• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

☆واقعہ حاطب بن ابی بلتعہ☆

شمولیت
نومبر 03، 2015
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
37
▶مولانا ابوالکلام آزاد کی ایمان افروز تحریر◀

یہ تحریر مولانا کی دوراندیشی اور فراست کا شاہکار ہے.اور اس تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ جو حال مسلمانوں کا مولانا کے دور میں تها. آج کاربن کاپی ثابت ہوا...جس طرح مولانا کے دور میں غدار اور ایمان فروش علماء سوء کی کمی نہ تهی.اور مولانا کے زمانے میں خلافت پر زبانیں لمبی کرنے والے بہت تهے.اسی طرح آج همارے معاشرے کا بهی یہی حال ہے..اب مولانا کی تحریر ملاحظہ کریں.
سورہ ممتحنہکے شان نزول کا واقعہ اس بارے میں مسلمانوں کے لیے بڑا عبرت انگیز ہے.
بخاری ومسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حاطب بن ابی بلتعہ مہاجرین صحابہ اور شرکائے بدر میں سے تھے. آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پر چڑھائی کا قصدکیا تو انہوں نے اپنے اہل وعیال کی حفاظت کے خیال سے ایک خط لکھ کر مکہ میں اطلاع دے دینی چاہی.وحی الہی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پر مطلع ہو گئے اور راستے ہی میں سے خط پکڑوا منگوایا.جب حاطب سے پوچھا گیا تو انہوں نے معذرت کی
"مافعلت هذا کفرا ولا ارتدادا"
میں نے کفر اور ارتداد اور اسلام کی مخالفت کے خیال سے ایسا نہیں کیا. صرف اپنے اہل و عیال کی حفاظت کے خیال سے خط بهیج دیا تھا، میری نیت بری نہ تھی. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ انہیں قتل کر دیں اور کہا"انه منافق قدخان اللہ ورسوله"
یہ منافق ہے، اس نے اللہ اور اسکے رسول کے ساتھ خیانت کی ہے.
اس پر سورہ ممتحنہ کا نزول ہوا:
یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَ قَدْ کَفَرُوْا بِمَا جَآءَ کُمْ مِّنَ الْحَقَِّ۔ ﴿ممتحنہ:۱﴾

مسلمانو! خدا کے اور خود اپنے دشمنوں کو ایسا دوست نہ بناؤ کہ محبت الفت کے ان سے تعلقات رکهو.یہ لوگ ہیں جو اسلام سے انکار کر چکے ہیں اور اس کے دین برحق کے دشمن ہیں.
اس واقعہ میں ہمارے لیے بڑی ہی عبرت ہے.حاطب بن ابی بلتعہ مہاجرین وبدریین میں سے تھے. انہوں نے صرف اپنے اہل و عیال کی حفاظت کے خیال سے خط لکھا تھا. دشمنانِ اسلام کی مدد کرنا مقصود نہ تھا. اس پر بهی اللہ کی جانب سے یہ عتاب نازل ہوا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ قتل کر دینےکے لیے اٹھےکہ یہ منافق ہے.غور کرنا چاہیے کہ جب باوجود علاقہ قرابت، مخالف ومحارب کے ساتھ اتنا تعلق بهی گوارا نہیں کیا گیا تو پھر ان مسلمانوں کا شرعا کیا حکم ہونا چاہیے جو برٹش گورنمنٹ (ہمارے دور میں امریکہ) کے محارب فریق ہونے پر بهی ہر طرح کی محبت وموالات اور اعانت و مشارکت کے تعلقات اس کے ساتھ رکھتے ہیں اور جنکا اب تک یہ حال ہے کہ اس کے درباروں کے دیئے ہوئے بے سود خطابوں کو بھی ترک کردینا انکے نفس حق فراموش پر گراں گزررہا ہے.
على الخضوص ان مدعیان علم وتقدس (داعیان قرآن سنت) کا حال قابل تماشا ہے جنکو انکی بارگاہوں سے شمس العلماء کے خطابات ملےہیں.یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے تیئں اسلام کی دینی ریاست کا اولین حق دار اور مسلمانوں کی مذہبی پیشوائی کا سب سے زیادہ مستحق ظاہر کرتے ہیں.
یاسبحان اللہ!

مسلمانوں پر انکی قومی بدبختی کااس سے بڑھ کر اور کون سا وقت آسکتا ہے! جن لوگوں کو اسلام اور اس کی کتاب قطعاً منافق قرار دے رہی ہو اور جو اللہ کے نزدیک اسکے بهی حقدار نہ ہوں کہ مسلمانوں کی صف میں جگہ پائیں انکو مسلمانوں کی ریاست و پیشوائی کا دعوی ہو، وہ مسلمانوں کی بڑی بڑی درسگاہوں کے مالک ہوں، جہاں صبح وشام قال اللہ اور قال الرسول کا چرچا رہتا ہے اور پھر اس سے بهی عجیب تو یہ کہ بہت سے مسلمان ہوں گے جو انکی پیشوائی کو جان سے مان رہے ہوں اور انکے آگے عقیدت وارادت کا سر جھکا کر اللہ اور اس کے رسول سے گردن موڑ رہے ہوں:
"مدار روزگار سفلہ پرور را تماشا کن!"
الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ العِزَّةَ لِلّهِ جَمِيعًا۔ ﴿نساء:۱۳۹﴾
جو مسلمان، مسلمانوں کو چھوڑ کر ان مخالف غیر مسلموں کو اپنا دوست بنارہے ہیں تو کیا وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بارگاہوں سے عزت حاصل کریں؟ اگر عزت ہی کی طلب ہے تو یاد رکھیں کہ اصلی عزت دینے والے وہ نہیں ہیں عزت اللہ کے لیے ہے اور ایک مسلمان کو مل سکتی ہے تو اسی کی چوکهٹ سے.

سورہ نساء میں یہ تمام خصلتیں منافقوں کی قرار دی ہیں جن میں آج ہمارے بڑے بڑے مدعیان علم و مشخیت(مدعیان قرآن و حدیث) مبتلا ہیں. انکا حال یہ ہوتا ہےکہ ایک ہی وقت میں اسلام وکفر دونوں سے ساز باز رکهنا چاہیے ہیں. یعنی وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان بھی رہیں اور اسلام کے مخالفوں سے رسم و راہ جاری رہے:
مُّذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَلِكَ لاَ إِلَى هَؤُلاء وَلاَ إِلَى هَؤُلاء۔ ﴿نساء: ۱۴۳ ﴾

تو ایسے لوگوں کی نسبت فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُواْ لِلّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا◇ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ﴿نساء:۱۴۴:۱۴۵﴾

اسلام تو مسلمان کے لئے یہ بات بھی جائز نہیں رکھتا کہ اگر اسکے ماں باپ، بھائی بہن، مسلمانوں سے لڑرہے ہوں تو ان سے بهی کسی طرح کا واسطہ رکهے:
لاَ تَتَّخِذُوْآ اٰبَآءَ کُمْ وَ اِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ وَ مَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔ ﴿التوبة:۲۳﴾

اور جو مسلمان ایسے وقتوں میں محارب غیر مسلموں سے محبت واعانت کا تعلق رکهیں خواہ وہ انکے ماں باپ ہی کیوں نہ ہوں، انکے مومن ہونے کی صاف صاف نفی کر رہا ہے:
لاَ تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اﷲَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ لَوْ کَانُوْآ اٰبَآءَ ہُمْ اَوْ اَبْنَآءَ هُم۔ ﴿المجادلة:۲۲﴾

مہاجرین صحابہ نے اس حکم کی تصویر بن کر دنیا کو دکهلادیا کہ ایمان کے معنی کیا ہیں؟
پس اب فیصلہ کر لو کہ ان لوگوں کا حکم کیا ہونا چاہیے جو ایسے وقتوں میں محارب غیر مسلموں کے دیئے ہوئے خطابوں(بائنڈنگ فورس) سے پیار کریں گے انکے دئیے ہوئے تمغوں(لیجن آف میرٹ ایوارڈ)جو اکثر اسلام فروشی ہی کے صلہ میں ملے ہیں. اپنے سینوں پر جگہ دیں گے، انکی بارگاہوں میں جاکر اطاعت وتعبد کا سرجهکائیں گے، اور آہ، ان سب سے بهی بڑھ کر وہ، جو انکی راہوں میں غلاموں کی طرح بچهیں گے انکے حکموں پر کتوں کی طرح لوٹیں گے.

انکی خدمت وچاکری کے عشق میں اپنے دین وایمان تک کو نثار کردین گے:
فى الله وللمسلمين من هذه الفاقرة التى هى اعظم فواقرالدين، الرزية التى مارزى بمثلها سبيل المومنین:


لمثل هذا یذوب القلب من کمد
ان کان فی القلب اسلام وایمان

(مسلہ خلافت:227، 229)
 
Top