فیاض ثاقب
مبتدی
- شمولیت
- ستمبر 30، 2016
- پیغامات
- 80
- ری ایکشن اسکور
- 10
- پوائنٹ
- 29
بدعتی استاد بنا لیے جائیں گے
قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اصاغر(اہل بدعت) استاد بن جائیں گے۔
فرمان نبویﷺ ہے کہ:
اِنَّ مِن اَشرَاطِ السَّاعَۃِ اَن یُلتَمَسَ العِلمُ عِندَ الاَصَاغِرِ
"علامات قیامت میں یہ بھی شامل ہے کہ اصاغر(اہل بدعت) سے علم حاصل کیا جائیگا"
(صحیح۔ السلسلۃ الصحیحۃ:695، صحیح الجامع الصغیر:2207، ابن مبارک فی الزھد:16/2)
اس حدیث مبارکہ میں "اصاغر" سے علم حاصل کیا جانا قیامت کی ایک نشانی بتائی گئی ہے۔اصاغر کے مفہوم کے متعلق امام ابن مبارکؒ نے فرمایا ہے کہ اس سے مراد اہل بدعت ہیں۔
(کما فی السلسلۃ الصحیحۃ:194/2)
علامہ عبد الرؤف مناویؒ نقل فرماتے ہیں کہ بیان کیا جاتا ہے کہ اصاغر سے مراد ایل بدعت ہیں اور طبرانی نے ایک روایت نقل کی ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگ جب تک اصحاب محمد ﷺ اور ان میں سے اکابرین سے علم حاصل کرتے رہیں گے صالح اور کتاب و سنت پر قائم رہیں گے اور جب وہ اپنے اصاغر کے پاس آئیں گے تو ہلاک ہو جائیں گے اور بعض حکماء کا کہنا ہے کہ عزت چاہتے ہو تو اپنے اکابر کو سردار بناؤ اور اصاغر کو مت بناؤ ورنہ رسوا ہو جاؤ گے۔
(فیض القدیر:686/2)
کچھ اہل علم نے اصاغر کی توضیح یوں کی ہے کہ اصاغر سے مراد وہ لوگ ہیں جو کم علم ہیں اور علم کم ہونیکی وجہ سے محض اپنی آراء سے لوگوں کی رہنمائی کرتے پھرتے ہیں جس کے نتیجے میں بدعات و خرافات پھیلتی ہیں ۔
معلوم ہوا کہ اہل بدعت کو علم حاصل کرنیکا کا مرکز و محور بنا لینا قیامت کی ایک نشانی ہے ، اور اگر بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ علامت ظاہر ہو چکی ہےاور لوگوں نے حقیقی کتاب و سنت کے حاملین علما کو چھوڑ کر اپنے بزرگوں اور جعلی پیروں اور کم علم خطبا و واعظین کو ہی اپنا مرجع بنا رکھا ہے ۔ یہی باعث ہے کہ امت کی اکثریت اس وقت بدعات میں مبتلا ہے۔ گردنوں میں تعویذ لٹکانا اور بازؤوں پر باندھنا حصول منفعت اور دفع ضرر کا ذریعہ سمجھا جا رہا ہے ، بدفالی اور شگون بد لینا عام ہے ، اذان سے پہلے مروجہ اور خود ساختہ درود و سلام پڑھا جا رہا ہے ، لفظوں کیساتھ نماز کی نیت کی جارہی ہے ، قضا عمری ادا کی جارہی ہے ، صدقہ و خیرات کے لیے جمعرات کے دن کو خاص کیا جا چکا ہے ، میت کی وفات کے ہفتہ بعد یا 40 دن بعد یا سالانہ ختم و برسی دلائی جا رہی ہے ، میت کو ایصال ثواب کی غرض سے قرآن خوانی کرائی جا رہی ہے ، پختہ قبریں بنائی جا رہی ہیں ، قبروں پر عمارتیں ، مقبرے اور قبے بنائے جا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل بدعت ، کم علم خطبا اور نام نہاد علما کو چھوڑ چھاڑ کر کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھاما جائے اور تمام مسائل میں ان علمائے حق کی طرف رجوع کیا جائے جو دینی علم میں رسوخ رکھتے ہیں اور پر مسئلہ قرآن اور صحیح احادیث کی روشنی میں بیان کرتے ہیں ۔
قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اصاغر(اہل بدعت) استاد بن جائیں گے۔
فرمان نبویﷺ ہے کہ:
اِنَّ مِن اَشرَاطِ السَّاعَۃِ اَن یُلتَمَسَ العِلمُ عِندَ الاَصَاغِرِ
"علامات قیامت میں یہ بھی شامل ہے کہ اصاغر(اہل بدعت) سے علم حاصل کیا جائیگا"
(صحیح۔ السلسلۃ الصحیحۃ:695، صحیح الجامع الصغیر:2207، ابن مبارک فی الزھد:16/2)
اس حدیث مبارکہ میں "اصاغر" سے علم حاصل کیا جانا قیامت کی ایک نشانی بتائی گئی ہے۔اصاغر کے مفہوم کے متعلق امام ابن مبارکؒ نے فرمایا ہے کہ اس سے مراد اہل بدعت ہیں۔
(کما فی السلسلۃ الصحیحۃ:194/2)
علامہ عبد الرؤف مناویؒ نقل فرماتے ہیں کہ بیان کیا جاتا ہے کہ اصاغر سے مراد ایل بدعت ہیں اور طبرانی نے ایک روایت نقل کی ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگ جب تک اصحاب محمد ﷺ اور ان میں سے اکابرین سے علم حاصل کرتے رہیں گے صالح اور کتاب و سنت پر قائم رہیں گے اور جب وہ اپنے اصاغر کے پاس آئیں گے تو ہلاک ہو جائیں گے اور بعض حکماء کا کہنا ہے کہ عزت چاہتے ہو تو اپنے اکابر کو سردار بناؤ اور اصاغر کو مت بناؤ ورنہ رسوا ہو جاؤ گے۔
(فیض القدیر:686/2)
کچھ اہل علم نے اصاغر کی توضیح یوں کی ہے کہ اصاغر سے مراد وہ لوگ ہیں جو کم علم ہیں اور علم کم ہونیکی وجہ سے محض اپنی آراء سے لوگوں کی رہنمائی کرتے پھرتے ہیں جس کے نتیجے میں بدعات و خرافات پھیلتی ہیں ۔
معلوم ہوا کہ اہل بدعت کو علم حاصل کرنیکا کا مرکز و محور بنا لینا قیامت کی ایک نشانی ہے ، اور اگر بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ علامت ظاہر ہو چکی ہےاور لوگوں نے حقیقی کتاب و سنت کے حاملین علما کو چھوڑ کر اپنے بزرگوں اور جعلی پیروں اور کم علم خطبا و واعظین کو ہی اپنا مرجع بنا رکھا ہے ۔ یہی باعث ہے کہ امت کی اکثریت اس وقت بدعات میں مبتلا ہے۔ گردنوں میں تعویذ لٹکانا اور بازؤوں پر باندھنا حصول منفعت اور دفع ضرر کا ذریعہ سمجھا جا رہا ہے ، بدفالی اور شگون بد لینا عام ہے ، اذان سے پہلے مروجہ اور خود ساختہ درود و سلام پڑھا جا رہا ہے ، لفظوں کیساتھ نماز کی نیت کی جارہی ہے ، قضا عمری ادا کی جارہی ہے ، صدقہ و خیرات کے لیے جمعرات کے دن کو خاص کیا جا چکا ہے ، میت کی وفات کے ہفتہ بعد یا 40 دن بعد یا سالانہ ختم و برسی دلائی جا رہی ہے ، میت کو ایصال ثواب کی غرض سے قرآن خوانی کرائی جا رہی ہے ، پختہ قبریں بنائی جا رہی ہیں ، قبروں پر عمارتیں ، مقبرے اور قبے بنائے جا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل بدعت ، کم علم خطبا اور نام نہاد علما کو چھوڑ چھاڑ کر کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھاما جائے اور تمام مسائل میں ان علمائے حق کی طرف رجوع کیا جائے جو دینی علم میں رسوخ رکھتے ہیں اور پر مسئلہ قرآن اور صحیح احادیث کی روشنی میں بیان کرتے ہیں ۔