- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
فقہ السیرۃ النبویہ : سیرت طیبہ سے فکری ، دعوتی ، تنظیمی ، تربیتی اور سیاسی رہنمائی
جاہلی اور الحادی تصور اخلاق و معاشرت میں فرق
(1) جاہلیت قدیم اور جاہلیت جدید اپنی ماہیت واصل میں انسانیت کے لیے باعث الم و مصائب ہے۔دور جاہلیت کے اہل عرب بھی خالق، وحی اور مذہب کو کسی نہ کسی انداز میں مانتے تھے۔ جاہلیت جدید مغربی تہذیب ان تینوں میں سے کسی کی بالادستی قبول نہیں کرتی۔
(2) دور جاہلیت میں صدق و امانتداری اور دیگر عمدہ اقدار و روایات کو سماجی اور اخلاقی طور پر قابل ستائش گردانا جاتا تھا۔ مغربی فکر و تہذیب میں ان اخلاقی و سماجی رویوں کو اضافی اور وقتی بتایا جاتا ہے۔
(3) جدیدیت کے پرستاروں کے نزدیک صدق و امانتداری، عہد و پیمان کی پاسداری اور عفت و عصمت آفاقی اور دائمی سچائی نہیں ہے۔بلکہ ملکی مفاد اور قومی و سیاسی مصلحت کی خاطر جو کچھ بھی کیا ہے،وہ قانونی طور پر درست ہے۔
(4) اسی لیے الحادی استعمار ربانی ہدایات اورعالمی قوانین کی پابندی سے خود کو آزاد تصور کرتا ہے۔ امن و امان کے عہد و پیمان اور دیگر معاہدات صرف مادی اور سیاسی مفاد کے لیے ہوتے ہیں۔
(5) دورِ جاہلیت میں قتل و غارت گری، حقوق کی پامالی، غلاموں اور خواتین پر ظلم و ستم کی بنیادی وجہ بے دینی، جہالت اور فقر و فاقہ تھی۔ جدید تہذیب والحادنے علم و معرفت اور مادی خوش حالی کے باوجود خواتین و بچوں اور غلاموں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے۔
(6) آزادی ،مساوات،روشن خیالی اور حقوق کے نام پر انسانیت کو اس قدر شتر بے مہار کیا گیا کہ خواتین بچے پیدا کرنا اور ان کی تربیت و نگہداشت کرنا بوجھ اور عار سمجھنے لگیں۔
(7) قبل از ولادت بچوں کا اسقاط زندہ درگور کی جدید صورت ہے، جس میں جدید تہذیب حیوانوں سے بھی بدتر ثابت ہوئی۔
(8) خواتین کی عفت و عصمت اور حیا وپاکدامنی جیسے الفاظ و کردار بالکل لایعنی قرار پائے۔ مادر پدر آزادی، جنسی آوارگی اور عمدہ اقدار و روایات سے بغاوت مغربی تہذیب کی پہچان بن گئی،
(9) مغربی فکر وتہذیب نے ہر طرح کے معاشرتی و اخلاقی حیا باختہ رویوں کی قانونی اور سماجی طور پر حمایت ہی نہ کی گئی۔بلکہ اس کے لیے انسانیت کی ذہن سازی کی گئی اور حقوق و آزادی کے نام پر اس کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
(10) بچوں اور غلاموں کے حقوق کا استیصال بھی مغربی فکر و تہذیب کا امتیاز ہے۔ جدید تہذیب کی بنیاد میں لاکھوں سیاہ فام غلاموں کا خون شامل ہے۔
(11) عالمی سطح پر غلامی کی ممانعت سے قبل تک یورپ و امریکہ نے غلاموں پر جو مظالم ڈھائے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ غلامی پر پابندی کا قانون منظور ہوا تو اس میں بھی مغرب کا اپنا مادی و سیاسی مفاد تھا، نہ کہ انسانیت کی ہمدردی و خیرخواہی۔
(12) عرب معاشرہ کئی ایک اعتبار سے یورپ ومغرب کے ترقی یافتہ معاشرے سے بہتر تھا۔ اگرچہ وہ دورِ جاہلیت تھا اور آج کی الحادی تہذیب علم و ہنر میں تمام تہذیبوں پر تفوق کی دعویدار ہے۔
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو : دارالمعارف ، لاہور ))
جاہلی اور الحادی تصور اخلاق و معاشرت میں فرق
(1) جاہلیت قدیم اور جاہلیت جدید اپنی ماہیت واصل میں انسانیت کے لیے باعث الم و مصائب ہے۔دور جاہلیت کے اہل عرب بھی خالق، وحی اور مذہب کو کسی نہ کسی انداز میں مانتے تھے۔ جاہلیت جدید مغربی تہذیب ان تینوں میں سے کسی کی بالادستی قبول نہیں کرتی۔
(2) دور جاہلیت میں صدق و امانتداری اور دیگر عمدہ اقدار و روایات کو سماجی اور اخلاقی طور پر قابل ستائش گردانا جاتا تھا۔ مغربی فکر و تہذیب میں ان اخلاقی و سماجی رویوں کو اضافی اور وقتی بتایا جاتا ہے۔
(3) جدیدیت کے پرستاروں کے نزدیک صدق و امانتداری، عہد و پیمان کی پاسداری اور عفت و عصمت آفاقی اور دائمی سچائی نہیں ہے۔بلکہ ملکی مفاد اور قومی و سیاسی مصلحت کی خاطر جو کچھ بھی کیا ہے،وہ قانونی طور پر درست ہے۔
(4) اسی لیے الحادی استعمار ربانی ہدایات اورعالمی قوانین کی پابندی سے خود کو آزاد تصور کرتا ہے۔ امن و امان کے عہد و پیمان اور دیگر معاہدات صرف مادی اور سیاسی مفاد کے لیے ہوتے ہیں۔
(5) دورِ جاہلیت میں قتل و غارت گری، حقوق کی پامالی، غلاموں اور خواتین پر ظلم و ستم کی بنیادی وجہ بے دینی، جہالت اور فقر و فاقہ تھی۔ جدید تہذیب والحادنے علم و معرفت اور مادی خوش حالی کے باوجود خواتین و بچوں اور غلاموں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے۔
(6) آزادی ،مساوات،روشن خیالی اور حقوق کے نام پر انسانیت کو اس قدر شتر بے مہار کیا گیا کہ خواتین بچے پیدا کرنا اور ان کی تربیت و نگہداشت کرنا بوجھ اور عار سمجھنے لگیں۔
(7) قبل از ولادت بچوں کا اسقاط زندہ درگور کی جدید صورت ہے، جس میں جدید تہذیب حیوانوں سے بھی بدتر ثابت ہوئی۔
(8) خواتین کی عفت و عصمت اور حیا وپاکدامنی جیسے الفاظ و کردار بالکل لایعنی قرار پائے۔ مادر پدر آزادی، جنسی آوارگی اور عمدہ اقدار و روایات سے بغاوت مغربی تہذیب کی پہچان بن گئی،
(9) مغربی فکر وتہذیب نے ہر طرح کے معاشرتی و اخلاقی حیا باختہ رویوں کی قانونی اور سماجی طور پر حمایت ہی نہ کی گئی۔بلکہ اس کے لیے انسانیت کی ذہن سازی کی گئی اور حقوق و آزادی کے نام پر اس کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
(10) بچوں اور غلاموں کے حقوق کا استیصال بھی مغربی فکر و تہذیب کا امتیاز ہے۔ جدید تہذیب کی بنیاد میں لاکھوں سیاہ فام غلاموں کا خون شامل ہے۔
(11) عالمی سطح پر غلامی کی ممانعت سے قبل تک یورپ و امریکہ نے غلاموں پر جو مظالم ڈھائے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ غلامی پر پابندی کا قانون منظور ہوا تو اس میں بھی مغرب کا اپنا مادی و سیاسی مفاد تھا، نہ کہ انسانیت کی ہمدردی و خیرخواہی۔
(12) عرب معاشرہ کئی ایک اعتبار سے یورپ ومغرب کے ترقی یافتہ معاشرے سے بہتر تھا۔ اگرچہ وہ دورِ جاہلیت تھا اور آج کی الحادی تہذیب علم و ہنر میں تمام تہذیبوں پر تفوق کی دعویدار ہے۔
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو : دارالمعارف ، لاہور ))