جس حنفی نے بھی یہ حوالہ دیا اس نے خیانت اور مغالطہ بازی کا ارتکاب کیا ہے۔ذیل میں اس کی وضاحت ملاحظہ ہو:
پہلی خیانت:
یہ بات نہ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے اور نہ کسی صحابی کا اثر ہے بلکہ یہ سوید بن غفلہ رحمہ اللہ تابعی کی طرف منسوب عمل ہے۔
ظاہر ہے تابعی کا قول ووفعل کسی کے یہاں دلیل نہیں ہے پھر حنفی ایک تابعی کی طرف منسوب عمل پیش کرکے کیا ثابت کرنا چاہتا ہے؟
دوسری خیانت:
حنفی نے مذکورہ بات کے لئے حدیث نمبر کا حوالہ دیا ہے جو سراسر مغالطہ بازی ہے۔کیونکہ اما م بخاری رحمہ اللہ نے اس بات کو اپنی حدیث کی کتاب میں نقل ہی نہیں کیا ہے بلکہ رجال والی کتاب ”الکنی“ میں نقل کیا ہے اور اس کتاب کے نام ہی سے ظاہر ہے کہ اس کتاب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے رواۃ کی کنیت ذکر کی ہے۔اس لئے اس نمبر کوترجمہ نمبر کہنا چاہئے نہ کہ حدیث نمبر۔
تیسری خیانت:
حنفی نے یہ حوالہ دے کر تیسری خیانت یہ کی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کو بیس رکعات تراویح کا قائل ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ یہ بات سراسر باطل اور امام بخاری رحمہ اللہ پر بہتان ہے۔
کیونکہ یہ بات حدیث کی کتاب میں نہیں بلکہ فن رجال کی کتاب میں منقول ہے مزید یہ کہ یہ محض ایک تابعی کی طرف منسوب ہے ؟ نیز امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے رکعات تراویح پر استدلال کیا ہی نہیں ہے ۔غورکریں کیا امام بخاری رحمہ اللہ کسی تابعی کے قول کو دلیل کے طورپر پیش کریں گے؟ جبکہ تابعی کا قول باجماع امت دلیل نہیں ہے۔
علاوہ بریں امام بخاری رحمہ اللہ اپنی حدیث کی عظیم الشان کتاب صحیح بخاری میں کتاب صلاۃ التراویح کے تحت اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث لائے ہیں جن میں تراویح کی رکعات آٹھ بتلائی گئی ہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف آٹھ رکعات تراویح کا ہے۔