• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(27)فقہ السیرۃ النبویہ Fiqh Us Seerat Un Nabavia(( سیاست و حکومت اور جدید فکر و تہذیب ))

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
فقہ السیرۃ النبویہ: سیرت طیبہ سے فکری ، دعوتی ، تربیتی ، تنظیمی اور سیاسی رہنمائی

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ))

سیاست و حکومت اور جدید فکر و تہذیب

(1) جدید فکر و الحاد اپنی اصل کے اعتبار سے مذہب بیزار ہے ۔ مغربی تہذیب وحی اور خالق کی منکر ہے۔ اس لیے جدید فکر و تہذیب کا حامل انسان اپنے آپ کو خود مختار ہی نہیں بلکہ خود کو مختارِ مطلق سمجھتا ہے۔ وہ تمام شعبہ ہائے زندگی کے متعلقہ امور میں مذہب کی بالا دستی کا منکر ہوتا ہے۔

(2) مغربی فکر و سوچ کا حامل انسان اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق تمام معاملات انجام کو اپنا حق سمجھتا ہے۔اجتماعی امور، اقتصادی معاملات اور سیاسی افعال و اعمال میں مذہب کی اتباع کا ان کے ہاں تصور بھی نہیں ہوتا۔ وحی و مذہب کی بالادستی تو بہت دور کی بات ہے۔

(3) جمہوری نظام سیاست میں عدلیہ، مقننہ، افواج اور دیگر حکومتی و ریاستی ادارے مذہبی بندشوں سے بالکل آزاد ہوتے ہیں۔ مذہب اور آسمانی ہدایت کا سیاست و معاشرت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

(4) مذہب بیزار سیکولر ریاست میں سیاسی نظام کی تشکیل، سماجی اقدار و روایات کی تعیین اور اقتصادی و تہذیبی اصول و ضوابط کی تحدید عوام کے نمائندے کرتے ہیں۔

(5) جمہوریت پسند ممالک میں ریاست اور اس کے متعلقہ ادارے ان کے ہاں بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ریاستی اداروں کی حفاظت کے لیے سخت قوانین وضع کیے جاتے ہیں۔

(6) جمہوری نظام حکومت وسیاست میں مذہب کا جس طرح بھی استہزا ہوتا رہے، اس کی انھیں بالکل پروا نہیں ہوتی کیونکہ مذہب کی ان کے ہاں بالکل اہمیت نہیں ہوتی ،

(7) دستوری نظام سیاست و ریاست میں عوام ہی حاکمیت اعلیٰ کے مالک ہوتے ہیں۔وہ جسے چاہیں حکمران بنائیں اور اپنے نمائندوں کے ذریعے جو چاہیں قانون سازی کریں۔ اسی اصول کے تحت جنسی آوارگی، شراب نوشی، فحاشی و عریانی، منشیات کا استعمال اور مذہب کا استہزا ان کا آئینی حق تسلیم کیا جاتا ہے۔

(8) عصر حاضر میں مذہب بیزار سیاسی نظام صرف مغربی ممالک تک محدود نہیں رہا ۔ بیشتر اسلامی ممالک کا سیاسی نظام بھی جمہوری ہے۔ پارلیمنٹ اور عوامی نمائندے ہی قانون سازی کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث کی بالادستی اور حاکمیت اعلیٰ باری تعالیٰ کی ، یہ حقیقت عملی طور پر کہیں نظر نہیں آتی۔

(9) شرعی سیاست اور جمہوری سیاست دو متضاد نظامِ سیاست و حکومت ہیں ۔ جمہوریت کے ساتھ لفظ اسلام لگانا سوائے دجل وفریب کے کچھ بھی نہیں ، یوں مغربی فکرو تہذیب کی اسلام کاری اور اسلام کی مغرب کاری انتہائی سنگین مسئلہ ہے۔

(10) جمہوریت کو اسلامی شورائیت کا لبادہ اوڑھانا امت مسلمہ میں بہت بڑی فکری کوتاہی ہے۔ اسی فکر و سوچ کے باعث مزعومہ دینی مصلحت کے پیش نظر اسلام پسندوں نے جمہوریت میں شمولیت اختیار کی ،

(11) لیکن اب تک کے تجربات کے مطابق اسلامی تحریکوں کو نقصان کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوا ۔دعوتی و تربیتی نقصان، اخلاقی و تعلیمی نقصان، تنظیمی و فکری نقصان۔اس حقیقت سے انکار وچشم پوشی انتہائی سنگین کتاہی اور وقت صبح انکار آفتاب کے مترادف ہے۔

""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
 
Top