• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

◆◆ بچوں کی جنسی تربیت کیسے کریں ◆◆

شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
234
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
52
ہم سب اس الجھن کا شکار ہیں کہ بچوں اور نوجوانوں کو جنسی تعلیم دینی چاہیے یا نہیں. اس موضوع پر اب الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بحث و مباحثے ہو رہے ہیں مگر ابھی تک کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے. یہ بات طے ہے کہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اور سیکولر و لبرل طبقہ ہمارے بچوں کی اس معاملے میں جس قسم کی تربیت کرنا چاہتا ہے یا کر رہا ہے وہ ہر باحیا مسلمان کے لیے ناقابل قبول ہے. مگر یہ بھی ضروری ہے کہ نوعمر یا بلوغت کے قریب پہنچنے والے بچوں اور بچیوں کو اپنے وجود میں ہونے والی تبدیلیوں اور دیگر مسائل سے آگاہ کیا جائے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر گھر سے بچوں کو اس چیز کی مناسب تعلیم نہ ملے تو وہ باہر سے لیں گے جو کہ گمراہی اور فتنہ کا باعث بنے گا. چند فی صد لبرل مسلمانوں کو چھوڑ کر ہمارے گھروں کے بزرگوں کی اکثریت آج کی نوجوان نسل میں بڑھتی بے راہ روی سے پریشان ہے. وہ لوگ جو اپنے گھرانوں کے بچوں کے کردار کی بہترین تربیت کے خواہشمند ہیں، انکی خدمت میں کچھ گزارشات ہیں جن سے ان شاءاللہ ان کے بچوں میں پاکیزگی پیدا ہوگی

بچوں کو زیادہ وقت تنہا مت رہنے دیں

آج کل بچوں کو ہم الگ کمرہ، کمپیوٹر اور موبائل جیسی سہولیات دے کر ان سے غافل ہو جاتے ہیں…. یہ قطعاً غلط ہے. بچوں پر غیر محسوس طور پر نظر رکھیں اور خاص طور پر انہیں اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے بیٹھنے مت دیں کیونکہ تنہائی شیطانی خیالات کو جنم دیتی ہے. جس سے بچوں میں منفی خیالات جنم لیتے ہیں اور وہ غلط سرگرمیوں کا شکار ہونے لگتے ہیں بچوں کے دوستوں اور بچیوں کی سہیلیوں پہ خاص نظر رکھیں تاکہ آپ کے علم میں ہو کہ آپکا بچہ یا بچی کا میل جول کس قسم کے لوگوں سے ہے. بچوں بچیوں کے دوستوں اور سہیلیوں کو بھی ان کے ساتھ کمرہ بند کرکے مت بیٹھنے دیں. اگر آپ کا بچہ اپنے کمرے میں ہی بیٹھنے پر اصرار کرے تو کسی نہ کسی بہانے سے گاہے بہ گاہے چیک کرتے رہیں.

بچوں کو فارغ مت رکھیں

فارغ ذہن شیطان کی دکان ہوتا ہے اور بچوں کا ذہن سلیٹ کی مانند صاف ہوتا ہے بچپن ہی سے وہ عمر کے اس دور میں ہوتے ہیں جب انکا ذہن اچھی یا بری ہر قسم کی چیز کا فوراً اثر قبول کرتا ہے. اس لیے انکی دلچسپی دیکھتے ہوئے انہیں کسی صحت مند مشغلہ میں مصروف رکھیں. ٹی وی وقت گزاری کا بہترین مشغلہ نہیں بلکہ سفلی خیالات جنم دینے کی مشین ہے اور ویڈیو گیمز بچوں کو بے حس اور متشدد بناتی ہیں. ایسے کھیل جن میں جسمانی مشقت زیادہ ہو وہ بچوں کے لیے بہترین ہوتے ہیں تاکہ بچہ کھیل کود میں خوب تھکے اور اچھی، گہری نیند سوئے.

بچوں کے دوستوں اور مصروفیات پر نظر رکھیں

یاد رکھیں والدین بننا فل ٹائم جاب ہے. اللہ نے آپکو اولاد کی نعمت سے نواز کر ایک بھاری ذمہ داری بھی عائد کی ہے. بچوں کو رزق کی کمی کے خوف سے پیدائش سے پہلے ہی ختم کردینا ہی قتل کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ اولاد کی ناقص تربیت کرکے انکو جہنم کا ایندھن بننے کے لئے بے لگام چھوڑ دینا بھی انکے قتل کے برابر ہے. اپنے بچوں کو نماز کی تاکید کریں اور ہر وقت پاکیزہ اور صاف ستھرا رہنے کی عادت ڈالیں. کیونکہ جسم اور لباس کی پاکیزگی ذہن اور روح پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے.
بچیوں کو سیدھا اور لڑکوں کو الٹا لیٹنے سے منع کریں. حضرت عمر رضی اللہ اپنے گھر کی بچیوں اور بچوں پر اس بات میں سختی کرتے تھے. ان دو پوسچرز میں لیٹنےسے سفلی خیالات زیادہ آتے ہیں. بچوں کو دائیں کروٹ سے لیٹنے کا عادی بنائیں.
بلوغت کے نزدیک بچے جب واش روم میں معمول سے زیادہ دیر لگائیں تو کھٹک جائیں اور انہیں نرمی سے سمجھائیں. اگر ان سے اس معاملے میں بار بار شکایت ہو تو تنبیہ کریں. لڑکوں کو انکے والد جبکہ لڑکیوں کو ان کی والدہ سمجھائیں.
بچوں کو بچپن ہی سے اپنے مخصوص اعضاء کو مت چھیڑنے دیں. یہ عادت آگے چل کر بلوغت کے نزدیک یا بعد میں بچوں میں اخلاقی گراوٹ اور زنا کا باعث بن سکتی ہے
بچوں کو اجنبیوں سے گھلنے ملنے سے منع کریں. اور اگر وہ کسی رشتہ دار سے بدکتا ہےیا ضرورت سے زیادہ قریب ہے تو غیر محسوس طور پر پیار سے وجہ معلوم کریں. بچوں کو عادی کریں کہ کسی کے پاس تنہائی میں نہ جائیں چاہے رشتہ دار ہو یا اجنبی اور نہ ہی کسی کو اپنے اعضائے مخصوصہ کو چھونے دیں.
بچوں کا 5 یا 6 سال کی عمر سے بستر اور ممکن ہو تو کمرہ بھی الگ کر دیں تاکہ انکی معصومیت تا دیر قائم رہ سکے .

بچوں کے کمرے اور چیزوں کو غیر محسوس طور پر چیک کرتے رہیں. آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ آپ کے بچوں کی الماری کس قسم کی چیزوں سے پر ہے . مسلہ یہ ہے کہ آج کے دور پرائویسی نام کا عفریت میڈیا کی مدد سے ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے اس سے خود کو اور اپنے بچوں کو بچائیں. کیونکہ نوعمر بچوں کی نگرانی بھی والدین کی ذمہ داری ہے. یاد رکھیں آپ بچوں کے ماں باپ ہیں، بچے آپکے نہیں. آج کے دور میں میڈیا والدین کا مقام بچوں کی نظروں میں کم کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے. ہمیں اپنے بچوں کو اپنے مشفقانہ عمل سے اپنی خیرخواہی کا احساس دلانا چاہیے اور نوبلوغت کے عرصے میں ان میں رونما ہونے والی جسمانی تبدیلیوں کے متعلق رہنمائی کرتے رہنا چاہیے تاکہ وہ گھر کے باہر سے حاصل ہونے والی غلط قسم کی معلومات پہ عمل کرکے اپنی زندگی خراب نہ کر لیں.
بچوں کو بستر پر جب جانے دیں جب خوب نیند آ رہی ہو. اور جب وہ اٹھ جائیں تو بستر پر مزید لیٹے مت رہنے دیں

والدین بچوں کے سامنے ایک دوسرے سے جسمانی بے تکلفی سے پرہیز کریں.ورنہ بچے وقت سے پہلے ان باتوں کے متعلق با شعور ہو جائیں گے جن سے ایک مناسب عمر میں جا کر ہی آگاہی حاصل ہونی چاہئے . نیز والدین بچوں کو ان کی غلطیوں پہ سر زنش کرتے ہوئے بھی با حیا اور مہذب الفاظ کا استعمال کریں ورنہ بچوں میں وقت سے پہلے بے باکی آ جاتی ہے جس کا خمیازہ والدین کو بھی بھگتنا پڑتا ہے.
13 یا 14 سال کی عمر میں بچوں کو ڈاکٹر آصف جاہ کی کتاب Teenage Tinglings پڑھنے کو دیں. اس کا اردو ترجمہ بھی دستیاب ہے .یاد رکھیں آپ اپنے بچوں کو گائیڈ نہیں کریں گے تو وہ باہر سے سیکھیں گے جس میں زیادہ تر غلط اور من گھڑت ہوگا جس سے ان کے اذہان آلودہ ہوں گے.تیرہ، چودہ سال کے ہوں تو لڑکوں کو انکے والد اور بچیوں کو انکی والدہ سورۃ یوسف اور سورۃ النور کی تفسیر سمجھائیں یا کسی عالم ، عالمہ سے پڑھوائیں. کہ کس طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے بے حد خوبصورت اور نوجوان ہوتے ہوئے ایک بے مثال حسن کی مالک عورت کی ترغیب پر بھٹکے نہیں. بدلے میں اللہ کے مقرب بندوں میں شمار ہوئے. اس طرح بچے بچیاں انشاءاللہ اپنی پاکدامنی کو معمولی چیز نہیں سمجھیں گے اور اپنی عفت و پاکدامنی کی خوب حفاظت کریں گے.

آخر میں گذارش یہ ہے کہ ان کے ذہنوں میں بٹھا دیں کہ اس دنیا میں حرام سے پرہیز کا روزہ رکھیں گے تو انشاءاللہ آخرت میں اللہ کے عرش کے سائے تلے حلال سے افطاری کریں گے. اللہ امت مسلمہ کے تمام بچوں کی عصمت کی حفاظت فرمائے اور ان کو شیطان اور اس کے چیلوں سے اپنی حفظ و امان میں رکھے.آمین
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
بچوں کا جنسی استحصال اور والدین کا کردار۔(نیر تاباں)
فلموں ڈراموں سے، کسی کتاب سے، کسی سنی سنائی سے بہرحال آج کے والدین پر یہ حقیقت تو اچھی طرح واضح ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات اس گھٹن زدہ معاشرے میں عام ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا شعور ہی کافی ہے یا آگے بڑھ کر کوئی قدم اٹھانا ہو گا۔ کیا والدین واقعی اپنے بچوں کو اس صورتحال سے نبٹنے کے لئے تیار کر رہے ہیں؟ اور جو والدین بچوں کو بتاتے ہیں، وہ کیا بتا رہے ہیں؟ پرائیویٹ پارٹس کونسے ہیں اور کسی کو اجازت نہیں کہ آپکو ہاتھ لگائے۔ کوئی ایسی کوشش کرے تو مجھے بتا دینا۔ بس؟ کیا اتنا بتا دینا کافی ہے؟ ایک بار کا بتا دینا بہت ہے؟ ہر گز نہیں! بچوں کو مختلف زاویوں سے، مثالیں اور scenarios سامنے رکھ کر سمجھانا ہو گا، انہیں problem solving skills سمجھانے ہونگے۔
یاد رکھئے کہ دشمن میری اور آپکی طرح کا ایک نارمل دِکھنے والا انسان ہے، ہنستا بولتا ہے، گھلتا ملتا ہے۔ وہ کوئی الگ دنیا کی مخلوق نہیں کہ چہرے سے دیکھ کر ہم پہچان جائیں۔ بلکہ عموماً تو اتنے بہترین عادات و اطوار کا مالک ہو گا کہ آپکو اپنی اولاد کے لئے اس انسان پر بھروسہ کرتے وقت ایک لمحہ کوئی منفی خیال بھی نہ گزرے۔
بچے کی عمر کے لحاظ سے دشمن مختلف طریقوں سے اس کو گھیرتا ہے اور انہی طریقوں سے ہم نے بچوں (لڑکوں اور لڑکیوں- دونوں کو) کو باخبر کرنا ہے۔
1- لالچ دینا:
چونکہ دشمن کا گھر میں ہر وقت کا آنا جانا ہے اور وہ آپکی اولاد کی پسند ناپسند سے اچھی طرح واقف ہے، اسلئے وہ اسکو چھوٹے موٹے تحائف دیتا ہے۔ کبھی ٹافی، کبھی آئس کریم، کبھی اپنے ٹیبلٹ پر اسکو کارٹون اور گیمز کی اجازت دینا۔ اور ساتھ میں اسکو لالچ بھی دیتا ہے کہ میں آپکو وہ والی گڑیا لا کر دوں گا جو آپکو بہت پسند تھی اور ماما نے نہیں دلوائی، یا ہم پارک میں جھولوں پر جائیں گے اگر آپ۔۔۔۔
2۔ جھوٹ بولنا:
اگر آپ امی ابو کو بتائیں گے، آپکو ہی ڈانٹ پڑے گی۔ یا یہ کہ کوئی آپکی بات کا یقین نہیں کرے گا۔ یا یہ کہنا کہ all cool kids do that یا ایسے ٹچ کرنے میں کوئی غلط بات نہیں۔
3- دھمکی دینا:
اگر آپ نے میری بات نہیں مانی، میں کبھی آپکا دوست نہیں بنوں گا۔۔۔
4- بلیک میل کرنا:
میں آنٹی کو بتا دونگا کہ اس دن سکول میں آپ کی فلاں سے لڑائی ہوئی تھی۔ اگر آپ بات نہیں مانو گے تو میں انکل سے کہوں گا یہ ہمارے گھر میں ٹی وی دیکھتا ہے جو آپ نے اپنے گھر میں منع کیا ہوا۔
5- چیلنج کرنا:
اگر آپ اتنے سمارٹ ہو تو 55 سیکنڈز میں اپنا انڈرویئر اتار کر دکھائیں۔ مجھے پتہ ہے آپ نہیں کر سکیں گے۔ بچوں کو dare کیا جائے تو وہ فوراً اپنے آپکو پروو کرنے کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
یہ پانچوں طریقے مزید مثالوں سے آپ بچوں کو سمجھائیں۔ ہر مثال پر ان سے پوچھیں اگر ایسا ہو تو آپ کیا کریں گے یا ایسا کبھی ہوا تو نہیں؟ ۔ اب آئیں حکمتِ عملی کی طرف:
1- سب سے پہلا کام بچے کو یہ کرنا ہے کہ بآوازِ بلند، واضح الفاظ میں "نہیں، میں ایسا نہیں کرونگا" کہے۔ (بچے سے کہلوائیں تا کہ اسکی پریکٹس ہو(
2- وہاں سے بھاگ کر فوراً محفوظ جگہ پر قابلِ اعتبار لوگوں میں پہنچے۔
3- پہلی فرصت میں امی ابو کو سب کچھ بتائے۔ سکول میں ہیں تو ٹیچر کو بتائیں، کسی کے گھر میں ہیں تو جو قابلِ اعتبار بندہ ہو اسکو بتائیں، اور موقع ملتے ہی امی ابو کو بتائیں۔
یہاں یاددہانی کرواتی چلوں کہ بچے آپکو تبھی اپنے دل کی بات بتائیں گے جب آپ ان کو اعتماد دیں گے۔ انکے ساتھ اپنی چھوٹی موٹی باتیں شیئر کیا کریں تا کہ وہ بھی آپکو اپنی باتیں بتانے میں جھجک محسوس نہ کریں۔ ان کو بتائیں کہ امی ابو کے ساتھ کوئی راز نہیں رکھنے ہوتے، ہر بات بتانی ہوتی ہے۔ اپنے بچوں کو بتائیں کہ ہمارے آس پاس ہر طرح کے لوگ ہیں، اچھے بھی اور برے بھی۔ ہمیں اچھا بننا ہے، لیکن کسی کو اپنے ساتھ برا کرنے کی اجازت بالکل نہیں دینی۔ انہیں سکھائیں کہ کوئی برا کرے یا کوئی ایسی بات کرے کہ آپکو لگے گندی بات ہے تو firmly انہیں کہیں کہ "نہیں، میں ایسا نہیں کرونگا" اور فوراً وہاں سے بھاگ جائیں۔
اب فرض کیجیے کہ کمرے میں اس وقت کوئی اور نہیں، بچہ اسی "سرپرست" کے ساتھ اکیلا ہے۔ بچے کو اپروچ کرے تو اور کچھ ممکن نہ ہو تو بچے کو کہیں کہ پیٹ کے درد کا بہانہ کر کے باتھ روم چلا جائے اور تب تک وہاں رہے جب تک دشمن نا امید ہو کے چلا جائے یا باقی گھر والے کمرے میں آ جائیں۔
بچوں کے ساتھ رویہ دوستانہ رکھیں تا کہ وہ آپکے ساتھ اپنی ہر بات شیئر کر سکیں۔ یہ بہت ہی ضروری ہے۔ بچوں کے ذہن میں سوال پیدا ہونا فطری ہے۔ اگر آپ انہیں سوال کرنے پر ڈانٹ دیں گے تو انکا تجسس ختم نہیں ہو گا۔ وہ کسی اور سے اس کے بارے میں پوچھیں گے۔ وہ کس سے پوچھیں، اگلا بندہ کیا جواب دے، یہ آپکو معلوم نہیں۔ کچھ والدین شرم کے مارے ان ٹاپکس پر بچوں سے بات نہیں کرتے۔ ہوتے ہوتے والدین اور بچوں کے درمیان جھجک کا ایسا پردہ حائل ہو جاتا ہے جسکو پاٹنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر آپکو لگتا ہے کہ آپ کے لئے اپنے بچے کے ساتھ یہ باتیں کرنا ممکن نہیں تو لاوارث چھوڑنے کی بجائے کسی خالہ، پھوپھو، کوئی بڑا بہن بھائی، کزن، کوئی ایسا بندہ جو بچے سے نزدیک ہے، اسکو اس طرف لگائیں اور ان سے بچے کے بارے میں ان ٹچ رہیں۔ بہتر بہرحال یہی ہے کہ خود بات کی جائے۔ انہیں آپ سے اتنا اعتماد ملنا چاہئے کہ وہ جھجکے بغیر آپ سے جو دل میں آئے پوچھ لیں۔ جواب سچائی اور حکمت پر مبنی ہونا چاہئے۔
بچوں کے بدلتے رویوں پر نظر رکھیں۔ انکی کوئی بات، کوئی عمل، کوئی غیر متوقع ری ایکشن، ڈراؤنے خواب، ہنستے کھیلتے بچے کا ایک دم چپ چپ سا ہو جانا، غصہ کرنا، یا کسی سے نفرت یا ناپسندیدگی کا اظہار کرنا جو آپکی نظر میں بہت اچھا انسان ہو؛ ایسی کسی بھی صورت میں غیر محسوس طریقے سے کریدنے کی کوشش کریں۔ بچہ کہیں جانے پر ناپسندیدگی کا اظہار کرے تو اسکو ڈانٹنے کے بجائے کھوج لگانے کی کوشش کریں کہ آخر یہ بچہ صرف اسی گھر میں ان کمفرٹ ایبل کیوں ہے۔ بچے کی رائے کو مقدم رکھیں۔
عام حالات میں بھی ہمیں معلوم ہے کہ بچوں کو بار بار یاد دہانی کروانی پڑتی ہے۔ ہم مائیں تو آدھا دن یہی بولتی ملتی ہیں "بیٹا، یہ بات میں آپکو اتنی بار پہلے بھی سمجھا چکی ہوں۔ تھوڑی دیر پہلے میں نے فلاں بات سے منع کیا تھا" تو اسی حوالے سے اوپر دیا گیا مکالمہ ایک بار کر لینا کافی نہیں بلکہ ہر کچھ عرصے بعد drill کی جائے۔ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس سے ہم اپنے بچوں کو ذہنی طور پر تیار کر سکتے ہیں۔ اور اس سب کے ساتھ بچوں کو دعاؤں کے حصار میں رکھیں۔ اللہ تعالی ان ننھے پھولوں کو اپنی امان مین رکھیں اور کبھی کسی کی میلی نظر بھی نہ پڑے۔
پچھلی پوسٹ پر جن احباب نے کہا کہ جوائینٹ فیملی سسٹم ہی بنیادی وجہ ہے:
آپ سے جزوی اتفاق ہے۔ کلی اس لیے نہیں کیونکہ فرض کیجیئے میرے دادا دادی میرے والد کے ساتھ رہتے ہیں۔ جوائینٹ فیملی نہیں ہے لیکن میرے چچا، پھوپھو وغیرہ اپنے والدین سے ملنے ہمارے گھر آئیں گے۔ ساتھ میں بچوں کو بھی لائیں گے۔ دور سے آئے تو شاید کچھ دن رکیں گے بھی۔ ایسے میں کیا کیا جائے؟
- کچھ احباب کا کہنا تھا کہ بچوں کو ہر وقت اپنی نگرانی میں رکھا جائے:
کیا یہ عملی طور پر ممکن ہے؟ آپ کو بچوں کو سکول بھی بھیجنا ہے، کوئی فیلڈ ٹرپ ہو گا تو بچے وہاں بھی جائیں گے، رشتہ داروں سے بھی ملنا ہے۔ کبھی آپ کو خود کہیں جانا پڑ سکتا ہے جہاں بچے کو لے کر جانا ممکن نہ ہو۔ 10، 12 سال تک کے بچے victim بن سکتے ہیں۔ 12 سال تک یہ کس طرح ممکن ہے کہ آپ بچے کو ہمہ وقت اپنی نگرانی میں رکھیں؟
- جو کہتے ہیں کہ اسلام سے دوری وجہ ہے:
یقیناً ایسا ہے لیکن مدارس بھی اس غلاظت سے پاک نہیں۔ اور یوں بھی اسلام کو ہم راتوں رات ہر جگہ، ہر ایک پر نافذ نہیں کر سکتے۔ کوئی ایسا حل ہونا چاہئے جس پر ابھی فوری عمل درآمد شروع کیا جائے۔
- جو کہتے ہیں کہ ٹی وی، فون، انٹرنیٹ اصل وجہ ہے:
جو واقعہ میں نے لکھا تھا وہ اب سے کوئی 155 سال پرانا ہے۔ انباکس میں بھی دو واقعات ایسے پتہ چلے جو اتنے ہی پرانے ہیں۔ اسوقت تو یہ خرافات نہ ہونے کے برابر تھیں۔
واحد حل یہی ہے کہ بچوں کو مضبوط بنایا جائے، انہیں اعتماد دیا جائے، انہیں problem solving skills سکھائے جائیں۔ بحثیت والدین آپ پر بھاری ذمہ داری ہے۔ آپ کو یہ لگتا ہے کہ ایسی باتیں کر کے آپ ان سے انکا بچپن چھین رہے ہیں تو تصور کی آنکھ سے ان بچوں کو دیکھیں جن کے ساتھ یہ زیادتی ہو چکی ہے۔ انکی ساری زندگی ایک کرب میں گزرتی ہے۔ ایک ناکردہ گناہ کا مجرم بن کر، بنا کسی قصور کے خود کو کوستے ہوئے۔۔۔ بچوں کو اس اذیت میں مت جھونکیں۔ انکو ایک مضبوط، پراعتماد انسان بنائیں۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
(نیر تاباں)

"ہم لوگ جوائینٹ فیملی میں رہتے تھے، دادی جان، چاچو کی فیملی اور ہم۔ چاچو کی شادی ابو سے کچھ سال پہلے ہوئی تھی۔ ان کا سب سے بڑا بیٹا مجھ سے قریب 15 سال بڑا ہے۔ امی نے ہمیشہ یہی بتایا کہ یہ بڑے بھائی ہیں۔ وہ ہم کزنز میں سب سے بڑا تھا اور ہم سبھی اسے بھیا کہہ کر بلاتے تھے۔ امی اور چچی کی آپس میں اچھی دوستی تھی اسلئے کبھی شاپنگ پر جانا ہوتا، یا خاندان میں کسی کی فوتگی پر جانا ہو، یا کبھی شادی میں صرف بڑوں کا بلاوا ہوتا تو وہ لوگ ساتھ چلے جاتے اور ہم سب کزنز بھیا کے زیرِ نگرانی ہوتے۔ امی جاتے جاتے کہہ جاتیں کہ وہ جلدی لوٹ آئیں گی، اور گھبرانے کی کوئی بات نہیں کیونکہ بھیا گھر پر ہیں۔ میں امی کو کیسے سمجھاتی کہ یہی تو فکر کی بات ہے کہ بھیا گھر پر ہیں۔ سب بچوں کو ٹی وی لگا کر دے دیا جاتا اور اسکے بعد میرے لئے بتانا ممکن نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہوتا۔ وہ اٹھارہ بیس سال کے ہونگے اور میں چار پانچ سال کی بچی۔۔۔ اسے روکتی بھی تو کیسے؟! لگ بھگ پانچ سال یہی سلسلہ چلتا رہا۔ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ جو میرے ساتھ ہو رہا ہے غلط ہے۔ ڈر سے میں کسی کو بتا بھی نہ پائی۔ اب اس بات کو کئی سال گزر چکے ہیں لیکن میرے دل سے بھیا کی نفرت نہیں جاتی۔ مجھے لگتا ہے کہ میرا بھی قصور تھا کہ میں یہ سب کچھ روک نہ پائی۔ ہر بار جب امی کو جانا ہوتا، میں رو رو کر انہیں کہتی کہ مجھے ساتھ جانا ہے۔ امی ہر بار مجھے کبھی پیار سے اور کبھی ڈانٹ کر چپ کروا دیتیں کہ جب بڑا بھائی گھر پر ہے تو ڈرنے کی کیا بات ہے، آپ اکیلی تھوڑی ہیں؟ میں انہیں کیسے سمجھاتی کہ آپ مجھے اکیلا چھوڑ کر چلی جائیں تو شاید میں محفوظ رہوں۔ بھیڑوں کی حفاظت کے لئے امی نے بھیڑیے کا انتخاب کیا تھا، اور انہیں خود بھی معلوم نہیں تھا۔۔۔۔۔"
یہ سب بتاتے ہوئے اسکی کیا حالت تھی، میں نہیں جانتی لیکن کمپیوٹر کے اس جانب میرے ہاتھ ٹھنڈے پڑ چکے تھے، میں کانپ رہی تھی، سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا سوچوں، کیا کہوں، کیا مشورہ دوں۔۔۔
بعد میں اسکے بارے میں مزید ریسرچ کی تو معلوم ہوا کہ %70 کے قریب ایسا کرنے والے قریبی خاندان، دوست، نوکر چاکر، ڈرائیور اور وہ لوگ جن پر ہم اعتماد کرتے ہیں۔ اتنا اعتماد کہ اپنی اولاد ان کے حوالے کرتے ہمیں ایک بار خیال بھی نہیں آتا کہ کہیں کچھ ایسا ویسا نہ ہو جائے۔
جس گفتگو کا ذکر میں نے اوپر کیا، اس وقت یہ فیصلہ کیا کہ جب میرا کوئی بچہ ہو گا تو اسکو میں ضرور بتاؤں گی کہ پرائیویٹ پارٹس کسی کو دیکھنے/چھونے کی اجازت نہیں، اور نہ ہی ہمیں اجازت ہے کسی کے پرائیویٹ پارٹس کو دیکھنا/چھونا۔ اور میں نے ایسا ہی کیا۔ شاید آپ میں سے بھی بہت سوں نے اپنے بچوں کو یہ بنیادی تعلیم دے رکھی ہو گی اور پھر میری طرح بےفکر ہو گئے ہونگے کہ فرض پورا ہوا۔ لیکن کچھ دن پہلے ایک کتاب پڑھی جسکو پڑھ کر احساس ہوا کہ یہ بتا دینا ہی کافی نہیں۔ اگر آپ نے اپنے بچے کو یہ بنیادی تعلیم دے رکھی ہے لیکن اگر کوئی اسے اپروچ کرے اور دھمکی دے کہ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میں تم سے دوستی ختم کر دوں گا، یا لالچ دے کہ اگر تم میری بات مان لو تو میں تمہارا پسندیدہ کھلونہ تمہیں دلواؤں گا، ایسے میں بچہ کیا کرے؟
اس کتاب کی روشنی میں ایک تفصیلی آرٹیکل لکھنے کا ارادہ ہے۔ موضوع حساس سہی لیکن اس بارے میں والدین کو علم ہونا انتہائی ضروری ہے۔
 
Top