں سعودی اور کویتی سفارت خانوں پر حملے کیے گئے۔
1988 میں روسی سفارت خانے کو حملے کا نشانہ بنایا گیا۔
2007 میں کویتی سفارت کار پر حملہ کیا گیا ۔
2009 میں پاکستانی سفارت خانے پر دھاوا بولا گیا۔
2011 میں برطانوی سفارت خانے پر حملہ ہوا ۔
اور آخر میں 2016 میں تہران میں سعودی سفارت خانے اور مشہد میں اس کے قونصل خانے پر حملہ کیا گیا۔

40- ایرانی حکومت نے سعودی سفارتی مشن کو بار بار مطالبے پر بھی تحفظ فراہم نہیں کیا بلکہ سیکورٹی فورسز کے اہل کارمشن کی عمارت میں داخل ہو کر سامان اٹھا کر لے گئے۔

41- سعودی عرب کوئی پہلا ملک نہیں جس نے ایرانی حکومت سے اپنے تعلقات ختم کیے، بلکہ اس سے قبل ایران کے جارحانہ اقدامات کی بنا پر امریکہ ، برطانیہ، کینیڈا اور بعض یورپی ممالک سمیت الجزائر، تیونس، مصر، مراکش اور یمن نے ایران سے اپنے تعلقات ختم کیے ہیں، جب کہ حال ہی میں بحرین، سوڈان، صومالیہ ، جیبوتی اور اتحاد القمری نے ایرانی حکومت کے ساتھ تعلقات منقطع کیے ہیں ، اس کے علاوہ بہت سے ملکوں نے اپنے امور داخلہ میں ایرانی مداخلت اور ایرانی حکومت کی دہشت گردی کی سرپرستی کے سبب تہران سے اپنے سفیروں کو واپس بلایا۔

42- القاعدہ اور داعش کی جانب سے سعودی عرب کو بہت سے دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنایا گیا تاہم ایرانی حکومت کو ان دونوں تنظیموں کی جانب سے کسی دہشت گرد کاروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جس سے اس حکومت کے دہشت گردی اور دہشت گردوں کے ساتھ تعلق کے شبہات مزید ٹھوس ہو جاتے ہیں۔

43- 1979 میں ایرانی انقلاب آنے سے قبل عرب دنیا میں کوئی فرقہ واریت جانتا ہی نہیں تھا، ایرانی حکومت نے لبنان، شام، عراق اور یمن میں مداخلت کی یہاں تک کہ سابق ایرانی وزیر انٹیلی جنس حیدر مصلحی نے واشگاف انداز میں اعتراف کیا کہ ایران کا 4 عرب دارالحکومتوں پر قبضہ ہو چکا ہے۔

44- ایرانی حکومت نے کئی خلیجی ممالک کے شہریوں کا مذہبی بنیادوں پر فائدہ اٹھاتے ہوئے خوب استحصال کیا، ان کو تیسرے ملک کے ذریعے ویزے کے بغیر ہی ایران پہنچایا، اس کیلیے انہیں تیسرے ملک سے کشتی میں بین الاقوامی پانیوں تک پہنچایا جاتا اور پھر انہیں بچانے کے بہانے پکڑ کر دہشت گردی کے تربیتی مراکز میں پہنچایا جاتا ، پھر اس کے بعد ان افراد کو اپنے ملک اور ہم وطنوں کے خلاف کاروائیوں کے لیے واپس بھجوا دیا گیا۔

45- شام میں ایران کی حالیہ مداخلت خطے کے امور میں ایرانی مداخلت کی سب سے بڑی مثال ہے، جس میں پاسداران انقلاب اور فیلق القدس کو استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ حزب اللہ کی ملیشیاؤں میں بھرتیاں، اور دیگر ممالک کی فرقہ وارانہ ملیشیائیں بھی شامل ہیں، ایسے ہی ایران بشار الاسد کی اپنے عوام کے خلاف لڑائی میں اس کا ساتھ دے رہا ہے ، اور چار سال 10 ماہ سے جاری تحریک میں اڑھائی لاکھ سے زیادہ شامی شہری اپنی جانیں دے چکے ہیں جب کہ ہماری حالیہ تاریخ کے سب سے بڑے اس المیے میں تقریباً 1 کروڑ 20 لاکھ افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔

46- عرب دنیا میں ایرانی مداخلت کو صرف سعودی عرب نے ہی مسترد نہیں کیا بلکہ عرب لیگ نے بھر پور انداز سے اپنی قرار دادوں کے ساتھ اس کو مسترد کیا، جس کیلیے عرب لیگ کا غیر معمولی اہمیت کا حامل تازہ ترین اجلاس جو کہ 10 جنوری 2016ء کو منعقد ہوا اور اس میں متفقہ طور پر قرارداد پاس بھی کی گئی۔

47- ایران کا یہ دعوی کہ یمن میں اس کے سفارت خانے کو بمباری کا نشانہ بنایا گیا، اس دعوے کو تصویری حقائق نے جھوٹا ثابت کر دیا۔

48- شیعہ مخالف جھوٹے اقوال کو مسجد الحرام کے ایک امام سے منسوب کرنا ایران کے جھوٹ اور جعل سازی کا ثبوت ہے، اس جھوٹ کا پول تمام ائمہ حرم کے خطبات کی وڈیو ریکارڈنگ سے کھل گیا۔

49- نمر النمر- جسے ایرانی حکومت پر امن سیاسی کارکن قرار دیتی ہے-پر دیگر 46 دہشت گردوں کے ساتھ فرد جرم عائد کی گئی، اس کی جانب سے ایک دہشت گرد گروپ کی تشکیل ثابت ہوگئی تھی جو افراد کی بھرتیوں، منصوبہ سازی، اسلحے کے حصول اور دہشت گرد کاروائیوں پر عمل درآمد کے لیے کام کر رہا تھا۔ ان کاروائیوں میں متعدد بے قصور افراد ہلاک ہوئے جب کہ سیکورٹی فورسز کو فائرنگ کا نشانہ بھی بنایا گیا، نیز مطلوبہ افراد کے بارے پردہ پوشی کی گئی۔

50- عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی جانب سے ایرانی حکومت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دہشت گردی کو سپورٹ کرنے کی وجہ سے مذمت بھی کی گئی ہے۔ اس کی تصدیق جنرل اسمبلی کی جانب سے 6 اکتوبر 2015 کو جاری ہونے والی رپورٹ نمبر 70 / 411 سے ہوتی ہے۔

51- بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق، 2015 کے دوران ایران میں سزائے موت کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ رہی جس کی اوسط روزانہ تین اموات بنتی ہے۔ اس کے علاوہ ہائی کورٹ نے 27 سنی علماء کی سزائے موت کے احکامات کی تصدیق کی جب کہ ان احکامات کے جواز کی کوئی وجہ نہیں تھی۔

52- ایران بھر پور طریقے سے اقلیتوں کے حقوق پامال کرتا ہے جن میں عرب اہواز، کرد، بلوچ اور ان کے علاوہ دیگر نسلوں اور مسلکوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں، ان اقلیتوں کو حاصل حقوق پر عمل کرنے سے روکنے دیا جاتا ہے۔

53- ایران سلامتی کونسل کی یمن کے بحران کے ساتھ مخصوص قرار داد نمبر 2216 کی خلاف ورزی بھی کر رہا ہے ، چنانچہ ایران حوثی ملیشیاؤں کو بدستور اسلحہ کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے، ان میں اسلحے، گولہ بارود اور راکٹوں سے بھرے ہوئے بحری جہاز بھی ہیں جن کو یمن کے راستے میں روک لیا گیا تھا ۔

54- ایرانی حکومت جو اپنے ایجنٹوں کے تحفظ کا دعوی کرتی ہے، اگر کسی ایجنٹ کی دہشت گردانہ کاروائی ظاہر ہو جائے تو پھر وہ انہیں ختم کرنے میں ہرگز نہیں ہچکچاتی، جیسا کہ الخبر دھماکوں میں شریک ایک فرد کے ساتھ ہوا۔

55- جہاں تک ایرانی وزیر خارجہ کے ان دعووں کا تعلق ہے کہ سعودی عرب ایٹمی معاہدوں کے مخالف ہے تو اس سے ایک مرتبہ پھر تہران حکومت کے جھوٹ کی تصدیق ہو جاتی ہے؛ کیونکہ سعودی عرب تو کسی بھی ایسے معاہدے کی اعلانیہ تائید کا اظہار کر چکا ہے جو ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے سے روک دے، مستقل اور کڑی تفتیش کے طریقہ کار کو لازم کرے نیز ایران کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں پابندیوں کو پھر سے بحال کر دے، اس امر کی امریکہ نے بھی تصدیق کی تھی۔

56- ایران کی مرضی ہے کہ وہ کس طرح رہنا چاہتا ہے ؟ انارکی کا شکار انقلابی ریاست کے طور پر یا پھر ایسی ریاست بن کر جو بین الاقوامی معاہدوں کا احترام اور پاسداری کرنے کے ساتھ ساتھ ملکوں کے داخلی امور میں دخل اندازی نہ کرے۔

57- سعودی عرب نے ایرانی انقلاب کے آغاز سے ہی کوشش کی کہ وہ ایران کی جانب سلامتی، پرامن ، باہمی بقا اور جذبہ خیرسگالی کا ہاتھ بڑھائے، تاہم ایران نے اس کا جواب فرقہ وارانہ اور مسلکی فتنہ انگیزیوں اور قتل و غارت گری سے ہی دیا۔

58- اگر ایران عقل و منطق کی زبان کے اظہار کا ارادہ رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ اس کا آغاز اپنے آپ سے کرے اور اپنی بین الاقوامی اصولوں اور منشوروں کے منافی تمام تر تخریبی کاروائیوں کو روک دے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصل عربی تحریر یہاں ملاحظہ کی جاسکتی ہے ، اردو ترجمہ ہمارے محترم دوست شیخ شفقت الرحمن @ابن مبارک کی کاوش ہے ۔
تحریر کا عنوان یوں ہے :
من الخارجية السعودية إلى المجتمع الدولي: هذا هو السجل الكامل لجرائم إيران
 
Top